سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒ، ایک شخص کہ سارے جہاں کو عزیز تھا۔۔۔(1)
25 ستمبر1979ء کو بانی جماعت اسلامی کے سفرِ آخرت کا آنکھوں دیکھا احوال
یہ 22 ستمبر
1979ء کی شب تھی۔ میں واہ کینٹ
میں ٹی وی پرمعمول کے مطابق خبر نامہ دیکھ رہا تھا کہ اچانک نیوز ریڈر خالد
حمید نے سنجیدہ لہجے میں، رُک رُک کر ایک
افسوس ناک خبر پڑھنا شروع کی ۔یہ غیر متوقع
خبر سنتے ہی دھچکا سا لگا ، دل سے آہ نکلی
اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ۔ یہ لاکھوں نوجوانوں کے
مرشد ، رہبر اور دلوں کے حکمران مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے انتقال
کی خبر تھی۔ وہ علاج کے لیے اپنے بیٹے کے
پاس امریکا گئے ہوئے تھے اور وہیں اس عالم فانی سے عالم جاودانی کو سدھار گئے۔ اس زمانے
کے الٹے سیدھے نظریات ، نت نئے ازموں کی یلغار اور گمراہ کن فکری و فقہی تعصبات سے ہٹ کر مولانا مودودی کی شریعت اسلامی کی سادہ و دل نشین تشریح و تفہیم
،اور افکار اور نظریات سے متاثر ہونے والے لاکھوں
مسلمانوں ، خاص طور پر نوجوانوں کے
لیے مولانا کے انتقال کی یہ خبر انتہائی ناقابل یقین اور کربناک تھی ۔
طلبہ، اساتذہ ، وکلاء ، پروفیشنلز ، علماء اور عام سادہ ، مخلص ، پڑھے لکھے ، سنجیدہ ،دین پسند لوگوں کی بڑی تعداد یہ خبر سن کر سکتے میں آ چکی تھی اور بہت سے لوگ دھاڑیں مار کر رو رہے تھے۔
میں اس وقت گورنمنٹ
کالج اصغر مال راولپنڈی سےسمسٹر سسٹم کے تحت ایم اے
انگریزی کر رہا تھا ۔ اس سمسٹر نظام میں ایک
ایک پیریڈ قیمتی ہوتا تھا اور کسی عزیز کی شادی یا وفات پر جانے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا تھا ، مگر اس کے باوجود میں
نے بلا تردد کالج سے چھٹیاں لیں اور
اگلے ہی روز آبائی شہر سیالکوٹ پہنچ گیا کیونکہ
سیّد مودودی ؒ کا جسدِ
خاکی امریکا سے لاہور پہنچنے میں ابھی تاخیر
تھی ۔سیالکوٹ میں اپنے بچپن کے دوست
اشتیاق حسین بھٹی اور چھوٹے بھائیوں جیسے
دوست فاروق مروت (اب ریٹائرڈ بریگیڈئر )سے ملاقات کی ۔ وہ بھی سیّد مودودی کی رحلت پر انتہائی رنجیدہ تھے ۔ ہم نے یہ طے کیا کہ جنازے میں شرکت کے لیے لاہور جانا ضروری ہی نہیں ،باعث ِسعادت بھی ہے ۔ دو روز بعد 24 ستمبر کو مولانا
مودودی ؒکا جسدِ خاکی امریکا سے براستہ لندن
اور کراچی لاہور پہنچنا تھا اور 25 ستمبر کو
جنازہ اور تدفین ہونا تھی۔ ہم نے اس سے ایک شام پہلے ہی لاہور جانے کا پروگرام طے کیا تاکہ
تدفین کے تمام مراحل میں شرکت کر سکیں اور
بیسویں صدی کے اس سب سے بڑے اسلامی مفکر ،
مصلح ، مفسر ، مدبر ، مجدد ، نابغہ اور داعی
کو اس کے خالق اور مالک کے حوالے کرنے سے
پہلے جی بھر کر دیکھ سکیں ۔
سیّد محترم کے جسدِ
خاکی کو 24 ستمبر کو
5 اے ذیلدار پارک اچھرہ میں
ان کی رہائش گاہ کے صحن میں آخری زیارت کے لیے رکھا جا چکا تھا اور ان
کے گھر سے مزنگ چوک تک آخری دیدار کے لیے آنے والے لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں
۔ لاہور کے علاوہ ملک بھر اور بیرون ملک سے بھی بڑی تعداد میں لوگ
اچھرہ پہنچ چکے تھے ۔ سب لوگ تلاوت کرتے ،
درود شریف پڑھتے ، دعائیں کرتے اور اپنے مرشد اور رہبر کی باتیں ، ملاقاتیں
، تحاریر اور تقاریر یاد کرتے ، آنسو بہاتے آگے بڑھتے جاتے تھے ۔فاروق مروت اور میں
بھی کوئی ایک گھنٹہ قطار میں لگ کر مرشد کی رہائش گاہ پرپہنچ
گئے، جہاں بہ مشکل میت کے پاس جاکر چند لمحے رک گئے ۔ چمکتا دمکتا ،پر سکون ، مطمئن نورانی چہرہ ، چاندی جیسی بھر پور سفید ڈاڑھی کے
درمیان ایسے لگ رہا تھا جیسے خالق کائنات نے خصوصی طور پر میدے میں سیندور ملا کر
تخلیق کیا ہو اور جیسے مالک و خالق کائنات نے دعوت اور احیائے دین کے ٹاسک کو کامیابی
سے آگے بڑھانے
کے بعد اپنے اس چنیدہ بندے کو انعامات،
اعزازات ، شاباشی اور درجات کی بلندی کے لیے واپس بلالیا ہو اور وہ لبیک ،
لبیک کہتے ہوئے ،خوشی خوشی، کشاں کشاں روانہ
ہوگیا ہو۔ یٰۤاَیَّتُهَا
النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ۔ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۔( الفجر)
اچھرہ
کی اسی کوٹھی میں مولانا کے اسٹڈی روم ، برآمدے
اور لان میں ان کی حیات میں کئی مرتبہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ ان کے بالکل ساتھ کھڑے ہو کر عصر اور مغرب کی نمازیں
ادا کرنے کا بھی موقع ملا ۔ لیکن کچھ پوچھنے ، سوال و جواب اور بحث مباحثہ
کرنے کے بجائے میں نے ہمیشہ اس خوب
صورت اور خوب سیرت انسان کے دیدار کو زیادہ اہمیت دی ۔ اشتیاق بھٹی اور میرا معمول
تھا کہ ہم جب بھی سیالکوٹ سے کسی کام کے لیے اکٹھے
لاہور جاتے ، اس بات کو یقینی بناتے کہ مولانا محترم سے ملاقات ممکن نہ ہو تو بھی اچھرہ جا کر کم سے کم ان کی ایک جھلک ضرور ممکن بنائیں ۔ میں یہ کیسے بھول سکتا
ہوں کہ گردوں اور دل کی بیماری تشویش ناک ہونے پر جب مرشد کے اہل خانہ نے ا نھیں علاج
کے لیےان کے بیٹے کے پاس امریکا لے جانے کا
فیصلہ کیا تو عام لوگوں کے ملنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی اور پابندی کی سی صور ت حال تھی
۔ کسی کام سے لاہور جانا ہوا تو عصر
کے وقت مرشد کے دَر پر پہنچ گئے ۔ان کے ذاتی ا
سٹاف سے صرف ایک منٹ کے لیے مولانا کے پاس ان کےا سٹڈی روم میں جانے کی درخواست کی جو مولانا کی اجازت سے منظور
کر لی گئی اور ہماری خوش نصیبی ٹھہری کہ کچھ
ہی دیر بعد اندر بلا لیا گیا ۔ہم نے کھڑے کھڑے سلام کیا ۔ میں نے عرض کیا کہ مرشد ،
آپ شدید علیل ہیں ، میری خواہش ہے کہ اللہ پاک میری بقیہ زندگی بھی
آپ کو دے دے تاکہ آپ دین اسلام کا مزید کام
کر سکیں ۔ میری بات سن کر مولانا سنجیدہ ہو
گئے ۔کہا بھئی اس کی کوئی ضرورت نہیں
۔ میری جتنی بھی عمر باقی ہے اللہ کریم صحت
اور ایمان کے ساتھ مجھے عطا فرمائے اور آپ کی زندگی آپ کو مبارک کرے ۔ انھوں نے مزید
دعائیں بھی دیں اور میں انھی دعائیں کے سحر اور سائے میں کمرے سے ایسے باہر آگیا جیسے کوئی بہت بڑی نعمت
پا لی ہو ۔ اگر مولانا میری پیش کش قبول کرلیتے
تو میری خوش بختی کا کیا ٹھکانا ہوتا اور اب خوشی اور خلوص سے ا ن کی زبان و دل سے میرے لیے نکلنے والی دعائیں بھی کسی نعمت اور اعزاز سے کم
نہیں تھیں ۔
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 1977 ء کے متنازع اور متروک عام انتخابات سے قبل 17 فروری کو ہماری ایک اور
ملاقات سّید مودودی سے ہوئی تھی۔ اس موقع پر مولانا نے مجھے اور میرے دوست اشتیاق بھٹی کو اپنا ایک قلم
اور ایک بیج بھی عطا کیا تھا ۔ گفتگو
کے دوران میں ہم نے بھٹو صاحب کے ایک قریبی
وزیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ آپ کے خلاف بہت زبان درازی کرتا ہے اور توہین آمیز
اور بےہودہ القابات استعمال کرتا ہے جس سے
ہمیں دکھ ہوتا ہے ۔مولانا مسکرا دیے اور کہنے
لگے بھئی میں اس کا کیا کر سکتا ہوں۔ اس کے اعمال اس کے ساتھ ۔ ہاں اگر میں نے کبھی
کسی کے خلاف ایسی زبان استعمال کی ہو تو آپ نشان دہی کریں۔ بڑے پن والا ایسا ٹھوس جواب ہماری تسلی اور تربیت
کے لیے کافی تھا۔
سیالکوٹ
شہر کے اس وقت کے نواحی قصبے فتح گڑھ میں ہمارا
عام سادہ لوح ، مخلص ، درمیانے طبقے کا مسلم گھرانا تھا ۔ والد صاحب مرحوم و
مغفور سنجیدہ طبیعت کے مالک اور مڈل پاس ہونے کی وجہ سے اپنے زمانے کے پڑھے لکھے لوگوں
میں شمار ہوتے تھے ۔ گھرانے کی کوئی گہری مذہبی وابستگی یا عالمانہ ماحول نہیں تھا ۔ بچپن میں جب میاں جی سے پٹی اور یسرنا القران قاعدہ پڑھنے کے لیے ایک کمرے اور برآمدے پر مشتمل مسجد ارائیاں
میں جایا کرتے تو سردیوں کے موسم میں
صفوں کی جگہ دھان کے خشک تنوں کی "پرالی " بچھی ہوتی تھی۔ قرآن پاک کے چند ایک نسخے اچھی طرح سبز ریشمی
غلافوں میں لپٹے ہوتے اور ان پر پڑی گرد کوکبھی کبھار کوئی مشکل میں مبتلا شخص تلاوت کے
بعد اور کبھی امام مسجد میاں جی صفائی کی غرض سے جھاڑ پونچھ دیتے تھے۔مسجد کی کھڑکی
کے پاس وارث شاہ کی ہیر کا ایک نسخہ بھی پڑا ہوتا تھا ۔جس کے حمدیہ اورنعتیہ اشعار
چند لوگ بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔
بڑے
بھائی انجینئر چودھری اسلم صاحب میٹرک کے بعد کالج جانا شروع ہوئے تو اس زمانے کے پڑھے لکھے لوگوں کے فیشن کی طرح لبرل اور آزاد
خیال ٹھہرے ۔1960ء کے عشرے میں چھوٹے ہوٹل نما ہماری دُکان
پر روزنامہ امروز اور کوہستان تھے
اور یہ دونوں اس دور کے بڑے اخبار ات تھے۔ گھر میں بھائی جان’’قندیل" ، حنیف رامے کا "نصرت "اور ارشاد راؤ
کا" الفتح" منگواتے تھے جس کا میں بھی اکثر مطالعہ
کر لیا کرتا تھا ۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں