امتیاز احمد وریاہ
پیارے
پڑھنے والو!جناب مرزا جہلمی اجہل الجاہلین اور آفت کا پرکالہ ہیں۔ جو بات
پورا مضمون ثبت کرنے کے بعد لکھنا تھی ، وہ ہم نے ابتدا ہی میں
لکھ دی ہے تاکہ جو پوری تحریر نہیں پڑھنا چاہتا،اس کو حاصل کلام کا پتا چل جائے اور کہانی کا سبق پردۂ
اخفا میں نہ رہے ۔تو عرض یہ ہے کہ ہم ایسے نیم جاہلی معاشروں میں گل
افشانی گفتار کے فن کا مظاہرہ کرنے والوں کا دھندا خوب چل
نکلتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایسی ’’جلیل
القدر‘‘ ہستیاں ’’ مستند
ہے،میرا فرمایا ہوا ‘‘ کے عالی شان
منصب پر خود ہی فائز ہوجاتی ہیں۔ہمارے مرزا جہلمی بھی
کچھ ایسے
واقع ہوئے ہیں۔ وہ
محض طلاقت لسانی کا کھٹا خوب کھا
ر ہے ہیں۔اسی کی بدولت ان کی شہرت چاردانگ عالم ہے اور نیم خواندگان انھیں ملک کا سب سے بڑا عالم گردانتے ہیں۔
ہمارے ایک بزرگ
محترم نے ’’کتاب چہرہ‘‘ پر ایک کلپ کا اشتراک کیا ہے۔اس میں
مرزا کے دو تین
وڈیو کلپ شامل ہیں۔ ان میں مرزا جی تاریخی زقند لگاتے ہوئے جلیل القدر صحابیِ رسول حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کے بارے
میں اظہار خیال کررہے ہیں اور
انھیں محض چھے سال کی عمر میں جلیل القدر بزرگ صحابہؓ کا امام بنا دیا ہے جبکہ حضرت معاذؓ نے 18 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا
تھا۔ حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم نے جب
انھیں یمن کا امیر اور معلم بنا کر بھیجا تو اس وقت مرزے کے حساب کے
مطابق ان کی عمر کوئی گیارہ ،بارہ سال ہی ہونی چاہیے۔یہ بھی ذہن نشین
رہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ بن عمرو بن اوس بن عائذ
الانصاری نے جس وقت اسلام قبول کیا، اس
وقت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ہجرت نہیں فرمائی تھی۔ یہ مدینہ سے مکہ مکرمہ
میں جاکر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے اور بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے ستر
جلیل القدر مدنی صحابہؓ میں سے ایک تھے۔ آپ ؓ کا شمار مجتہد اور فقیہ
صحابہؓ میں ہوتا ہے۔آپ رضی اللہ
عنہ نے سنہ 18ھ میں حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 36سال کی کم عمر میں
وفات پائی تھی۔اس حساب سے آپ کا سنِ پیدائش خاتم النبیین ﷺ کو نبوت ملنے سے پانچ سال قبل بنتا ہے۔گویا
جس وقت آپ ﷺ کی عمر 35 سال تھی تو اس کے لگ بھگ حضرت
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی
ہوگی۔ جس علاقے میں آپ ؓ مدفون ہوئے، وہ اس وقت اردن میں واقع ہے۔
آمدم
برسر مطلب ۔مرزا علی جہلمی جی کم
وبیش روزانہ بغیر کسی تیاری اور مطالعے کے یوٹیوب پر ایک آدھ وڈیو کھڑکا دیتے ہیں۔اس مقصد کے لیے
موصوف نے باقاعدہ اسٹوڈیو اور دفتر شفتر سجا
رکھا ہے جہاں کم یا طویل دورانیے
کی وڈیوز مکمل ’’سرخی پاؤڈر ‘‘کے ساتھ تیار کی جاتی ہیں۔ان کے موضوعات بالعموم امت
میں انتشار وافتراق ہوتے ہیں یا پھر وہی
موضوعات جو ایسے ’’اَ ن پاڑھ‘‘ مولویوں کا وتیرہ‘‘ ہیں ۔یعنی کسی گزرے ہوئے عالم
کی کوئی کتاب نکالی،سیاق وسباق سے ہٹ کر
اس کی عبارت پڑھی اور پھر اس پر لب کشائی شروع کردی۔ یہ جانے اور دیکھے بغیر
کہ موضوع گفتگو کا عام آدمی سے کوئی تعلق
ہے بھی یا نہیں ۔گذشتہ دنوں موصوف ایک وڈیو میں امام ابو حامد محمد غزالیؒ ( متوفیٰ 505ھ) پر تنقید فرما رہے تھے۔اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے: ذات دی کوڑھ کرلی تے شہتیروں نے
جپھے۔کہاں گنگوا تیلی اور کہاں
راجا بھوج(Bhoj) ۔ پاکستان میں علم وفلسفے اور دین وتصوف پر یہ کڑا دور بھی آنا تھا۔
حد تو یہ ہے کہ ہمارے نوآموز اور نامی یوٹیوبر حضرات محض ویوز کے چکر میں مرزا جہلمی سے مصاحبوں کے لیے ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ آئے دن موصوف کا
انٹرویو کرنے جہلم میں ان کے درِ دولت
پر پہنچے ہوتے ہیں ۔ شاید ان کی
صحافت کی معراج یہی ہے۔گذشتہ دنوں تو ہمارے کئی معروف صحافی اور اینکر حضرات بھی مرزا جی
کے ساتھ مصاحبے
( انٹرویو ) کے لیے اپنے لاؤ لشکر
سمیت جہلم کے چکر کاٹ
رہے تھے۔شاید ان کی صحافت جان کنی کے عالم میں تھی یا کوئی اور موضوع ان کے
پاس گل افشانی گفتار کے لیے رہا نہیں تھا
یا پھر اگر وہ مرزا کا انٹرویو نہیں چلاتے
تو ان کے ٹی وی چینل بند ہونے کا اندیشہ تھا یا انھیں اداروں
سے فارغ خطی کی دھمکیاں مل رہی تھی۔
مرزا جی کی مدح سرائی کرنے والوں میں اہلِ تشیع کے ایک
یوٹیوبر مولوی جواد نقوی بھی پیش پیش
ہیں۔خود اہل تشیع ہی کے
سخت گیر ان پر وہابی شیعہ ہونے کی پھبتی
کستے ہیں۔شیعہ اور وہابی ۔ کیا خوب امتزاج
ہے۔ یوٹیوب پر موجود وڈیو کلپس میں یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کی خوب تعریف
وتوصیف کرتے نظرآتے ہیں اور ان کی ایسی وڈیوز دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اردو میں مستعمل فارسی کی یہ مشہور کہاوت شاید ان
ہی کے لیے وضع کی گئی تھی: مَن تُرا حاجی بَگویَم،
تُو مُرا مُلّا بَگو۔یعنی تم مجھے حاجی کہتے جاؤ ،میں تمھیں ملّاکہتا
جاتا ہوں۔
جناب مرزا جہلمی پر صدقے واری جانے والے صحافیوں
کی وفاشعاری ملاحظہ کیجیے کہ وہ اپنے اس
ممدوح کی خاطر برسوں سے جان پہچان والے
دوستوں یا صحافتی ساتھیوں ہی سے کٹی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔آپ نے باطنی تحریک
اور اس کے پیروکاروں کا ذکر تو کہیں تاریخ میں پڑھا ہوگا۔ یہ موئے خود تو خون
آشامیوں کے بعد مرکھپ گئے مگر اپنے اثرات ہمیشہ
کے لیے چھوڑ گئے۔اب مرزے ایسے جب جب ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ سے بسالیتے ہیں تو
،ان کے پیروکار باطنیوں سے کسی طرح کم نہیں ہوتے۔ اپنے ممدوح پر ذرا سی تنقید پر
مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں ۔یہ ہے ان کی کل مذہبیت اور مذہبی کائنات کی کل حقیقت ۔ اس رویّے کو آپ کیا نام
دیں گے ، انتہا پسندی ، سخت گیری ،
جہالت یا مزعومہ تقویٰ ۔ مگر ٹھہریے تقویٰ کا
تو نام نہ لیجیے کہ اس کا تو ان کے قریب سے شاید کبھی گزر ہوا ہی نہیں
۔ایسے رویّے ہی معاشرے میں درحقیقت انتشار وافتراق کا سبب ہوتے ہیں۔
یہ چند ماہ ادھر کی بات ہے۔ مرزے کے کسی
انٹ شنٹ کلام پر ہم نے ایک تنقید ی پوسٹ ایکس
( سابق ٹویٹر) پر لگا دی۔ پھر کیا تھا کہ ایک مذہبی جماعت کے خود ساختہ مؤید صحافی
صاحب بھڑک بیٹھے۔ ہمیں جلی کٹی سنائیں ۔ان موصوف ہر جگہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دینے کی عادت ہے
اور وہ کسی بڑی سے بڑی علمی شخصیت پر کوئی سا الزام لگانے میں ذرا
دیر نہیں کرتے ۔پھر کیا ہوتا ہے،
سوشل میڈیا پر ان شخصیات کے پیروکاروں اور ان خودساختہ خدائی فوجدار صاحب میں باندر کلّے کا کھیل شروع ہوجاتا ہے اور ہم اس سے خوب محظوط
ہوتے ہیں کہ آج کل تفننِ طبع کے لیے بس یہی ایک ساماں رہ گیا ہے۔ تو جناب آپ بھی ان
خود ساختہ موضوعات پر سنجیدہ اور رنجیدہ ہونے کے بجائے محظوظ ہوا کیجیے۔ یہی زندگی
ہے اور یہی آگے بڑھنے کا رویہ ہے۔
محترم پنجابی الفاظ کا تڑکہ مزہ دے گیا ان جیسے نکو لوگوں کو ایسے ہی رگڑا دینا چاہیے کچھ محققانہ اور کچھ تنقیدی، ویسے گزشتہ کچھ عرصے سے ہم علمی گفتگو یا تحمل و بردباری کے نام پر دبے جاتے ہیں ان منہ چڑے لوگوں کے زور سے ، ان سے دبنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ان جیسوں کو پیشانی سے ہی پکڑنا چاہیے.
جواب دیںحذف کریں