معمر صدر نے کملا ہیرس کو 'نائب صدر ٹرمپ' اور یوکرینی صدر زیلنسکی کو 'پوتین' بول دیا
امریکی صدر جوزف بائیڈن کی زبان کی لغزشوں کا سلسلہ
جاری ہے مگر اپنی ذہنی صحت کے بارے
میں سوالات اٹھنے کے بعد بھی وہ صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ انھوں
نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں پہلے
سوال کے جواب میں نائب صدر کملا ہیرس کو 'نائب صدر ٹرمپ' قرار دے دیا۔
بائیڈن سے پوچھا گیا تھا کہ اگر ہیرس
ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر ان کی جگہ ری پبلکن
صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے دیتی ہیں تو اس پر ان کے کیا خدشات ہیں؟ اس پر بائیڈن نے کہا کہ ''اگر مجھے لگتا ہے کہ میں صدر بننے کا اہل نہیں تو میں نائب صدر ٹرمپ کو نائب صدر کے طور پر
(بہ طور امیدوار) منتخب نہیں کرتا''۔
زبان کی اس لغزش کے باوجود
81 سالہ صدر بائیڈن نے خود کو درست نہیں کیا اور صدارتی انتخابات میں حصہ
لینے کے لیے اپنی امیدواری کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس عہدے کے لیے سب
سے زیادہ اہل اور موزوں شخص ہیں۔البتہ ایسا
لگتا ہے کہ امریکی صدر نے کانگریس میں
ڈیموکریٹس کی اپنے خلاف بڑھتی ہوئی آوازوں
کو تسلیم کیا ہے۔ ایوان نمائندگان کے 19 ڈیموکریٹس ارکان،ڈیموکریٹک پارٹی کو چند ہ دینے
والے ارب پتی امریکیوں اور موقر اخبار
نیویارک ٹائمز کے ادارتی بورڈ نے جو
بائیڈن کی ذہنی صحت کے بارے میں خدشات کے پیش نظر ان سے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے ۔اس پر صدر نے دعویٰ کیا کہ
"یہ خیال غیر معمولی نہیں کہ سینیٹرز
اور کانگریس مین ٹکٹ کے بارے میں فکر مند ہیں''۔ بائیڈن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ کم سے کم پانچ
صدور ایسے ہیں جنھوں نے ان سے کم ووٹ لیے ہیں، تاہم بائیڈن نے ان مخصوص صدور کا نام نہیں لیا۔
اس
سے کوئی ایک گھنٹا پہلے امریکی صدر جو بائیڈن نے کو نیٹو کی ایک تقریب میں غلطی سے یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کو 'صدر
پوتین' کہہ کر مخاطب کر دیا تھا۔ انھوں نے
زیلنسکی کو 'صدر پوتین' کے طور پر متعارف کرایا ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدارتی دوڑ میں حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ روسی صدر ولادی میر پوتین بھی ان
کے اعصاب پر سوار ہیں جو 2022 کے اوائل سے
امریکا کے اتحادی یوکرین کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔تاہم بائیڈن نے فوری طور پر اپنی غلطی کی اصلاح کی جبکہ زیلنسکی نے جو بائیڈن کی غلطی کا مزاحیہ
انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا، "میں [پوتین سے] بہتر ہوں'' مگر بائیڈن نے اس پر کسی پشیمانی کے بجائے کہا کہ
دراصل وہ پوتین کو شکست سے دوچار کرنا
چاہتے ہیں۔اس لیے ان کا نام لیا اور
زیلنسکی کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ تو بہت بہتر ہیں۔
بائیڈن کی اس طرح کی زبان کی لغزشوں
پر19 ڈیموکریٹس ارکان نے ان سے دوبارہ صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ان کی بگڑتی ہوئی ذہنی صحت کے سرعام مظاہر کے پیش نظر ڈیموکریٹس کو یہ
خدشات لاحق ہورہے ہیں کہ وہ اپنے حریف ری پبلکن امیدوار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست نہیں دے سکیں گے۔نیویارک ٹائمز کے ادارتی بورڈ اور کالم نگاروں سے پہلے شکاگو ٹریبییون ، اٹلانٹا جرنل کانسٹی ٹیوشن اور بوسٹن گلوب کے ادارتی بورڈز نے بھی جو بائیڈن سے کہا تھا کہ وہ صدارتی دوڑ سے
دستبردار ہوجائیں ۔
بائیڈن انتخابات سے چار ماہ قبل ہونے والے متعدد جائزوں میں
ٹرمپ سے پیچھے ہیں۔ وہ ریئل کلیئر پالیٹکس
کی پولنگ اوسط میں تین پوائنٹس پیچھے ہیں۔ اے بی سی نیوز / ایپسوس / واشنگٹن پوسٹ
کے ایک سروے میں ان کے 81 فی صد حامیوں کا خیال ہے کہ وہ ایک اور صدارتی مدت کے لیے
بہت بوڑھے ہوچکے ہیں اور صدارت کے لیے اہل
نہیں
رہے ہیں۔ آیندہ صدارتی مدت 2029 میں ختم ہوگی۔تب بائیڈن 86 سال کے ہوں گےمگر
ڈیموکریٹس کے صدارتی دوڑ سے دستبرداری کے مطالبے کے باوجود بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی
انتخابی مہم کو آگے بڑھائیں گے۔اس دوران میں نائب صدر کملا ہیرس صدر بائیڈن کے ممکنہ متبادل کے طور پر ابھرکر سامنے
آئی ہیں، اگرچہ صدارتی امیدوار کے عہدے سے دستبرداری کی صورت میں بائیڈن کی جگہ
لینے کا عمل انتہائی قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔تاہم کچھ قانون ساز کملا ہیرس ہی کو بائیڈن کے ممکنہ
متبادل امیدوار کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔
واضح رہے
کہ جون کے آخر میں دونوں امیدواروں
کے درمیان ہونے والے پہلے مباحثے کے بعد کیے گئے ایک قومی سروے میں ٹرمپ صدر بائیڈن سے آگے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں