امتیازاحمد وریاہ
اب
اربابِ فکر ودانش ہمیں 200 واٹ کے وڈے بلب کی روشنی ڈال کر بتائیں، یہ چوری اور سینہ زوری کس قانون ، آئین
اور دینی ضابطے کے تحت جائز ہے؟شریعت میں اس کی کہاں گنجائش ہے؟یوٹیوب پر مذہب کا فری لانسنگ کاروبار کرنے
والے نیم ملاّ ذرا اس موضوع پر بھی گل افشانی گفتار کا مظاہرہ
کریں ۔انھیں یہ خبر ہو اس طریقے سے
عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے اور برقی رو کے بل ادا کرنے والوں کو دو دو
ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔انھیں کبھی
ازکارِرفتہ موضوعات سے فرصت ملے تو ذرا عوام کے حقیقی معاشی مسائل
پر بھی لب کشائی کریں کہ جائز معاش کا
بندوبست اور عوام کے جان ومال کا تحفظ بھی
دین کا حصہ ہے۔
اب
آگے چلیں۔ اس بل میں ایف سی سرچارج کے نام پر1925 روپے اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ
کے نام پر 2588 روپے شامل ہیں۔ یہ کیا بلا ہیں؟ یہ عقدہ کوئی سمجھائے کہ ہم سمجھائیں
کیا؟بل میں جنرل سیلز ٹیکس کے نام پر4745 روپے اور انکم ٹیکس کے نام پر 2333 روپے
شامل ہیں۔یہ کل 7078 روپے ہوئے۔ یعنی ایک ماہ میں سات ہزار روپے ٹیکس کی مد میں
سرکاری کے خزانے میں جائیں گے۔اس طرح بل جمع کروانے والے ، جی ہاں! صرف بل جمع
کروانے والے محب وطن پاکستانیوں سے ہر ماہ محاصل کی مد میں کروڑوں،اربوں روپے وصول
کیے جاتے ہیں۔جو لوگ بل جمع نہیں کرواتے ،مفت بجلی لیتے ہیں،سرکار سے، یا کنڈا
لگاکر ،ہم انھیں چور اُچکا اور غیر محب وطن سمجھتے ہیں۔اگر مفت بھر اربابِ اقتدار
کو عوام کا خیال ہوتا تو وہ بجلی کے بل بھرتے اور عوام کے دکھ درد میں شریک ہوکر
مفت بجلی لینے سے انکار کردیتے۔خدا لگتی بات کیجیے اور یہ معما سلجھائیے ،ایک اعلیٰ افسر،خواہ وہ منصف ہے یا افسر
شاہ،لاکھوں میں تن خواہ لے رہا ہے اور
سرکار کے کھاتے میں مفت بجلی سے بھی مستفید ہورہا ہے۔
اب
ذرا ان نام نہاد ماہرینِ معیشت اور تبصرہ
نگاروں کا ذکر ِ خیر ہوجائے ، جو سرِشام ٹی
وی چینلوں پر ڈفلی بجانے بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ارے بے
شرموں اس 600 یونٹ کے بل میں بندہ 10 ہزار سے زیادہ ٹیکس کی مدد میں دے رہا ہے،تو یہ
جبری کٹوتی کیا ہے؟اور ٹیکس دینا کسے کہا
جاتا ہے؟اس مہنگی بجلی نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔ایک عام آدمی کا تمام گھریلو
خرچہ بل
کے بل سے کم ہوتا ہے۔تھرمل بجلی پیدا کرنے والی نجی پاورکمپنیوں سے معاہد
تمام سابقہ اور موجودہ ارباب اقتدار،ان سے مذاکرات میں شریک رہنے اور معاہدوں کو حتمی شکل دینے والے افسر شاہی کے نمایندے اس تمام صورت حال کے ذمے دار ہیں بلکہ قصور
وار ہیں۔اس قومی جرم میں شریک ان سب کو تو
بلا امتیاز حَبْسِ دَوام بَعُبُور
دَرْیائے شور کی سزا دی جانا چاہیے۔یعنی
کالاپانی میں جلاوطن کیا جائے لیکن ان بے حمیت لوگوں کو تو اقتدار سے ہٹنے یا ریٹائرمنٹ
کے فوری بعد آسٹریلیا ،نیوزی لینڈمیں جزیرے
الاٹ ہوجاتے ہیں ۔ یہ نہیں تو نیویارک اور لندن میں بیش قیمت فلیٹ مل جاتے ہیں۔ان ہی خدمات کے عوض
۔کیا؟ جی ہاں معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے عوام کے خلاف ریاستی وسائل کے استعمال پر سب انعام واکرام ملتے ہیں۔
ہماری انگریز کی باقیات اشرافیہ کی بے شرمی ، بے حمیتی اور بے حسی ملاحظہ کیجیے کہ عوام پر تو ٹیکسوں کا بوجھ لاد رہے ہیں لیکن اپنی مراعات اور تن خواہوں میں مسلسل اضافے کیے جا رہے ہیں۔ارباب اقتدار وسیاست کے لیے پیٹرول مفت ، بجلی مفت ، فضائی ٹکٹ مفت، رہائش مفت، گاڑیاں مفت جبکہ عوام کالانعام کی قسمت میں ہوشربا مہنگائی اور بجلی کے مہنگے بل۔ عوام کب تک اشرافیہ کی عیاشیوں اور ہمہ نوع اسراف کا بوجھ ڈھوتے رہیں گے؟یاد رہے جو صحافی، اخبار نویس اور بزعم خویش ’’دان شور‘‘ ان سب ناانصافیوں کے باوجود اربابِ اقتدار وسیاست کی مدح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، وہ بھی چوری اور ڈکیتی کی ان سرکاری وارداتوں میں برابر کے شریک ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں