احسان غنی
احسان غنی کا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہے
۔اگر معروف اصطلاح میں بیان کیا جائے تو ان کا تعلق ایک صحافتی خاندان سے ہے۔جامعہ
پنجاب سے ابلاغ ِعامہ میں ایم اے کرنے کے بعد وہ کچھ عرصہ پیشہ صحافت سے وابستہ رہے ۔پھر ادارہ
صوبائی محتسب پنجاب میں ملازمت اختیار
کرلی مگر انھوں نے قلم سے ناتا نہیں توڑا
اور کبھی کبھار لکھتے رہتے ہیں۔مٹی کے بارے میں ان کا یہ مضمون ان کی قلمی ریاضت
کا مظہر ہے۔سوشل میڈیا کی چکاچوند اور تیزی
میں اب ایسے مضامین کہاں لکھے جاتے ہیں اور کون لکھتا ہے۔ملاحظہ کیجیے:
میدانوں،بیابانوں،کوہساروں، چٹانوں،ریگستانوں،
ٹیلوں، لق و دق صحراسے اڑنے والی گرد، مٹی کوسوں میل دور نگر نگر سے ہوتی، ہرطرح
کے خس وخاشاک گردوغبار کو اپنی آغوش میں
لے کردُھول اُڑاتی بگولے بناتی بے نام و نشاں منزل کی طرف ہوا کے دو ش پر اپنے نقش
ثبت کرتے رواں دواں محوسفر ہے۔ریگ رواں، جھکڑ،آندھی اور طوفان کے روپ دھارے
انسانوں اور جانوروں کے لیے زحمت بن کر آن ہی آن میں سب کچھ ملیا میٹ ہو
جاتاہے۔گردش لیل ونہار کے ساتھ مٹی کے اجزاء میں تبدیلی رونماہوتی ہے۔جہاں دریابہتاہے
کچھ عرصے بعد کٹاؤ کی وجہ سے پانی ختم ہونے پرخشک دریا میں کوڑاکرکٹ اور کچرے کاڈھیر
بننا شروع ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ گردوغبار مٹی اکٹھی ہونے سے یہ ٹیلے کی شکل
اختیار کرجاتا ہے۔چھوٹے بڑے ٹیلے نمودارہوجاتے ہیں۔اب بھی بہت سارے شہر ٹیلوں
پرآبادہیں۔ازمنہ قدیم میں شہرلاہور بھی ٹیلے پرآباد تھا۔شاہی قلعہ لاہور بنیادی
طور پر مٹی کی دیواروں سے تعمیر کیاگیا۔مٹی کی کئی اقسام ہیں۔دریائی مٹی نہروں میں
پائی جانے والی مٹی کو بھل کہاجاتا ہے۔ملتانی مٹی اپنی خصوصیت کی وجہ سے کافی
مشہورہے۔ خواتین جلد کی خوب صورتی میں اضافے کے لیے ملتانی مٹی استعمال کرتی ہیں،خاک
مدینہ سب سے مبارک خاک ہے اور کربلا کو خاک شفاء کے طورپر متبرک سمجھاجاتا ہے اور
نوزائیدہ بچوں کوگٹھی کے طور پر چٹائی جاتی
ہے۔مٹی کھانا اور مٹی میں کھیلنا بچوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔صاف، نرم گدازملائم مٹی
پر برہنہ پا چلنے سے رگ وپے میں راحت وسکون محسوس ہوتا ہے۔انسان کاخمیر مٹی سے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کی تخلیق کا ارادہ
کیا تو فرشتوں سے فرمایا کہ میری زمین سے مٹی لے کرآؤفرشتوں نے اللہ رب العزت کے
حکم کی تکمیل کرتے ہوئے کرہ ارض کے مختلف حصوں سے مٹی اکٹھی کی۔اللہ تعالیٰ نے
حضرت آدم علیہ السلام کو ایک مٹھی خاک سے پیدافرمایا اور وہ مٹی تمام روئے زمین سے
حاصل کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی نسل میں مختلف رنگ ونسل
کے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ان میں گو رے،کالے،سانولے،گندمی،سخت اورنرم مزاج کے
انسان شامل ہیں۔قرآن مجید کی سورۃ الحجر آیت 66 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’ اور ہم نے انسان کو
کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیداکیا ہے‘‘۔
سورہ الواقعہ کی آیت 5،6 میں ارشاد فرمایا:اورپہاڑ
ٹوٹ کرریزہ ریزہ ہو جائیں، پھر غبا ر ہو کراڑنے لگیں۔
تخیل
کے کرشمے سے مٹی کی عمارت کی شاہکاربناوٹ کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، انسان
بہترین تخلیق ہے۔دریا کی تلاطم خیزموجوں کو
بپھرنے سے روکنے کا کام دریا کے کناروں پر مٹی کے پشتے کرتے ہیں۔مٹی اور
پانی مل کر دلدل بنادیتے ہیں جو انسانوں اور جانوروں کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوتی
ہے۔جو چیز دلدل میں پھنس جائے وہ اس میں دھنستی ہی چلی جاتی ہے۔مٹی کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے۔مٹی کے
گارے سے مکانات اورعمارتیں تعمیر ہوتی ہیں۔مٹی کی تاثیر بھی عجیب ہے۔گرمیوں میں
ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم ہوتی ہے۔بابابلھے شاہ نے کیا خوبصورت پیرائے میں مٹی کی
حقیقت بیان کی۔
مٹی دا توں، مٹی ہونا،کاہدی بلے بلے
اج مٹی دے اُتے بندیا،کل مٹی دے تھلے
صحراؤں سے لے کرساحلوں تک پھیلی ریت مٹی کی
ہی ایک قسم ہے۔دریاؤں کے دامن کانوں،جھیلوں اور سمندر کے کناروں سے نکالی جانے والی
ریت بہت قیمتی اور کارآمد ہوتی ہے۔ریت کے چمکتے ہوئے ذرات کی منعکس ہوتی شعاعیں
قابل دید منظر پیش کرتی ہیں۔بڑے بڑے دریاؤں، نہروں میں پانی کے ساتھ بہ کر آنے والی
بھل بھی مٹی ہی ہوتی ہے۔لق ودق صحرا میں ریتلی زمین کی وہ جگہ جہاں پانی کا دھوکا
ہوتا ہے، سراب کہلاتی ہے۔پیاساانسان ریگستان میں پانی کی تلاش میں سرابوں میں
ماراماراپھرتا ہے۔تاحدنظر ریت مٹی میں پانی کاایک قطرہ نہیں ملتا۔مٹی کے کرشمے حیران
کن ہوتے ہیں۔مٹی میں لت پت ہو کر کوزہ گرچکنی مٹی کی آمیزش سے مٹی کے قابل استعمال
ظروف بناتا ہے۔جدیدتحقیق نے ثابت کیا ہے کہ مٹی کے برتنوں میں بننے والا
کھاناحفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق
ہے۔ مٹی کے چولھے اور تندور میں بننے والی روٹی زبان کے چسکے کودوبالا کرتی
ہے۔کسان کامٹی سے ازلی رشتہ ہے۔کسان اپنے خون جگر سے زمین کو سینچتا ہے۔ مٹی کی آبیاری
کچھ اس طرح کرتا ہے کہ کچھ عرصے بعد کھیتوں سے سونااُگلناشروع ہوجاتا ہے۔ہر سو ہریالی،سبزہ،لہلاتے
کھیت دعوت نظارہ دے رہے ہوتے ہیں۔مٹیالی،پگڈنڈیوں پرچہچاتے پرندے، بگلے، ہنس،
سارس،مرغابی، تیتر،چکوراٹکھیلیاں کرتے فضا میں اپنی مسحور کن آوازوں سے خوشنما
سماں باندھتے ہیں۔شفق اورسرمئی بدلیوں کی اوٹ سے سورج کی چھن چھن کرتی روپیلی کرنیں
مٹی پر پڑنے کا منظر دیدنی ہوتا ہے۔سورج کا مٹی سے اٹوٹ انگ کا رشتہ ہے۔ طلوع
آفتاب کے ساتھ ہی مٹی میں جان پیداہوجاتی ہے۔مٹی سے اٹی فضا رفتہ رفتہ چھٹناشروع
ہو تی ہے۔دھندلامنظر صاف وشفاف ہو کر نکھرانکھرا لگتا ہے۔خشک مٹی پر آب باراں کی
بوندیں ٹپکنے سے جو مہک پھیلتی ہے وہ اردگردکاساراماحول معطرکردیتی ہے۔سوندھی
سوندھی مٹی کی شادابی، لطافت اورزرخیزی سے زمین میں روئیدگی کی جھلک نظر آتی ہے۔
دورِ حاضر کے شاعر افتخار عارف نے کیا خوب کہا ہے۔؎
مٹی
کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ
قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
مٹی کی مُسحور کن کیفیت سے ہرذی روح سرشار
نظرآتاہے۔
سہم
کر بیٹھ گئی خاک بیابانوں کی
دشت
انگیز ہے وحشت ترے دیوانوں کی
مشتِ خاک، قبرکی مٹی، دُھول اڑانے والی
ہواؤں (آندھیوں) میں خاک چننے والے بھی مٹی سے بہت کچھ تلاش کرتے ہیں۔مٹی سے غداری
کرنے والے منوں مٹی تلے دفن ہو جاتے ہیں،جبکہ مٹی سے وفا اورمحبت کرنے والے ہمیشہ
امرہوجاتے ہیں۔ خاک ریت کے ذرے گھل مل کر بیابانوں میں اڑاتی پھرتی مٹی بے دام پڑی
ہے۔ مٹی جمنے کے بعد جب جھاڑی جائے تو دُھول بن کر ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
نہیں
ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرانم
ہو تو یہ مٹی بہت زرخیزہے ساقی
زمین کی شادابی، زرخیزی،حسن اور لطافت مٹی
سے ہے۔ سوندھی سوندھی مہک رگ وجان میں اترتی ہے تو اس تازگی کااحساس پیداہوتا
ہے۔پھر کہیں سے باد ِسموم بادِصرصر اوریک دم بادصباہ کا جھونکاراحت جان بن جاتا
ہے۔پنجابی کے صوفی شاعر باباغلام فرید مٹی کے متعلق کہتے ہیں کہ
ویکھ
فریدا مٹی کھلی مٹی
اُتے مٹی ڈلی
مٹی ہسے مٹی روئے انت مٹی دا مٹی
ہووئے
نہ کربندیا ہیری پھیری مٹی نال نہ دھوکا
کرتو
چاردناں دامیلہ دنیا فیر مٹی دی ٹھیری
نہ کر ایتھے ہیراپھیری مٹی
نال نہ دھوکا کرتُو
تو وی مٹی اووی مٹی ذات پات دی گل نہ
کر تو
ذات وی مٹی تو وی مٹی ذات صرف خدادی اُچی
باقی سب کچھ مٹی مٹی
مٹی کا آتش فشاں گارے،پانی اورگیس کے پھٹنے
سے پیداہو جاتا ہے۔بلوچستان کے علاقے لسبیلہ ناگواور سنگلاخ چٹانوں کے دامن میں
جابجا پھیلے قریباً70مٹی کے زندہ آتش فشاں سمندری طغیانی،مون سون اور دیگر موسمی
حالات کے دوران میں مسلسل فعال ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔بیک وقت ساحلی علاقوں اور
سمندرکی تہ میں موجود مٹی کے آتش فشاں عام حالات میں گہرے سکوت کے دوران میں زیر زمین دباؤ بڑھنے پر میتھین گیس کے تیز
اخراج کی وجہ سے اچانک بلند وبالا جزائر کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ٹھاٹھیں مارتے
گہرے سمندر کے وجود سے اچانک نمودار ہونے والے یہ جزائر دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت
میں ڈال دیتے ہیں۔مٹی، کیچڑ ،کنکر اور بھاری پتھروں پر مشتمل جزائر وقت کے ساتھ
خودبخود گہرے سمندر میں غائب ہو جاتے ہیں۔
زمین کے نشیب وفراز مٹی سے اٹے پڑے ہیں۔ مٹی
کے گھر وندے بناتے ہوئے نخل امید پھوٹتا ہے اور سنگ و خشت کے نئے جہان آباد ہوجاتے
ہیں۔مٹی سے محبت انسان کی جبلت میں ہے۔مٹی میں شہیدوں کے خون کی خوشبو رچی بسی ہوئی
ہے۔اپنی مٹی سے غداری کرنے والوں کے لیے
ذلت ورسوائی مقدر ہوتی ہے۔اہل نظر خا ک چھانتے ہوئے ہیرے تلاش کرلیتے ہیں۔مٹی
سونا ہے۔ "اپنی مٹی پر چلنے کا سلیقہ سیکھو۔۔۔۔سنگ مرمر پرچلو گے تو پھسل جاؤ
گے''۔
مٹی کا دھول اُڑاتا ہوا سفر ازل سے ا ب تک
پوری شدومد سے جاری وساری ہے۔مٹی کی زیست نے خاک بسرہونا ہے۔خاک نشین خاک کے ڈھیر
کو اکسیر بنانے کا فن جانتے ہیں۔پیکر خاکی کا خاک سے دوری کا معما سمجھ سے بالا
ترہے۔ خاک نشینوں کی ٹھوکر پر زمانہ ہوتا ہے۔
سورۃ النبا آیت 40 میں بیان فرمایا" اور کافر کہے گا،اے
کاش میں مٹی ہوتا"
گویا انسان کی زندگی کا خلاصہ یہ ہے:پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیرتھا۔