تہران میں واقع پاسداران انقلاب ایران کے
مہمان خانہ کی غیرمصدقہ تصویر۔اسی عمارت میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہَنیہ 31 جولائی کو مبیّنہ بم دھماکے میں شہید ہوئے
تھے۔(سوشل میڈیا)
امتیازاحمدوریاہ
فلسطین کی اسلامی
مزاحمتی تحریک (حماس) کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہَنیہ کی ایران کے
دارالحکومت تہران میں پُراسرار شہادت بدستور معما بنی ہوئی ہے اور اس واقعہ سے متعلق
ہرروز نئی تفصیل سامنے آرہی ہے۔ایرانی حکام نے اپنے فوری ردعمل میں کہا تھا کہ اسماعیل
ہَنیہ کو اسرائیل نے فضائی حملے میں شہید کیا ہے
لیکن اب یہ اطلاع سامنے آئی ہے کہ اسرائیلی فوج نے بدھ کو علی الصباح تہران
پرایسا کوئی حملہ نہیں کیا تھا۔ اس کی تصدیق صہیونی فوج کے ترجمان نے بھی کی ہے۔اس
ترجمان نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ منگل
کی شب اسرائیلی دفاعی فوج نے لبنان کے دارالحکومت بیروت پر فضائی حملہ کیا
تھا جس میں حزب اللہ ملیشیا کے ایک کمانڈر فواد شکر مارے
گئے تھے۔اس کے علاوہ پورے مشرقِ اوسط میں کوئی ڈرون یا میزائل حملہ نہیں کیا گیا
تھا۔یہ الگ بات کہ صہیونی فوج کے ترجمان کی بات پر بھی کوئی زیادہ اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
مشرق اوسط اور ایرانی ذرائع سمیت نامعلوم
حکام کے حوالے سے متعدد مغربی ذرائع ابلاغ نے یہ خبر دی تھی کہ ہَنیہ تہران میں اپنی قیام گاہ میں دو ماہ قبل نصب کیے گئے بم کے دھماکے میں مارے گئے تھے۔
درایں اثناء سپاہ پاسداران انقلاب ایران نے ہفتے کے روز ایک بیان میں اپنی حالیہ
تحقیقات کے حوالے سے کہا ہے کہ اسماعیل ہَنیہ
پر’’7
کلوگرام دھماکا خیز مواد لے جانے والے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سے حملہ کیا گیا اور یہ مہمانوں کی رہائش گاہ کے باہر سے داغا گیا‘‘۔بیان
میں اسرائیل کو دھمکی دی گئی
ہے کہ اس کو ہَنیہ کے
قتل کے جواب میں 'مناسب وقت اور جگہ پر
سخت سزا' دی جائے گی۔دوسری جانب اسرائیل
نے ہنوز اس واقعہ میں
اپنے کردار کی تصدیق کی ہے اور نہ
ہی اس سے انکار کیا ہے جبکہ امریکا کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے سربراہ کے قتل کے واقعے کے بارے میں آگاہ ہے اور نہ ہی اس میں ملوث ہے ۔
مغربی میڈیا نے
اپنے ذرائع کے حوالے سے یہ اطلاعات دی ہیں کہ حماس کے سربراہ کے قتل میں اسرائیل
کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد ملوّث ہے۔اس نے تہران میں ہَنیہ کی قیام گاہ پر بم نصب کرنے کے لیے ایرانی ایجنٹوں ہی کی خدمات حاصل کی تھیں۔دھماکا خیز مواد تہران کے
گیسٹ ہاؤس کے تین کمروں میں نصب کیا گیا
تھا اور جس کمرے میں حماس کے رہ نما ٹھہرے ہوئے تھے،وہاں بیرون ملک سےڈیوائس کے ذریعے اس دھماکا خیز مواد کو اڑا دیا گیا۔
موساد نے
دوماہ قبل مئی میں بھی اسماعیل ہَنیہ کو تہران ہی میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔تب
وہ ایران کے سابق صدر ابراہیم رئیسی کے جنازے میں شرکت کے لیے تہران آئے تھے مگر
اس سازش کو بعض وجوہ کی بنا پر ترک کردیا گیا تھا۔دو ایرانی عہدے داروں نے
برطانوی اخبار ٹیلی گراف کو بتایا کہ تب اسماعیل ہَنیہ کی قیام گاہ عمارت کے اندر بڑی تعداد میں لوگوں کی موجودگی کے پیش نظر ناکامی
کے امکان کی وجہ سے تخریبی کارروائی کو
عملی جامہ نہیں پہنایا گیا تھا۔
اب کہ موساد نے دو
ایرانی ایجنٹوں کی خدمات حاصل کیں۔ انھوں نے دارالحکومت تہران
کے شمال میں واقع پاسداران انقلاب کے زیر انتظام گیسٹ ہاؤس
کے تین کمروں میں دھماکا خیز مواد نصب کیا
تھا۔ان تینوں میں سے کسی ایک کمرے میں اسماعیل ہَنیہ نے ٹھہرنا تھا۔اس عمارت کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے والے عہدے
داروں کے مطابق ایجنٹوں کو خفیہ طور پر حرکت کرتے ہوئے دیکھا گیا اور وہ منٹوں میں
عمارت میں اندر داخل ہوئے اور کئی
کمروں سے ہوتے ہوئے باہر نکل گئے۔اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کارندے ملک سے باہر چلے
گئے تھے لیکن ان کا ایک ساتھی اب بھی
ایران میں ہے۔ منگل اور بدھ کی درمیانی شب دو بجے انھوں نے بیرون ملک سے اس کمرے میں دھماکا کیا جہاں ہَنیہ
ٹھہرے ہوئے تھے۔اس دھماکے میں ہَنیہ اور
ان کا محافظ شہید ہو گئے تھے۔ وہ نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی
تقریب میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے۔اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا
ایرانی انٹیلی جنس نے حماس کے سربراہ کی آمد سے قبل اس مہمانِ خانے کی مکمل تلاشی
نہیں لی تھی۔نیز اس کے اپنے سکیورٹی اہلکار کیسے تین کمروں میں دھماکا خیز مواد رکھنے
میں کامیاب ہوگئے تھے۔
اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے
ڈائریکٹر ڈیوڈ برنیا کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے تہران میں سپاہِ
پاسداران انقلاب کے تحت انصار المہدی
پروٹیکشن یونٹ کے ایجنٹ دہشت گردی کی اس
کارروائی کے لیے بھرتی کیے تھے۔یہ یونٹ
اعلیٰ شخصیات کی سکیورٹی کا ذمے دار بتایا جاتا ہے۔پاسداران انقلاب کے ایک عہدے دار
نے تہران سے ڈیلی ٹیلی گراف کو بتایا کہ اب انھیں یقین ہو گیا ہے کہ موساد نے حماس
کے سربراہ کو قتل کرنے کے لیے انصار
المہدی پروٹیکشن یونٹ کے ایجنٹوں کی خدمات حاصل کی تھیں اور مزید تحقیقات کے بعد، انھوں نے دو دیگر کمروں سے اضافی دھماکا خیز مواد بھی برآمد کیا ہے۔پاسداران انقلاب کی ایلیٹ ملٹری
فورسز کے ایک دوسرے اہلکار نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ ’’یہ ایران کے لیے ذلت اور
سکیورٹی کی ایک بڑی خلاف ورزی ہے‘‘۔اس عہدے دارکے بہ قول وہ یہ سب سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے
ہوگیا ہے۔
برطانوی اخبار سے بات کرنے والے پہلے عہدے دار نے انکشاف کیا کہ
اب پاسداران انقلاب پر اندرونی الزام تراشی کا کھیل جاری ہے، جس میں مختلف شعبے
ایک دوسرے پر ناکامی کا الزام عاید کر رہے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ پاسداران انقلاب کی بیرون ملک کارروائیوں کی ذمے دار القدس فورس کے
کمانڈر اسماعیل قاآنی لوگوں کو برطرف کرنے، گرفتار کرنے اور ممکنہ طور پر پھٹے
چڑھانے کے لیے طلب کر رہے ہیں۔ اس واقعہ سے
سب کی سُبکی ہوئی ہے۔
عہدہ دار نے مزید کہا: "ایرانی سپریم
لیڈر(آیت اللہ علی خامنہ ای) نے گذشتہ دو دنوں میں کئی بار تمام کمانڈروں کو طلب
کیا ہے، اور وہ جواب چاہتے ہیں۔ان کے لیے اب انتقام لینے سے زیادہ اہم سکیورٹی کی
خلاف ورزیوں سے نمٹنا ہے‘‘۔امریکی
اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ایرانی حکام نے اس واقعے کے بعد مہمان خانے میں
تعینات عملہ ، سینیر انٹیلی جنس افسروں اور فوجی حکام سمیت بیس سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا ہے اور ان
سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔
دراصل ایرانی دارالحکومت میں ہَنیہ کے قتل
نے ایران کے اندر اسرائیل کی رسائی اور اثر و رسوخ کے بارے میں خدشات میں بھی
اضافہ کر دیا ہے۔ایران کے سابق انٹیلی جنس وزیر علی یونسی نے 2020 ء میں ایک
انٹرویو میں اس تشویش کا اظہار کیا تھا کہ: ’’اسلامی جمہوریہ کے تمام عہدے داروں
کو اپنی زندگیوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے‘‘۔انھوں نے کہا کہ اگر صہیونی حکومت نے ابھی تک ایران کے سیاسی حکام کو نشانہ نہیں بنایا ہے تو اس کی
وجہ یہ ہے کہ اس نے ایسا کرنے کا انتخاب نہیں کیا ہے۔مسعود پزشکیان کے ایک قریبی ساتھی نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ
سکیورٹی میں یہ انتہا درجے کی غفلت اور کوتاہی
آئی آر جی سی کی جانب سے نئے صدر کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش بھی ہو سکتی ہے۔پزشکیان کی انتخابی مہم میں کام
کرنے والے معاون نے دعویٰ کیا کہ’’ پاسداران انقلاب نئے صدر کے بین الاقوامی سفارت کاری اور ان کی اصلاح پسند
سیاست کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں خیالات
کو قبول نہیں کرتے۔کوئی بھی صحیح الدماغ
اس بات کو قبول نہیں کر سکتا کہ یہ واقعہ حادثاتی
طور پر رونما ہوا، خاص طور پر مسٹر پزشکیان کے عہدے کے پہلے
دن۔انھیں اپنے اقتدار کے پہلے چند دنوں میں اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنا پڑ سکتی ہے
اور یہ سب پاسداران انقلاب کی وجہ سے ہے‘‘۔تاہم پزشکیان کے بیٹے نے جمعہ کی رات
اعلان کیا تھا کہ ملک کی ترجیح اسرائیل کے ساتھ جنگ نہیں ہے۔ڈاکٹر یوسف پزشکیان نے
اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ غربت، بدعنوانی،
امتیازی سلوک، عدم مساوات اور فضول سیاسی دھڑے اور مباحثے وہ حقیقی محاذ ہیں جن کے
خلاف ایرانی عوام ہمارے ملک میں لڑ رہے ہیں۔ ایران میں سماجی اصلاحات اور پیش رفت
بہترین جوابی حملے ہیں جن کا ہم اسرائیل پر براہ راست جواب دے سکتے ہیں۔
سلامتی کے امور کے ماہر تجزیہ کار ایچ اے ہیلیر کے مطابق اسماعیل ہَنیہ کے
قتل کے طریق کار کو بیان کرنے کے لیے
ایران جو بیانیہ اپنائے گا، وہ اسرائیل کے خلاف اس کی کشیدگی کو شکل دے گا۔ہیلیر
نے الجزیرہ ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا، "ابھی تک یہ
واضح نہیں کہ انھیں کیسے قتل کیا گیا اور
اس سلسلے میں کسی بھی نتیجے کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے کہ آگے کس قسم کی کشیدگی
آئے گی اور کیا بیانیہ تیار کیا جائے گا۔
ہیلیر کا کہنا ہے کہ ’’ان دونوں قسم کے
منظرناموں میں فرق ہے۔ایک میزائل سے نشانہ بنانے سے یہ پتا چلتا ہے کہ سکیورٹی کی خلاف ورزی کہاں ہوئی ہے لیکن یہ ایران کے اندر بم اسمگل
کیے جانے کے مقابلے میں ایک مختلف قسم کی سکیورٹی
خلاف ورزی ہے‘‘۔الجزیرہ کے نامہ نگار رسال سردار کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہَنیہ کو قتل
کرنے کے بارے میں "بیانیے کے خلاف جنگ" جاری ہے، لیکن واقعات کے بارے
میں کوئی بھی موقف ایرانی سکیورٹی سروسز
کی ناکامی ہی کا آئینہ دار ہے اور یہ بالکل واضح ہے کہ ایران الیکٹرانک جنگ اور سگنلز
اور مواصلات کو روکنے کے معاملے میں بہت پیچھے ہے۔
پس تحریر: ہمارے یہاں لوگ
جلد بھول جاتے ہیں لیکن بعض تاریخی نوعیت کے واقعات کو ہمیشہ یاد رکھا جانا چاہیے۔
حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھنے والوں کو یاد ہوگا،سپاہِ پاسدار ان انقلاب ایران کی
بیرون ملک کارروائیوں/ سرگرمیوں کی ذمے دار القدس فورس کے سابق سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی جنوری 2020ء میں
عراق کے دارالحکومت بغداد کے ہوائی اڈے کے نزدیک امریکا کے میزائل حملے میں مارے گئے
تھے۔ان کی بغداد میں خفیہ آمد کی مخبری کا الزام کس پہ لگا تھا؟ یہ کوئی اور نہیں
بلکہ ایران کی آلہ کار ایک عراقی مسلح تنظیم کے سربراہ تھے جن پران
کی مخبری کا الزام عاید کیا گیا تھا۔ ایک سازشی نظریہ یہ بھی سامنے آیا تھا کہ خود
ایرانی قیادت ان سے گلو خلاصی چاہتی تھی کیونکہ وہ اپنے چُغے سے بہت باہر نکل گئے
تھے۔
اب حماس کے سیاسی
شعبے کے سربراہ اسماعیل ہَنیہ کی تہران میں مظلومانہ شہادت کے پُرپیچ واقعہ نے ایرانی سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشان
لگا دیے ہیں ۔ وہ دعوے تو بہت بلند بانگ کرتے ہیں اور دشمن خنجر لیے ان کی
چارپائی کے نیچے چھپا بیٹھا ہے۔ کیا ایران کے پاس اپنے دیرینہ دشمن اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے آلہ کاروں اور
جاسوسوں کا سراغ لگانے کے لیے سراغرسانی
کا کوئی
فعال نظام نہیں ہے؟
یادرہے کہ گذشتہ برسوں کے دوران میں ایران کے متعدد سرکردہ جوہری سائنس دانوں کو اہدافی حملوں میں نشانہ
بنایا جاچکا ہے ۔ایران نے موساد کو اپنے سائنس دانوں کے پُراسرار قتل کا مورد
الزام ٹھہرایا تھا ۔اس کے علاوہ اسرائیل
نے ایران کے بعض محفوظ
ترین جوہری پلانٹس کو بھی پُراسرار
تخریبی حملوں میں نشانہ بنایا ہے لیکن ایرانی سراغرساں ادارے اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے ملک کے اندر مربوط جال کا استیصال کرنے میں ناکام رہے ہیں
اور اب ایرانی کارندوں ہی نے حکومت وریاست کے ایک معزز مہمان کو نشانہ بنادیا ہے۔
سر جی انتہائی اہم مہمان شخصیات کی سونے کی جگہ ان کی رہائش ہر روز ہر رات تبدیل ہوتی رہتی ہے کیا پاسران انقلاب کے پاس ان کے لیے صرف ایک ہی گیسٹ ہاؤس رہ گیا تھا؟ دوسرا اس مزعوم تصویر میں اسماعیل ہانیہ کا کمرہ عمارت کے کونے میں واقع ہے اس طرح تو ہدف کو کم سے کم نقصان کے ساتھ ٹارگٹ کرنا انتہائی اسان ہو جاتا ہے ،کیا یہ چیز ایرانی انٹیلیجنس کے دماغ میں نہیں ائی تھی؟
جواب دیںحذف کریں