جنگ ستمبر 1965 : پرائمری اسکول کے ایک طالب علم کی یادداشتیں
(بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری 1966ء میں سابق سوویت یونین کے شہر تاشقند ( اب دارالحکومت ازبکستان) میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان کے صدر ایوب خان سے ہاتھ ملاتے ہوئے۔ ساتھ روسی وزیراعظم الیکسے کوسیجن اور پاکستانی وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی نظر آرہے ہیں۔ فائل تصویر )
یہ بھارتی فضائیہ کا حملہ آور جہاز تھا اور اس کا سیالکوٹ
شہر اور ہمارا گاؤں کراس کرکے مغرب کی طرف
بڑھنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ کسی بڑے ہدف
کو نشانہ بنانے جارہا تھا۔ بھارت کے 6 ستمبر کو علی الصباح لاہور پر اچانک حملے کے بعد پاکستان کے سنبھلنے اور جوابی حملے
سے پہلے ہی انڈین جنگی جہاز ریل ٹریک ،رابطہ سڑکوں , بڑے پلوں اور اہم تنصیبات
کو تباہ کرنا چاہتے تھے تاکہ پاکستان کی مسلح افواج سرحد کی طرف پیش قدمی نہ کر سکیں اور انھیں مزید
اسلحہ، گولا بارود اور لاجسٹک سپورٹ مہیا نہ
ہو سکے۔ ۔ ہم عام شہری فی الحال ان کا ہدف
نہیں تھے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ انڈین
جہاز مغرب کی طرف منظر سے غائب ہو
گیا ۔ آہستہ آہستہ اس کی ڈراؤنی ، ہیبت ناک
اور دل کو چیر دینے والی آواز بھی
مدھم ہوگئی تو سب لوگوں کی جان میں جان آئی
۔ اپنے آپ کو زندہ سلامت اور محفوظ محسوس
کیا اور کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ غالباً یہ وہی انڈین جہاز تھا کہ جس نے
آگے جاکر وزیر آباد کے اہم ریلوے جنکشن پر کھڑی مسافر ٹرین کو نشانہ بنایا
تھا اور اس کی بمباری سے معرکہ ستمبر کی پہلی سویلین خاتون عابدہ طوسی شہید ہو گئی
تھیں ۔ وزیر آباد ریلوے جنکشن اس لحاظ سے انتہائی اہم اور تزویراتی طور پر حساس سٹیشن تھا کہ یہ ریلوے نظام کو ایک طرف آرمی کے جنرل ہیڈ
کوارٹر راول پنڈی اور ائیر فورس کے رئیر ہیڈ کوارٹر پشاور سے ، دوسری
طرف دفاعی لحاظ سے انتہائی اہم ورکنگ باؤنڈری اور مقبوضہ جموں و کشمیر سے ملحق سیالکوٹ /نارووال /ظفروال اور جموں سے ، تیسری
طرف لائل پور سے اور چوتھی طرف مین ریلوے لائن کے ذریعے مغربی پاکستان کے
دارالحکومت لاہور اور مرکزی شہرا کراچی
سے جوڑتا تھا ۔
خیر
بھائی جان اسلم نے حالات اور ممکنہ صورت حال
پر زبانی بریفنگ کے بعد سب سے پہلا
کام جو کیا وہ ٹاہلی کے درخت کے نیچے نشان لگائے اور ہم سب بھائیوں اور کزنوں کو ایل
شکل کا کوئی چھے فٹ گہرا ، تین فٹ چوڑا اور پندرہ بیس فٹ لمبا مورچہ کھودنے پر لگا دیا تاکہ ہمارے ساتھ تایا ، چچا
کے اہل خانہ بھی حملے کی صورت میں وہاں محفوظ رہ سکیں ۔ کچھ ہی دیر بعد بھائی
جان کو واہ آرڈنینس فیکٹری کے ایکسپلوزو سیکشن سے چھٹی منسوخ ہونے اور فوری طور پر ڈیوٹی پر پہنچنے کا تار موصول ہوگیا اور وہ تیار ہوکر اپنا محاذ سنبھالنے کے لیے واہ کینٹ
روانہ ہو گئے ۔ان کےجانے کے بعد سب
سے چھوٹا ہونے کے باوجود میں نےخود ہی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان کا
قائم مقام نامزد کر لیا ، نہ صرف مورچہ
مکمل کروایا بلکہ اس کے اوپر لکڑیاں ڈال کرعارضی
چھت بنا دی ، اندر
لالٹین رکھنے کی جگہ بنوا کر روشنی کا اہتمام بھی کر دیا تاکہ رات کے وقت ہوائی
حملے کی صورت میں وہاں پناہ لینا آسان
ہو، اور برسات کی وجہ سے وہاں مضر کیڑے
مکوڑے جمع نہ ہو جائیں۔ مزید عقل مندی دکھاتے ہوئے میں نے دوسری ممکنہ سہولتوں کے ساتھ ساتھ تازہ
ہوا کے لیے مختلف سوراخ اور پانی کا ایک
گھڑا بھی رکھوادیا ۔ پورے سترہ روزہ معرکے میں خود ساختہ بڑا ہونے کا مجھے سب سے زیادہ
قلق اور گلہ یہ رہا کہ میرے سوا کسی چھوٹے بڑے نے خطرے کی صورت میں لازمی معیاری طریق
کار (ایس او پیز) پر عمل نہیں کیا
اور کئی مرتبہ خطرے کے سائرن بجنے کے باوجود مورچے کا استعمال نہیں کیا ۔ اس کے
برعکس سب لوگ باہر کھڑے ہوکر ہی
دشمن جہازوں کو تاڑنے اور حسب توفیق انکو
گالیاں دینے ، اٹ وٹے اور ڈانگ سوٹے سے مار
بھگانے اور دشمن روسیاہ کے جہازوں اور اس
کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی رقت آمیز دعاؤں
کو ہی قومی غیرت ،توکل اور بہادری سمجھتے رہے ۔
گالیاں کیوں نا دیتے کہ یہی تو اکثر پنجابیوں
کا عمومی وتیرہ اور کارگر ہتھیار ہے ۔ انھیں
تو بس اس کا موقع اور ہلکا پھلکا جواز ملنا چاہیے۔ پنجابی زبان
میں کچھ کلاسیکی گالیاں تو ایسی
کارگر ہیں کہ ان کے
بغیر نہ تو دینے والے کو مزہ ،سکون
ملتا ہے اور کلیجے ٹھنڈ پڑتی ہے اور نہ ہی
گالی کھانے والے پر کوئی اثر ہوتا ہے یا اسے غیرت آتی ہے ۔ آخر ہم ان بزدل ، کم ظرف بھارتیوں اور خاص
طور پر ان کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو برا بھلا کیوں نہ کہتے ۔ ابھی سال سوا سال پہلے جون 1964 میں ہی تو میں نے اور تیسری جماعت میں
میرے قریبی دوستوں نے ترس کھا کر چھوٹے ,
منخنی قد، غیر متاثر کن شخصیت کے باوجود
پنڈت جواہر لال نہرو کی وفات کے بعد وزارت عظمی کے لیے اوکے کیا اوران کو بھر
پور سپورٹ کیا تھا ۔ ہمارا خیال تھا کہ
جھانواں، مسکین شکل شاستری پاکستان کے سامنے ڈرا سہما رہے گا ، رعب دبدبے سے کسکے
گا نہیں - ہمارا اونچا لمبا شیئں جوان ، چوڑی چھاتی ،مردانہ مونچھوں والا گھبرو
جرنیل ا یوب خان جب چاہے گا اس کو یرکا لیا
کرے گا اور کشمیر تو اس نے شاستری سے اب ایسے چھینا کہ جیسے کسی بچے سے کوئی میٹھی گولی !
اخبار تو میں نے دوسری جماعت ہی سے پڑھنا
شروع کردیا تھا ۔ لاہور، ڈسکہ,
سیالکوٹ روڈ پر مشینری کوٹھی اسکول کے سامنے
ہماری دُکان پر روزنامہ امروز
اور کوہستان اخبار باقاعدگی سے آتے تھے ،
دُکان پر ٹرانسسٹر ریڈیو بھی تھا۔ شام کو اباجی دودھ اور ملائی کے بڑے ڈول کے ساتھ اس ٹرانسسٹر کو بھی دُکان سے گھر لے آیا کرتے تھے ۔ریڈیو پاکستان
لاہور سے خبریں سننا اور نظام دین اور
چودھری لطیف کا جمہور دا پروگرام ، سوہنی
دھرتی اور فوجی بھائیوں کا پروگرام سننا
بھی ہمارا معمول تھا ۔ دُکان پر آنے والے حالات ِحاضرہ سے آگہی کے چند شوقین بزرگ مجھ سے اخبار سے اونچی آواز میں اہم خبریں پڑھوا کر
سنا کرتے تھے ۔ چھوٹے موٹے زمیندار اور
پراپرٹی ڈیلر برکت سیٹھ ، بابا لہوریا اور مرزا
لطیف بظاہر چٹے ان پڑھ تھے لیکن ویت
نام ، کمبوڈیا اور کوریا کی جنگوں میں ان کی دلچسپی خوب تھی ۔ کسی معرکے میں ہوچی منہہ کے
گوریلوں کے ہاتھوں امریکی فوجیوں کی خواری
اور پٹائی کی خبر سن کر زیر لب ایسے مسکراتے اور کھل اٹھتے کہ جیسے ان کے اپنے سگے شریکوں کے گھر سیندھ لگی ہو یا ان کے نکمے بیٹے
کا رشتہ ٹھکرانے والی نامراد لڑکی کسی کے ساتھ
بھاگ گئی ہو ۔خیر پتاہی نہیں چلا کہ اس طرح جبری اور فرمائشی خبریں
سنانے کی یہ مشقت اور مجبوری کب میرا شوق یا
عادت بن گئی اور میں نے اسکول میں آدھی
چھٹی کے وقت وہی خبریں چند قریبی ہم
جماعتوں کو بھی سنانا شروع کردیں ۔ مجھے
اپنے پرائمری اسکول فتح گڑھ کی
جماعت پنجم کے کمرے کے پچھواڑے آم (امب )کے درخت کے پاس وہ جگہ ابھی اچھی طرح
یاد ہے کہ جہاں میں نے اپنے دوستوں
کے سامنے پنڈت نہرو کی وفات کے بعد انڈین
وزیر اعظم کے چناؤ کی گمبھیر صورت حال رکھی
تھی اور ممکنہ امیدواروں کا
تجزیہ پیش کیا تھا - ہم نے روایتی
مخولیا ، شغلیہ پنجابی انداز میں وزارت ِعظمیٰ کے اُمیدواروں کے نام
بھی ' ڈالے' تھے ۔ میں نے اپنے نا سمجھ ساتھیوں کو پوری دلیل کے ساتھ سمجھایا تھا کہ یارو بے شک قائم مقام وزیر اعظم گلزاری لال نندا ہمارے سیالکوٹ ہی کا جم پل ہے لیکن ہے بڑا کوڑا
، اور جماندرو بے لچک ۔ اس لیے وہ ہمیں
وارے نہیں کھاتا ۔ تو طے پایا کہ؎
گلزاری لعل نندا
ایدھی
ٹنڈ تے ماریا ڈنڈا
یعنی
نندا کو ہم نے وسیع تر اور خالص پاکستانی مفاد میں مسترد کردیا ۔
نندا کے بعد وزیر دفاع بی وائی چاون بھی
اپنی پر اثر شخصیت اور ضدی پن کی وجہ
سے ہمارے معیار پر پورا نہ اتر سکے اور ردی
کی ٹوکری کی نذر ہو گئے اور ان کے لیے یہ
شعر موزوں ہوا ۔؎
ہے
وائی بی وائی چاون
ساڈی
نظراں توں پراں دفع ہو جاون
اسی طرح ہماری' پرعیا' نے باری باری مرار جی ڈیسائی ، اندرا گاندھی
اور سب سے تیز طرار ، شاطر لیکن چٹے ان پڑھ ، سابق رکشہ ڈرائیور مگر وقت کے بادشاہ گر , کے کامراج کو بھی مسترد کرکے مہاتڑ اور نہرو
کابینہ کے بونا نما وزیر بے محکمہ شری لال بہادر شاستری کےنام کی منظوری دی تھی لیکن یہ میسنا تو سب سے خطرناک نکلا ۔ موقع ملتے ہی روایتی
بنیے کی طرح اپنے ہی خیرخواہوں اور محسنوں پر رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا۔ ایسے
گستاخ بندے اور اس کے جہازوں کے پائلٹوں کے لیے
مغلظات نہیں بنتیں تو اور کیا ان 'سؤروں
کو پونے' ڈالنے چاہییں ؟
چھےستمبر ہی کو دن 11 بجے کے قریب صدر
مملکت جنرل ایوب جان نے قوم سے تاریخی
خطاب کیا ۔خطاب سنتے ہی پوری قوم کا ایمان
اور جذبۂ جہاد جاگ اٹھا اور وہ صحیح
معنوں میں متحد اور آہنی دیوار بن گئی ۔
’’ میرے ہموطنو دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان
کا وقت آ پہنچا ہے ۔
ہندوستانی حکمران نہیں جانتے کہ انھوں نے کس قوم کو للکارا ہے ۔ میرے جوانو! آگے بڑھ
کر دشمن کی توپوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دو ۔‘‘
یہ جملے بچّے بچّے کی زبان پر جاری ہوگئے ۔
پوری قوم خوف سے آزاد ہو کر ایمان کی قوت سے چارج ہوگئی ، یک جان و یکسو ہو گئی ۔کسی قسم کے
خطرے ، جہازوں ، توپوں ، بموں ، گولیوں سے بے پروا
ہو گئی اور ڈرنے دبکنے کے بجائے سڑکوں ، گلیوں، محلّوں میں بے خوف اور نڈر ہو کر ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل آئی ۔
صدر ایوب خان کی , کہ جنھیں عام سادہ لوح پنجابی بڑے بوڑھے ’’ستر یوب‘‘ بولتے تھے ، یہ نشری تقریر انگریزی میں تو ان کی اپنی آواز میں تھی ، لیکن بہت کم لوگوں کو اب بھی معلوم ہوگا کہ پوری قوم اور مسلح افواج کے دلوں کو گرمانے ، قومی جذبہ بیدار کرنے اور قومی اتحاد و یک جہتی کی روح پھونکنے والی اس تقریر کا اردو ورژن( متن) ان کی اپنی آواز میں نہیں بلکہ ممتاز براڈ کاسٹر وراثت مرزا (اور ایک دوسری رائے کے مطابق خود الطاف گوہر ) کی آواز میں تھا ۔ البتہ جنگِ ستمبر کا اہم حصہ بننے والی اس یادگار نشری تقریر کو صدر ِمملکت کے قریبی ساتھی اور گھاگ بیوروکریٹ ، اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر ہی نے لکھا تھا ۔
(جاری ہے)
(نوٹ: صاحبِ تحریر کے تعارف کے لیے قسط نمبر
1 کا ابتدائیہ ملاحظہ کیجیے)
۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں