امتیازاحمدوریاہ
سردار دیوان سنگھ مفتوں کے ایک دوست کے بہ قول وہ ''شیراز ِہند''
گوجرانوالہ[1] کے
قصبے ( اب ضلع) حافظ آباد[2] میں
14 اگست 1890ء کو کھتری قوم کی کھنہ برادری کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے
تھے۔ان کے والد ندھان سنگھ ایک سرکاری ڈاکٹر تھے۔وہ اپنے والد کی چوتھی اولاد
تھے۔ابھی وہ چالیس دن کے تھے کہ ان کے والد ڈاکٹر ندھان سنگھ کا جہلم ہی میں
انتقال ہوگیا تھا[3]۔اس کے بعد ان کے عزیز، رشتے
داروں نے یتیم بے سہارا بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے کے بجائے ان کی جائیداد ہتھیانا
شروع کردی۔ڈاکٹر صاحب کی اراضی اور مکانات پر ان کے ایک بھائی نے قبضہ کر لیا۔اس
سے ان کا خاندان مالی مشکلات کا شکار ہوگیا۔ تب مفتوں پرائمری تک تعلیم حاصل کرچکے
تھے اور مڈل میں قدم رکھا ہی تھا کہ گھریلو معاشی مشکلات کے پیش نظر انھیں تعلیم
ادھوری چھوڑنا پڑی اور وہ حافظ آباد ہی میں ایک بزاز کے ہاں پانچ روپے ماہانہ پر
ملازم ہوگئے۔یہ ملازمت دو سال تک جاری رہی۔اس کے بعد فیروز پور کے سول اسپتال میں
کمپاؤ نڈر کی نوکری حاصل کرلی اور چھے روپے ماہانہ مشاہرہ ملنے لگا۔فیروز پور ہی
میں انھوں نے آنکھوں کے مشہور معالج ڈاکٹر متھرا داس سے موتیا بند کا آپریشن کرنے
کی تعلیم حاصل کی اور ان کے زیر نگرانی
مشق کرتے تھے۔جب اس میں طاق ہوگئے اور خود اعتمادی پیدا ہوگئی تو مانسہ (ریاست پٹیالہ) میں پریکٹس
شروع کردی۔یہاں وہ مریضوں کے موتیا بند کے آپریشن کرتے تھے اور ماہانہ تین چار سو
روپے کما لیتے تھے۔انھیں اس اوائل عمری ہی میں اخبارات پڑھنے اور لکھنے کا شوق
پیدا ہوگیا تھا۔ایک دن انھوں نے ایک مضمون لکھا اور اسے شیر سنگھ فیروز پوری کے
فرضی نام سے لاہور کے ہفتہ وار ''خالصہ اخبار'' کو بھیج دیا۔وہ مضمون چھپ گیا۔اسی
نام سے دو تین اور مضمون بھی اس پرچے میں شائع ہوئے تو اخبار کے ایڈیٹر بھائی مول
سنگھ نے ان کو خط لکھا کہ ''کیا آپ مستقل طور پر خالصہ اخبار کی ایڈیٹری کی ذمے
داری لینے کو تیار ہیں؟اگر جواب اثبات میں ہے تو کیا تن خواہ لیں گے؟''مفتوں نے
جواب میں لکھا کہ میں تو تین چار سو روپے ماہانہ کما لیتا ہوں۔میری تعلیم معمولی ہے لیکن
مطالعہ کافی ہے اور مجھے لکھنے کا شوق بھی ہے۔بھائی مول سنگھ نے صرف 60 روپے
ماہوار مشاہرے کی پیش کش کی اور مفتوں نے ایک عزیز سے مشاورت کے بعد یہ قبول کر لی۔وہ
صرف چار ماہ ہی اس اخبار کے مدیر رہے۔ان کے کاٹ دار اداریوں نے خالصہ اخبار کو
مقبول بنا دیا مگر ان کی تحریریں حکومت کی نظر میں خلاف قانون ٹھہریں اور ادارے نے
انھیں فارغ خطی دے دی۔صحافتی زندگی کے اس مایوس کن تجربے سے وہ دل برداشتہ نہیں
ہوئے بلکہ وہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے لکھنؤ جا پہنچے اور وہاں روزنامہ ہمدم میں
ایڈیٹر سید بشارت علی جالب دہلوی (ف:جولائی 1930ء) کے زیر سایہ مفت نوکری کرنے
لگے۔گزر بسر کے لیے رات کو ایک میڈیکل اسٹور میں کام کرتے اور دن کو اخبار میں
صحافت کا شوق پورا کرتے۔یہ سلسلہ چھے ماہ چلا اور پھر وہ بیمار پڑ کر لاہور واپس
چلے آئے۔
انھوں نے اپنی سوانح عمری ''ناقابل فراموش'' میں
زندگی کے اس ابتدائی دور میں پیش آنے والے
واقعات کی تفصیل بیان کی ہے اورلکھا ہے کہ انھوں ان سے حاصل ہونے والے اسباق کو پوری زندگی کے
لیے اپنے مشعل راہ بنائے رکھا تھا۔
مفتوں کی صحافت
مفتوں بیس سال کی عمر میں دہلی منتقل ہوئے تھے
اور پھر وہ دہلی والے ہی ہو کر رہ گئے۔پہلے خواجہ حسن نظامی کے اخبار’’ رعیت ''میں
کام کیا۔پھر انھوں نے اپنا مشہور زمانہ ہفت روزہ اخبار ریاست 1924ء میں جاری کیا
تھا۔64 صفحات پر مشتمل''ریاست'' اردو زبان میں شائع ہونے والا باتصویر اخبار تھا اور اس نے ہفت روزہ اخباری صحافت کو
ایک نیا رنگ دیا۔ان کی تحریر کا ایک خاص اسلوب تھا۔وہ اپنی بات کسی لاگ لپٹ کے بغیر سادہ اور
رواں انداز میں کہ دیتے تھے مگر انھیں
پنجابی ہونے کے ناتے ساری زندگی اس بات کا قلق رہا کہ وہ دہلی والوں کی سی زبان
لکھنے کی قدرت حاصل نہیں کرسکے۔اس کا اظہار انھوں نے 1957ء میں ناقابلِ فراموش کی
اشاعت کے وقت ان الفاظ میں کیا تھا:''میں نے کوشش کی کہ میری زبان غلطیوں سے پاک
ہو،مگر ایمان داری کے ساتھ اقرار کرتا ہوں کہ ''بارہ برس دہلی میں رہے، بھاڑ
جھونکتے رہے'' کے مصداق تینتیس برس میں بھی اردو زبان پر قادر نہ ہوسکا۔کیونکہ
اردو میری مادری زبان نہیں اور میرے لیے
یہ ممکن ہی نہ تھا کہ زبان کے لحاظ سے مجھےوہ مرتبہ حاصل ہوتا جو دہلی کے رہنے
والے ایک معمولی تعلیم یافتہ کو بھی حاصل ہے''۔
اس ضمن میں ان کا اپنا ایک نظریہ تھا کہ کوئی غیر
زبان پر چاہے جتنا مرضی عبور حاصل کرلے،وہ اس طرح اپنا مدعا بیان نہیں کرسکتا جس
طرح اہلِ زبان کرسکتے ہیں۔''ناقابل ِ فراموش'' کے بالکل آغاز میں انھوں نے مولانا
محمد حسین آزاد کی مثال بیان کی ہے جو دہلی میں پیدا ہوئے تھے اور گورنمنٹ کالج
لاہور میں فارسی کے پروفیسر رہے تھے مگر جب وہ ایران کے دورے پر گئے تو اپنے
میزبان کے گھر چولھے پر اُبلتی ہوئی دیگچی کی کیفیت بیان کرنے سے قاصر رہے تھے۔اس
اثناء میں ایک چھوٹی بچی دوڑتی ہوئی آئی اوراپنی اماں کو متوجہ کرتے ہوئے بولی: ''
اماں ۔۔۔۔دیگچی سرکردہ'' ۔یوں اس بچی نے مرحوم پروفیسر صاحب کی فارسی دانی اور
فصاحت وبلاغت کی جھاگ بٹھا دی تھی اور وہ ایران میں اپنی فارسی دانی کا سکہ بٹھائے
بغیر ہندوستان لوٹ آئے تھے۔
ناقابلِ فراموش پر ایک نظر
ناقابلِ فراموش دیوان سنگھ مفتوں کی آپ بیتی ہی
نہیں، جگ بیتی بھی ہے۔انھوں نے زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو بلا کم وکاست
بیان کردیا ہے۔اس میں راجوں ،مہاراجوں کے قصے
ہیں اور ادیب وشاعروں کی کہانیاں بھی۔اس میں ایک عام آدمی کے واقعہ کو اتنی ہی
تفصیل سے بیان کیا گیا ہے،جتنی تفصیل سے کسی سیٹھ ،ساہوکار یا کسی بڑے آدمی کا ذکر
ہے۔مفتوں صاحب نے اس میں اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ بیان کیا ہے۔ایک جگہ ملا
واحدی کے ساتھ ان کا مکالمہ ہوتا ہے اور وہ کامیاب آدمی کے بارے میں اپنا نظریہ یہ
بیان کرتے ہیں:'' میں کامیاب آدمی اس شخص کو سمجھتا ہوں کہ جب وہ مرے تو چند لاکھ
روپیہ نقد چھوڑے اور مرنے کے بعد چند ہزار آدمی اس کے جنازے کے ساتھ ہوں''۔وہ مزید
کہتے ہیں کہ ''انسان کی کامیاب زندگی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سخت محنت کا عادی
ہو''۔انھوں نے یہ بات محض قول کی حد تک نہیں کہی تھی بلکہ ساری زندگی اس کو نبھایا
بھی اور ہمیشہ سخت محنت کی،مشکلات جھیلیں،بھوک وننگ برداشت کی لیکن ان کے پائے
استقلال میں لغزش نہیں آئی اور وہ اپنے مشن میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔انھوں نے
کتاب میں بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بلند کرداری کا ذکر کیا ہے اور
اپنے ایک دوست کے حوالے سے لکھا ہے کہ مہاتما گاندھی جناح صاحب کی ان کے کردار کی
وجہ سے بہت عزت کرتے تھے لیکن کانگریس میں موجود انگریز کے ٹوڈیوں کو اچھا نہیں
جانتے تھے۔
جذباتِ مشرق
دیوان
سنگھ مفتوں کی وجۂ شہرت عام طور پر’’ ناقابلِ فراموش ‘‘بیان کی جاتی ہے لیکن ان
کی دوسری کتاب ’’جذباتِ مشرق‘‘ بھی کسی طور کم نہیں۔ اس کا بھی بڑا ادبی مقام ہے
اور کرشن چندر نے اس کو مشرقی شاعری کے حسین ترین مرقعوں کا مجموعہ قرار دیا
ہے۔ڈاکٹر سیّد محی الدین قادری زور پروفیسر اردو جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن نے اس کتاب پر اپنی تقریظ میں لکھا کہ ’’سردار
دیوان سنگھ مفتوں نے اپنی صحافتی اور سیاسی مصروفیتوں کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق کو کس
خوش اسلوبی سے جاری رکھا‘ اس کا ثبوت ان ہندی، پنجابی اور ہندوستانی نظموں اور ان
کے ترجموں سے ظاہر ہوگا‘ جو اس مجموعے میں شریک ہیں۔ اس مجموعے کی متعدد نظموں کی
زبان دکن کے قدیم شعراء شاہ برہان الدین جانم، محمدقلی قطب شاہ ،وجہی، غواصی،
نصرتی اور علی عادل شاہ ثانی کی زبان سے بہت قریب ہے اور ان کے مطالعہ سے مجھے بہت
سے ایسے لفظوں کا مطلب اور مفہوم معلوم ہو گیا جو میں ان قدیم دکنی شاعروں کے کلام
میں اب تک نہ سمجھ سکا تھا‘‘۔
’’جذباتِ
مشرق‘‘ پہلی مرتبہ 1960ء میں شائع ہوئی تھی۔ مفتوں کی آغا شورش کاشمیری سے گاڑی چھنتی تھی ۔چناں چہ انھوں نے پاکستان میں
اس کتاب کو چھاپنے اور شائع کرنے و غیرہ کے تمام حقوق حضرت آغا شورش کاشمیری
ایڈیٹر رسالہ چٹان لاہور کے نام وقف اور محفوظ کردیے تھے۔
دیوان
سنگھ مفتوں اپنے اخبار ریاست میں جذبات مشرق کے عنوان سے ہندی برج بھاشا، بہاری یا پوربی کے چند ایسے اشعار باقاعدہ خوش خط اور
اعراب لگا کر مع ترجمہ شائع کرتے جن سے
پڑھنے والوں کو ہندوستان کی علاقائی اور عوامی زبانوں کی شاعری کے ٹھاٹ کا علم
ہوتا ۔کبھی کبھی پنجابی اور فارسی زبان کے بعض ٹپے اور اشعار بھی درج کیے جاتے
تھے۔ مفتوں نے ہندوستان کی قدیم زبانوں
میں اشعار کے ترجمے کے لیے کئی پنڈتوں کی خدمات
بھی حاصل کررکھی تھیں۔ مولانا عبدالمجید سالک کے بقول یہ فیچر ہر اعتبار سے
بے حد دلفریب اور دلکش سمجھا جاتا تھا۔ جذباتِ مشق میں بعض عربی اشعار بھی دیے گئے
ہیں جن سے ان کے عربی زبان سے شغف کا اندازہ ہوتا ہے۔یہاں مشتے نمونہ از
خروارے دو اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔
اس
کے صفحہ 67 پر بابا فرید کا ایک شعر درج ہے اور اس کا عنوان مفتوں نے ’موجودہ
دور کے مکار صوفی‘ لکھا ہے۔ شعر کچھ یوں ہے ۔؎
کندھ
مصلّا صوف گل دل کاتی گڑ وات
باہر دسے چاننا دل اندھیاری رات
ترجمہ
: بابا فرید فرماتے ہیں کہ موجودہ دور کے صوفیوں کی حالت یہ ہے کندھے پر تو نماز
پڑھنے کا مصلا اٹھائے پھرتے ہیں گلے میں کفنی پہنے ہوتے ہیں ۔دل ان کے چھری کی طرح
ہوتے ہیں اور باتیں گڑ کی طرح شیریں۔ یہ پیرانِ طریقت باہر سے تو بہت روشن نظر آتے
ہیں مگر ان کے دل ایسے سیاہ ہیں جیسے اندھیری رات۔
عربی
شعر :زمین کا چاند
لو
قيل للبدر من فى الارض تحسده
واذا
تجلى لقال بنت الفلانى
ترجمہ:
اگر چودھویں رات کے چاند سے اس وقت جب کہ وہ پوری درخشانی پر ہو دریافت کیا جائے
کہ زمین پر کس سے حسد رکھتا ہے تو وہ فوراً تمھاری طرف اشارہ کر کے کَہ اٹھے گا کہ
فلاں لڑکی سے۔
ریاست
میں بیشتر تحریریں مفتوں صاحب ہی کی ہوتی تھی اور وہ اپنے مخصوص انداز میں حالاتِ
حاضرہ پر تبصرہ کرتے اور تنقید و طنز کے نشتر
چلاتے تھے۔ ان کی تحریر کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے۔پانچ مئی 1928 کا شمارہ
ہمارے سامنے ہے۔ اس میں ایک شذرہ انھوں نے
’جاں نثاری کا پھل‘ کے عنوان سے لکھا ہے:
’’
گذشتہ جنگ عظمیٰ میں ہندوستان نے برطانیہ کی جس کشادہ دلی سے مدد کی تھی ،اس سے
دنیا اچھی طرح واقف ہے۔ مالی امداد کے علاوہ ہندوستانیوں نے اپنی جانوں سے بھی
دریغ نہ کیا۔ برطانیہ کے دیگر مقبوضات کے مقابلہ میں ہندوستان نے اس جنگ میں جو
حصہ لیا، جتنی جانیں اس ملک کی تلف ہوئیں، اس کا اندازہ امپیریل وار گریوز کمیٹی
کی آٹھویں سالانہ رپورٹ کے اعداد و شمار سے ہو سکتا ہے۔ اس رپورٹ کا بیان ہے کہ
یورپ اور ایشیا کے مختلف میدان جنگ میں 62327 ہندوستانی کام آئے ۔اس اعتبار سے
برطانیہ اور آئرلینڈ کے بعد دوسرا نمبر ہندوستان کا ہے کیونکہ برطانیہ کی عزیز
ترین بیٹی کناڈا (کینیڈا)نے اپنی اماں جان
پر جتنی جانیں قربان کیں، وہ ہندوستان سے بقدر 5514 کم ہیں اور آسٹریلیا بھی اپنی
جاں نثاری میں 2787 جانوں سے پیچھے رہا ۔نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور نیو
فاؤنڈلینڈ نے 25 ہزار آدمی نذرکیے ۔باقی کل برطانوی مقبوضات
نے مل کر 50 ہزار 573 جانیں نچھاور کیں۔
ہندوستان
کی اس عظیم الشان قربانی کا جس قدر احساس برطانیہ کو ہوا وہ اس کے تمام موجودہ طرز
عمل سے ظاہر ہے ۔چناں چہ اس احسان کا پہلا شکریہ رولٹ ایکٹ کے ذریعے سے ادا کیا
گیا تھا‘‘۔
مفتوں
معاصرین کی نظر میں
جوش ملیح آبادی
''میرے مخلص ترین
دوست سردار دیوان سنگھ مفتوں ہماری قدیم وضع داری ،ہماری قدیم شرافت ،ہماری قدیم
دریادلی اور اخلاقی جرأت کی ایسی عظیم یادگار ہیں کہ اگر ہماری قوم اندھی نہ
ہوچکی ہوتی تو ان کو اسی احتیاط کے ساتھ رکھا جاتا،جس احتیاط سے حکومتیں اپنے آثار
قدیمہ کو برقرار رکھتی ہیں''۔
ڈاکٹر محمد دین تاثیر
''دیوان سنگھ مفتوں ایڈیٹر ''ریاست'' کا جہاں
کہیں ذکر چھڑ جائے،نہایت ہندوستانی قسم کی بحث کا آغاز ہوجاتا ہے۔گرما گرم بحث ،جس
میں ہر کوئی دوسرے کی سنے بغیر اپنی کہے جاتا ہے۔مفتوں کے یاروں کا حلقہ دولت مندی
کے دنوں سے لے کر اب تک نہایت متنوع رہا ہے،سرکاری افسر ،مفرور قیدی ،رند مزاج
ادیب ۔سادھو منش فرنگی ،ہر طرح کے ہندو ،مسلمان ،سکھ ،عیسائی اور دہریے اس میں
شامل ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا دیوان سنگھ مختلف ہے۔وہ کوئی گہرا فلسفی یا
سیاست دان نہیں،وہ جو کچھ کہتا یا کرتا ہے،ہرکسی کی سمجھ میں آسکتا ہے،مگر وہ جو کہتا
ہے،وہی کرتا ہے اور جو کرتا ہے،اسے برملا بیان کردیتا ہے''۔
علامہ نیاز فتح پوری
''وہ بڑے بذلہ سنج انسان ہیں اور غم وفکر کو کبھی اپنے پاس نہیں آنے دیتے۔وہ فطرتاً بڑے بے باک ،آزاد
،صاف گو انسان ہیں۔دل وزبان کی ہم آہنگی میں نے کم کسی میں دیکھی ہے۔وہ بڑے اچھے
اور سچے دوست ہیں لیکن اسی حد تک خطرناک دشمن بھی۔وہ بڑے مضبوط کردار کے انسان ہیں
اور ایک بار جس سے جو تعلقات قائم ہوگئے،وہ ہمیشہ نبھاتے ہیں لیکن وہ مار آستین کو
کبھی معاف نہیں کرتے اور جب تک اس کا سر نہ کچل دیں،پیچھا نہیں چھوڑتے''۔
اخبارات کے مدیروں کے لیے نصیحت نامہ
ناقابل
فراموش کے آخر میں دیوان سنگھ مفتوں صاحب نے سیاسی لیڈروں کے لیے سترہ نکات پر
مبنی ہدایت نامہ لکھا ہے اور اخبارات کے مدیروں کے لیے بارہ نکات پر مشتمل نصیحت
نامہ جاری کیا ہے۔یہ ان کے تجربات کا نچوڑ ہے اور بڑے دلچسپ پیرائے میں انھوں نے
لکھا ہے۔ان میں چند ایک دلچسپ نکات یہ ہیں:
1۔ایک کامیاب ایڈیٹر کے لیے ضروری ہے کہ اس کی کرسی پر سریش قسم کی
کوئی چیز چپکنے والی لگی ہو تاکہ وہ اس کرسی پر ہمیشہ بیٹھا رہے اور زیادہ سے
زیادہ کام کرسکے۔
2۔اخبار کے ایڈیٹر کو چاہیے کہ وہ کسی بھی لیڈر سے دوستانہ تعلقات
نہ رکھے تاکہ نامعلوم کب اس لیڈر کی مخالفت کرنی پڑے اور لیڈر کی دوستی اس کی راہ
میں مخل ہو۔
3۔ اخبار کے ایڈیٹر کو چاہیے کہ وہ شادی نہ کرے تاکہ بیوی ،بچوں کی
فکر سے قطعی آزاد رہے۔
4۔جو اخبار سرکاری اشتہار لینا چاہیں،ان کے لیے مناسب ہے کہ وہ پبلک
کے احساسات کی پروا نہ کرتے ہوئے صوبے کے وزراء کی پورے زور سے حمایت اور تعریف
کریں اور ان وزراء کے مخالفین کی مخالفت کرتے رہیں۔
5۔چھوٹا اخبار ہو یا بڑا ،اسے چاہیے کہ وہ فلم ایکٹرسوں کی نیم
عریاں تصاویر ضرور شائع کرے کیونکہ ان تصاویر کے ذریعے اخبار اپنے پڑھنے والوں کی
جنسی خدمات انجام دے گا۔
6۔چھوٹے اخبارات اپنے اندر دل چسپی پیدا کرنے کے لیے پانچ ،دس
،پندرہ برس پہلے کے شائع شدہ مضامین اور افسانے پھر چھاپ سکتے ہیں کیونکہ ان کے
پڑھنے والوں کو کچھ یاد نہیں رہتا کہ وہ یہ مضمون پہلے پڑھ چکے ہیں۔
[1]
حسن اتفاق سے
بیسیویں صدی کے اوائل میں نمایاں ہونے والے بیشتر صحافیوں ،ادیبوں اور
دانشوروں کا ضلع گوجرانوالہ ،سیال کوٹ یا
پھر گجرات سے تعلق تھا۔ان میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ،مولانا ظفرعلی خان،منشی
پریم چند ،منشی محبوب عالم (پیسہ اخبار) اس زمانے کی نمایاں شخصیات ہیں۔
[2]
حافظ آباد سوا
ایک صدی کے بعد اب ایک بڑا شہر بن چکا ہے۔وہ پہلے گوجرانوالہ کی تحصیل تھا۔اب وہ خود ضلع
بن چکا ہے اور گوجرانوالہ ڈویژن میں شامل ہے۔
[3]
مالک رام
،تذکرہ معاصرین ،جلد سوم صفحہ 186
I think it is a thesis about the said personality,and excellent deep insight,very good way of writing.stay blessed
جواب دیںحذف کریں