امتیازاحمد وریاہ
بھائی صاحب!
یہ مولوی صاحبان کوئی امرت دھارا ہیں کیا؟ لیکن ذرا رکیں، پہلے اَمْرِت دھارا کے معانی جان
لیجیے۔لغوی معنوں میں تو یہ ہاضمے کی ایک مرکب دوا کا نام ہے جو کافور اور ست
اجوائن وغیرہ ملا کر تیار کی جاتی ہے لیکن اصطلاحی طور پر یہ ایسے تریاق کا نام ہے
جو ہرمرض میں کارگر ثابت ہوتا ہے ۔اب آگے پڑھیے۔ ہمارے معاشرے میں کوئی بھی کام،
غلط یا درست، ہوتا ہے، تو ہر طرف سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔مولوی نے یہ
کیا ، مولوی نے وہ کیا ،اس نے یہ کیوں نہیں
کیا ؟ اس کو یہ کرنا چاہیے تھا، وہ کرنا
چاہیے تھا ۔ فلاں کی حمایت کرنی چاہیے تھی اور فلاں کی مخالفت ۔ مولوی فلاں سیاست
دان کے دھرنے اور جلسے میں کیوں نہیں گیا؟ وہ اس موضوع پر کیوں نہیں بولا؟ اس نے
فلاں موضوع پر کیوں لب کشائی کی؟ مولوی کو درس نظامی کے ساتھ سائنس لازمی پڑھنی
چاہیے۔ ورنہ وہ کھائے گا کہاں سے وغیرہ۔
اچھا یہ سارے کام مولوی صاحب ہی نے کرنا
ہیں تو پھر باقی تمام ادارے بندہی کر دیجیے اور لوگوں کو فارغ خطی دیجیے۔ وہ کیا
کر رہے ہیں؟ قومی خزانے پر سالہا سال سے اتنا بوجھ لادنے کا فائدہ کہ ملک پہلے ہی قرضوں
کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ ذرا یہ تو فرمائیے،
قومی خزانے سے بھاری مشاہرہ لینے والے بابو کیا بیچتے ہیں؟ قومی خزانے سے پلنے
والے اعلیٰ سرکاری ادارے سائنس کی تعلیم کے فروغ میں کیا کردار اداکر رہے ہیں؟
سوشل میڈیا کے کونے کھدروں سے ہر دوسرے،
تیسرے روز آوازیں اٹھتی ہیں، اے جی مولوی ہمیں چاند پہ جانے سے روک رہا ہے ۔میاں
ہمت ہے، تیاری ہے، وسائل ہیں تو شوق سے جائیے ۔کسی مولوی نے کب روکا ہے۔اپنی جملہ ہڈ حرامیوں ، خرمستیوں ، حرام
توپیوں ،نالائقیوں ، بے وقوفیوں ، بدعنوانیوں کا مورد ِالزام مولویوں کو تو نہ ٹھہرائیے صاحب۔
اپنے سگمنڈ فرائیڈ کیا خوب فرما گئے
تھے: آدمی اپنی ناکامیوں کا دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے ایگو(انا)
کے دفاعی میکانزم کا سہارا لیتا ہے۔وہ اپنی غلطیوں کا مدعا دوسروں پہ ڈال دیتا ہے۔یہی
کچھ ہم بہ حیثیت قوم کر ر ہے ہیں۔ ہمارے
بزعم خویش 'دان شَوروں ' کی تنقید و ہجو اور ہزلیات کا سدا بہار 'ہدف' مولوی ہے۔ان
کی تقریر وتحریر میں ہدفِ تنقید مولوی ہوتا ہے۔گویا مولوی نہ ہوا
باکسنگ کا پنچ پیڈ ہوگیا۔ پنجابی محاورے کا سہارا لیں تو یہ کَہ سکتے ہیں کہ ’’
مولوی ہی سب سے لسی اسامی ہے، جس پر ہر کوئی' ایرا غیرا نتھو خیرا 'طبع آزمائی
کرسکتا ہے۔ان کا سلسلۂ کلام مولوی سے شروع اور اسی پر ختم ہوتا ہے۔اس کے سوا ان کے
پاس کہنے کو کچھ ہے ہی نہیں یا جن صاحبانِ جبہ و دستار کے بارے میں انھیں لب کشائی کرنی چاہیے ان پر
بولتے ہوئے ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔
ذرا یہ تو بتائیے۔ یہ جو لوگ ہر وقت
سوشل میڈیا، خاص طور پر ایکس (سابق ٹویٹر) اور فیس بک پر مولوی، ملّا کی رٹ
لگائے ہوتے ہیں، کبھی انھوں نے کسی سرقہ باز پروفیسر
کے بارے میں لکھا۔ کبھی انھوں نے یہ لکھا کہ فلاں جامعہ کا فلاں پروفیسر انٹرنیٹ سے
بھارت کے فلاں پروفیسر کی تمام سلائیڈز اٹھا کر لیکچر دیتا ہے۔اس
طرح وہ پورا سمسٹر پڑھا جاتا ہے مگر طلبہ کے پلے کچھ نہیں پڑتا ۔ کوئی
یہ بتاتا ہے کہ فلاں پروفیسر سرقہ باز ہے اور فلاں لیکچرر چور ہے۔ فلاں سرکاری جامعہ میں
مقالہ نویسی کے نام پر یہ اور یہ دھندا ہوتا ہے اور طلبہ وطالبات کو کس کس طرح
بلیک میل کیا جاتا ہے۔ فلاں اور فلاں جامعہ میں مقالے کے نام پر کیا کچھ
رطب ویابس جمع کیا جاتا ہے کبھی کسی نے لکھا ؟کبھی کسی نے کہا کہ فلاں یونیورسٹی
کے فارغ التحصیل طلبہ انگریزی کیا اردو میں بھی چند درست جملے نہیں لکھ سکتے ۔تو
میاں آپ اپنا گھر درست کیجیے۔ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنے گریبان
میں جھانکیے۔ اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیریے۔
ارے بڑے میاں! آپ نے خود کون سا تیر
ماراہے۔ اگر گپیں ہانک کر 'خودساختہ' سوشل انفلوئنسر بن گئے ہیں تو
سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے فروغ میں آپ کا کیا کردار ہے؟آپ نے کسی سائنسی موضوع یا سائنسی فکشن
پر کچھ لکھا
یا بولا یا گھسے پٹے موضوعات پر فتنہ پروری کے
لیے انگشت گھسائی
کرتے رہے۔آپ نے نوجوان نسل کو
سائنس پڑھائی ہے کیا؟ مصنوعی ذہانت کے
بارے میں وہ کیا جانتے ہیں؟ اب جو مصنوعی ذہانت نے انقلاب برپا کیا ہے، ہمارا
دانشور اس کے بارے میں کیا جانتا ہے؟ مواد پرکس کا کنٹرول ہوگا یا پھرکٹ پیسٹ ہی سے
گلشن کا کاروبار چلے گا؟ المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے بزعم خویش دانشوروں میں کی ایک کثیر تعداد کو توکمپیوٹر چلانا ہی نہیں آتا اور وہ لتے لیتے ہیں مولوی کے۔ فرماتے ہیں؛ مولوی ہمیں سائنس پڑھنے سے
روکتا ہے۔ واہ رے کیا کہنے ۔خدا لگتی بات
کہو میاں، مولوی نے کب آپ کے ہاتھ پکڑے ہیں، کب آپ کا قومی بجٹ کھایا ہے۔ آپ سائنس،
ریاضی، انجنیئرنگ اور ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرو،سائنس میں ترقی کرو۔ کوئی آپ کی منزل کھوٹی نہیں کرے گا۔ہمارے سائنس
دانوں نے پاکستان کو جوہری طاقت بنایا، ایٹم بم بنایا تو مولوی نے کہاں روکا تھا؟
کوئی خدا خوفی؟ کوئی عقل؟ کوئی شعور؟ اپنی سوچ
بدلیں، اپنی رائے پر نظرثانی کریں، اپنی دنیا وسیع کریں۔ یہ جو آپ
کنویں کے مینڈک بنے ہوئے ہیں نا ں، اس سے باہر نکلیں ذرا دیکھیں۔ دنیا کہاں سے
کہاں پہنچ گئی ۔اب '' انفارمڈ سوسائٹی''
(باخبر معاشرہ) ،فری لانسنگ اور مارکیٹ اکانومی کا دور ہے۔منڈی کی معیشت ۔آپ کے پاس کیا ہے
بیچنے کو؟دنیا کا مقابلہ کرنے کو؟
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مولوی درس نظامی پڑھ کے
روٹی روزی کا بندوبست کیسے کرے گا؟ روزگار کہاں سے کمائے گا؟ بھائی صاحب! آپ کے
ہاں ہر سال ہزاروں، لاکھوں سائنس گریجوایٹس جامعات سے فارغ التحصیل ہو تے ہیں، کیاآپ کی
حکومت یا ریاست ان کوباوقار
روزگار دے رہی ہے، ان کے لیے اچھی ملازمتوں کا بندوبست کررہی ہے۔ انھیں سائنس میں اعلیٰ تحقیق کے مواقع مہیا کیے
جارہے ہیں؟ ان سب سوالوں کا جواب تو ناں میں ہے۔
ذرا یہ تو بتائیے آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟ آپ اپنا سوشل میڈیا دیکھیں ۔جہاں ہر وقت آپ کو یہ دیکھنے کو ملتا ہے، فلاں چور ہے، فلاں سیاست دان حاجی ثنا ء اللہ صاحب ہیں، فلاں ڈاکو ہے، فلاں بڑا دودھ کا دھلا ہوا ہے، فلاں غدار ہے، فلاں محبِّ وطن ہے۔ بھائی یہ ملک اس حال کو ایسے ہی تو نہیں پہنچا ۔ ہمیں اس منزل تک ان سب کاٹھے گندمی انگریزوں نے پہنچایا ہے ۔ اس کے لیے خاص طور پر ہمارے اربابِ اقتدار وسیاست اور آج تک جو اسٹیبلشمنٹ رہی ہے، یہ سارے اس کے ذمے دار ہیں ۔اگر تباہی کے ذمے داروں کا حقیقی معنوں میں احتساب نہیں ہوتا تو کچھ بھی بدلنے کا نہیں، آپ خواہ جس کو مرضی موردِ الزام ٹھہراتے رہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں