امتیازاحمدوریاہ
پاکستان میں عدلیہ
اور بالخصوص اعلیٰ عدلیہ میں جج
صاحبان کے تقرر کیسے ہوتے ہیں؟ اس کا میرٹ
یا معیار کیا ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت کے لیے ایک حالیہ مثال بالتفصیل پیش کی جاتی ہے ۔ اس کو پڑھیے اور سر دھنیے۔شرمسار
بالکل نہیں ہونا ، شرم تو ان کو آنی چاہیے جو یہ تقرر کرتے ہیں یا جو مقرر ہوتے
ہیں لیکن شاید ان میں شرم و حیا نام کی کوئی صفت توسرے سے ہے ہی
مفقود۔ اگر شرم و حیا ہوتی تو ملک و قوم اس حالت کو نہیں پہنچتے اور قانون کی
حکمرانی میں 142 ممالک میں ہمارا 130 واں
نمبر نہیں ہوتا ۔اوپر سے ہم مسلمان بھی ہوتے ہیں اور قرآن مجید نے ہمیں یہ حکم دیا ہے:’’لوگوں
میں عدل سے فیصلہ کرو‘‘۔نیز ’’عدل کرو،یہ تقویٰ کے قریب تر ہے‘‘۔
تو جناب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں ہمارے ایک جج صاحب ہوتے ہیں جناب جسٹس طارق محمود جہانگیری صاحب۔ حال ہی میں سوشل میڈیا میں ان کی قانون کی ڈگری کا معاملہ اجاگر ہوا ہے کہ انھوں نے ایل ایل بی کہاں سے کیا
تھا ؟کیا بھی تھا یا نہیں۔
جب یہ چہ میگوئیاں شروع ہوئیں تو ایک شہری کہ نام جن کا عرفان مظہر ہے اور کراچی کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے گورنمنٹ اسلامیہ
لا کالج کراچی کو ایک درخواست دی جس کے
جواب میں جناب پرنسپل صاحب نے 21 جون 2024ء کو ایک خط جاری
کیا ہے۔ پروفیسر معین اظہر صدیقی صاحب
پرنسپل گورنمنٹ اسلامیہ لا کالج کی جانب سے جاری کردہ اس خط کے مضمون کا عنوان ہے:آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 /1 کے تحت اور سندھ ٹرانسپیرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ
2016 کے تحت عوامی معلومات کی درخواست۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ’’ ڈیئر عرفان مظہر صاحب آپ
کی درخواست محررہ 10 جون 2024 کے جواب میں
یہ مطلع کیا جاتا ہے کہ مسٹر طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم اس کالج میں 1984 سے
1991ء تک کبھی بھی ایل ایل بی کے پروگرام
میں داخل نہیں رہے تھے۔ یہ اطلاع معلومات کے حق کے قواعد و ضوابط کے تحت جاری کی
جا رہی ہے ‘‘۔ اس کی ایک ایک نقل جناب چیئرمین سندھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کراچی اور رجسٹرار جامعہ کراچی کو بھیجی گئی ہے۔
اب ہم جناب جسٹس طارق محمود جہانگیری کے اسلام آباد ہائی کورٹ کی ویب گاہ پر جاری کردہ کوائف نامے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔اس کے مطابق وہ جولائی 1965ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ سے ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم پشاور میں حاصل کی۔ 1979ء میں وہ اسلام آباد منتقل ہوگئے اور اسلام آباد ماڈل کالج، سیکٹر ایف 8/4، گارڈن کالج راول پنڈی اور فیڈرل گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج ایچ 8 اسلام آباد سے تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے جامعہ کراچی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ جناب جسٹس طارق محمود جہانگیری نے راول پنڈی میں جناب جسٹس سردار محمد اسلم (مرحوم) کے ساتھ اپنی اپرنٹس شپ کی۔پھر نچلی عدالتوں کے وکیل کی حیثیت سے ان کا اندراج ہوا اور سال 1992 ء میں اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی رکنیت حاصل کی۔ وہ 1994 میں ہائی کورٹ کے وکیل اور سال 2008 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل بنے۔ انھوں نے 1992 میں اسلام آباد میں اپنی لا فرم "جہانگیری لا ایسوسی ایٹس" قائم کی ۔عزت مآب جناب جسٹس طارق محمود جہانگیری اپنے کیریئر کے دوران میں ایک ماہر وکیل کی حیثیت سے کئی اہم عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔ وہ 2016-17 میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر، 2005-06 میں اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور 2002-03 میں اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے تھے۔ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ جنرل، 2018-19 میں اسلام آباد ہائی کورٹ، 2011 سے 2013 تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈپٹی اٹارنی جنرل اور 2009-10 میں قومی احتساب بیورو ،راول پنڈی/ اسلام آباد ریجن میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ فوجداری، سول، آئینی، لیبر اور سروس قوانین میں انھیں مہارت حاصل۔ انھیں 30 دسمبر 2020 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تھا‘‘۔
اب موازنے کے لیے
عدالتِ عالیہ اسلام آباد ہی کے ایک اور جج صاحب کا کوائف نامہ ملاحظہ کیجیے:’’عزت
مآب جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب کا تعلق خیبر پختونخوا کی وادی ِ سوات سے ہے۔ وہ
14 ستمبر 1970 کو پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے
اپنی ابتدائی تعلیم پبلک اسکول سنگوٹا، ضلع سوات سے حاصل کی۔ 1980ء کے عشرےمیں انھوں نے آرمی برن ہال اسکول ایبٹ آباد سے تعلیم حاصل
کی جہاں سے انھوں نے 1988ء میں سینیر کیمبرج/او لیول کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے اسلام آباد میں واقع فروبلز انٹرنیشنل اسکول میں داخلہ لیا جہاں سے انھوں نے 'اے' لیول کی ڈگری حاصل کی۔ 1991ء میں انھیں
یونیورسٹی آف ویلز، کالج آف کارڈف، برطانیہ میں ایل ایل بی (آنرز) کرنے کے لیے
فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس (ایف سی او) اسکالرشپ سے نوازا گیا۔ 1994 میں قانون کی
ڈگری حاصل کرنے کے بعد ، وہ لنکنز ان چلے گئے جہاں 1995 میں بار آف انگلینڈ اینڈ
ویلز میں ان کا اندراج ہوا۔ اس کے بعد انھوں
نے اسکول آف اورینٹل اور افریقن اسٹڈیز (یونیورسٹی آف لندن) سے کارپوریٹ
اور کمرشل لامیں ایل ایل ایم کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ پاکستان واپس آئے اور
1996 میں سوات ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں بہ طور وکیل ان کا اندراج ہوا۔ 1997 ء میں انھوں نے ہائی کورٹ کے وکیل کے طور پر اپنا اندراج
کرایا۔ 2008ء میں وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل بنے۔ جسٹس اورنگ زیب 18 سال تک قانون کی پریکٹس کر تے رہے تھے۔ وہ حفیظ پیرزادہ لا ایسوسی ایٹس میں ایسوسی ایٹ
کاؤنسل کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انھوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں وکیل کی حیثیت سے آزادانہ طور پر پریکٹس کی۔ وہ بین الاقوامی ثالثی کی عدالتوں اور ان کی کارروائیوں میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ جسٹس اورنگزیب کو 23
دسمبر 2015 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا تھا اور انھوں نے 20 دسمبر 2016 کو مستقل جج کی حیثیت سے حلف
اٹھایا تھا‘‘۔
دونوں جج صاحبان کا کوائف نامہ پڑھنے کے بعد کیا فرق محسوس ہوا؟ کچھ پتا چلا۔ جناب جج جہانگیری کے کوائف نامہ سے کچھ معلوم نہیں ہورہا ہے کہ انھوں نے کب اور کس سن میں میٹرک ، ایف اے ، بی اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں جبکہ جناب جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب کے کوائف نامہ میں سن وار یہ تمام تفصیل موجود ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
عالمی انصاف پراجیکٹ کے سال 2023ء کے اشاریے کے مطابق پاکستان قانون کی حکمرانی کی درجہ بندی میں دنیا بھر کے 142 ممالک میں سے 130 ویں نمبر پر ہے۔ علاقائی سطح پر پاکستان جنوبی ایشیا کے چھے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔پہلے نمبر پرنیپال (عالمی سطح پر 142 میں سے 71 واں نمبر) ہے، اس کے بعد سری لنکا اور بھارت ہیں۔ اس خطے میں سب سے کم اسکور رکھنے والے تین ممالک بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان ہیں۔ طالبا ن کے افغانستان کا عالمی سطح پر قانون کی حکمرانی میں 140 واں نمبر ہے۔گذشتہ سال جنوبی ایشیا کے چھے میں سے پانچ ممالک میں قانونی کی حکمرانی کے اشاریوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔کم متوسط آمدنی والے ممالک میں پاکستان 37 میں سے انتیسویں نمبر پر ہے۔ ان ممالک میں الجزائر، انگولا، بنگلہ دیش، بیلیز، بینن، بولیویا، کمبوڈیا، کیمرون، آئیوری کوسٹ، مصر، السلواڈور، گھانا، ہیٹی، ہونڈوراس، بھارت، انڈونیشیا، ایران، کینیا، جمہوریہ کرغیز ستان ، موریطانیہ، منگولیا، مراکش، میانمار، نیپال، نکاراگوا، نیجیریا، پاکستان، فلپائن، جمہوریہ کانگو، سینی گال، سری لنکا، تنزانیہ، تُونس ، یوکرین ، ازبکستان ، ویت نام ، زیمبیا ، اور زمبابوے شامل ہیں۔
چلیں ۔ہم فرض کرلیتے ہیں کہ جج صاحب کی قانون کی ڈگری اصلی ہے لیکن کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے سے پہلے ماضی میں سندھ میں قانون کی تعلیم کا قصہ بھی ملاحظہ کیجیے۔ جب جج جہانگیری صاحب کہیں، کسی لاکالج میں زیر تعلیم رہے ہوں گے ، تو اس زمانے میں یہ مشہور تھا کہ جس کو قانون کی ڈگری لینا ہے، وہ کراچی یا حیدرآباد چلا جائے اور وہاں امتحانی مراکز میں ایک دن پہلے ہی یہ پتا چل جاتا تھا کہ ایل ایل بی کا آج کا پرچہ کس گائیڈ سے آ رہا ہے ،نیلی سے یا لال سے یا پیلی سے ۔ اس طرح پہلے ہی پرچے آؤٹ ہوجاتے تھے اور پنجاب یا دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد جب اپنے مقامی شہر میں لا کی ڈگری نہیں حاصل کر سکتا تھا تو وہ سندیافتہ ہونے کے لیے کراچی یا حیدرآباد کا رُخ کرتا تھا۔سستا زمانہ تھا، ان شہروں میں وہ 500 یا ایک ہزار روپے فی پرچہ دے کر کمرا امتحان میں اپنی علمیت کے جوہر دکھاتا اور یوں ڈگری والا وکیل بن جاتا تھا۔ پھر یہی جعلی،نیم جعلی ،نقل یافتہ ڈگریوں والےترقی کرتے کرتے ملک میں جج یا اعلیٰ عہدے دار بن گئے ۔ ایسے ججوں نے کیا فیصلے کرنے ہیں اور قانون پر کیا عمل درآمد کرنا ہے؟ یہ ہے ہماری شاندار عدلیہ کی مختصر کہانی اور ہم ایسے ہی تو 130 ویں نمبر تک نہیں پہنچے جناب۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں