کہتے ہیں کہ عورت کسی بھی ملک سے ہو، اس کو اس بات کی قطعاً پروا نہیں ہوتی کہ اس کا خاوند کیا ہے اور اس کی علمی اور سماجی حیثیت کیا ہے۔ خواہ خاوند کوئی لیڈر ہو، فوج کا جنرل ہو یا کسی مافیا گروپ کا سربراہ ،بیویاں ہمیشہ ایک سا سلوک کرتی ہیں اور ان سے وہی گھریلو برتاؤ کرتی ہیں۔ان کی عام سی کھلی ڈلی بولی،تحکم پسندی اور اپنی بات منوانے کی عادت کبھی ختم نہیں ہوتی اور خاوند بے چارا اپنا سا مُنھ لے کر رہ جاتا ہے ۔
2015 میں
کیمسٹری میں نوبل انعام پانے والے ترک سائنس دان عزیز سنجر کے ساتھ بھی کچھ ایسا معاملہ پیش آیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، نوبل انعام جیتنے کے بعد ایک دن میری بیگم
نے مجھے آواز دی ۔
عزیز
! گھر میں جمع کچرا باہر گلی کے کوڑا دان میں ڈال آئیں۔
میں
نے جواب دیا، میں نوبل انعام یافتہ ہوں۔
اس
نے پھر آواز دی۔
نوبل
انعام یافتہ کیمیا دان عزیز صاحب!گھر میں جمع کچرا گلی کے
کوڑا دان میں پھینک آئیں۔
پس نوشت :ڈاکٹر عزیز سنجر کا تعارف اور
تحقیقی کام
عزیز سنجرمعروف ترک نژاد امریکی حیاتیاتی
کیمیا دان اور مالیکیولر بائیولوجسٹ ہیں۔
وہ 8 ستمبر 1946 ء کو ترکی کے صوبہ مردین کے شہر ساور میں پیدا ہوئے
تھے۔انھوں نے 1969 میں استنبول یونیورسٹی
سے ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی اور 1977ء میں ٹیکساس یونیورسٹی سے مالیکیولر بائیولوجی
میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔وہ چیپل ہل میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا میں
پروفیسر ہیں۔انھوں نے ڈی این اے کی مرمت کے میکانزم پر گراں قدر کام کیا ہے۔وہ خاص طور پر نیوکلیوٹائڈ ایکسیژن کی مرمت پر اپنی
تحقیق کے لیے جانے جاتے ہیں ۔
یہ الٹرا وائلٹ روشنی اور دیگر عوامل کی
وجہ سے ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔انھیں 2015 ء میں پال ایل موڈرچ اور ٹامس لنڈال کے
ساتھ ڈی این اے کی مرمت کے میکانکی مطالعہ پر کیمیا میں مشترکہ
طور پر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ان کے تحقیقی کام میں بتایا گیا
ہے کہ خلیات کس طرح خراب ڈی این اے
کی مرمت کرتے ہیں اور جینیاتی معلومات کو برقرار رکھتے ہیں ۔ یہ تحقیق کینسر کی
روک تھام اور علاج کے لیے بھی ایک اہم پیش
رفت تھی۔ ڈی این اے کو ماحولیاتی عوامل ، جیسے الٹرا وائلٹ تابکاری
اور سگریٹ کے دھویں کی وجہ سے دن کے ہر ایک منٹ میں نقصان پہنچتا ہے۔
ڈاکٹر عزیز سنجرکو دنیا بھر میں ایک ذہین
سائنس دان کے طور پر پہچانا جاتا ہے لیکن ان کا ابتدائی شوق کسی لیبارٹری سے کوسوں
دور تھا۔انھوں نے نوبل انعام پانے کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں بتایا تھا: ’سچی بات یہ ہے کہ، میری زندگی کا بنیادی مقصد ترکیہ کی قومی
ٹیم کے لیے فٹ بال کھیلنا تھالیکن گول کیپر کے طور پر کھیلنے کے لیے میرا قد قریباً
چار انچ چھوٹا تھا‘‘۔انھوں نے بعد کے برسوں میں کبھی اپنے ملک کی قومی ٹیم کے لیے نہیں کھیلا۔ اس کے
بجائے ، انھوں نے اپنے آبائی وطن میں میڈیکل
کی ڈگری حاصل کی ، ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پی ایچ ڈی کی اور 1982 میں شمالی کیرولائنا یونیورسٹی کی
سائنس فیکلٹی میں شمولیت اختیار کی۔
ڈاکٹر عزیز سنجر کا بڑا پن یہ ہے کہ انھوں
نے جامعہ شمالی کیرولائنا میں پریس
کانفرنس میں ان طلبہ
اور ساتھیوں کے معاونتی کردار کا اعتراف کیا
تھا جنھوں نے برسوں ان کے
ساتھ تحقیق میں ہاتھ بٹایا تھا۔ ان میں ان
کی اہلیہ ، گوین ، بھی شامل تھیں جن سے وہ پہلی مرتبہ گریجوایٹ اسکول میں ملے تھے اور
1982 میں کیرولائنا آنے کے بعد 15 سال تک ان کے ساتھ کام کیا تھا۔
ڈاکٹر عزیز سنجر نےامریکا میں مستقل طور پر مقیم
ہونے کے باوجود آبائی وطن ترکیہ
کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات
استوار رکھے ہیں۔ انھوں نے اپنا
اصل نوبل تمغا ملک کو عطیہ کردیا تھا۔ وہ
2007 سے غیر منافع بخش کیرولائنا ترک ایوی (ترک سنٹر) چلا رہے ہیں ۔ یہ مرکزترک طلبہ اور اسکالروں
کی میزبانی کرتا ہے اور ترکوں اور
امریکا کے درمیان افہام و تفہیم کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔اگست 2018 میں ، انھوں نے چیپل
ہل میں سنجر ترک ثقافتی اور کمیونٹی مرکز کی بنیاد رکھی۔اس میں کلاس رومز اور دفاتر کے ساتھ ایک کمیونٹی
ہال اور اسکالروں کا مہمان خانہ شامل ہے۔انھوں نے نوبل انعام
کے ساتھ ملنے والی قریباً 333,000
ڈالر کی رقم اس منصوبے کے لیے عطیہ کی ہے۔
ڈاکٹر عزیز سنجر نے متعدد سائنسی مقالے لکھے اور سیلولر عمل کی
تفہیم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ان کی تحقیق نے مالیکیولر بائیولوجی کے شعبے پر گہرا اثر ڈالا ہے ، خاص طور پر یہ سمجھنے میں
مدد ملی ہے کہ خلیات ڈی این اے کو پہنچنے والے نقصان سے کیسے نمٹتے ہیں۔ - ان کا کام کینسر کی تحقیق، جینیات، اور علاج
کی نئی حکمت عملیوں کی ترقی پر مسلسل اثر انداز ہورہا ہے۔حیاتیاتی سائنس
میں نمایاں دریافتوں کی بنا پر انھیں ترکی اور بین الاقوامی سطح پر سائنسی
برادری میں ایک انتہائی قابل احترام مقام
حاصل ہے۔ بائیو کیمسٹری اور مالیکیولر بائیولوجی میں ان کے اہم کام کے اعتراف میں انھیں نوبل انعام کے علاوہ متعدد باوقار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا
گیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں