25 ستمبر1979ء کو بانی جماعت اسلامی کے سفرِ
آخرت کا آنکھوں دیکھا احوال
بہ سلسلہ سیال کوٹ سے شال کوٹ تک، ارشد سلیم کی یادداشتیں
مصری
نژاد علامہ یوسف القرضاوی سیّد ابوالاعلیٰ
مودودی کی نمازِ جنازہ پڑھا رہے ہیں۔فائل تصویر
لاہورکے سب سے بڑے پبلک
مقام قذافی سٹیڈیم میں مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ ہم جنازے کی گاڑی کے ساتھ اسٹیڈیم پہنچے تو وہ نہ صرف مکمل طور پر بھر چکا تھا بلکہ اس کے باہر بھی بڑی تعداد
میں لوگ موجود تھے -ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پورا لاہور اپنے اس مایہ ناز فرزند کو الوداع کہنے کے لیے یہاں اُمڈ آیا ہے ۔ جنازہ اور تدفین کی منتظم گرین فورس
کے رکن کی حیثیت سے اس زبردست ہجوم کے باوجود ہمیں اسٹیڈیم میں میت کا تابوت نماز
جنازہ کی جگہ تک پہنچانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی ۔ کیونکہ ایک
انتہائی منظم جماعت کے ارکان اور ہمدرد اپنے بانی و محسن کے سفرِ آخرت کو بھی نظم کے لحاظ سے مثالی بنا رہے
تھے ۔ کوئی بھاگ دوڑ ، افراتفری اور دھکم پیل تھی اور نہ کہیں صف بندی کی خلاف ورزی تھی ۔ جس شخص کو جہاں جگہ ملتی ،چپکے سے قطار میں کھڑا
ہو جاتا ، بعد میں آنے والے کو جگہ دینے کے
لیے سکڑ جاتا یا اس کی رہنمائی کر دیتا
۔ جنازے کو گاڑی سے اتار کر ہم غیر
ملکی مہمانوں اور اہم ملکی شخصیات کے لیے مختص دو صفوں میں سے دوسری صف میں کھڑے ہوکر نماز جنازہ کی تکبیر اولیٰ کا انتظار کرنے لگے ۔ ریاست آزاد جموں و کشمیر کے
صدر سردار عبدالقیوم بھی میرے ساتھ صف بند تھے ۔ کچھ دیر بعد صدر مملکت جنرل محمد
ضیاء الحق بھی ہیلی کاپٹر پر قذافی اسٹیڈیم پہنچ گئے اور جنازے کی پہلی صف میں شامل ہو گئے ۔ قطر سے خصوصی طور پر
تشریف لانے والے عالمی شہرت یافتہ مصری نژاد اسلامی
اسکالر علامہ محمد یوسف القرضاوی نے ہمارے
پیارے مرشد کی نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کی ۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ 25 ستمبر 1979 کوسیّد مودودی کی نماز جنازہ پڑھانے والے علامہ قرضاوی نے خود
بھی 26 ستمبر 2022 کو وفات پائی ۔
سیّد مودودی ؒکی نماز جنازہ سے پہلے اور بعد میں بھی کئی بڑی مذہبی ،
سیاسی اور سماجی شخصیات کے جنازے دیکھے ہیں یا ان میں شرکت کا موقع ملا ہےلیکن انتہائی عقیدت ، گہری وابستگی
، وارفتگی ، بے لوث و انمول محبت ، جنون ،
اور شدید دکھ اور کرب کے جذبات کے طلاطم کے
باوجود جو نظم و ضبط ، حسن ترتیب ،
برداشت اور احترام اس جنازے میں دیکھا کہیں
اور ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آیا ۔ پہلی قطار
سے لے کر آخری قطار تک صف بندی کے اصولوں اور احکامات کا خیال رکھا گیا ۔ یہ جنازہ
تھا صدیوں بعد پیدا ہونے والی ایسی شخصیت کا کہ جس نے روایتی عالمانہ مباحث اور مناظروں ،مجادلوں اور گروہ
بندی سے دور رہ کر ایک عام سیدھے سادے ، سنجیدہ
و مخلص ، اللہ کو دل سے ماننے اور پوری انسانیت کے محسن کے طور پر بھیجے
گئے اس کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ان کی اتباع کرنے والے مسلمانوں کو انہی
کی ذہنی
سطح اور تاثیر
والی عام فہم زبان میں اللہ اور اس
کے رسول کا پیغام پہنچایا ۔ اس کے بدلے میں اس نے
کسی دنیاوی جاہ و جلال ، منصب ، منفعت ،
معاوضے ، اعزازیے ، مرتبے کی خواہش نہیں کی
۔ جب محض گنتی کے چند لوگ ہی ان کے ساتھ تھے تو وہ گھبرائے نہیں ، مایوس نہیں ہوئے
اور جب لاکھوں نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بنے تو اترائے نہیں ، شکر اور عاجزی کا دامن
ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ 76 سالہ حیات فانی میں دین ہی سیکھا ، پڑھا ، اسی کی ترویج و تبلیغ کی اور
اس کو عام کرنے کی پر عزم سنجیدہ اور انتھک
سعی کی ۔
سیّد ابوالاعلی مودودی سو یہودیوں ہی
کے برابر نہیں تھے بلکہ وہ تن تنہا ہی لاکھوں ،کروڑوں یہود وہنود و
نصاریٰ ، دہریوں ، منکرینِ حدیث ، منکرینِ ختم نبوت ، دین فروشوں ، فرقہ پرستوں ، دین اسلام کو محض چند رسوم تک محدود اور دور جدید میں ناقابل
عمل سمجھنے والوں پر بھاری تھے ۔ مالک و خالق کائنات خصوصی طور ہر مہربان تھا ۔
لاکھوں صفحات پر مشتمل دین متین کے قریباً
ہر پہلو کا احاطہ کرتی ان کی تحریریں ایسے
ہی روشنی اور رشد و ہدایت کا باعث اور دلائل
و براہین کا مرقع نہیں بنیں ۔ان کے پیچھے نصف
صدی سے زیادہ کی متواتر شب خیزی شامل بھی تھی ۔ حمیرا مودودی کے مطابق’’ تحریر و تحقیق ، تفہیم و تفسیر اور جدید
اسلامی ریاست کے خدو خال اور قرآن و سنت کی آئینی حیثیت کے اثبات کےلیے زندگی بھر ان کے والد محترم نماز
عشاء کے بعد سے فجر تک
کے رت جگے کے عادی رہے اور اس میں جیل کے ایام اور جماعت کے تنظیمی دوروں کے سوا کبھی
خلل نہیں آیا ‘‘۔ یقیناً اس غیر معمولی ریاضت
کے سلسلے میں مولانا کی شریک حیات اور بچوں
کا تعاون شامل نہ ہوتا تو شاید ایسا ممکن نہ ہوتا۔ آخری عمر میں مولانا خود مذاق میں کہا کہتے تھے
کہ زندگی بھر جب میرے جسم کی ہڈیوں ، آنکھوں اور دماغ کو آرام کی ضرورت تھی
، میں نے اس وقت ان کو آرام نہیں کرنے دیا ،لگتا ہے کہ اب بڑھاپے میں وہ سب مجھ سے انتقام لینا چاہتے
ہیں ۔، اب میں ہڈیوں اور آنکھوں کو آرام دینا چاہتا ہوں لیکن وہ آرام کیسے کریں ،
ان کو تو اس کی عادت ہی نہیں ، دماغ کو سوچ بچار او تفکر سے فرصت دینا چاہتا ہوں لیکن اس نے تو یہ عیاشی
کبھی دیکھی ہی نہیں ۔
عطار ہو ، رومی ہو ، رازی ہو ، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
مولانا مودودی رح کے علاوہ
کسی بھی عمل کا عشروں پر محیط ایسا غیر روایتی اور معمول سے ہٹ کر تسلسل اور استقامت دو دوسری
شخصیات بھی منسوب ہے
۔ ایک شاعر انقلاب جوش ملیح ابادی کہ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طلوع آفتاب کے منظر کے سحر میں اتنا
مبتلا تھے کہ انھوں نے زندگی بھر اسے
مس نہیں کیا ۔ دوسرے سابق وزیر اعظم میر ظفراللہ
خان جمالی کہ جو وزیر اعظم بننے تک متواتر
قریباً 36 برس ہر رمضان المبارک میں حرم مکہ میں
بیت اللہ کے سائے میں طلوع آفتاب اور
غروب آفتاب کا نظارہ کرتے رہے ۔
پانچویں صدی ہجری میں
افغانستان کے علاقے ہرات کے معروف صوفی بزرگ اور روحانی شخصیت خواجہ سیّد قطب الدین مودود چشت کے نام سے منسوب ان کے اس قابل فخر بیٹے مولانا سیّد ابوالاعلی مودودی رح کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ حرم بیت اللہ شریف
میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ حبشہ کے شاہ
نجاشی کے بعد غالبا یہ سعادت حاصل کرنے والے
وہ دوسرے مسلمان ہیں ۔
مولانا مودودی مرحوم و
مغفور کے جنازے کے فورا ًبعد میں نے تدفین کے مرحلے کی تفصیل بیان کرنے کے بجائے ان
کی شخصیت ,تعلیمات ، معمولات کا ذکر اس لیے شروع کر دیا کہ دراصل تدفین میں کچھ تاخیر مطلوب
تھی ۔ ابتدائی طور پر سیّد مودودی ؒ کی تدفین کا پروگرام مولانا کی فکری اور سیاسی تحریک
، جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں رکھا گیا تھا ۔ اس مقصد کے لیے غالبا وہاں قبر
بھی تیار کرلی گئی تھی۔ تاہم مولانا کی اہلیہ اور اہل خانہ کی خواہش اور اصرار پر
منصورہ میں ان کی تدفین کا پروگرام منسوخ کرکے اچھرہ میں ان کی رہائش گاہ کے لان میں
تدفین کا فیصلہ کیا گیا ۔ جونہی 5 اے ذیلدار
پارک اچھرہ کے سبزہ زار میں مرقد تیار ہوگئی ،
مولانا کا جسدِ خاکی وہاں لے جایا گیا
اور امیر جماعت میاں طفیل محمد ، جماعت کی مرکزی قیادت ، مولانا کے اہل خانہ اور ہم
گرین فورس کے ارکان نے اپنے ہاتھوں سے انھیں
لحد میں اتار کر اللہ کریم کی رحمتوں ، مغفرتوں کے حوالے کیا ۔ ہم نے تدفین کے بعد قبر پر دعا مغفرت
کی اور میں اور فاروق مروت بھاری دل کے ساتھ واپس سیالکوٹ روانہ ہو گئے ۔ اس دن کے
بعد آج تک ان کی رہائش گاہ پر جانے کی ہمت
نہیں ہوئی کہ پرنور ، پر سکون ، زندۂ جاوید
اور متحرک مرشد کو اپنے دارالمطالعہ ، لان
اور برآمدے میں نہ دیکھ سکنا کیسے برداشت
ہو گا ۔
ممتاز قانون دان اللہ بخش خدا بخش بروہی مرشد سیّد مودودی ؒکی وفات کی خبر سن کر بیرون ملک سفر میں آبدیدہ تھے ، ڈرائیور نے پریشانی اور تجسس سے پوچھا
فوت ہونے والا کیا آپ کا کوئی قریبی عزیز تھا
؟
’’میرا
ہی نہیں ، وہ تو پورے جہاں کو عزیز تھا‘‘
اے کے بروہی نے مختصر
مگر جامع جواب دیا ۔
اَللّٰهُمَّ اغفِر لَهُ
وَارحَمهُ وَعَافِهِ وَاعفُ عَنهُ وَأَكرِم
نُزُلَهُ وَوَسِّع مُدخَلَهُ
(ختم شُد)
....................
صاحبِ تحریر ارشد سلیم کا تعلق پاکستان کے مردم خیز ضلع سیال کوٹ سے ہے۔انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم سیال کوٹ ہی سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج اصغرمال راول پنڈی (جامعہ پنجاب) سے انگریزی زبان وادب میں ایم اے کرنے کے بعدوہ پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن میں نیوز پروڈیوسر کی حیثیت سے بھرتی ہوگئے۔ان کا شمار پی ٹی وی کے کہنہ مشق اور محنتی رپورٹروں میں ہوتا تھا۔انھوں نے سرکاری ٹیلی ویژن چینل کے رپورٹر کی حیثیت سے پاکستان کے کئی ایک حکمرانوں کے ساتھ اندرون اور بیرون ملک خدمات انجام دیں،ان کی مصروفیات اور تقریبات کی کوریج کی اور انھیں بہت قریب سے دیکھا۔ پارلیمان کی رپورٹنگ کی ۔ان کے پاس تاریخی نوعیت کی حامل یادداشتوں کا ایک وسیع ذخیرہ ہے۔وہ پاکستان کی تاریخ ، سیاست اور ثقافت کے بہت سے اہم واقعات کے امین اور چشم دید گواہ ہیں۔ان کی متنوع یادداشتیں أقساط کی صورت میں ’’خبربے‘‘ کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں۔