meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: ستمبر 2024

Empowering Through Media Literacy

سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ؛ایک شخص کہ سارے جہاں کوعزیزتھا.... (3)

 25 ستمبر1979ء کو بانی جماعت اسلامی کے سفرِ آخرت کا   آنکھوں دیکھا احوال

بہ سلسلہ سیال کوٹ سے شال کوٹ تک، ارشد سلیم کی یادداشتیں

مصری نژاد علامہ یوسف القرضاوی  سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی نمازِ جنازہ پڑھا رہے ہیں۔فائل تصویر

لاہورکے سب سے بڑے پبلک مقام  قذافی  سٹیڈیم میں مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی  کی نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ ہم  جنازے ‏کی گاڑی کے ساتھ اسٹیڈیم  پہنچے تو وہ  نہ صرف  مکمل  طور پر بھر چکا تھا بلکہ اس کے باہر بھی  بڑی تعداد  میں لوگ  موجود تھے -ایسا  لگ رہا تھا  کہ جیسے پورا لاہور اپنے اس مایہ  ناز فرزند کو الوداع کہنے کے لیے یہاں اُمڈ  آیا ہے ۔ جنازہ ‏اور تدفین کی منتظم  گرین  فورس کے رکن  کی حیثیت سے اس زبردست  ہجوم کے باوجود ہمیں اسٹیڈیم میں میت کا تابوت نماز ‏جنازہ کی جگہ  تک  پہنچانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی ۔ کیونکہ ایک انتہائی  منظم جماعت  کے ارکان اور ہمدرد اپنے بانی و ‏محسن  کے سفرِ آخرت کو بھی نظم کے لحاظ سے مثالی بنا رہے تھے ۔ کوئی بھاگ دوڑ ، افراتفری  اور  دھکم پیل تھی  اور نہ کہیں صف بندی کی خلاف ورزی ‏ تھی ۔  جس شخص کو جہاں جگہ ملتی ،چپکے سے قطار میں کھڑا ہو جاتا ، بعد میں  آنے والے کو جگہ دینے کے لیے سکڑ جاتا ‏یا اس کی رہنمائی کر دیتا  ۔  جنازے کو گاڑی سے اتار کر  ہم  غیر ملکی مہمانوں اور اہم ملکی شخصیات کے لیے مختص دو صفوں ‏میں سے  دوسری صف میں کھڑے ہوکر نماز جنازہ کی  تکبیر  اولیٰ کا انتظار کرنے لگے ۔ ریاست آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار ‏عبدالقیوم بھی میرے ساتھ  صف بند تھے ۔ کچھ دیر بعد صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق بھی ہیلی کاپٹر پر قذافی اسٹیڈیم پہنچ ‏گئے اور جنازے کی  پہلی صف میں شامل ہو گئے ۔ قطر سے خصوصی طور پر تشریف لانے والے ‏عالمی شہرت یافتہ   مصری نژاد   اسلامی اسکالر علامہ محمد  یوسف القرضاوی نے ہمارے پیارے مرشد کی نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل ‏کی  ۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ 25  ستمبر 1979  کوسیّد مودودی کی نماز جنازہ پڑھانے والے علامہ قرضاوی  نے خود  بھی  26 ‏ستمبر 2022 کو وفات پائی  ۔‎ ‎

‎ ‎سیّد مودودی ؒکی نماز جنازہ سے پہلے اور بعد میں بھی کئی بڑی  مذہبی  ، سیاسی اور سماجی شخصیات کے جنازے دیکھے ‏ہیں یا ان میں  شرکت کا موقع ملا ہےلیکن انتہائی عقیدت ، گہری وابستگی ، وارفتگی ، بے لوث و انمول  محبت ، جنون ، اور شدید ‏دکھ اور کرب کے جذبات کے طلاطم کے  باوجود جو نظم و ضبط  ، حسن ترتیب ، برداشت   اور احترام اس جنازے میں دیکھا کہیں ‏اور ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آیا ۔  پہلی قطار سے لے کر آخری قطار تک صف بندی کے اصولوں اور احکامات کا خیال رکھا گیا ۔ یہ ‏جنازہ تھا صدیوں بعد پیدا ہونے والی ایسی شخصیت کا کہ جس نے  روایتی عالمانہ مباحث اور مناظروں ،مجادلوں   اور گروہ بندی سے دور رہ کر ایک عام  سیدھے سادے ، سنجیدہ و  مخلص ، اللہ کو دل سے  ماننے اور پوری انسانیت کے محسن ‏کے طور پر بھیجے گئے اس کے آخری  رسول  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت  اور ان کی اتباع کرنے والے مسلمانوں کو انہی ‏ کی  ذہنی   سطح  اور تاثیر  والی عام فہم   زبان میں اللہ اور اس کے رسول کا پیغام پہنچایا ۔ اس کے بدلے میں اس نے  کسی دنیاوی جاہ ‏و جلال ، منصب ، منفعت ،  معاوضے ، اعزازیے ، مرتبے کی  خواہش  نہیں کی  ۔ جب محض گنتی کے  چند لوگ ہی  ان   کے ساتھ ‏تھے تو وہ گھبرائے نہیں ، مایوس نہیں ہوئے اور جب لاکھوں نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بنے تو اترائے نہیں ، شکر اور عاجزی ‏کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔  76 سالہ  حیات فانی  میں دین ہی سیکھا ، پڑھا ، اسی کی ترویج و تبلیغ  کی  اور اس کو عام کرنے کی پر ‏عزم سنجیدہ  اور انتھک سعی کی ۔

سیّد ابوالاعلی مودودی  سو یہودیوں ہی  کے برابر  نہیں تھے بلکہ وہ تن  تنہا ہی لاکھوں ،کروڑوں  یہود وہنود و  نصاریٰ ، دہریوں ، ‏‏ منکرینِ حدیث ، منکرینِ ختم نبوت ،   دین فروشوں ، فرقہ پرستوں ، دین اسلام کو  محض چند رسوم تک محدود اور دور جدید میں ‏ناقابل عمل سمجھنے والوں پر بھاری تھے ۔ مالک و خالق کائنات خصوصی طور ہر مہربان تھا ۔ ‏‏  لاکھوں صفحات پر مشتمل دین متین کے قریباً  ہر پہلو کا احاطہ کرتی ان کی تحریریں ایسے ہی روشنی اور رشد و ہدایت  کا باعث ‏‏ اور دلائل و براہین کا  مرقع نہیں بنیں ۔ان کے پیچھے نصف صدی سے زیادہ  کی  متواتر شب خیزی شامل بھی تھی  ۔ حمیرا ‏مودودی کے مطابق’’   تحریر و تحقیق  ، تفہیم و تفسیر  اور  جدید اسلامی ریاست کے خدو خال اور قرآن و سنت کی آئینی حیثیت   ‏کے اثبات کےلیے زندگی بھر ان کے والد محترم نماز عشاء  کے بعد سے  فجر  تک کے رت جگے کے عادی رہے اور اس میں جیل ‏کے ایام اور جماعت کے تنظیمی دوروں کے سوا کبھی خلل نہیں آیا   ‘‘۔ یقیناً اس غیر معمولی ریاضت کے سلسلے میں مولانا  کی ‏شریک حیات اور بچوں کا تعاون شامل نہ ہوتا تو شاید ایسا ممکن نہ ہوتا۔  آخری عمر میں مولانا خود مذاق میں کہا کہتے تھے کہ ‏زندگی بھر  جب میرے جسم کی ہڈیوں ، آنکھوں  اور دماغ کو آرام کی ضرورت تھی ، میں نے اس وقت ان کو آرام نہیں کرنے دیا ،لگتا ہے کہ  اب بڑھاپے میں وہ سب مجھ سے انتقام لینا چاہتے ‏ہیں ۔، اب میں ہڈیوں اور آنکھوں کو آرام دینا چاہتا ہوں لیکن وہ آرام کیسے کریں ، ان کو تو  اس کی  عادت ہی نہیں ، دماغ کو سوچ ‏بچار او تفکر  سے فرصت دینا چاہتا ہوں لیکن اس نے تو یہ عیاشی کبھی دیکھی ہی نہیں ۔

         عطار ہو ، رومی ہو ، رازی ہو ، غزالی ہو

          کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

مولانا مودودی رح کے علاوہ کسی بھی عمل کا عشروں پر محیط  ایسا غیر روایتی   اور معمول سے ہٹ کر تسلسل اور استقامت  دو ‏دوسری  شخصیات  بھی  منسوب  ہے ۔ ایک شاعر انقلاب جوش ملیح ابادی کہ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے  کہ وہ طلوع آفتاب ‏کے منظر کے  سحر میں اتنا  مبتلا تھے کہ انھوں  نے زندگی بھر اسے مس نہیں کیا ۔  دوسرے سابق وزیر اعظم میر ظفراللہ خان ‏جمالی کہ جو  وزیر اعظم بننے تک متواتر قریباً 36 برس ہر رمضان المبارک میں حرم مکہ میں  بیت اللہ کے سائے میں  طلوع ‏آفتاب اور غروب آفتاب کا نظارہ کرتے رہے ۔

  پانچویں  صدی ہجری میں افغانستان کے علاقے ہرات کے معروف صوفی بزرگ اور روحانی شخصیت  خواجہ سیّد قطب ‏الدین مودود چشت  کے نام سے منسوب ان کے اس قابل فخر  بیٹے مولانا سیّد ابوالاعلی مودودی رح  کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ ‏حرم بیت اللہ شریف میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ حبشہ کے شاہ نجاشی کے بعد غالبا  یہ ‏سعادت حاصل کرنے والے وہ دوسرے مسلمان ہیں ۔‎ ‎

مولانا مودودی مرحوم و مغفور  کے جنازے کے فورا ًبعد میں نے  تدفین کے مرحلے کی تفصیل بیان کرنے کے بجائے ان کی شخصیت ,تعلیمات ، معمولات کا ذکر اس لیے  شروع کر دیا کہ دراصل تدفین میں کچھ تاخیر مطلوب تھی ۔ ‏ابتدائی طور پر سیّد  مودودی ؒ کی  تدفین کا پروگرام مولانا کی فکری اور سیاسی تحریک ، جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ ‏میں رکھا گیا تھا ۔ اس مقصد کے لیے غالبا وہاں قبر بھی تیار کرلی گئی تھی۔ تاہم مولانا کی اہلیہ اور اہل خانہ کی خواہش اور اصرار ‏‏ پر منصورہ  میں ان کی  تدفین کا پروگرام  منسوخ کرکے اچھرہ میں ان کی رہائش گاہ کے لان میں تدفین  کا فیصلہ کیا گیا ۔ جونہی 5 ‏اے ذیلدار پارک اچھرہ  کے سبزہ زار میں مرقد  تیار ہوگئی ،  مولانا کا جسدِ خاکی وہاں لے جایا  گیا اور امیر جماعت میاں طفیل ‏محمد ، جماعت کی مرکزی قیادت ، مولانا کے اہل خانہ اور ہم گرین فورس کے ارکان نے  اپنے ہاتھوں سے انھیں لحد میں اتار کر ‏اللہ  کریم کی رحمتوں ، مغفرتوں  کے حوالے کیا ۔ ہم نے تدفین کے بعد قبر پر دعا مغفرت کی اور میں اور فاروق مروت بھاری دل ‏کے ساتھ واپس سیالکوٹ روانہ ہو گئے ۔ اس دن کے بعد آج تک  ان کی رہائش گاہ پر جانے کی ہمت نہیں  ہوئی کہ پرنور ، پر سکون ‏، زندۂ جاوید اور متحرک مرشد کو اپنے دارالمطالعہ ، لان   اور برآمدے میں نہ دیکھ  سکنا کیسے برداشت ہو گا ۔

ممتاز قانون دان اللہ بخش خدا بخش بروہی  مرشد سیّد مودودی ؒکی وفات کی خبر سن کر  بیرون ملک سفر میں آبدیدہ تھے ‏،  ڈرائیور نے پریشانی اور تجسس  سے  پوچھا فوت ہونے  والا کیا آپ کا کوئی قریبی عزیز تھا ؟

’’میرا  ہی نہیں ، وہ تو پورے جہاں کو عزیز تھا‘‘

اے کے بروہی  نے مختصر  مگر جامع  جواب دیا ۔

اَللّٰهُمَّ اغفِر لَهُ وَارحَمهُ وَعَافِهِ وَاعفُ عَنهُ  وَأَكرِم نُزُلَهُ  وَوَسِّع مُدخَلَهُ

(ختم شُد)

....................

صاحبِ تحریر ارشد سلیم کا تعلق پاکستان کے مردم خیز ضلع سیال کوٹ سے ہے۔انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم سیال کوٹ ہی سے حاصل کی۔ گورنمنٹ  کالج  اصغرمال  راول پنڈی  (جامعہ  پنجاب) سے انگریزی  زبان وادب میں   ایم اے کرنے  کے بعدوہ  پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن میں نیوز پروڈیوسر کی حیثیت سے بھرتی ہوگئے۔ان کا شمار پی ٹی وی کے کہنہ مشق اور محنتی رپورٹروں میں ہوتا تھا۔انھوں نے سرکاری ٹیلی ویژن چینل کے رپورٹر کی حیثیت  سے پاکستان کے کئی ایک حکمرانوں کے ساتھ اندرون اور بیرون ملک خدمات انجام دیں،ان کی مصروفیات اور تقریبات کی کوریج کی  اور انھیں بہت  قریب سے دیکھا۔ پارلیمان کی رپورٹنگ کی ۔ان کے پاس تاریخی نوعیت کی حامل یادداشتوں کا ایک وسیع ذخیرہ ہے۔وہ پاکستان کی تاریخ ، سیاست اور ثقافت  کے بہت سے اہم واقعات کے امین  اور  چشم دید گواہ  ہیں۔ان کی  متنوع یادداشتیں  أقساط کی صورت میں ’’خبربے‘‘ کے  قارئین کی نذر کی جارہی ہیں۔ 

پاکستان میں سیاحت کا فروغ کیسے ممکن ہے؟

 

27 ستمبر کو عالمی یومِ سیاحت پر خصوصی تحریر

احسان غنی

       اللہ کی زمین میں نکل کر دیکھیں، قدرت کی نشانیاں، فطرت کی نیرنگیاں صاحبانِ بصیرت کو دعوتِ نظارہ دے رہی ہیں۔ندیوں، آبشاروں اوردریاؤں کی ابھرتی موجوں سے مسحور کن سُروں کا جلترنگ بج رہا ہے۔ پاکستان کی دھرتی قدیم دور سے  دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ رہی ہے۔پانچ ہزار سال قبل یہاں  موہنجو داڑو  اورہڑپہ کی تہذیب موجود تھی۔اس کے بعدکئی تہذیبیں نمودار ہوئیں اور وقت کی دھول میں مٹ گئیں۔عہدرفتہ کی عظیم الشان تہذیبیں یہاں دفن ہیں۔بڑے بڑے شہر، قلعے،شاندار محل اور دیوہیکل فصیلوں کی دلچسپ اور انوکھی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔بلندوبالا پہاڑ وسیع وعریض میدان، ریگستان،لق ودق صحرا کے علاوہ سرسبز وشاداب زرخیز خطے، بہتے دریا،بے مثل محل وقوع،جنوب، شمال، مشرق اور وسط  ایشیا کے فضائی،بری اور بحری تمام گزرگاہیں پاکستان سے ہو کرگزرتی ہیں۔ایک طرف سر بفلک برف پوش چوٹیاں،بل کھاتی ندیاں اورپہاڑوں کے جھرنوں سے بہتی آبشاریں ہیں تودوسری طرف چولستان اورتھل کے لق ودق بظاہر خاموش نظر آنے والے صحرا کی ریت میں صدیوں پر محیط تہذیب کے آثار جگہ جگہ نمودارہیں۔ صحرائی دنیا کااپنا الگ اورمنفرد روپ ہوتاہے۔تاحد نظر چمکتی  دھمکتی ریت کے ذرات،سرابوں،ٹوبوں اورٹیلوں سے آباد یہ صدا بصحرا دے رہے ہیں۔چولستان دنیا کا ساتواں بڑاصحرا ہے۔صوبہ بلوچستان،سندھ،  خبیر پختونخوا اور پنجاب میں  بہت سے  سیاحتی مقامات حکومت اور انتظامیہ کی  غفلت اور بے پروائی سے ویران پڑے ہیں۔صرف صوبہ پنجاب میں 412تاریخی اور مذہبی مقامات ہیں۔ان میں سے تین قدیم تاریخی سیاحتی مقامات کو یونیسکو (UNESCO) نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے رکھاہے۔اس طرح خیبر پختونخوا میں جگہ جگہ قدیم گندھا ر ا تہذیب کے آثار موجودہیں۔موہنجوداڑواور ہڑپہ وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب کا حصہ ہیں اور ان کی تاریخ پانچ سے دس ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ٹیکسلا کو1980میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا تھا۔2700سال پہلے ٹیکسلا میں جولیاں کے مقام پر ایک بڑی یونیورسٹی موجود تھی۔جہاں دنیا بھر سے طلبہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آتے تھے۔اس کے آثار کے نزدیک ہی ٹیکسلا کی موجودہ یونیورسٹی آف انجنئیرنگ  اور ٹیکنالوجی واقع ہے۔

دنیا کے اکثر ممالک میں سیاحت کا معیشت کی ترقی میں بنیادی کردار ہے۔مالدیپ چھوٹا سا ملک ہے لیکن سیاحت کے شعبے سے سالانہ قریباً 5ارب ڈالرکمارہا ہے۔نیوزی لینڈ میں سیاحت تیزی سے ترقی کررہی ہے۔گذشتہ مہینوں میں صرف2.6 ارب  ڈالر سے معیشت کو استحکام ملا ہے۔امریکا،فرانس،سوئٹزرلینڈ، ترکیہ اور بھارت اربوں ڈالر، سیاحت کے شعبے میں خرچ کرکے دُگنا کمارہے ہیں۔گلگت،بلتستان دنیا کا واحد خطہ ہے جس کا رقبہ سوئٹزرلینڈکے رقبے سے دُگنا ہے۔ یہاں کے پہاڑ دنیا کے بلندترین پہاڑوں میں شمار ہوتے ہیں۔اسی طرح آزاد جموں وکشمیر میں بے شمار خو ب  صورت ترین سیاحتی مقامات نیلم اور جہلم ویلی کے حسین قدرتی مناظر انسان کو سحر میں مبتلا کردیتے ہیں۔ٹیکسلاکے قریب خانپور ڈیم کے اطراف میں بدھ مت مذہب کے مقد س مقامات ہیں۔ایبٹ آباد کے قریب ٹھنڈیانی بھی بہت خو ب صورت قدرتی مناظر سے مالا مال جگہ ہے۔مری ملکی سیاحوں کے لیے سب سے پسندیدہ تفریحی مقام ہے۔گرمی کے ستائے عوام مری کا رخ کرتے ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں سوات، کالام، جھیل سیف الملوک اور بے شمار علاقوں میں کہساروں سے بہتی آبشار یں، ٹھنڈے یخ پانی کے اُبلتے چشمے،قطار در قطار، درخت پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی گھاٹیوں  اور پگڈنڈیوں کے خو ب صورت، حسین نظارے ایسے دکھائی دیتے ہیں جسے قدرت انسان سے ہم کلام ہو رہی ہو۔

دنیاکے بہت سے ممالک نے سیاحت کو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دے کر اپنی معیشت کو مستحکم کرلیا ہے اور ایک ہم ہیں کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا سیاحت کے شعبے کو یکسر نظرانداز کیا ہوا ہے۔حالانکہ پاکستان میں سیاحت کو صنعت کا درجہ دینے،اس سے روزگار پیدا کرنے اور معاشی ثمرات سمیٹنے کے وسیع ترمواقع موجود ہیں۔سیاحت کے شعبے کو اہمیت نہ دے کر معاشی طورپر ہم خود اپنانقصان کررہے ہیں۔ صرف مذہبی سیاحت کے فروغ سے اربوں ڈالر ز کا رمبادلہ کمایاجاسکتا ہے۔وطن عزیز مذہبی سیاحت کے حوالے سے بہت اہم ملک ہے۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ سکھ برادری کے مذہبی مقامات مختلف شہروں میں موجود ہیں۔ڈیرہ صاحب لاہور، نارووال،کرتارپور،پنجہ صاحب،حسن ابدال سکھ مذہب کے بانی اور روحانی پیشوا باباگرونانک کا جنم استھان ننکانہ صاحب اہم ترین مذہبی مقامات ہیں۔اس کے علاوہ سکھ دورحکومت کی تاریخی عمارتیں سیاحوں کی منتظر ہیں۔ بدھ مت کے پیروکاروں کی آٹھ خانقاہیں اور دیگر عمارتوں کے آثار صوبہ خیبرپختونخوا پنجاب،سندھ اور بلوچستان میں آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں۔چکوال کے قریب کٹاس راج مندر ہندوؤں کے لیے بہت اہم مذہبی جگہ ہے۔اس طرح مردان، سوات، ہری پور، ٹیکسلا اور دیگر شمالی علاقوں میں قدیم گندھارا تہذیب اورمقدس مقامات کے آثار موجود ہیں۔ثقافتی،مذہبی اورتہذیبی آثار قدیمہ کے اتنے زیادہ مقامات  شایدہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں موجود ہیں۔لیکن افسوس کہ ہم دنیا کویہ باور کروانے میں بُری طرح ناکام ہیں کہ وہ وطن عزیز میں آکر ان آثارقدیمہ کودیکھ سکیں۔ضلع ڈیرہ غازی خان میں واقع کوہ سلیمان کے وسیع پہاڑی سلسلہ سے چند کلومیٹر دورفورٹ منرو کا سیاحتی مقام بالکل لاوراث ہے۔حکومت کی بے حسی کے باعث اتنا پرُفضا اور پُرسکون قدرتی ماحول والا علاقہ ویران پڑا ہے۔جب سیاحت کاقریباً سارابجٹ مری کے لیے مختص کردیاجائے گاتو باقی کے علاقے ترقی سے محروم رہ جائیں گے۔ ایک خبر کے مطابق محکمہ سیاحت کا 90فی صد  ترقیاتی بجٹ مری کے لیے مختص کرنے کی تجویز زیرِ غور ہے  لیکن  مری کے ساتھ ساتھ دوسرے سیاحتی مقامات کو بھی بہتر سہولتیں دیناحکومت کا فرض ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ فی الفور سیاحت کے شعبہ کو ترقی دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ پیشہ ور حضرات کو سیاحت کے فروغ کے لیے ذمہ داری دی جائے۔ملک بھر کے سیاحتی مقامات پر صفائی کا انتظام بے حد ضروری ہے۔صاف ستھرے واش رومز، سیاحوں کے بیٹھنے کا مناسب بندوبست کیا جائے۔سیاحتی مقامات پر قائم مختلف دکانوں، ہوٹل اور ڈھابوں پر غیر معیاری اشیاء خورونوش کی ہوشرباقیمت پر فروخت عام ہے۔ دکانداروں کے سیاحوں سے نامناسب رویے، ٹھیکے داروں کی من مانیوں سے متعلق شکایات عام ہیں۔ سکیورٹی نہ ہونے کے برابر ہے  اور وقت ضرورت ابتدائی طبی امداد کا بھی کوئی انتظام نہیں ہوتا۔انتظامیہ کے متحرک اہلکاروں کوسیاحتی مقامات پر تعینات کیا جائے۔سیاحتی مقامات پر عالمی  معیار کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی کی جائے۔ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے ایک تھنک ٹینک بنایا جائے۔جو سیاحت کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ماہرین پر مشتمل ہو۔راقم کی رائے میں کامران لاشاری۔سینئر صحافی و محقق مجید شیخ، سلمان رشید، پروٹوکول  اور ٹورازم سپیشلسٹ سیف اللہ خالد اور اسجد غنی طاہر پر مشتمل  تھنک ٹینک تشکیل دیا جائے  جو سیاحت کے متعلق پالیسی وضع کرے اور پھر اس پرعملدرآمد کی نگرانی بھی کرے۔پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن،محکمہ سیاحت پنجاب اور محکمہ آثار قدیمہ کو مشترکہ طورپر سیاحت کی پالیسی بنانے میں اس مجوزہ تھنک ٹینک کی معاونت کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ محکمہ پروٹوکول پنجاب کو غیر ملکی سیاحوں کو پروٹوکول دینے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ہماری روایتی مہان نوازی سے متاثر ہو کر غیر ملکی سیاح اپنے ساتھ خوشگوار یادیں لے کرجائیں گے تو اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔سیاحتی مقامات پر صاف، محفوظ،ماحول اوردیگر سہولتوں کی دستیابی سے غیر ملکی سیاح یہاں آنا پسند کریں گے۔ہمیں مربوط حکمتِ عملی کے ساتھ پرنٹ،الیکٹرانک اورسوشل میڈیاپر آگہی مہم چلائی جائے۔بیرون ملک سفارت خانوں میں ایک عدد ٹورازم آفیسر تعینات کیاجائے۔جس کے ذمے اپنے میزبان ملک کے عوام کو پاکستانی ثقافت اور سیاحت کے بارے میں آگاہی دینا ہواور مختلف سیاحتی سیمی نار اور روڈ شو منعقد کیے جائیں۔قومی نصاب میں سیاحت کاکورس متعارف کرایا جائے۔بچوں کو اسکول کی سطح سے ہی سیاحت کے متعلق مکمل معلومات دی جانا چاہیے۔ملک میں سیاحت خصوصاً مذہبی سیاحت کے فروغ سے عالمی سطح پرپاکستان کا نرم تشخص اُبھرے گا۔اس کے ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی اور راو داری  کے فروغ میں مدد مل سکے گی۔غیر ملکی سیاحوں کو وطن عزیز میں موجود ثقافتی،تاریخی اور سیاحتی مقامات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کچھ فوری نوعیت کے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ملک بھر کے ایئر پورٹس خصوصاً سکردو اورگوادر ایئر پورٹ کوعالمی معیار کے مطابق جدید سہولیات سے مزین کیا جائے۔امیگریشن عملہ چہروں پر مسکراہٹ سجائے سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ بغیر کسی غیرضروری رکاوٹ کے امیگریشن کا عمل پور اکرے اور اگر ممکن ہو تو غیر ملکی سیاحوں کے لیے الگ امیگریشن کاوئنٹر بنایا جائے۔چولستان اورتھل کے صحرا میں محکمہ سیاحت پنجاب ہر سال جیپ ریلی منعقد کرواتا ہے۔یہ ایک بہت اچھی روایت بن چکی ہے۔اس سرگرمی کومزید بڑھانے کے لیے عالمی کاراور موٹر سائیکل ہیوی بائیک ریس کے منتظمین سے رابطہ کرکے اُن کو دعوت دی جائے کہ وہ بھی اس جیپ ریلی میں حصہ لیں۔دیگر سیاحتی مقامات پر بچوں اور سیاحوں کے لیے جدید الیکٹرک جھولے، چیر لفٹ، کیبل کار لگائی جائے۔اس کے ساتھ واٹرسپورٹس، پیراسیلنگ،پیراگلائیڈنگ، گھڑسواری اور دیگر کھیلوں کے فروغ کے لیے بہتر حکمت عملی اپنائی جائے۔

تفریح،سیروسیاحت اورمہم جوئی کی خواہش انسانی جبلت ہے۔انسان قدرت کے مختلف کرشموں کانظارہ کر کے اُن کو اپنے دل میں سمو لیناچاہتا ہے۔دنیا بھر میں مختلف مذاہب کے پیروکار اپنے مذہبی مقامات سے قلبی لگاؤ رکھتے ہیں۔غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان کے ثقافتی سیاحتی اور مذہبی مقامات کی طر ف متوجہ کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان کی قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سیاحت کے شعبے کو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دیا جائے۔ایسی صنعت، جس پر لاگت کم اور کمائی بہت زیادہ ہے۔کثیر زرِمبادلہ سے معاشی خوشحالی ہمار امقدر بن سکے گی۔اقوام متحدہ کے تحت ہرسال 27ستمبرکو عالمی یوم سیاحت منانے کا مقصد عالمی سطح پر سیاحت کو فروغ دینا ہے۔سیاحت کے فروغ سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی اور ثقافتی  رواداری  اور ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

بہ سلسلہ سیال کوٹ سے شال کوٹ تک‎،‎ ارشد سلیم کی یادداشتیں

سیّد  ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ایک شخص کہ سارے جہاں کو عزیز تھا... (2)

 25 ستمبر1979ء کو بانی جماعت اسلامی کے سفرِ آخرت کا آنکھوں دیکھا احوال

بائیں بازو کے  ان  رسائل اور اخبارات قندیل ، نصرت اور فتح کی بدولت میرے ذہن میں ذوالفقار علی بھٹو کا انقلابی اور آزادانہ تصور اُبھرا اور ‏وہ میرے اولین  ہیرو ٹھہرے ۔ لیکن بوجوہ ا ن کی شخصیت اور سیاست کا سحر زیادہ دیر مجھ پر طاری نہ رہ سکا ۔  اسلم بھائی جان تو ‏واہ کینٹ میں  ملازمت کے دوران  میں ڈاکٹر محمد کمال اور راجا محمد اکرم مرحوم  کی بدولت جماعت اسلامی سے متعارف ہوئے اور ‏ان ہی کے ہو کر رہ گئے ۔ اس کے برعکس  دوسرے بڑے بھائی محمد اشرف  مسلسل اور تادم آخر بھٹو صاحب  کے کٹر حامی ، ‏خوددار اور مخلص جیالے ہی رہے ، اتنے پکے اور زورآور کہ گھر یا باہر کسی کی بھی ان کے سامنےبھٹو صاحب  کے خلاف بات ‏کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے ہم دونوں بھائی ان کے جلال سے بچ بچا کر ہی رہتے تھے   ۔ مسلم ہائی ا سکول میں ہماری ‏چھٹی اور ساتویں  جماعت کے دوران ہی  میں   صدر جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہو چکی تھی اور بھٹو صاحب  جنگِ ستمبر1965ء کے نتیجے ‏میں ہونے والے اعلان تاشقند کے سخت  ناقد بن  گئے  اور وہ  وزارت خارجہ  خیرباد کَہ  کر عوام میں آ چکے تھے ۔ ملک میں  آئے  دن  ہڑتالیں اور ‏مظاہرے معمول بن چکے تھے ۔طلبہ اس تحریک کا ہراول دستہ تھے ۔ ہڑتالی چھٹی کے بعد تمام طلبہ سیالکوٹ کے مرکزی  ڈراماں والا  ‏چوک ( علامہ اقبال چوک )اکٹھے ہو جاتے  جہاں ریلی سے  بارک اللہ خان ، ادریس باجوہ ، چودھری غلام عباس  اور دوسرے طالب علم  رہنما تقریروں  سے دلوں کو گرماتے ۔اسلامی جمعیت طلبہ کے بارک اللہ خان کا خطاب پرجوش ہونے کے ساتھ ساتھ مدلل اور متاثر ‏کن ہوتا اور اپنامثبت  تاثر چھوڑتا ۔ ان ہی  دنوں مسلم ہائی اسکول کے پاس  دیواروں  پر ایک دن  سٹینسل سے نقش کیا ہوا ایک نعرہ ‏دیکھا:’’سو یہودی‎ ‎،‎ ‎ایک مودوی‘‘۔یہ نعرہ ناجانے کس   نامعلوم شخص نے اور کس   نیّت ،ارادے ،  مقصد اور ذہنیت کے  تحت اختراع کیا  ‏تھا اور اسے اس طرح پھیلایا تھا  لیکن مجھے یہ نعرہ کاٹ کھاگیا ، دماغ کو گھائل سا کرگیا ۔یک دم کایا کلپ ہوگئی ۔ الٹا  مولانا ‏ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ہمدردی  اور  ان کے لٹریچر  میں  دلچسپی ہو گئی  ۔  قریبی دوستوں اور ہم جماعتوں زاہد غنی ڈار اور  خواجہ فیاض  نے ‏بھی اس تبدیلی  کی آبیاری میں مدد کی ۔ کچھ لٹریچر پڑھا اور میں دیکھے ، پڑھےاور  ملے  بغیر مولانا مودودی کا پرستار بن چکا ‏تھا ۔ لڑکپن ہی سے  ملکی سیاست میں  دلچسپی کے باعث   جنوری 1965 ء میں منعقدہ  صدر  ایوب خان بہ مقابلہ فاطمہ جناح  صدارتی انتخاب  کے ‏نعرے  اب تک   ذہن میں محفوظ ہیں اور 1970 کے عام انتخاب تو جیسے ابھی کل کی بات لگتی ہے۔

سنہ 1972ء میں میٹرک کے امتحانات کے بعد بشیر لودھی مرحوم نے میرے دوست  عبداللہ بٹ اور مجھے جماعت اسلامی اور اسلامی ‏جمیعت طلبہ  سے باقاعدہ متعارف کروایا ۔ بشیر لودھی صاحب جامع مسجد اہلحدیث میں نماز فجر کے بعد لاؤڈ اسپیکر پر مولانا ‏مودودی کی تفہیم القرآن  کا درس دیتے تھے ۔ان ہی کی دیکھا دیکھی  میں نے بھی  ہفتے میں  دو ایک بار نمازِ  عشاء  کے بعد اسپیکر پر  تفہیم  سے قرآن پاک کا با محاورہ اردو  ترجمہ  پڑھنا شروع کر دیا ۔ کچھ عرصے کی  مشق  کے بعد میرا ٹھہراؤ کے ساتھ  پڑھنے ‏کا  اچھا خاصا منفرد اور مؤثر سٹائل بن  گیااور  لوگوں نے بھی اس سلسلے  کو پسند کرنا شروع کر دیا ۔  صاف  ظاہر ہے کہ یہ ‏ اللہ کے کلام کی برکت تھی اور صاحبِ تفہیم القرآن کا کمال  اور اعزاز تھا کہ انھوں نے ایک عام پڑھے لکھے مسلمان کے  ‏استفادے کے لیے کلام اللہ  کا ایسا  آسان ، سادہ  اور بامحاورہ ترجمہ کیا تھا کہ اس کا براہ راست اثر سننے اور پڑھنے والوں  کے ‏دل و دماغ پر ہوتا تھا  اور وہ  کتاب اللہ کی حقانیت سے براہ راست اثر لیے بغیر نہیں رہتے  تھے۔ یہی قرآن حکیم کا اعجاز  اور ‏مطلوب و مقصود تھا ۔ کاش اللہ کریم  مولانا کو مزید موقع ، ہمت ، صحت  اور توفیق دیتا اور وہ اپنی خواہش کے مطابق " تفہیم ‏القرآن"  کی طرز پر " تفہیم الحدیث " بھی لکھ سکتے   اور اس کی بدولت  عام مسلمانوں پر  علم و عرفان ، ہدایت و آگہی کی نئی ‏راہیں کھلتیں اور محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی حیاتِ مبارک  اور سنتِ پاک کے کئی پہلو نئے ، مؤثر اور عملی انداز ‏میں  سامنے آتے ۔مولانا مودودی ؒ کو زندگی میں پہلی مرتبہ  1974 میں جماعت اسلامی کے زیر تعمیر ہیڈ کوارٹر منصورہ میں ہونے والے اجتماع ‏عام میں دیکھا اور  پہلی  اور آخری مرتبہ ان  کا عوامی خطاب سنا تھا ۔‎ ‎

24اور 25  ستمبر 1979 کی درمیانی شب  میں اور  فاروق مروت اسی عظیم انقلابی ہستی اور اپنے مرشد ، رہبر اور  محسن کو ‏آخری بار دیکھ رہے تھے ۔ ہم دونوں نے متفقہ طور پر طے کیا کہ یہ رات دوبادہ نصیب نہیں ہونی ،  اس لیے  مولانا کے جسد ‏خاکی کا دیدار کرکے سوجانےاور تازہ دم ہو کر  صبح جنازے کا انتظار کرنے کے بجائے کیوں نہ  اسے جاگ کر  گزارا جائے ۔ ہم ‏ہر دفعہ ان کا  دیدار کرنے کے بعد واپس ایک دو کلو میٹر پیچھے قطار کے آخری سرے پر پہنچ جاتے اور ان کے  دوسرے پروانوں ‏کے ساتھ آہستہ آہستہ قدم بہ قدم چل کر مرشد کے جسدِ خاکی کے پاس پہنچتے ، جی بھر کر دیکھتے ، دعائے مغفرت کرتے اور ‏آنسوؤں کی جھڑی میں ایک بار پھر قطار میں جاکر لگ جاتے  ۔ رات بھر کسی موقع پر بھی یہ قطار ایک ڈیڑھ کلو میٹر سے کم ‏نہیں ہوئی ۔فاروق مروت نے شدید تھکاوٹ کے باوجود میرا حوصلہ کم نہ  ہونے دیا ، ڈگمگانے نہیں دیا اور ہم نماز فجر تک زائرین ‏کی قطار  کے آخری سرے سے اپنے رہبر و  مرشد مودودی ؒکے جسد ِخاکی تک بار بار  چکر لگاتے رہے ۔ ہر بار مرشد کا ‏چہرہ پہلے سے زیادہ پر رونق ، شاداں اور نورانی  دکھائی دیتا۔‎‎  فاروق اکثر بڑی دوراندیشی اور پتے کی بات کرجایا کرتے تھے ۔کہنے لگے:’’  یہ ایسی طویل اور تاریک شب ہے کہ بظاہر جس کی ‏صبح نہیں ہے ‘‘۔

‎ ‎نصف شب کے بعد طویل قطار میں  بھارت ، بنگلہ دیش ، سری لنکا ، افغانستان ، ترکی ،  مشرق بعید کے ملکوں ، عرب  دنیا ، ‏امریکا اور یورپ سے آنے والے سید مودودی کے پرستار بھی بڑی تعداد میں  شامل ہو چکے تھے اور یہ ایک طرح کے عالمی ‏اجتماع کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ فجر  کی نماز کے بعد تدفین کی تیاریوں کو حتمی شکل دینے کا مرحلہ شروع ہوا ۔ طے پایا کہ ‏جنازے اور تدفین کے تمام مراحل مرشد مودودی ؒ کی تحریک کے ہراول دستے ،  مستقبل کے وارث ، ان کے مشن  کے اصل ‏ ہدف  اور ان کی فکری و معنوی اولاد ہی  انجام دے گی یعنی نوجوان  کہ جن پر وہ ہمیشہ فخر کیا کرتے تھے اور یہ نوجوان بھی مولانا ‏پر جان نچھاور کیا  کرتے تھے۔  اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ  اور پنجاب یونیورسٹی  اسٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر لیاقت ‏بلوچ کی سربراہی میں جمعیت سے وابستہ نوجوانوں پر مشتمل  ایک گرین فورس قائم کی گئی ۔اس خصوصی فورس  کی نشانی  کے ‏طور  پر بازو  پر سبز رنگ کی پٹی  باندھ کر میں اور فاروق مروت بھی اس  میں  شامل ہو گئے - عالم ِاسلام کے اس عظیم ‏المرتبت فرزند ،  مفکر و مفسر و  مصلح اور سید قطب کے بقول  'مسلم العظیم'   کے جنازے میں شرکت ہی کسی اعزاز سے کم ‏نہیں تھی کہ اس  خصوصی انتظامی  فورس  میں  شمولیت کا اعزاز بھی مل گیا جس پر ہم بجا طور پر فخر سے  پھولے نہیں سما ‏رہے تھے ۔

‏(جاری ہے)‏

بہ سلسلہ سیال کوٹ سے شال کوٹ تک‎،‎ ارشد سلیم کی یادداشتیں ‎

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒ، ایک شخص کہ سارے ‎ ‎جہاں کو عزیز تھا۔۔۔(1)

25 ستمبر1979ء کو بانی جماعت اسلامی کے سفرِ آخرت کا آنکھوں  دیکھا احوال

یہ  22  ستمبر 1979ء  کی  شب تھی۔ میں  واہ  کینٹ میں  ٹی وی پرمعمول کے مطابق  خبر نامہ دیکھ رہا تھا کہ اچانک نیوز ریڈر خالد حمید نے سنجیدہ لہجے میں،  رُک رُک کر ‏ایک افسوس ناک  خبر پڑھنا شروع کی ۔یہ غیر متوقع خبر سنتے ہی دھچکا سا لگا ، دل  سے آہ نکلی اور آنکھوں سے آنسو ‏چھلک پڑے ۔ یہ  لاکھوں  نوجوانوں کے  مرشد ، رہبر اور دلوں کے حکمران مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے انتقال کی خبر تھی۔ وہ  ‏علاج کے لیے اپنے بیٹے کے پاس امریکا گئے ہوئے تھے  اور وہیں  اس عالم فانی سے عالم جاودانی کو سدھار گئے۔ اس زمانے کے  الٹے ‏سیدھے نظریات ، نت نئے ازموں کی یلغار  اور گمراہ کن فکری و فقہی  تعصبات سے ہٹ کر مولانا مودودی کی  ‏شریعت اسلامی کی سادہ و دل نشین تشریح و تفہیم ،اور افکار اور نظریات سے متاثر ہونے والے لاکھوں  مسلمانوں  ، ‏خاص طور پر نوجوانوں کے لیے مولانا کے انتقال کی یہ خبر انتہائی ناقابل یقین اور  کربناک تھی ۔  طلبہ، اساتذہ ، ‏وکلاء ، پروفیشنلز ، علماء اور عام سادہ ، مخلص ، پڑھے لکھے  ، سنجیدہ ،دین پسند لوگوں کی بڑی تعداد  یہ خبر سن کر سکتے ‏میں  آ چکی تھی اور بہت سے لوگ دھاڑیں مار کر رو رہے تھے۔

میں  اس وقت  گورنمنٹ کالج اصغر مال  راولپنڈی  سےسمسٹر سسٹم کے تحت   ایم اے ‏انگریزی کر رہا تھا ۔ اس سمسٹر  نظام   میں ایک ایک پیریڈ قیمتی ہوتا تھا اور کسی عزیز کی شادی یا وفات پر ‏جانے سے پہلے سو بار  سوچنا پڑتا تھا ، مگر اس  کے باوجود میں  نے بلا تردد کالج  سے چھٹیاں لیں اور اگلے ہی روز آبائی شہر  سیالکوٹ پہنچ گیا کیونکہ سیّد  مودودی ؒ  کا  جسدِ خاکی امریکا سے ‏لاہور پہنچنے میں ابھی تاخیر  تھی ۔سیالکوٹ میں اپنے بچپن کے  دوست اشتیاق حسین بھٹی اور چھوٹے  بھائیوں ‏جیسے دوست فاروق مروت (اب ریٹائرڈ بریگیڈئر )سے ملاقات کی ۔ وہ بھی سیّد مودودی  کی رحلت پر ‏انتہائی رنجیدہ تھے ۔ ہم نے یہ طے  کیا کہ جنازے  میں شرکت کے لیے  لاہور جانا ضروری ہی نہیں  ،باعث ِسعادت بھی ہے  ۔ دو روز بعد 24 ستمبر کو   مولانا مودودی ؒکا جسدِ ‏خاکی امریکا  سے براستہ لندن اور کراچی  لاہور پہنچنا تھا اور  25 ستمبر کو  جنازہ اور تدفین ہونا تھی۔ ہم نے اس سے  ایک شام پہلے ہی لاہور   جانے کا پروگرام طے  کیا  تاکہ تدفین کے تمام مراحل میں شرکت کر  ‏سکیں اور بیسویں صدی کے اس سب سے بڑے اسلامی  مفکر ، مصلح ، مفسر ، مدبر ، مجدد ، نابغہ  اور داعی کو  ‏اس کے خالق اور مالک کے حوالے کرنے سے پہلے جی بھر کر  دیکھ سکیں ۔ 

  سیّد محترم کے جسدِ خاکی کو 24 ستمبر  کو 5 اے ذیلدار پارک اچھرہ میں ان کی رہائش گاہ  کے  صحن میں آخری زیارت کے لیے رکھا جا چکا تھا اور ان کے گھر ‏سے مزنگ چوک تک آخری دیدار کے لیے آنے والے لوگوں کی  لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں ۔ لاہور کے  علاوہ  ملک ‏بھر اور بیرون ملک سے بھی بڑی تعداد میں لوگ اچھرہ پہنچ چکے تھے  ۔ سب لوگ تلاوت کرتے ، درود شریف ‏پڑھتے ، دعائیں کرتے اور اپنے مرشد اور رہبر کی باتیں ، ملاقاتیں ، تحاریر اور تقاریر یاد کرتے ، آنسو ‏بہاتے آگے بڑھتے جاتے تھے ۔فاروق مروت اور میں بھی  کوئی  ایک گھنٹہ قطار میں لگ کر مرشد کی رہائش گاہ ‏ پرپہنچ گئے، جہاں  بہ مشکل  میت کے پاس جاکر  چند لمحے رک گئے ۔ چمکتا دمکتا ،پر سکون ، مطمئن  نورانی چہرہ ، چاندی ‏جیسی بھر پور سفید ڈاڑھی کے درمیان ایسے لگ رہا تھا جیسے خالق کائنات نے خصوصی طور پر میدے میں ‏سیندور ملا کر تخلیق کیا ہو اور جیسے مالک و خالق کائنات نے دعوت اور احیائے دین کے ٹاسک کو کامیابی سے   آگے بڑھانے  کے بعد اپنے اس  چنیدہ بندے کو انعامات، اعزازات ، شاباشی اور درجات کی بلندی کے لیے ‏واپس بلالیا ہو اور وہ  لبیک  ، لبیک کہتے ہوئے ،خوشی خوشی،  کشاں کشاں روانہ ہوگیا ہو۔  یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ۔ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً‏۔( الفجر)

‎ ‎اچھرہ کی اسی کوٹھی میں مولانا کے اسٹڈی روم  ، برآمدے اور لان میں ان کی حیات  میں  کئی مرتبہ ملاقات کی ‏سعادت حاصل ہوئی  تھی۔ ان کے بالکل ساتھ کھڑے ہو کر عصر اور مغرب  کی  نمازیں ادا کرنے کا بھی موقع ملا  ۔  لیکن ‏کچھ پوچھنے  ، سوال و جواب اور  بحث مباحثہ  کرنے کے بجائے میں نے ہمیشہ  اس خوب صورت اور خوب سیرت ‏انسان کے دیدار کو زیادہ اہمیت دی ۔ اشتیاق بھٹی اور  میرا  معمول تھا کہ ہم  جب بھی سیالکوٹ سے کسی کام  کے ‏لیے اکٹھے  لاہور جاتے ، اس بات کو یقینی بناتے کہ مولانا محترم  سے ملاقات ممکن نہ ہو تو بھی  اچھرہ جا کر کم سے کم ‏ان کی  ایک جھلک ضرور ممکن بنائیں ۔ میں یہ کیسے بھول سکتا ہوں کہ گردوں اور دل کی بیماری تشویش ناک ہونے ‏پر جب مرشد کے اہل خانہ نے ا نھیں علاج کے لیےان کے  بیٹے کے پاس امریکا لے جانے کا فیصلہ کیا تو عام ‏لوگوں کے ملنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی اور  پابندی کی سی صور  ت حال تھی  ۔ کسی کام سے  لاہور جانا ہوا تو ‏عصر کے وقت مرشد کے دَر پر  پہنچ گئے  ۔ان کے ذاتی ا  سٹاف سے صرف ایک منٹ کے لیے مولانا کے پاس ان کےا ‏سٹڈی روم میں  جانے کی درخواست کی جو مولانا کی اجازت سے منظور کر لی گئی اور ہماری خوش نصیبی  ٹھہری کہ ‏کچھ ہی  دیر بعد اندر بلا لیا گیا ۔ہم نے  کھڑے کھڑے   سلام  کیا ۔ میں نے عرض کیا کہ  مرشد  ، آپ شدید  علیل ‏ہیں  ، میری خواہش ہے کہ اللہ پاک میری بقیہ زندگی بھی آپ کو دے دے تاکہ آپ دین اسلام  کا مزید کام کر ‏سکیں ۔ میری بات  سن کر مولانا سنجیدہ ہو گئے ۔کہا بھئی اس کی کوئی  ضرورت نہیں ۔  میری جتنی بھی عمر باقی ہے ‏اللہ کریم صحت اور ایمان کے ساتھ مجھے عطا فرمائے اور آپ کی زندگی آپ کو مبارک کرے ۔ انھوں نے مزید ‏دعائیں بھی دیں اور میں انھی دعائیں کے سحر اور سائے  میں کمرے سے ایسے باہر آگیا جیسے کوئی بہت بڑی نعمت پا ‏لی ہو ۔ اگر مولانا میری پیش کش  قبول کرلیتے تو  میری خوش بختی  کا کیا ٹھکانا ہوتا  اور اب خوشی اور خلوص سے ا ن کی ‏زبان و دل  سے میرے لیے   نکلنے والی دعائیں بھی کسی نعمت اور اعزاز سے کم نہیں تھیں  ۔

‎‎وزیراعظم  ذوالفقار علی بھٹو کے  دور حکومت میں  1977 ء  کے    متنازع اور متروک   عام انتخابات سے قبل 17  فروری کو ہماری   ایک ‏اور   ملاقات  سّید مودودی  سے ہوئی تھی۔ اس موقع پر  مولانا نے  مجھے اور میرے دوست اشتیاق بھٹی کو اپنا  ایک قلم  اور  ایک بیج بھی ‏عطا کیا تھا ۔ گفتگو کے دوران میں ہم نے  بھٹو صاحب کے ایک قریبی وزیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ آپ کے ‏خلاف بہت زبان درازی کرتا ہے اور توہین آمیز اور بےہودہ  القابات استعمال کرتا ہے جس سے ہمیں دکھ ہوتا ہے ‏۔مولانا مسکرا دیے اور  کہنے لگے بھئی میں اس کا کیا کر سکتا ہوں۔ اس کے اعمال اس کے ساتھ ۔ ہاں اگر میں نے کبھی ‏کسی کے خلاف ایسی زبان استعمال کی ہو تو آپ نشان دہی کریں۔  بڑے پن والا ایسا ٹھوس جواب ہماری تسلی اور ‏تربیت کے لیے کافی تھا۔‎ ‎

  سیالکوٹ شہر  کے اس وقت کے نواحی قصبے فتح گڑھ  میں ہمارا  عام سادہ لوح ، مخلص ، درمیانے طبقے کا مسلم گھرانا تھا ۔ والد صاحب مرحوم و مغفور سنجیدہ طبیعت کے مالک اور مڈل پاس ہونے کی وجہ سے اپنے زمانے ‏کے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے تھے ۔ گھرانے کی کوئی گہری مذہبی وابستگی یا عالمانہ ماحول نہیں تھا  ۔ بچپن ‏میں جب میاں جی سے پٹی اور یسرنا القران  قاعدہ پڑھنے کے لیے  ایک کمرے اور برآمدے پر مشتمل  مسجد ‏ارائیاں  میں جایا کرتے تو سردیوں کے موسم  میں صفوں کی جگہ دھان کے خشک  تنوں   کی "پرالی " بچھی ہوتی  تھی۔ ‏قرآن پاک کے چند ایک نسخے اچھی طرح سبز ریشمی غلافوں میں لپٹے ہوتے  اور ان پر پڑی گرد  کوکبھی کبھار کوئی ‏مشکل میں مبتلا شخص تلاوت کے بعد اور کبھی امام مسجد  میاں جی  صفائی کی غرض سے جھاڑ پونچھ دیتے تھے۔مسجد کی ‏کھڑکی کے پاس وارث شاہ کی ہیر کا ایک نسخہ بھی پڑا ہوتا تھا ۔جس کے حمدیہ اورنعتیہ اشعار چند لوگ بڑے شوق ‏سے پڑھتے تھے۔  

‎ ‎بڑے بھائی انجینئر  چودھری اسلم صاحب  میٹرک کے بعد کالج جانا شروع ہوئے تو اس زمانے کے  پڑھے لکھے لوگوں ‏کے فیشن کی طرح لبرل اور آزاد خیال   ٹھہرے   ۔1960ء کے عشرے میں   چھوٹے ہوٹل نما   ہماری دُکان پر  روزنامہ امروز اور کوہستان    تھے اور یہ  دونوں اس دور کے بڑے اخبار ات تھے۔  گھر میں بھائی جان’’‏قندیل"  ، حنیف رامے کا "نصرت "اور ارشاد راؤ  کا" الفتح"  منگواتے تھے جس کا میں بھی اکثر  مطالعہ  کر لیا کرتا ‏تھا ۔‎ ‎

(جاری ہے)

بہ سلسلہ " سیال کوٹ سے شال کوٹ تک " --------چوتھی اور آخری قسط

 

جنگِ ستمبر 1965 :  پرائمری  اسکول کے طالب علم کی یادداشتیں 

تاشقند میں  10 جنوری  1966ء کو جنگ بندی  معاہدے پر دست خط  کے دوسرے روز  بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری پُراسرار طور پر چل بسے تھے۔

پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان ان کے تابوت کو کندھا دے رہے ہیں۔ فائل تصویر

   ارشد سلیم کی کہانی، ان کی اپنی زبانی   

اس جنگ میں  میریا ڈھول سپاہیا کے علاوہ   نور جہاں ، مہدی حسن ، شوکت علی ، عنایت حسین بھٹی اور دوسرے بڑے گلو کاروں کے  گائے بہت سے جنگی نغمے بھی امر ہوئے۔

اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے ،

ناں ایویں ٹکراں مار کڑے

ایہہ سودا نقد وی نئیں ملدا

توں لبھ دی پھریں ادھار کڑے

-------------

·      ساتھیو  ، مجاہدو ، جاگ اٹھا ہے سارا وطن

·      اپنی جاں نذر کروں ، اپنی وفا پیش کروں

·      اے مردِ مجاہد جاگ ذرا ، اب وقتِ شہادت ہے آیا ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر

·      سیالکوٹ تو زندہ رہے گا

·      خطۂ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام

·      میرا سوہنا شہر قصور نیں

·      میرا ماہی چھیل چھبیلا ، کرنیل نیں ، جرنیل نیں

·      جوٹھ بولنی ایں  جو ٹھیے آکاش وانی ایں

·      کدی سچ وی تے بول اڈھ پڈھ جانی ایں

                    ان جنگی نغمات نے سپاہ اور عوام کا مورال بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جنگ کے  بعد بھی برسوں  تک  یہ نغمے بچوں بڑوں سب کا خون گرماتے رہے ۔ جنگ چھڑنے  کے چند روز بعد ہی   لوگ  نئی صورت  حال کے عادی ہوگئے  اور انھوں نے آہستہ آہستہ ، چھپ چھپا کر اور بچ بچا کر اپنی کچھ نا کچھ  روزمرہ مصروفیات شروع کردیں۔ جنگی  طیارے  مشرق سے اُبھرتے اور کچھ لوگ  ڈر کرچھپنے لگتے تو دوسرے لوگ ہمت بندھاتے  اور مذاق اڑاتے کہ باہر آجاؤ  اور ساتھ کہتے :’’اے ساڈا  ای اے  ‘‘ (پریشان نہ ہوں ،یہ بھارتی نہیں  بلکہ ہمارا پاکستانی جنگی طیارہ  ہے جو دشمن کے خلاف مشن مکمل کرکے  لوٹا ہے ) - اس کی وجہ یہ تھی کہ سات ستمبر کوپاک  فضائیہ کے متحرک ہونے کے بعد  بھارتی فضائیہ کی کمر ٹوٹ چکی تھی  ، فضاؤں  میں پاکستانی ہوا بازوں ہی  کا  راج تھا اور وہ جب چاہتے  دھڑلے سے سرحد کے آر پار  پروازیں  کررہے تھے ۔

سیالکوٹ کے محاذ اور شہر کے حالات کی خبریں تو دن بھر ملتی رہتی تھیں اور  معلوم ہوتا رہتا تھا کہ آج کہاں بھارتی حملہ ہوا ،  کہاں بمباری ہوئی  اور کتنی شہادتیں ہو ئیں ۔ برکی ہڈیارہ ،  چونڈہ ، کھیم کرن ، فاضلکا ، جسڑ ، راجستھان اور دوسرے محاذوں کی خبریں  البتہ شام کو اکثر لوگ بلیک آؤٹ کی حالت میں  گلی محلے کے کسی ریڈیو یا ٹرانسسٹر والے گھر یا دکان  پر جمع ہو کرسن لیا کرتے تھے  ۔ شکیل احمد اور انور بہزاد کی زبانی پتا چل جاتا کہ ہمارے جانبازوں ، مجاہدوں نے آج دشمن کے کس کس شہر اور ہوائی اڈے پر "ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے" ، اسلحہ کے ڈپو تباہ کیے اور اس کے ٹینکوں اور توپوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا ۔ گاؤں کے مختلف محلوں کے نوجوان لڑکوں نے شہری دفاع کے رضاکاروں کی تنظیم منظم کرلی ۔ حکیم امان اللہ بٹ کمپنی کمانڈر کی قیادت میں ہمارے محلے کی ایک پلاٹون بھی ملیشیا کی وردی اور  سبز قلغی  والی ٹوپی پہنے دن بھر پریڈ اور لیفٹ رائٹ کرتی۔اس میں شامل نوجوان  کسی ممکنہ ایمرجنسی کے لیے  چوکس  رہتے  اور ان کا ایک حصہ رات کو لاٹھیاں پکڑے اندھیرے میں گشت کر رہا ہوتا ۔میں بھی گاؤں کا دس سالہ سادہ اور کم گو لڑکا ہونے کے باوجود  ہر جگہ موجود ہونے ، ہر بات  جاننے اور ہر واقعہ  کے بارے  میں  ’’فرسٹ ہینڈ انفرمیشن‘‘ حاصل کرنے  کے جنون  میں  رات کو بھی اپنے بڑے بھائی مرحوم  محمد اشرف  ، حکیم امان اللہ ، گوری بٹ ، شوکت بٹ  ، انور پاشا اور ڈاکٹر مبارک  ماکھو کے ساتھ  گاؤں کے بیرونی محلوں، گلیوں میں گشت کرتا تھا ۔  اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ بڑے بھائی کے ساتھ گاؤں کے اندر گشت کرنے کی حد تک تو موجودگی   ٹھیک تھی لیکن جس دن  بھارتی فضائیہ نے ہمارے گاؤں سے  کوئی  پانچ ،چھے میل دور شہر کے وسط میں واقع قلعہ کی گھاس  منڈی کی طرف  والی سیڑھیوں پر بم  گرایا تو اس سے ہونے والی تباہی دیکھنے کو  میں اکیلا ہی وہاں  پہنچ گیا تھا۔  سیالکوٹ شہر کے بازار کلاں اور علامہ اقبال کی رہائش گا ہ کی طرف  شہر کا مصروف ترین گھاہ( گھاس) منڈی چوک  اس بمباری سے شدید متاثر ہوا تھا  ۔اس حملے میں کئی افراد  شہید ہوئے تھے۔اس  وجہ سے اب اسے چوک شہیداں کہا جاتا ہے  ۔ اس وقت ہمارے گھر تو درکنار محلے میں بھی کسی کے پاس بائیسکل تک کی سواری  نہیں  تھی ۔

جنگ میں لڑاکا طیاروں کی گھن گرج  اور مخصوص آواز کے ساتھ  ایک اور آواز بلکہ افسانوی  کردار نے شہریوں کے روزمرہ معمولات میں  جگہ لے لی تھی ۔ یہ تھی ایک دورمار توپ، جس کی  اکثر رات کو وقفے وقفے سے منفرد اور بھاری آواز  فضا میں گونجتی تھی۔  بڑے بزرگوں نے خود ہی  اس کا نام "رانی توپ " رکھا ہوا تھا ۔ جونہی اس کی آواز گونجتی اور اس کی   کُوک   سے طلاطم پیدا ہوتا ، خوشی اور جذبات سے سب لوگ جھوم اٹھتے کہ ہماری سب سے اہم ، بڑی اور فتح و  نصرت  کی علامت" رانی توپ"  ایکشن میں ہے اور اب دشمن کی خیر نہیں ۔ جنگ ستمبر میں غازی آبدوز اور ایم ایم عالم کے سیبر فائٹر کے ساتھ ساتھ اس "رانی" توپ نے بھی رومانوی حیثیت حاصل کر لی  تھی۔

اس جنگ میں ایک اور پہلو جو ابھر کر سامنے آیا ،وہ شک کا تھا ۔  جہاں کہیں کسی کو  کوئی  انجان ، گم صُم ، عجیب یا مشکوک حالت والا  یا نیم ہوش مند شخص ویران جگہ پر نظر آتا ،اس کو بھارتی جاسوس قرار دے  کر پکڑ لیا جاتا ۔  سارا گاؤں جاسوس کو دیکھنے  ، اس سے جاسوسی کا اعتراف کرانے اور موقع پر انجام تک پہنچانے کے لیے نالہ اَیک کے کنارے ، کماد کے کھیتوں ،  سروٹوں (سرکنڈوں  ) کے جھنڈوں یا ٹوئے  ٹبوں میں پہنچ جاتا ۔ اس کی بدن بولی ، گم صُم رہنے  اور نگاہوں کی حرکت کو ہر  کوئی اپنی مرضی کے  معنی پہنا رہا ہوتا ۔ گویا عوامی سطح پر یہ سمجھ لیا   گیا تھا کہ جاسوس کے لیے  نیم پاگل ، جھلا اور  گندا ہونا ضروری ہے اور وہ کسی اچھے ، صاف ستھرے ، پڑھے لکھے بندے کے  روپ میں نہیں ہو سکتا ۔ پولیس یا شہری رضاکاروں کے پہنچنے سے پہلے ہی پرجوش نوجوان اس کی اچھی خاصی دھلائی کرکے حب الوطنی کا ثبوت دے چکے ہوتے  تھے۔

اندرون ملک سے  تازہ دم فوجی دستے  ، توپخانہ اور دوسرے  قافلے جب گاؤں کے پاس سے گزر کر سیالکوٹ شہر کی دوسری جانب محاذ جنگ کی طرف بڑھتے تو عام لوگ فرط ِجذبات  میں نعرتے لگاتے ، فوجی گاڑیوں اور توپوں پر پھول پھینکتے اور ا نھیں کھانے پینے کا سامان دیتے ۔ وہ ملکی سرحدوں کا دفاع کر نے والے ان مجاہدوں کو خوش بخت سمجھتے اور اس سعادت سے اپنی محرومی  پر کسک سی محسوس کرتے ۔ جنگ کے آخری دنوں میں  مسلح  افواج کی مدد   کے لیے رضا کاروں کی  کمک طلب کی گئی تو سیکڑوں لوگوں نے اپنی خدمات پیش کردیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے  فتح گڑھ کے  بڑے زمیندار اور میو خاندان  کے دو بیٹوں عبدالمجید اور عبدالرشید کو گاؤں کے لوگ قریباً   دس میل دور گانگڑے پہاڑ (اصل سابق نام 'کانلے پارک ' اور موجودہ جناح پارک / سٹیڈیم ) تک جلوس کی شکل میں  پیدل چھوڑنے گئے تھے ۔ایسے موقعوں پر  بھلا میں کہاں پیچھے رہ سکتا تھا ، اس کاروان میں شامل ہو گیا ۔ اور ہم پر جوش اور فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے محلہ حاجی پورہ ، چراغ پورہ ، کنک منڈی  ، لہائی بازار اور ریلوے روڈ سے گزرتے ہوئے کئی گھنٹوں میں پارک تک پہنچے ۔ دونوں بھائی  ہاروں سے لدے ہوئے تھے اور رستہ بھر دکاندار ان پر پھول نچھاور کر  رہے تھے۔ راہ گیر بھی  رک کر اور مڑ مڑ کر  ملک وقوم کی بقاء کے لیے بلا معاوضہ اور رضاکارانہ طور پر  اپنی خدمات پیش کرنے والے ان خوش نصیب بھائیوں کو  رشک سے دیکھ رہے تھے۔

پارک میں کئی دوسرے محلوں سے بھی رضاکار جوان پہنچے ہوئے تھے  لیکن اس وقت ہماری مایوسی کی کوئی انتہا نہ رہی جب  ہمیں بتایا گیا کہ فی الحال ہمیں مزید رضاکاروں کی ضرورت نہیں  ، آپ لوگ واپس چلے جائیں ،جب مزید ضرورت پڑے گی تو آپ کو طلب کر لیا جائے گا ۔ مجبوراً سب لوگوں کو  مُنھ لٹکائے  مایوس  لوٹنا پڑا لیکن اب خفت مٹانے کےلیے ہم دوسرے غیر معروف راستے سے امام صاحب ، بن اور  کوٹھی اسکول کے پیچھے سے ہوتے ہوئے جلوس کے بجائے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں واپس  گاؤں پہنچے ۔ دونوں بھائی بھی بہت افسردہ  تھے اور کئی روز لوگوں سے نہیں ملے حالانکہ اس میں اتنی دل شکنی اور مایوسی والی کوئی بات نہیں تھی ۔ ہر شخص نے الگ الگ محاذ پرملک و قوم کی خدمت کرنا ہوتی ہے ۔ کافی عرصے کے بعد سنا کہ ان میں سے ایک سادہ لوح بھائی کسی نوسر باز  کے ہتھے چڑھ گیا اور  لاہور میں کسی فلم کے لیے سرمایہ کاری کے نام پر زیادہ تر زمینیں بیچ کر بھاری رقم  اڑا  دی اور پھر کسمپرسی کی حالت میں  باقی زندگی گزاری ۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان  جنگ چھڑنے کے ساتھ ہی کچھ بڑی طاقتوں اور دوست ممالک نے  اس کو رکوانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں جو آخر کار بار آور ثابت ہوئیں  اور چھے ستمبر کو شروع ہونے والا معرکہ سترہ روز جاری رہنے کے بعد 23 ستمبر 1965 کو  جنگ بندی پر ختم ہوگیا ۔   دونوں ملکوں کے درمیان یہ جنگ بندی اقوام متحدہ کی  ایک قرار داد کے تحت  ہوئی تھی۔اس  کے بعد سابق سوویت یونین نے دونوں ملکوں کے سربراہوں کو اپنی ثالثی میں مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ مذاکرات  سابق  سوویت   ریاست ازبکستان کے شہر تاشقند میں  ہوئے تھے اور ان کے  نتیجے میں پاکستان کی طرف سےصدر   جنرل محمد ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم شری لال بہادر شاستری نے 10 جنوری 1966 کو  "اعلان  تاشقند "پر دست خط  کیے تھے  ۔   وزیر اعظم شاستری تواس اعلان  کے   اگلے ہی روز پر اسرار طور پر  چل بسے تھے اور  تابوت میں بھارت پہنچے  تھے  جبکہ   ایوب خان  خود چل کر زندہ  و سلامت اور  اہلِ وطن کی نظر میں بظاہر  ایک فاتح کے طور پر پاکستان لوٹے تھے مگر اس   فتح کے باوجود  ان کے  اقتدار اور  سیاست کے سفر کے خاتمے  کا  آغاز ہوگیا تھا ۔تاشقند میں  شاستری کے تابوت کو کندھا دیتے وقت ان کے شاید وہم وگمان میں  بھی  نہ ہو کہ ان کے ساتھ  کیا بُرا پیش آنے والا ہے اور کس کے ہاتھوں ؟ ان ہی کے  خاص الخاص اور  وزیر  خارجہ  ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان تاشقند کو سازش اور ملکی سالمیت کے خلاف قرار دیا۔ انھوں نے  کسی مناسب موقع پر ' اعلان ِتاشقند کی بلی کو تھیلے سے باہر نکالنے'  ، اس کے اصل  رازافشا کرنے اور کشمیر کی آزادی  کے لیے' ہزار سالہ جنگ'  لڑنے کے نعروں پر وزارت کو 'ملک  اور عوام کی خاطر ٹھوکر مار  دی'  اور صدر ایوب خان کے خلاف احتجاجی  تحریک شروع کر دی ۔ ایوب خان ہزار وضاحتیں دیتے رہے لیکن نہ تو بھٹو صاحب نے وہ وضاحتیں سنیں نہ ہی عوام نے ان پر کوئی  خاص توجہ دی اور انھیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔اعلان تاشقند کے   گیارہ سال بعد 1977 ء میں تاریخ نے اپنے آپ کو کسی اور انداز میں پھر دُہرایا ۔منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت جاتی رہے اور جنرل ضیاء الحق  نے اقتدار سنبھال لیا۔ اس وقت سے اقتدار کا   یہ کھیل جاری ہے ، بس چہرے  بدل رہے ہیں  اور یوں لگتا ہے ملک پر کوئی آسیب کا سایہ ہے جو اس کو ہر دوچار سال کے بعد پیچھے دھکیل دیتا ہے  اور ہم مسلسل ترقیِ معکوس کا سفر طے کررہے ہیں۔

(ختم شد)

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں