سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ایک شخص کہ سارے جہاں کو عزیز تھا... (2)
25 ستمبر1979ء کو بانی جماعت اسلامی کے سفرِ
آخرت کا آنکھوں دیکھا احوال
بائیں بازو کے ان رسائل اور اخبارات قندیل ، نصرت اور فتح کی بدولت میرے ذہن میں ذوالفقار علی بھٹو کا انقلابی اور آزادانہ تصور اُبھرا اور وہ میرے اولین ہیرو ٹھہرے ۔ لیکن بوجوہ ا ن کی شخصیت اور سیاست کا سحر زیادہ دیر مجھ پر طاری نہ رہ سکا ۔ اسلم بھائی جان تو واہ کینٹ میں ملازمت کے دوران میں ڈاکٹر محمد کمال اور راجا محمد اکرم مرحوم کی بدولت جماعت اسلامی سے متعارف ہوئے اور ان ہی کے ہو کر رہ گئے ۔ اس کے برعکس دوسرے بڑے بھائی محمد اشرف مسلسل اور تادم آخر بھٹو صاحب کے کٹر حامی ، خوددار اور مخلص جیالے ہی رہے ، اتنے پکے اور زورآور کہ گھر یا باہر کسی کی بھی ان کے سامنےبھٹو صاحب کے خلاف بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے ہم دونوں بھائی ان کے جلال سے بچ بچا کر ہی رہتے تھے ۔ مسلم ہائی ا سکول میں ہماری چھٹی اور ساتویں جماعت کے دوران ہی میں صدر جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہو چکی تھی اور بھٹو صاحب جنگِ ستمبر1965ء کے نتیجے میں ہونے والے اعلان تاشقند کے سخت ناقد بن گئے اور وہ وزارت خارجہ خیرباد کَہ کر عوام میں آ چکے تھے ۔ ملک میں آئے دن ہڑتالیں اور مظاہرے معمول بن چکے تھے ۔طلبہ اس تحریک کا ہراول دستہ تھے ۔ ہڑتالی چھٹی کے بعد تمام طلبہ سیالکوٹ کے مرکزی ڈراماں والا چوک ( علامہ اقبال چوک )اکٹھے ہو جاتے جہاں ریلی سے بارک اللہ خان ، ادریس باجوہ ، چودھری غلام عباس اور دوسرے طالب علم رہنما تقریروں سے دلوں کو گرماتے ۔اسلامی جمعیت طلبہ کے بارک اللہ خان کا خطاب پرجوش ہونے کے ساتھ ساتھ مدلل اور متاثر کن ہوتا اور اپنامثبت تاثر چھوڑتا ۔ ان ہی دنوں مسلم ہائی اسکول کے پاس دیواروں پر ایک دن سٹینسل سے نقش کیا ہوا ایک نعرہ دیکھا:’’سو یہودی ، ایک مودوی‘‘۔یہ نعرہ ناجانے کس نامعلوم شخص نے اور کس نیّت ،ارادے ، مقصد اور ذہنیت کے تحت اختراع کیا تھا اور اسے اس طرح پھیلایا تھا لیکن مجھے یہ نعرہ کاٹ کھاگیا ، دماغ کو گھائل سا کرگیا ۔یک دم کایا کلپ ہوگئی ۔ الٹا مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ہمدردی اور ان کے لٹریچر میں دلچسپی ہو گئی ۔ قریبی دوستوں اور ہم جماعتوں زاہد غنی ڈار اور خواجہ فیاض نے بھی اس تبدیلی کی آبیاری میں مدد کی ۔ کچھ لٹریچر پڑھا اور میں دیکھے ، پڑھےاور ملے بغیر مولانا مودودی کا پرستار بن چکا تھا ۔ لڑکپن ہی سے ملکی سیاست میں دلچسپی کے باعث جنوری 1965 ء میں منعقدہ صدر ایوب خان بہ مقابلہ فاطمہ جناح صدارتی انتخاب کے نعرے اب تک ذہن میں محفوظ ہیں اور 1970 کے عام انتخاب تو جیسے ابھی کل کی بات لگتی ہے۔
سنہ 1972ء میں میٹرک کے امتحانات کے بعد بشیر لودھی مرحوم نے میرے دوست عبداللہ بٹ اور مجھے جماعت اسلامی اور اسلامی جمیعت طلبہ سے باقاعدہ متعارف کروایا ۔ بشیر لودھی صاحب جامع مسجد اہلحدیث میں نماز فجر کے بعد لاؤڈ اسپیکر پر مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا درس دیتے تھے ۔ان ہی کی دیکھا دیکھی میں نے بھی ہفتے میں دو ایک بار نمازِ عشاء کے بعد اسپیکر پر تفہیم سے قرآن پاک کا با محاورہ اردو ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا ۔ کچھ عرصے کی مشق کے بعد میرا ٹھہراؤ کے ساتھ پڑھنے کا اچھا خاصا منفرد اور مؤثر سٹائل بن گیااور لوگوں نے بھی اس سلسلے کو پسند کرنا شروع کر دیا ۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ اللہ کے کلام کی برکت تھی اور صاحبِ تفہیم القرآن کا کمال اور اعزاز تھا کہ انھوں نے ایک عام پڑھے لکھے مسلمان کے استفادے کے لیے کلام اللہ کا ایسا آسان ، سادہ اور بامحاورہ ترجمہ کیا تھا کہ اس کا براہ راست اثر سننے اور پڑھنے والوں کے دل و دماغ پر ہوتا تھا اور وہ کتاب اللہ کی حقانیت سے براہ راست اثر لیے بغیر نہیں رہتے تھے۔ یہی قرآن حکیم کا اعجاز اور مطلوب و مقصود تھا ۔ کاش اللہ کریم مولانا کو مزید موقع ، ہمت ، صحت اور توفیق دیتا اور وہ اپنی خواہش کے مطابق " تفہیم القرآن" کی طرز پر " تفہیم الحدیث " بھی لکھ سکتے اور اس کی بدولت عام مسلمانوں پر علم و عرفان ، ہدایت و آگہی کی نئی راہیں کھلتیں اور محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی حیاتِ مبارک اور سنتِ پاک کے کئی پہلو نئے ، مؤثر اور عملی انداز میں سامنے آتے ۔مولانا مودودی ؒ کو زندگی میں پہلی مرتبہ 1974 میں جماعت اسلامی کے زیر تعمیر ہیڈ کوارٹر منصورہ میں ہونے والے اجتماع عام میں دیکھا اور پہلی اور آخری مرتبہ ان کا عوامی خطاب سنا تھا ۔
24اور 25
ستمبر 1979 کی درمیانی شب میں
اور فاروق مروت اسی عظیم انقلابی ہستی اور
اپنے مرشد ، رہبر اور محسن کو آخری بار
دیکھ رہے تھے ۔ ہم دونوں نے متفقہ طور پر طے کیا کہ یہ رات دوبادہ نصیب نہیں ہونی
، اس لیے
مولانا کے جسد خاکی کا دیدار کرکے سوجانےاور تازہ دم ہو کر صبح جنازے کا انتظار کرنے کے بجائے کیوں
نہ اسے جاگ کر گزارا جائے ۔ ہم ہر دفعہ ان کا دیدار کرنے کے بعد واپس ایک دو کلو میٹر پیچھے
قطار کے آخری سرے پر پہنچ جاتے اور ان کے
دوسرے پروانوں کے ساتھ آہستہ آہستہ قدم بہ قدم چل کر مرشد کے جسدِ خاکی کے
پاس پہنچتے ، جی بھر کر دیکھتے ، دعائے مغفرت کرتے اور آنسوؤں کی جھڑی میں ایک
بار پھر قطار میں جاکر لگ جاتے ۔ رات بھر
کسی موقع پر بھی یہ قطار ایک ڈیڑھ کلو میٹر سے کم نہیں ہوئی ۔فاروق مروت نے شدید
تھکاوٹ کے باوجود میرا حوصلہ کم نہ ہونے دیا
، ڈگمگانے نہیں دیا اور ہم نماز فجر تک زائرین کی قطار کے آخری سرے سے اپنے رہبر و مرشد مودودی ؒکے جسد ِخاکی تک بار بار چکر لگاتے رہے ۔ ہر بار مرشد کا چہرہ پہلے سے
زیادہ پر رونق ، شاداں اور نورانی دکھائی
دیتا۔ فاروق اکثر بڑی دوراندیشی اور پتے کی بات کرجایا کرتے تھے ۔کہنے
لگے:’’ یہ ایسی طویل اور تاریک شب ہے کہ
بظاہر جس کی صبح نہیں ہے ‘‘۔
نصف شب کے بعد طویل قطار میں بھارت ، بنگلہ دیش ، سری لنکا ، افغانستان ،
ترکی ، مشرق بعید کے ملکوں ، عرب دنیا ، امریکا اور یورپ سے آنے والے سید مودودی
کے پرستار بھی بڑی تعداد میں شامل ہو چکے
تھے اور یہ ایک طرح کے عالمی اجتماع کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ فجر کی نماز کے بعد تدفین کی تیاریوں کو حتمی شکل
دینے کا مرحلہ شروع ہوا ۔ طے پایا کہ جنازے اور تدفین کے تمام مراحل مرشد مودودی ؒ
کی تحریک کے ہراول دستے ، مستقبل کے وارث
، ان کے مشن کے اصل ہدف اور ان کی فکری و معنوی اولاد ہی انجام دے گی یعنی نوجوان کہ جن پر وہ ہمیشہ فخر کیا کرتے تھے اور یہ
نوجوان بھی مولانا پر جان نچھاور کیا
کرتے تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے
سابق ناظم اعلیٰ اور پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر لیاقت بلوچ کی
سربراہی میں جمعیت سے وابستہ نوجوانوں پر مشتمل
ایک گرین فورس قائم کی گئی ۔اس خصوصی فورس
کی نشانی کے طور پر بازو
پر سبز رنگ کی پٹی باندھ کر میں
اور فاروق مروت بھی اس میں شامل ہو گئے - عالم ِاسلام کے اس عظیم المرتبت
فرزند ، مفکر و مفسر و مصلح اور سید قطب کے بقول 'مسلم العظیم' کے جنازے میں شرکت ہی کسی اعزاز سے کم نہیں
تھی کہ اس خصوصی انتظامی فورس
میں شمولیت کا اعزاز بھی مل گیا جس
پر ہم بجا طور پر فخر سے پھولے نہیں سما
رہے تھے ۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں