meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: جولائی 2024

Empowering Through Media Literacy

مٹی

      احسان غنی

احسان غنی کا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہے ۔اگر معروف اصطلاح میں بیان کیا جائے تو ان کا تعلق ایک صحافتی خاندان سے ہے۔جامعہ پنجاب سے ابلاغ ِعامہ میں ایم اے کرنے کے بعد وہ کچھ  عرصہ پیشہ صحافت سے وابستہ رہے ۔پھر ادارہ صوبائی محتسب پنجاب   میں ملازمت اختیار کرلی  مگر انھوں نے قلم سے ناتا نہیں توڑا اور کبھی کبھار لکھتے رہتے ہیں۔مٹی کے بارے میں ان کا یہ مضمون ان کی قلمی ریاضت کا مظہر ہے۔سوشل میڈیا کی چکاچوند  اور تیزی میں اب ایسے مضامین کہاں لکھے جاتے ہیں اور کون لکھتا ہے۔ملاحظہ  کیجیے:

میدانوں،بیابانوں،کوہساروں، چٹانوں،ریگستانوں، ٹیلوں، لق و دق صحراسے اڑنے والی گرد، مٹی کوسوں میل دور نگر نگر سے ہوتی، ہرطرح کے خس وخاشاک  گردوغبار کو اپنی آغوش میں لے کردُھول اُڑاتی بگولے بناتی بے نام و نشاں منزل کی طرف ہوا کے دو ش پر اپنے نقش ثبت کرتے رواں دواں محوسفر ہے۔ریگ رواں، جھکڑ،آندھی اور طوفان کے روپ دھارے انسانوں اور جانوروں کے لیے زحمت بن کر آن ہی آن میں سب کچھ ملیا میٹ ہو جاتاہے۔گردش لیل ونہار کے ساتھ مٹی کے اجزاء میں تبدیلی رونماہوتی ہے۔جہاں دریابہتاہے کچھ عرصے بعد کٹاؤ کی وجہ سے پانی ختم ہونے پرخشک دریا میں کوڑاکرکٹ اور کچرے کاڈھیر بننا شروع ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ گردوغبار مٹی اکٹھی ہونے سے یہ ٹیلے کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔چھوٹے بڑے ٹیلے نمودارہوجاتے ہیں۔اب بھی بہت سارے شہر ٹیلوں پرآبادہیں۔ازمنہ قدیم میں شہرلاہور بھی ٹیلے پرآباد تھا۔شاہی قلعہ لاہور بنیادی طور پر مٹی کی دیواروں سے تعمیر کیاگیا۔مٹی کی کئی اقسام ہیں۔دریائی مٹی نہروں میں پائی جانے والی مٹی کو بھل کہاجاتا ہے۔ملتانی مٹی اپنی خصوصیت کی وجہ سے کافی مشہورہے۔ خواتین جلد کی خوب صورتی میں اضافے کے لیے ملتانی مٹی استعمال کرتی ہیں،خاک مدینہ سب سے مبارک خاک ہے اور کربلا کو خاک شفاء کے طورپر متبرک سمجھاجاتا ہے اور نوزائیدہ بچوں کوگٹھی کے  طور پر چٹائی جاتی ہے۔مٹی کھانا اور مٹی میں کھیلنا بچوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔صاف، نرم گدازملائم مٹی پر برہنہ پا چلنے سے رگ وپے میں راحت وسکون محسوس ہوتا ہے۔انسان کاخمیر مٹی سے ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب انسان کی تخلیق کا ارادہ کیا تو فرشتوں سے فرمایا کہ میری زمین سے مٹی لے کرآؤفرشتوں نے اللہ رب العزت کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے کرہ ارض کے مختلف حصوں سے مٹی اکٹھی کی۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک مٹھی خاک سے پیدافرمایا اور وہ مٹی تمام روئے زمین سے حاصل کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی نسل میں مختلف رنگ ونسل کے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ان میں گو رے،کالے،سانولے،گندمی،سخت اورنرم مزاج کے انسان شامل ہیں۔قرآن مجید کی سورۃ الحجر آیت 66 میں  اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’ اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیداکیا ہے‘‘۔

سورہ الواقعہ کی آیت 5،6 میں ارشاد فرمایا:اورپہاڑ ٹوٹ کرریزہ ریزہ ہو جائیں، پھر غبا ر ہو کراڑنے لگیں۔

      تخیل کے کرشمے سے مٹی کی عمارت کی شاہکاربناوٹ کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، انسان بہترین تخلیق ہے۔دریا کی تلاطم خیزموجوں کو  بپھرنے سے روکنے کا کام دریا کے کناروں پر مٹی کے پشتے کرتے ہیں۔مٹی اور پانی مل کر دلدل بنادیتے ہیں جو انسانوں اور جانوروں کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوتی ہے۔جو چیز دلدل میں پھنس جائے وہ اس میں دھنستی ہی  چلی جاتی ہے۔مٹی کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے۔مٹی کے گارے سے مکانات اورعمارتیں تعمیر ہوتی ہیں۔مٹی کی تاثیر بھی عجیب ہے۔گرمیوں میں ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم ہوتی ہے۔بابابلھے شاہ نے کیا خوبصورت پیرائے میں مٹی کی حقیقت بیان کی۔

مٹی دا توں، مٹی ہونا،کاہدی بلے بلے

اج مٹی دے اُتے بندیا،کل مٹی دے تھلے

صحراؤں سے لے کرساحلوں تک پھیلی ریت مٹی کی ہی ایک قسم ہے۔دریاؤں کے دامن کانوں،جھیلوں اور سمندر کے کناروں سے نکالی جانے والی ریت بہت قیمتی اور کارآمد ہوتی ہے۔ریت کے چمکتے ہوئے ذرات کی منعکس ہوتی شعاعیں قابل دید منظر پیش کرتی ہیں۔بڑے بڑے دریاؤں، نہروں میں پانی کے ساتھ بہ کر آنے والی بھل بھی مٹی ہی ہوتی ہے۔لق ودق  صحرا  میں ریتلی زمین کی وہ جگہ جہاں پانی کا دھوکا ہوتا ہے، سراب کہلاتی ہے۔پیاساانسان ریگستان میں پانی کی تلاش میں سرابوں میں ماراماراپھرتا ہے۔تاحدنظر ریت مٹی میں پانی کاایک قطرہ نہیں ملتا۔مٹی کے کرشمے حیران کن ہوتے ہیں۔مٹی میں لت پت ہو کر کوزہ گرچکنی مٹی کی آمیزش سے مٹی کے قابل استعمال ظروف بناتا ہے۔جدیدتحقیق نے ثابت کیا ہے کہ مٹی کے برتنوں میں بننے والا کھاناحفظان صحت  کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ مٹی کے چولھے اور تندور میں بننے والی روٹی زبان کے چسکے کودوبالا کرتی ہے۔کسان کامٹی سے ازلی رشتہ ہے۔کسان اپنے خون جگر سے زمین کو سینچتا ہے۔ مٹی کی آبیاری کچھ اس طرح کرتا ہے کہ کچھ عرصے بعد کھیتوں سے سونااُگلناشروع ہوجاتا ہے۔ہر سو ہریالی،سبزہ،لہلاتے کھیت دعوت نظارہ دے رہے ہوتے ہیں۔مٹیالی،پگڈنڈیوں پرچہچاتے پرندے، بگلے، ہنس، سارس،مرغابی، تیتر،چکوراٹکھیلیاں کرتے فضا میں اپنی مسحور کن آوازوں سے خوشنما سماں باندھتے ہیں۔شفق اورسرمئی بدلیوں کی اوٹ سے سورج کی چھن چھن کرتی روپیلی کرنیں مٹی پر پڑنے کا منظر دیدنی ہوتا ہے۔سورج کا مٹی سے اٹوٹ انگ کا رشتہ ہے۔ طلوع آفتاب کے ساتھ ہی مٹی میں جان پیداہوجاتی ہے۔مٹی سے اٹی فضا رفتہ رفتہ چھٹناشروع ہو تی ہے۔دھندلامنظر صاف وشفاف ہو کر نکھرانکھرا لگتا ہے۔خشک مٹی پر آب باراں کی بوندیں ٹپکنے سے جو مہک پھیلتی ہے وہ اردگردکاساراماحول معطرکردیتی ہے۔سوندھی سوندھی مٹی کی شادابی، لطافت اورزرخیزی سے زمین میں روئیدگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ دورِ حاضر کے شاعر افتخار عارف نے کیا خوب کہا ہے۔؎

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں  کہ واجب بھی نہیں تھے

مٹی کی مُسحور کن کیفیت سے ہرذی روح سرشار نظرآتاہے۔

سہم کر بیٹھ گئی خاک بیابانوں کی

دشت انگیز ہے وحشت ترے دیوانوں کی

مشتِ خاک، قبرکی مٹی، دُھول اڑانے والی ہواؤں (آندھیوں) میں خاک چننے والے بھی مٹی سے بہت کچھ تلاش کرتے ہیں۔مٹی سے غداری کرنے والے منوں مٹی تلے دفن ہو جاتے ہیں،جبکہ مٹی سے وفا اورمحبت کرنے والے ہمیشہ امرہوجاتے ہیں۔ خاک ریت کے ذرے گھل مل کر بیابانوں میں اڑاتی پھرتی مٹی بے دام پڑی ہے۔ مٹی جمنے کے بعد جب جھاڑی جائے تو دُھول بن کر ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرانم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیزہے ساقی

زمین کی شادابی، زرخیزی،حسن اور لطافت مٹی سے ہے۔ سوندھی سوندھی مہک رگ وجان میں اترتی ہے تو اس تازگی کااحساس پیداہوتا ہے۔پھر کہیں سے باد ِسموم بادِصرصر اوریک دم بادصباہ کا جھونکاراحت جان بن جاتا ہے۔پنجابی کے صوفی شاعر باباغلام فرید مٹی کے متعلق کہتے ہیں کہ

      ویکھ فریدا مٹی کھلی         مٹی اُتے مٹی ڈلی

مٹی ہسے مٹی روئے       انت مٹی دا مٹی ہووئے

نہ کربندیا ہیری پھیری          مٹی نال نہ دھوکا کرتو

چاردناں دامیلہ دنیا       فیر مٹی دی ٹھیری

نہ کر ایتھے ہیراپھیری            مٹی نال نہ دھوکا کرتُو

تو وی مٹی اووی مٹی       ذات پات دی گل نہ کر تو

ذات وی مٹی تو وی مٹی          ذات صرف خدادی اُچی

باقی سب کچھ مٹی مٹی

مٹی کا آتش فشاں گارے،پانی اورگیس کے پھٹنے سے پیداہو جاتا ہے۔بلوچستان کے علاقے لسبیلہ ناگواور سنگلاخ چٹانوں کے دامن میں جابجا پھیلے قریباً70مٹی کے زندہ آتش فشاں سمندری طغیانی،مون سون اور دیگر موسمی حالات کے دوران میں مسلسل فعال ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔بیک وقت ساحلی علاقوں اور سمندرکی تہ میں موجود مٹی کے آتش فشاں عام حالات میں گہرے سکوت کے دوران  میں زیر زمین دباؤ بڑھنے پر میتھین گیس کے تیز اخراج کی وجہ سے اچانک بلند وبالا جزائر کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ٹھاٹھیں مارتے گہرے سمندر کے وجود سے اچانک نمودار ہونے والے یہ جزائر دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔مٹی، کیچڑ ،کنکر اور بھاری پتھروں پر مشتمل جزائر وقت کے ساتھ خودبخود گہرے سمندر میں غائب ہو جاتے ہیں۔

زمین کے نشیب وفراز مٹی سے اٹے پڑے ہیں۔ مٹی کے گھر وندے بناتے ہوئے نخل امید پھوٹتا ہے اور سنگ و خشت کے نئے جہان آباد ہوجاتے ہیں۔مٹی سے محبت انسان کی جبلت میں ہے۔مٹی میں شہیدوں کے خون کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے۔اپنی مٹی سے غداری  کرنے والوں  کے لیے  ذلت ورسوائی مقدر ہوتی ہے۔اہل نظر خا ک چھانتے ہوئے ہیرے تلاش کرلیتے ہیں۔مٹی سونا ہے۔ "اپنی مٹی پر چلنے کا سلیقہ سیکھو۔۔۔۔سنگ مرمر پرچلو گے تو پھسل جاؤ گے''۔

مٹی کا دھول اُڑاتا ہوا سفر ازل سے ا  ب  تک پوری شدومد سے جاری وساری ہے۔مٹی کی زیست نے خاک بسرہونا ہے۔خاک نشین خاک کے ڈھیر کو اکسیر بنانے کا فن جانتے ہیں۔پیکر خاکی کا خاک سے دوری کا معما سمجھ سے بالا ترہے۔ خاک نشینوں کی ٹھوکر پر زمانہ ہوتا ہے۔

سورۃ النبا آیت 40    میں بیان فرمایا" اور کافر کہے گا،اے کاش میں مٹی ہوتا"

گویا انسان کی زندگی کا خلاصہ یہ ہے:پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیرتھا۔

ڈیجیٹل میڈیا کی مختصرتاریخ؛ کب ،کیا انقلاب برپا ہوا؟

 


امتیازاحمدوریاہ

ڈیجیٹل میڈیا کی تاریخ دراصل  تکنیکی ترقی اور ثقافتی تبدیلیوں کا ایک متحرک بیانیہ ہے  اور یہ اس امر کی  عکاس ہے کہ  ہم  اس جدید دور میں کس طرح  آپس میں  بات چیت کرتے ہیں ،ہمارے ابلاغ  کے مقبول عام طریقے کیا ہیں؟ ہم  ڈیجیٹل میڈیا سے کیسے اور کیا کچھ  سیکھتے ہیں اور خود کو کیا تفریح فراہم کرتے ہیں۔ڈیجیٹل میڈیا کی دل چسپ  تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے ۔ انفارمیشن  ٹیکنالوجی  کے شعبے کی تکنیکی ترقی اور لوگوں کے اطلاعات معلومات  کی تخلیق  کے طریق کار اس کے اہم عناصر ہیں۔ نیز لوگ ڈیجیٹل ذرائع  پر  اپنے تخلیقی  مواد  کا   کیونکر باہمی اشتراک کرتے  اور انھیں استعمال  میں لاتے ہیں۔ اس تمام عمل میں وقت کے دھارے کے ساتھ نت روز  تبدیلیاں  رونما ہوئی  ہیں اور  ہنوز  یہ سلسلہ جاری  ہے۔ یہاں ڈیجیٹل میڈیا کے ارتقاء کے  اہم سنگ ہائے  میل کا ایک  طائرانہ جائزہ پیش کیا جاتا ہے:

 ڈیجیٹل میڈیا کا آغاز (1940ء  سے1960 ء تک )

1940ء کے عشرے میں  کمپیوٹرز کی ایجاد کے ساتھ  ڈیجیٹل میڈیا  کا  آغاز ہوا ۔اس دور میں  الیکٹرانک کمپیوٹرز ایجاد ہوئے ، جیسے ای این آئی اے سی   (ENIAC )نے ڈیجیٹل معلومات کی پروسیسنگ اور اسٹوریج کو قابل بنا کر ڈیجیٹل میڈیا کی  بنیاد رکھی۔1950ء کی دہائی میں  مین فریم کمپیوٹرز  تیار ہوئے ۔ کاروباری اداروں اور  جامعات نے ڈیٹا پروسیسنگ اور تحقیق کے لیے مین فریم کمپیوٹرز کا استعمال شروع کیا ۔ یہ  ڈیجیٹل ڈیٹا اسٹوریج اور  وہاں  سے  اس کے استعمال  کی بھی ابتدا تھی۔

1960ء کی دہائی میں  انٹرنیٹ  کا تصور اُبھرا اور  کمپیوٹرز کے عالمی نیٹ ورک کا تصور پیدا ہوا ، جس کے نتیجے میں امریکا  کے محکمہ دفاع ( پینٹاگان) نے  'آرپانیٹ' کو ترقی دی اور یہی آرپا نیٹ  موجودہ انٹرنیٹ کا پیش خیمہ ثابت ہوا تھا۔

 شخصی  کمپیوٹنگ کا ظہور ( 1970-1980 )

1970ء کی دہائی میں    مائکروپروسیسرز کی ایجاد نے ذاتی کمپیوٹرز (پی سی)  کی تیاری   کو ممکن بنا دیا۔

- ابتدائی پرسنل کمپیوٹرز: الٹیئر 8800 اور ایپل 1 جیسے کمپیوٹرز کے اجراء نے  شخصی کمپیوٹنگ کا آغاز کیا۔1980ء کی دہائی میں  شخصی  کمپیوٹروں  کا  انقلاب برپا ہوا۔ امریکی کمپنیوں  آئی بی ایم نے  پی سی اور ایپل نے میکنتوش  متعارف کرایا اور اس طرح انھوں  نے کمپیوٹر کو  عوام  الناس کے لیے قابل رسائی بنا کر ڈیجیٹل  دنیا میں ایک    انقلاب برپا کر دیا۔

- ڈیجیٹل میڈیا فارمیٹس: آڈیو اور ڈیٹا اسٹوریج کے لیے سی ڈی جیسے ڈیجیٹل میڈیا فارمیٹس کی ترقی ہوئی۔

- ڈیسک ٹاپ پبلشنگ: ایڈوب پیج میکر اور آلڈس پیج میکر جیسے سافٹ ویئر نے ڈیسک ٹاپ پبلشنگ کو فعال کیا ، جس سے میڈیا کی تیاری اور تقسیم کا طریقہ یکسر تبدیل ہو کر رہ  گیا۔

 انٹرنیٹ کا عروج (1990 کی دہائی)

1990 کی دہائی کے اوائل میں   ٹم برنرز، لی کی ورلڈ وائڈ ویب کی ایجاد اور موزیک جیسے ویب براؤزرز کی ترقی نے انٹرنیٹ کو وسیع تر سامعین و صارفین  کے لیے قابل رسائی بنا دیا۔

- ای میل اور ابتدائی ویب  گاہیں: برقی مراسلت  کے لیے ای میل ایک مقبول  ابلاغی  آلہ بن گئی ، اور ابتدائی ویب  گاہوں کا  ظہور ہوا ۔انھوں نے اطلاعات و معلومات     فراہم کرنے  کے علاوہ  تجارتی خدمات مہیا کرنے کا آغاز کیا۔1990 کی دہائی کے آخر میں  ڈاٹ کام  کو عروج حاصل ہوا ۔ انٹرنیٹ   کی خدمات مہیا کرنے  والی کمپنیوں اور اس  پر  خدمات کی تیز رفتار ترقی نے ڈیجیٹل میڈیا  کے منصوبوں میں نمایاں سرمایہ کاری کے  دروازے کھولے اور اس کے ساتھ ڈاٹ کام  نے روزافزوں ترقی کی۔

- سرچ انجن: یاہو اور گوگل جیسے سرچ انجنوں کی ترقی نے انٹرنیٹ پر معلومات کی بازیافت  کے عمل  کو تیز رفتار بنا دیا۔

- ڈیجیٹل وِڈیو اور موسیقی: ڈیجیٹل وِڈیو (مثال کے طور پر، ایم پی ای جی) اور ڈیجیٹل میوزک (مثال کے طور پر، ایم پی 3) فارمیٹس کی آمد نے میڈیا مواد کو استعمال کرنے کے طریقے کو تبدیل کردیا۔

 توسیع اور جدت طرازی (2000ء کی دہائی)

2000 ء کے عشرے  کے اوائل  میں  سوشل میڈیا کے  فرینڈسٹر، مائی اسپیس، فیس بک، اور لنکڈ ان جیسے پلیٹ فارم اُبھرے۔ انھوں نے لوگوں کے آن لائن روابطہ  استوار کرنے اور معلومات کے اشتراک کے طریقوں میں نمایاں  تبدیلی  لائی ۔

- اسٹریمنگ میڈیا: براڈ بینڈ انٹرنیٹ کے عروج نے یوٹیوب اور نیٹ فلیکس جیسی اسٹریمنگ میڈیا سروسز کو فعال کیا ، جس نے وِڈیو کی کھپت میں انقلاب برپا کیا۔

- موبائل کمپیوٹنگ: اسمارٹ فونز کے پھیلاؤ اور سنہ 2007 ء میں آئی فون کے تعارف نے موبائل کمپیوٹنگ کو مرکزی دھارے میں شامل کیا ، جس سے موبائل ایپس اور موبائل دوست ویب سائٹس کی ترقی ہوئی۔

2000 ءکی دہائی کے آخر میں  ویب  2۔0 متعارف ہوئی۔ باہمی تعامل  اور صارف کے ذریعے تیار کردہ مواد کی طرف منتقلی نے ویب 2۔0 کی ترقی میں نمایاں مدد دی ۔اس کی بدولت  بلاگز ، ویکیز ( وکی پیڈیا وغیرہ )  اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس  نے مسلسل مقبولیت حاصل کی ہے۔

- کلاؤڈ کمپیوٹنگ: ایمیزون ویب سروسز (اے ڈبلیو ایس) اور گوگل کلاؤڈ پلیٹ فارم جیسی کلاؤڈ کمپیوٹنگ سروسز کے عروج نے ڈیجیٹل میڈیا کی اسکیل ایبل اسٹوریج اور پروسیسنگ کو ممکن بنایا۔

 جدید دور (2010ء تا حال)

2010ء کے عشرے کے اوائل  میں   سوشل میڈیا کا غلبہ  شروع ہوا۔ انسٹاگرام ، ٹویٹر اور اسنیپ چیٹ جیسے پلیٹ فارم ڈیجیٹل میڈیا کا لازمی حصہ بن گئے  اور اس  کے   مواد کے تخلیق کاروں نے  نمایاں  اثرورسو خ حاصل کیا اور  ان کی انفلوئنسرز  کے طور پر   الگ سے ایک پہچان بنی۔ ان میں میڈیا ، انفوٹینمنٹ  اور سیاست کی دنیا  کی  نمایاں عالمی  شخصیات شامل ہیں۔

- اسٹریمنگ سروسز: موسیقی (مثال کے طور پر، اسپوٹیفائی ) اور وِڈیو (مثال کے طور پر، نیٹ فلیکس، ہولو) کے لیے اسٹریمنگ خدمات کی ترقی نے میڈیا کی کھپت کی عادات کو نئی شکل دی ہے۔

- بڑا  ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت: بڑے ڈیٹا  کے تجزیوں اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں پیش رفت نے ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ذاتی مواد کی فراہمی، اور میڈیا پروڈکشن کے عمل  کو تبدیل کردیا ہے۔

2020ء  کے رواں  عشرے  کے گذشتہ چار برس کے دوران میں  وڈیو کی مختصر شکلوں   کو قبولیت عامہ ملی ہے اور یوٹیوب  کے علاوہ  ٹک ٹاک اور انسٹاگرام ریلز جیسے پلیٹ فارمز کے عروج نے مختصر شکل کے وِڈیو مواد کو مقبول بنایا ہے۔

ورچوئل اور آگمنٹڈ رئیلٹی: وی آر اور اے آر ٹیکنالوجیز  کو  گیمنگ، تعلیم اور مارکیٹنگ میں وسیع پیمانے پر اپنایا جارہا ہے۔

- بلاک چین اور این ایف ٹی: بلاک چین ٹیکنالوجی اور نان فنجیبل ٹوکن (این ایف ٹی) نے ڈیجیٹل میڈیا اثاثوں کی ملکیت اور مونیٹائزکرنے کے نئے طریقے متعارف کرائے ہیں۔این ایف ٹی دراصل   مواد کی شکل میں کسی ڈیجیٹل اثاثے کا  ڈیجیٹل سرٹی فکیٹ ہے۔

- ریموٹ  کام اور تعلیم: کووِڈ 19  کے وبائی مرض  کے دوران میں   ریموٹ  کام  ( دفتر سے دور گھر سے کام) اور آن لائن  تعلیم وتدریس  کے لیے ڈیجیٹل  آلات  کو اپنانے کے عمل  میں تیزی  آئی تھی ، جس سے ڈیجیٹل میڈیا  روزمرہ کی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔

 ڈیجیٹل میڈیا میں اہم پیش رفت

1۔ مواد کی  تخلیق کے اوزار: گرافک ڈیزائن ، وِڈیو ایڈیٹنگ ، اور میوزک پروڈکشن کے لیے اعلیٰ درجے کے سافٹ ویئر کی ترقی نے مواد کی تخلیق کو جمہوری بنایا ہے۔

2۔ سوشل نیٹ ورکنگ: سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے بڑے پیمانے پر  اشتراک  اور ڈیجیٹل مواد کے وائرل پھیلاؤ کو ممکن بنایا ہے۔

3۔ ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ:  اہدافی  ڈیجیٹل اشتہار بازی  کے عروج نے میڈیا اور ایڈورٹائزنگ کی صنعتوں کو تبدیل کردیا ہے۔

4۔ ای کامرس: ای کامرس پلیٹ فارمز کے ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کے انضمام نے آن لائن  خریداری کے تجربات  کو تقویت دی ہے۔

 مستقبل کے رجحانات

- اے آئی اور مشین لرننگ: مصنوعی ذہانت میں مسلسل پیش رفت ذاتی مواد، پیشین گوئی کے تجزیات اور خودکار میڈیا کی پیداوار کو مزید بڑھائے گی۔

- میٹاورس: ایک مجازی مشترکہ جگہ میٹاورس  کا تصور   تقویت حاصل کر  رہا ہے اور یہ  ڈیجیٹل تعامل اور میڈیا کی کھپت کو از سرنو  بیان کرسکتا ہے۔

پائیدار طرزِ عمل: پائیداری پر  توجہ زیادہ ماحول دوست ڈیجیٹل میڈیا کے طریقوں اور ٹیکنالوجیوں  کی ترقی و تخلیق کا  سبب  بن سکتی ہے۔

مصنوعی ذہانت اور چیٹ جی پی ٹی سے کس طرح پیداواری صلاحیت بڑھائی جا سکتی ہے؟


 کاویا پلائی

 مصنوعی ذہانت ( اے آئی ) اور چیٹ جی پی ٹی   کی آئے دن  نئی نئی  ٹیکنالوجیز   منظرعام  پر آ رہی  ہیں ، لیکن اس وقت بھی ان سے سیکھنے اور تلاش کرنے کے  بہت سے مواقع ہیں ۔ کمپنیاں پہلے ہی  اپنے مختلف شعبوں  اور افعال میں ان  آلات (ٹولز) کے  ذمے دارانہ  استعمال  کے ذریعے  نمایاں فوائدپر توجہ مرکوز کررہی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ  فی الوقت   چیٹ جی پی ٹی نے کارپوریٹ  برادری کو  اپنی لپیٹ میں لے  رکھا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے تقویت یافتہ  زبان کے اس  پیراڈائم (ماڈل) سے متعدد مربوط ٹیکنالوجیز ظہورپذیر ہوئی ہیں اور ان   سے سبھی کاروباری اداروں کے لیے  پیداواری صلاحیت بڑھانے  اور کارکردگی  بہتر بنانے کے مواقع  پیدا ہوئے  ہیں۔

چھوٹے سے درمیانے  درجے تک  کے کاروباری اداروں کے منیجروں  اور ایگزیکٹوز  کے لیے چیٹ جی پی ٹی استعمال کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ یہاں  چار ایسے طریقے  بتائے  جارہے ہیں جن سے  اس ٹیکنالوجی سے بھرپور  فائدہ اٹھا یا جاسکتا ہے:

 مصنوعی ذہانت معاون  (اے آئی اسسٹنٹ)

آپ چیٹ جی پی ٹی کو اپنی ویب سائٹ پر ورچوئل اسسٹنٹ کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں تاکہ عام صارفین کی  پوچھ  تاچھ کا فوری طور پر جواب دیا جاسکے اور اس کا بندوبست کیا جاسکے۔ اس سے صارفین  کو اطمینان  دلا یا جاسکتا  ہے اور آپ کے معاون عملہ کے  کام کا بوجھ  بھی کم کیا جاسکتا  ہے۔ آپ چیٹ جی پی ٹی کو  صارف خدمات  کے لیے  اپنی ویب سائٹ یا  پیغام  رسانی کی ایپس میں شامل کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد ، آپ کے عملہ کے ارکان عام سوالات یا مسائل کے  حل  کی تلاش میں گاہک  بن کر ورچوئل اسسٹنٹ کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں اور ان کی کارکردگی بہتر بنا سکتے ہیں۔

آپ زبان کے ماڈل کی تربیت کے اس عمل سے گزر کر بتدریج درست جوابات کی ضمانت بھی دے سکتے ہیں۔ آپ مطمئن ہونے کے بعد گاہکوں کے ایک چھوٹے سے نمونے پر ماڈل کی جانچ کرسکتے ہیں اور یہ دیکھ سکتے ہیں کہ آیا  اس میں آپ کے کاروبار کی درست عکاسی کرنے کے لیے کافی درست ڈیٹا شامل ہے۔ تبادلہ خیال پر نظر رکھنے  اور ضرورت پڑنے پر  ایجنٹوں کو براہِ راست  بیک اپ منصوبے دینا صارفین کے لیے عیب سے پاک تجربے کی ضمانت دے گا۔

2۔ تحقیق اور ڈیٹا جمع کرنا

آپ چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے مسابقتی   مارکیٹ کی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ متعلقہ ڈیٹا  انٹرنیٹ  سے تلاش کرنے میں مدد دے سکتی ہے اور آپ کی  مارکیٹنگ  کی سرگرمیوں  کی معاونت  کے لیے نتائج مرتب کرسکتی ہے۔ آپ کی کمپنی چیٹ جی پی ٹی ماڈل کو متعلقہ تحقیقی مضامین اور عام  پوچھ  تاچھ سے متعلق معلومات  فراہم کر سکتی ہے اور اسے اپنے مارکیٹ تجزیہ کے عمل میں شامل کر سکتی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی آپ کو متعدد ذرائع سے ڈیٹا جمع کرنے ، رجحانات کا تجزیہ کرنے ، اور صنعت کے مخصوص اعداد و شمار اور صارفین کی بصیرت پر ماڈل کی تربیت کے ذریعے  مسابقتی  فریقوں   کی شناخت کرنے میں مدد کرسکتی ہے۔ یہ نئے مواقع اور ممکنہ خطرات کی نشان دہی کرنے میں آپ کی مدد کرنے کے لیے صنعت کی تحقیق،  صارف کی  تعریف، اور انٹرنیٹ  پر گفتگو کو کم کرسکتی ہے۔

3۔ رہ نما اصول وضع کریں

چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ ویب سائٹ کے زائرین کو مشغول کریں ،  رہ نما اصول وضع کریں ، اور ممکنہ اعداد و شمار ، جیسے ڈیموگرافکس مرتب کریں۔ دلچسپ تبادلہ خیال کے ذریعے، آپ کی فرم نئے گاہکوں کی شناخت کر سکتی ہے اور انھیں  فروخت کے متعلقہ چینلوں  کی طرف    رہ نمائی کر سکتی ہے۔ آپ چیٹ جی پی ٹی کو اپنے لینڈنگ صفحات یا ویب سائٹ میں شامل کرسکتے ہیں تاکہ اسے لیڈ جنریشن کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ سافٹ ویئر میں شامل ورچوئل اسسٹنٹ ممکنہ گاہکوں کو تلاش کرے گا، رہ نما اصول  بنائے گا، اور متعلقہ اعداد و شمار مرتب کرے گا۔ آپ اپنے عمل کے لیے مخصوص اشارے استعمال کرکے اور اپنے مثالی کسٹمر پروفائلز کے بارے میں معلومات کے ساتھ ماڈل کو تربیت دے کر فروخت کے  نمایاں  امکانات  پیدا کر سکتے ہیں۔

4۔ مواد  کی تخلیق

ای میل نیوز لیٹر ، بلاگ پوسٹیں ، سوشل میڈیا اپ ڈیٹس ، مضامین کا خاکا ، سرخیاں ، اور مصنوعات کی تفصیل جیسے مواد  کی تیاری  کے لیے ، چیٹ جی پی ٹی ایک مفید  آلہ  ہوسکتی ہے۔ یہ آپ کو مواد کو زیادہ تیزی اور مؤثر طریقے سے تیار کرنے میں مدد کرسکتی ہے ، جس سے آپ کو دوسرے منصوبوں کے لیے زیادہ وقت مل سکتا ہے۔ ایک پلیٹ فارم یا اے پی آئی کے لیے رجسٹر کریں ۔ یہ  آپ کو آلے کے مواد کی پیداواری خصوصیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے چیٹ جی پی ٹی تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ اگر آپ ان مضامین اور مواد کے اہداف کی وضاحت کرتے ہیں جن کے  بارے میں  آپ مدد چاہتے ہیں تو یہ مواد تخلیق کرے گی ، متعلقہ سوالات اور اشارے شامل کریں گے  تو ان کے مطابق مواد آپ کے سامنے لائے گی ۔ اس کے بعد ، اشاعت سے پہلے ، آپ مواد کی نوک پلک سنوار سکتے ہیں اوراس  میں  انسانی مہارت اور اپنے برانڈ کی آواز کو شامل کرسکتے ہیں۔

نوبل انعام یافتہ خاوند کا دُکھ

ڈاکٹرعزیزسنجر

کہتے ہیں کہ عورت کسی بھی ملک سے ہو، اس کو اس بات کی قطعاً  پروا نہیں ہوتی کہ  اس کا خاوند کیا ہے اور اس کی  علمی اور سماجی حیثیت کیا ہے۔ خواہ  خاوند کوئی  لیڈر ہو، فوج کا  جنرل ہو یا  کسی مافیا گروپ  کا سربراہ ،بیویاں ہمیشہ ایک سا سلوک کرتی ہیں اور ان سے وہی گھریلو برتاؤ کرتی ہیں۔ان کی عام سی کھلی ڈلی بولی،تحکم پسندی اور اپنی بات منوانے کی عادت کبھی ختم نہیں ہوتی اور خاوند بے چارا اپنا سا مُنھ لے کر رہ جاتا ہے ۔

2015 میں  کیمسٹری میں  نوبل انعام   پانے والے  ترک  سائنس دان عزیز سنجر کے ساتھ بھی کچھ ایسا  معاملہ پیش آیا تھا۔ وہ بتاتے  ہیں، نوبل انعام جیتنے کے بعد ایک دن میری بیگم نے مجھے آواز دی ۔

عزیز ! گھر میں جمع کچرا باہر گلی کے کوڑا دان میں ڈال آئیں۔

میں نے جواب دیا، میں نوبل انعام یافتہ ہوں۔

اس نے پھر آواز دی۔

نوبل انعام یافتہ کیمیا دان عزیز صاحب!گھر میں جمع کچرا گلی کے کوڑا دان میں پھینک آئیں۔

پس نوشت :ڈاکٹر عزیز سنجر کا تعارف اور تحقیقی کام

عزیز سنجرمعروف ترک نژاد امریکی حیاتیاتی کیمیا دان اور مالیکیولر بائیولوجسٹ ہیں۔   وہ 8 ستمبر 1946 ء کو ترکی کے صوبہ مردین کے شہر ساور میں پیدا ہوئے تھے۔انھوں نے  1969 میں استنبول یونیورسٹی سے ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی اور 1977ء میں ٹیکساس یونیورسٹی سے مالیکیولر بائیولوجی میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔وہ   چیپل ہل میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا میں پروفیسر   ہیں۔انھوں نے  ڈی این اے کی مرمت کے میکانزم  پر گراں قدر کام کیا ہے۔وہ  خاص طور پر نیوکلیوٹائڈ ایکسیژن کی مرمت پر اپنی تحقیق کے لیے  جانے جاتے  ہیں  ۔ یہ  الٹرا وائلٹ روشنی اور دیگر عوامل کی وجہ سے ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے  اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔انھیں    2015 ء میں پال ایل موڈرچ اور ٹامس لنڈال کے ساتھ ڈی این اے کی مرمت کے میکانکی مطالعہ  پر کیمیا میں  مشترکہ  طور پر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ان کے تحقیقی کام  میں بتایا گیا  ہے کہ  خلیات کس طرح خراب ڈی این اے کی مرمت کرتے ہیں اور جینیاتی معلومات کو برقرار رکھتے ہیں ۔ یہ تحقیق کینسر کی روک تھام اور علاج کے لیے  بھی ایک اہم پیش رفت  تھی۔ ڈی این اے کو  ماحولیاتی عوامل ، جیسے الٹرا وائلٹ تابکاری اور سگریٹ کے دھویں کی وجہ سے دن کے ہر ایک منٹ میں  نقصان  پہنچتا ہے۔

ڈاکٹر عزیز سنجرکو دنیا بھر میں ایک ذہین سائنس دان کے طور پر پہچانا جاتا ہے لیکن ان کا ابتدائی شوق کسی لیبارٹری سے کوسوں دور تھا۔انھوں نے  نوبل انعام پانے کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں   بتایا تھا: ’سچی بات یہ  ہے کہ، میری زندگی کا بنیادی مقصد ترکیہ کی قومی ٹیم کے لیے فٹ بال کھیلنا  تھالیکن  گول کیپر کے طور پر کھیلنے کے لیے میرا قد  قریباً  چار انچ چھوٹا تھا‘‘۔انھوں نے بعد کے برسوں میں کبھی  اپنے ملک کی قومی ٹیم کے لیے نہیں کھیلا۔ اس کے بجائے ، انھوں نے اپنے آبائی  وطن میں میڈیکل کی ڈگری حاصل کی ، ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پی ایچ ڈی کی اور 1982 میں  شمالی کیرولائنا  یونیورسٹی کی  سائنس  فیکلٹی میں شمولیت اختیار کی۔

ڈاکٹر عزیز سنجر کا بڑا پن یہ ہے کہ انھوں نے جامعہ   شمالی کیرولائنا میں   پریس کانفرنس میں  ان  طلبہ  اور ساتھیوں کے معاونتی  کردار  کا اعتراف کیا  تھا جنھوں نے برسوں  ان کے ساتھ  تحقیق میں ہاتھ بٹایا تھا۔ ان   میں ان  کی اہلیہ ، گوین ،  بھی  شامل تھیں جن سے وہ  پہلی مرتبہ گریجوایٹ اسکول میں ملے تھے اور 1982 میں کیرولائنا آنے کے بعد 15 سال تک ان کے ساتھ کام کیا تھا۔

ڈاکٹر عزیز سنجر نےامریکا میں مستقل  طور پر مقیم  ہونے کے باوجود    آبائی وطن ترکیہ کے ساتھ   اپنے مضبوط  تعلقات  استوار رکھے ہیں۔ انھوں نے  اپنا اصل نوبل تمغا ملک کو عطیہ کردیا تھا۔ وہ  2007 سے غیر منافع بخش کیرولائنا ترک ایوی (ترک  سنٹر) چلا رہے ہیں ۔ یہ مرکزترک طلبہ  اور اسکالروں  کی میزبانی کرتا ہے اور ترکوں اور  امریکا کے درمیان افہام و تفہیم کے فروغ کے لیے  کام کرتا ہے۔اگست 2018 میں ، انھوں  نے  چیپل ہل میں سنجر ترک ثقافتی اور کمیونٹی  مرکز کی  بنیاد رکھی۔اس  میں کلاس رومز اور دفاتر کے ساتھ ایک کمیونٹی ہال اور اسکالروں کا مہمان خانہ شامل ہے۔انھوں  نے نوبل انعام  کے ساتھ ملنے والی   قریباً 333,000 ڈالر کی رقم  اس منصوبے کے لیے عطیہ کی ہے۔

ڈاکٹر عزیز سنجر  نے  متعدد سائنسی مقالے لکھے اور سیلولر عمل کی تفہیم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ان کی  تحقیق نے مالیکیولر بائیولوجی کے  شعبے پر  گہرا اثر ڈالا ہے ، خاص طور پر یہ سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ خلیات ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان سے کیسے نمٹتے ہیں۔   - ان کا کام کینسر کی تحقیق، جینیات، اور علاج کی نئی  حکمت عملیوں  کی ترقی پر مسلسل اثر انداز ہورہا ہے۔حیاتیاتی سائنس  میں   نمایاں دریافتوں  کی بنا پر  انھیں ترکی اور بین الاقوامی سطح پر سائنسی برادری میں ایک انتہائی قابل احترام  مقام حاصل  ہے۔ بائیو کیمسٹری اور مالیکیولر  بائیولوجی میں ان کے اہم کام کے  اعتراف میں انھیں  نوبل انعام کے علاوہ متعدد باوقار   ایوارڈز اور اعزازات   سے نوازا گیا ہے۔

کلام: حضرت سیّد انورحسین شاہ صاحب نوّراللہ مرقدہ

ذِکرِ حسنین رضی اللہ عنہما

----------------------------------------

 دوشِ نبیؐ ؐکے شاہسواروں کی بات کر

کون و مکاں کے راج دُلاروں کی بات کر

جن کے لیے ہیں کوثر و تسنِیم موجزن

اُن تشنہ کام بادہ گُساروں کی بات کر

خُلدِ بریں ہے جن کے تقدُّس کی سیرگاہ

اُن خُوں میں غرق غرق نِگاروں کی بات کر

کلیوں پر کیا گزر گئی پُھولوں کو کیا ہوا

گلزارِ فاطمہؓ  کی بہاروں کی بات کر

جِن کے  نَفس نَفس میں تھے قُرآں کُھلے ہوئے

اُن کربلا کے سِینہ فگاروں کی بات کر

شِمرِ لعیں کا ذکر نہ کر میرے سامنے

شیرِخُدا کے مرگ شِعاروں کی بات کر


(حضرت شاہ صاحب   نے اپنے اجدادِکرام کو یہ ہدیہ عقیدت سنہ   1954-56 کے دور ان  میں کسی وقت پیش کیا تھا۔اسی زمانے میں آپ روزنامہ  نوائے وقت  لاہور سے بھی وابستہ رہے تھے)  

بہ شکریہ : میاں رضوان نفیس صاحب


مولوی اَمْرِت دھارا ہیں کیا؟


امتیازاحمد وریاہ

بھائی صاحب! یہ مولوی صاحبان کوئی امرت دھارا ہیں کیا؟  لیکن ذرا رکیں، پہلے اَمْرِت دھارا کے معانی جان لیجیے۔لغوی معنوں میں تو یہ ہاضمے کی ایک مرکب دوا کا نام ہے جو کافور اور ست اجوائن وغیرہ ملا کر تیار کی جاتی ہے لیکن اصطلاحی طور پر یہ ایسے تریاق کا نام ہے جو ہرمرض میں کارگر ثابت ہوتا ہے ۔اب آگے پڑھیے۔ ہمارے معاشرے میں کوئی بھی کام، غلط یا درست، ہوتا ہے، تو ہر طرف سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔مولوی نے یہ کیا ، مولوی نے وہ کیا ،اس نے یہ  کیوں نہیں کیا ؟  اس کو یہ کرنا چاہیے تھا، وہ کرنا چاہیے تھا ۔ فلاں کی حمایت کرنی چاہیے تھی اور فلاں کی مخالفت ۔ مولوی فلاں سیاست دان کے دھرنے اور جلسے میں کیوں نہیں گیا؟ وہ اس موضوع پر کیوں نہیں بولا؟ اس نے فلاں موضوع پر کیوں لب کشائی کی؟ مولوی کو درس نظامی کے ساتھ سائنس لازمی پڑھنی چاہیے۔ ورنہ وہ کھائے گا کہاں سے وغیرہ۔

اچھا یہ سارے کام مولوی صاحب ہی نے کرنا ہیں تو پھر باقی تمام ادارے بندہی کر دیجیے اور لوگوں کو فارغ خطی دیجیے۔ وہ کیا کر رہے ہیں؟ قومی خزانے پر سالہا سال   سے اتنا بوجھ لادنے کا فائدہ کہ ملک پہلے ہی قرضوں  کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ ذرا یہ تو فرمائیے، قومی خزانے سے بھاری مشاہرہ لینے والے بابو کیا بیچتے ہیں؟ قومی خزانے سے پلنے والے  اعلیٰ   سرکاری   ادارے  سائنس کی تعلیم کے فروغ میں کیا  کردار اداکر رہے ہیں؟

سوشل میڈیا کے کونے کھدروں سے ہر دوسرے، تیسرے روز آوازیں اٹھتی ہیں، اے جی مولوی ہمیں چاند پہ جانے سے روک رہا ہے ۔میاں ہمت ہے، تیاری ہے، وسائل ہیں تو شوق سے جائیے ۔کسی مولوی نے  کب روکا  ہے۔اپنی جملہ ہڈ حرامیوں ، خرمستیوں ، حرام توپیوں ،نالائقیوں ، بے وقوفیوں ، بدعنوانیوں کا مورد ِالزام مولویوں  کو تو نہ ٹھہرائیے صاحب۔

اپنے سگمنڈ فرائیڈ کیا خوب فرما گئے تھے: آدمی اپنی ناکامیوں   کا دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے ایگو(انا) کے دفاعی میکانزم کا سہارا لیتا ہے۔وہ اپنی غلطیوں کا مدعا دوسروں پہ ڈال دیتا ہے۔یہی کچھ ہم بہ حیثیت  قوم کر ر ہے ہیں۔ ہمارے بزعم خویش 'دان شَوروں ' کی تنقید و ہجو اور ہزلیات کا سدا بہار 'ہدف' مولوی ہے۔ان کی تقریر وتحریر میں   ہدفِ تنقید مولوی ہوتا ہے۔گویا مولوی نہ ہوا باکسنگ کا پنچ پیڈ ہوگیا۔ پنجابی محاورے کا سہارا لیں تو یہ کَہ سکتے ہیں کہ ’’ مولوی ہی سب سے لسی اسامی ہے، جس پر ہر کوئی' ایرا غیرا نتھو خیرا 'طبع آزمائی کرسکتا ہے۔ان کا سلسلۂ کلام مولوی سے شروع اور اسی پر ختم ہوتا ہے۔اس کے سوا   ان کے پاس کہنے کو کچھ ہے ہی نہیں یا جن صاحبانِ جبہ و دستار  کے بارے میں انھیں لب کشائی کرنی چاہیے ان پر بولتے ہوئے ان کی زبانیں  گنگ ہوجاتی ہیں۔

ذرا یہ تو بتائیے۔ یہ جو لوگ ہر وقت سوشل میڈیا، خاص طور پر ایکس (سابق ٹویٹر) اور فیس بک پر مولوی، ملّا   کی رٹ لگائے   ہوتے ہیں، کبھی انھوں نے کسی سرقہ باز پروفیسر کے بارے میں لکھا۔ کبھی انھوں نے یہ لکھا کہ فلاں جامعہ کا فلاں پروفیسر انٹرنیٹ سے بھارت کے فلاں   پروفیسر کی تمام سلائیڈز اٹھا کر لیکچر دیتا ہے۔اس طرح وہ پورا سمسٹر   پڑھا جاتا ہے مگر طلبہ کے پلے کچھ نہیں پڑتا ۔ کوئی یہ بتاتا ہے کہ فلاں پروفیسر سرقہ باز ہے  اور فلاں لیکچرر چور ہے۔ فلاں سرکاری   جامعہ میں مقالہ نویسی کے نام پر یہ اور یہ دھندا ہوتا ہے اور طلبہ وطالبات کو کس کس طرح بلیک میل کیا جاتا ہے۔ فلاں اور فلاں جامعہ میں مقالے کے نام   پر کیا کچھ رطب ویابس جمع کیا جاتا ہے کبھی کسی نے لکھا ؟کبھی کسی نے کہا کہ فلاں یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ انگریزی کیا اردو میں بھی چند درست جملے نہیں لکھ سکتے ۔تو میاں آپ اپنا گھر درست کیجیے۔ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیے۔ اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیریے۔

ارے بڑے میاں! آپ نے خود کون سا تیر ماراہے۔  اگر گپیں   ہانک کر 'خودساختہ' سوشل انفلوئنسر بن گئے ہیں تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے فروغ میں آپ کا کیا کردار ہے؟آپ نے کسی سائنسی موضوع  یا سائنسی فکشن   پر کچھ لکھا  یا بولا  یا  گھسے پٹے موضوعات  پر فتنہ پروری   کے لیے   انگشت گھسائی  کرتے  رہے۔آپ نے نوجوان نسل کو سائنس  پڑھائی ہے کیا؟ مصنوعی ذہانت کے بارے میں وہ کیا جانتے ہیں؟ اب جو مصنوعی ذہانت نے انقلاب برپا کیا ہے، ہمارا دانشور اس کے بارے میں کیا جانتا ہے؟ مواد پرکس کا کنٹرول ہوگا یا پھرکٹ پیسٹ   ہی سے گلشن کا کاروبار چلے گا؟ المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے بزعم خویش دانشوروں  میں کی  ایک کثیر تعداد کو  توکمپیوٹر چلانا  ہی   نہیں آتا اور وہ  لتے لیتے ہیں   مولوی  کے۔ فرماتے ہیں؛ مولوی ہمیں سائنس پڑھنے سے روکتا ہے۔  واہ رے کیا کہنے ۔خدا لگتی بات کہو میاں، مولوی نے کب آپ کے ہاتھ پکڑے ہیں، کب آپ کا قومی بجٹ کھایا ہے۔ آپ سائنس، ریاضی، انجنیئرنگ اور ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم حاصل  کرو،سائنس میں ترقی  کرو۔ کوئی آپ کی منزل کھوٹی نہیں کرے گا۔ہمارے سائنس دانوں نے پاکستان کو جوہری طاقت بنایا، ایٹم بم بنایا تو مولوی نے کہاں روکا تھا؟ کوئی خدا خوفی؟ کوئی عقل؟ کوئی شعور؟ اپنی     سوچ بدلیں، اپنی رائے   پر نظرثانی کریں، اپنی دنیا وسیع کریں۔ یہ جو آپ کنویں کے مینڈک بنے ہوئے ہیں نا ں، اس سے باہر نکلیں ذرا دیکھیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔اب ''   انفارمڈ سوسائٹی'' (باخبر معاشرہ) ،فری لانسنگ اور مارکیٹ اکانومی کا دور ہے۔منڈی کی معیشت ۔آپ کے  پاس کیا ہے  بیچنے کو؟دنیا کا مقابلہ کرنے کو؟

 کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مولوی درس نظامی پڑھ کے روٹی روزی کا بندوبست کیسے کرے گا؟ روزگار کہاں سے کمائے گا؟ بھائی صاحب! آپ کے ہاں    ہر سال ہزاروں، لاکھوں سائنس گریجوایٹس   جامعات سے فارغ التحصیل ہو تے ہیں، کیاآپ کی حکومت یا ریاست     ان کوباوقار روزگار دے رہی ہے، ان کے لیے   اچھی ملازمتوں کا بندوبست کررہی ہے۔  انھیں سائنس میں اعلیٰ تحقیق کے مواقع مہیا کیے جارہے ہیں؟ ان سب سوالوں کا جواب تو ناں میں ہے۔

ذرا یہ تو بتائیے آپ کی ترجیحات کیا   ہیں؟ آپ اپنا سوشل میڈیا دیکھیں ۔جہاں ہر وقت آپ کو یہ دیکھنے کو ملتا ہے، فلاں چور ہے، فلاں سیاست دان   حاجی ثنا ء اللہ   صاحب ہیں، فلاں ڈاکو ہے، فلاں بڑا دودھ کا دھلا ہوا ہے، فلاں غدار ہے، فلاں محبِّ وطن ہے۔ بھائی یہ ملک اس حال کو  ایسے ہی تو نہیں پہنچا ۔ ہمیں اس منزل تک ان   سب کاٹھے   گندمی انگریزوں نے پہنچایا ہے ۔ اس کے لیے خاص طور پر ہمارے اربابِ اقتدار وسیاست   اور آج تک جو اسٹیبلشمنٹ رہی ہے، یہ سارے اس کے ذمے دار ہیں ۔اگر تباہی کے  ذمے داروں کا حقیقی معنوں میں احتساب نہیں ہوتا تو کچھ بھی بدلنے کا نہیں،  آپ  خواہ جس کو مرضی  موردِ الزام ٹھہراتے رہیں۔ 

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں