meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: کیا سرسیّداحمد خان أستاذ الکل مولانا مملوک العلی نانوتوی ؒ کے شاگرد رہے تھے؟

Empowering Through Media Literacy

کیا سرسیّداحمد خان أستاذ الکل مولانا مملوک العلی نانوتوی ؒ کے شاگرد رہے تھے؟

امتیازاحمدوریاہ

 ہم محترم آر اے صدیقی صاحب کے تحقیقی  مطالعے  کی تائید کرتے  ہیں اور وہ یہ کہ  اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا ہے کہ  ہندوستان کی ممتاز علمی شخصیت  أستاذ الکل مولانا مملوک العلی نانوتوی ؒمرحوم (وفات 7 اکتوبر 1851)   سرسید احمدخانؒ کے  کبھی استاد رہے تھے ۔ جب یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ   جاتی ہے کہ  سرسید احمد خانؒ   ان کے شاگرد نہیں رہے تھے تو پھر وہ  کبھی مولانا قاسم نانوتویؒ  (بانی دارالعلوم دیوبند) کے استاد شریک یا ہم مکتب   بھی نہیں رہے تھے لیکن اب سوال یہ ہے کہ یہ تاریخی مغالطہ کیونکر پیدا ہوا ؟ یہ روایت تسلسل  سے کیسے نقل ہوتی چلی  آ رہی ہے اور  دیوبند مکتبِ فکر سے وابستہ بعض علماء  بالخصوص اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس کا  تذکرہ  اگرکرتے   ہیں تو ان کا مآخذ کیا ہے[1]۔

اب اس اجمال کی تھوڑی تفصیل۔وہ جو کہتے ہیں سوال سے علم کی راہیں کھلتی ہیں اور نقد سے تو اور بھی در وا ہوتے ہیں ۔ فیس بُک پر محترم علی حیدر صاحب کی اس موضوع پر ایک  پوسٹ نظر سے گزری تو اس پر  راقم نے بھی پڑھی اور سنی سنائی معلومات کی بنا پر مولانا مملوک العلی صاحب کو سرسیّد احمد خان  کا استاد قرار دے دیا۔ اس پر محترم آر اے صدیقی  نے تبصرہ کیا  کہ ان دونوں شخصیات کے درمیان استادی شاگردی کا رشتہ  کبھی نہیں  رہا تھا۔یہ   پڑھنے کے بعد دوبارہ کچھ تحقیق  کا موقع ملا تو یہ پتا چلا کہ  دہلی کالج کے صدر مدرس  حضرت مولانا مملوک  العلی صاحب کو چار شخصیات نے سرسید احمد خان  کا استاد قرار دیا تھا یا انھیں دہلی کالج کا طالب علم  بتایا تھا:

 1۔ حضرت مولانا عبیداللہ سندھی مرحوم۔انھوں نے ایک تحریر میں اس کا  ذکر کیا تھا۔

2۔ مرزا فرحت اللہ بیگ۔ [2]

3۔ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور

 4 ۔شیخ محمد اکرام ( ایس ایم اکرام)[3] ۔ان کی مشہور تصنیف موجِ کوثر میں  دونوں شخصیات کے درمیان استاد ،شاگرد  کے تعلق  کا تذکرہ ہے۔

لیکن ان چاروں  شخصیات  یا  کسی اور    لکھاری  نے  اس بابت    اپنے دعوے کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیا ہے اور نہ خود سرسید احمد خان نے اپنے سیکڑوں ، ہزاروں مضامین  میں اس موضوع  پر کوئی روشنی ڈالی ہے۔ اردو کی مشہور ویب گاہ ’’ریختہ‘‘ پر مولانا مملوک العلی نانوتوی کی شخصیت اور حالاتِ زندگی پر ایک مفصل کتاب دستیاب ہے۔اس کے مصنف نورالحسن راشد کاندھلوی صاحب ہیں۔[4]انھوں نے مذکورہ چاروں شخصیات پر روایت ودرایت   کے أصول  کی بنیاد  پر نقد کیا ہے اور خود سرسید احمد خان اور ان کے معاصرین کی تحریروں کے حوالے بھی  پیش کیے  ہیں۔ان سے انھوں نے ایک اصول یہ اخذ کیا ہے کہ  سرسید احمد خان جب اپنے کسی استاد کے بارے میں قلم اٹھاتے ہیں   یا جس شخصیت سے انھوں نے کبھی علمی استفادہ کیا ہو، اس کا ذکر کرتے ہیں تو  بڑے ادب واحترام  اور سعادت مندانہ انداز    اپناتے  ہیں اور ان کا  شاگرد ہونے کا برملا اظہار کرتے ہیں لیکن مولانا مملوک العلی کے تذکرے میں وہ ان سے علمی استفادے کا ذکر بالکل نہیں کرتے اور ایک  مختصر تحریر میں ان کا  جامع تعارف کرادیتے ہیں اور آگے بڑھ  جاتے ہیں۔راشد صاحب نے ان دونوں شخصیات  کے درمیان استاد شاگرد کے تعلق سے متعلق تما م روایات کی تاریخی نظائر اور دستیاب مواد کی روشنی میں تردید کی ہے۔

جیسا کہ  ابتدا میں ذکر ہوا،سرسیّد احمد خان صاحب کے  مولانا قاسم نانوتوی صاحب کے ہم درس ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا  کیونکہ دونوں  کی  عمروں میں پندرہ، سولہ  سال کا تفاوت ہے۔اوّل الذکر 1817ء  میں پیدا ہوئے تھے اور مؤخر الذکر کا سنِ پیدائش  مارچ 1833ء اور تاریخ وفات  15 اپریل 1880ء ہے۔ جب مولانا قاسم صاحب دہلی کالج میں  زیرِتعلیم تھے تو سرسید احمد خان اپنی  روایتی تعلیم کی تکمیل کے بعد  سرکاری ملازمت اختیار کرچکے تھے، گو انھوں نے بعد میں بھی تعلیم وتعلّم کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ مزید برآں   سرسید احمد خان نے   ضلع سہارن پور کے قصبہ  نانوتہ  سے تعلق رکھنے والی  ان  دونوں بڑی  شخصیات پر تعارفی  یا تعزیتی مضامین  لکھے تھے۔مولانا مملوک العلی کے بارے میں  ان تحریر مختصر ہے مگر مولانا قاسم صاحب پر تفصیلی تعزیتی مضمون ہے۔

راشد صاحب کتاب کے صفحہ 538 پر لکھتے ہیں: ’’سر سیّد نے مولانا مملوک العلی اور مولوی نوازش علی صاحب کا جو تعارف لکھا ہے، اس میں اس طرح کا صاف اعتراف تو دور رہا ایسا تاثر بھی نہیں ملتا کہ جس کی بنیاد پر یہ  کہا جا سکے کہ سر سید احمد کی ان دونوں علماء سے قربت یا خاص واقفیت تھی‘‘ ۔سر سید احمد خان نے مولانا مملوک العلی کے تعارف میں جو چند سطریں لکھی ہیں، وہ یہاں نقل کی جاتی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:’’جناب مولوی مملوک العلی سلمہ اللہ تعالیٰ شاگردِ رشید مولوی رشید الدین خان صاحبِ علم معقول و منقول ہیں۔ استعداد ِکامل اور کتب درسیہ کا ایسا استحضار ہے کہ اگر فرض کرو ان کتابوں سے گنجینہ عالم خالی ہو جائے تو ان کی لوح حافظہ سے پھر نقل ان کی ممکن ہے۔ ان سب کمال اور فضیلت پر خلق وحلم کو احاطہ تقریر سے افزوں ہے ۔اگرچہ زیّ   [5]دنیا داروں کی ہے لیکن سیرت اور سَرِیرَت  میں درویشانہ۔  اگر چہ 14 ،15 برس سے مدرسہ شاہ جہاں آباد میں عہدہ مدرسی رکھتے  تھے لیکن اب کئی سال سے سر گروہ مدرسین ہیں کہ مدرسِ اوّل اس سے عبارت ہے انشاء، نظم و نثر کی طرف کم توجہ ہے۔ اگر ایسا فاضل اس طرف بھی متوجہ ہوتا تو یقین ہے کہ اس فن میں اپنے اقران و امثال سے ممتاز ہوتا‘‘۔[6]

وہ مزید لکھتے ہیں کہ مولانا مملوک علی صاحب کے صاحبزادے مولانا محمد یعقوب نانوتوی صاحب دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس، ممتاز عالم اور سرسیداحمد کے ہم عصر تھے ۔مولانا یعقوب کو سرسیداحمد خان کے مذہبی نظریات سے اختلاف تھا اور انھوں نے ان کی تردید و تنقید بھی کی تھی۔ اس کے علاوہ سر سید احمد کی تحریروں میں مولانا محمد یعقوب صاحب کا مدرسہ دیوبند کے حوالے سے بھی ذکر آیا ہے مگر یہ تحریریں بھی اس تاثر سے خالی ہیں کہ سر سید احمد کو مولانا مملوک العلی سے تلمذ یا استفادہ کی نسبت تھی۔ البتہ ان کے درمیان ایک اور مضبوط تعلق کا پتا چلتا ہے وہ یہ کہ سر سید احمد خان نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج جسے عرف عام میں مدرسۃ العلوم علی گڑھ کہا جاتا تھا، اس میں مولانا مملوک العلی کے نواسے مولانا عبداللہ انصاری انبہٹوی [7] کا ناظم دینیات کی حیثیت سے تقرر کیا تھا اور مولانا انصاری اس وقت سے  1925 میں اپنی وفات تک علی گڑھ کالج  (بعد میں  مسلم یونیورسٹی) کے شعبہ دینیات کے ناظم و سربراہ رہے تھے ۔ان کی سر سید احمد خان سے ملاقاتیں اور خط و کتابت رہتی تھی۔ سرسید کے خطوط میں بھی مولانا انصاری کا کئی مواقع پر ذکر آیا ہے مگر ان میں سے کسی ایک خط سے بھی  ایسا تاثر نہیں ملتا کہ چونکہ مولانا انصاری سر سید احمد کے استاد کے نواسے ہیں، لہٰذا اس تعلق کی  بنا  پر وہ مولانا انصاری سے ربطِ خاص رکھتے تھے اور  ان سے دلی قربت اور وابستگی تھی۔

نور الحسن راشد صاحب نے اپنی کتاب میں مولانا الطاف حسین حالی پر بھی نقد کیا ہے اور  ان کی مدلل مداحی کے طور پر شہرت  یافتہ  سرسید احمد خان کی سوانح عمری ’’ حیاتِ جاوید‘‘ میں بعض مندرجات اور حوالوں کو درست قرار نہیں دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ سر سید احمد خان نے اپنی تحریروں میں اپنے چار اساتذہ کا خاص طور پہ ذکر کیا ہے ،ان میں پہلے نمبر پر  مولانا شاہ مخصوص اللہ (خلف شاہ رفیع الدین صاحب ) ہیں۔دوسرے نمبر پر مولانا نور الحسن کاندھلوی صاحب  ہیں،تیسرے پر مولانا فیض الحسن  سہارنپوری صاحب اور چوتھے پر حکیم غلام حیدر صاحب دہلوی ہیں۔

  وہ ان چاروں کے علاوہ کسی اور عالم یا طبیب کا اپنے استاد کی حیثیت سے ذکر نہیں کرتے لیکن اس معاملے میں الطاف حسین حالی اور خود سرسید کے بیانات میں تھوڑا سا فرق آگیا ہے ۔وہ یوں کہ حالی سرسید کے استادوں میں جان بوجھ کر مولانا نور الحسن کاندھلوی کا تذکرہ ہی نہیں کرتے حالانکہ مولانا نور الحسن سر سید کے سب سے بڑے مربی اور استاد تھے۔ ان کی صحبت کا سرسید کی زندگی پر گہرا اثر پڑا تھا جس کا خود سرسیّد کو بھی اعتراف ہے مگر حالی اس فہرست میں مولانا نوازش دہلوی کا اضافہ کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ سر سید نے شاہ مخصوص اللہ صاحب سے مشکوٰۃ شریف وغیرہ پڑھی تھی مگر سیّد احمد کی تحریروں میں اس تعلیم کا ذکر نہیں ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے شاہ مخصوص اللہ صاحب سے قران شریف پڑھا  تھا  اور ان سے قران مجید کی جو متواتر سند ملی تھی وہ بھی تبیین الکلام کی تمہید میں درج ہے مگر شاہ صاحب سے مشکوٰۃ شریف وغیرہ پڑھنے کا ذکر نہیں کیا ۔نیز مولانا الطاف حسین حالی سے ایک اور بھی سہو ہوا ہے۔ وہ یہ کہ جس وقت وہ سر سید احمد خان کو شاہ مخصوص اللہ صاحب کے درس میں حاضر دکھا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ روہتک سے دلی واپسی کے بعد سر سید نے شاہ مخصوص اللہ سے حدیث پڑھی تھی جبکہ خود سر سید اس زمانے میں شاہ مخصوص اللہ کی گوشہ نشینی کی صراحت کر رہے ہیں اور یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ انھوں نے تدریس کا سلسلہ ترک کر دیا تھا اور گوشہ نشین ہو گئے تھے۔[8] البتہ ایک اور دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ مولانا  نور الحسن کاندھلویؒ مرحوم  مولانا مملوک العلی صاحب ؒکے شاگرد تھے اور ان سے دہلی کالج میں پڑھا تھا۔اس  حیثیت  سے مولانا مملوک صاحب سرسیّد احمد خان کے دادا  استاد ہوتے ہیں۔

--------------------------------------------------

[1] اس موضوع پر مکتب دیوبند  سے وابستہ  دینی مدارس  کے  جرائد میں وقتاً فوقتاً تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں۔

[2]ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی ،کچھ میری ، کچھ ان کی زبانی  میں اس کا تذکر ہ ہے۔

 [3] ایس ایم اکرام ،موجِ کوثر ، آبِ کوثر اور رود کوثر کے نام  سے تین مشہور تصانیف ہیں ۔انھوں نے  اوّل الذکر موجِ کوثر میں  مولانا مملوک العلی نانوتوی کو سرسید کا استاد قرار دیا ہے۔پاکستان میں دیوبند مکتب فکر کے خطباء کا مآخذ یہی کتاب معلوم ہوتی ہے۔

 [4]  Ustaz-ul-Kul Hazrat Maulana Mamlookul Ali Nanotavi by noor ul hasan rashid kandhlvi | Rekhta

[5]۔زیّ  (عربی) :شکل، وضع قطع، پہناوا، لباس، حلیہ، اندازہ، حد۔

[6] آثارالصنادید، صفحہ 70, باب چہارم، نول کشور لکھنؤ، 1900ء۔

 [7]      سابق  ناظم دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ مولانا عبداللہ انصاری مرحوم   بانی دارالعلوم دیوبند   مولانا قاسم نانوتوی ؒ  صاحب کے داماد تھے۔

[8] آثارالصنادید ، صفحہ 95, باب چہارم ، طبع اوّل دہلی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں