احسان غنی
موسم
گرما کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد پنجاب بھرمیں ا سکول اور کالج کھل چکے ہیں۔تعلیمی
سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں ،والدین بچوں کو پڑھائی کے لیے ہر ممکن سہولت مہیا کرنے میں شب وروز فکر مند اور پریشان ہیں۔تعلیم
جب سے کاروبار بنی ہے بچوں کوکسی
اعلیٰ یا اچھے ا سکول اور کالج میں تعلیم
دلانا والدین کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ تعلیمی اداروں میں داخلہ، وردی ، کتابیں
کاپیاں، اسٹیشنری اوردیگر لوازمات کے اخراجات ہزاروں لاکھوں میں ہیں۔ بظاہر یہ لگتا ہے حکومت تعلیم کے متعلق سنجیدہ نہیں اور
اس سے اپنا ہاتھ کھینچ چکی ہے حالانکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 25 ۔اے بالکل
واضح ہے کہ حکومت ہر بچے کے لیے مفت تعلیم کا بندوبست کرے گی۔یہ کھلا تضاد نہیں تو
اور کیا ہے؟ حکومتی دعووں کے برعکس تعلیم کے فروغ کے لیے عملی اقدامات نا ہونے کے برابر ہیں اور تعلیم ایسے اہم شعبے کو لا وارث چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ نااہل، نالائق،تعلیم سے نابلد حضرات تعلیمی
شعبے کے کرتا دھرتا بنے بیٹھے ہیں۔اسکولوں
اور کالجوں کے سربراہان من مانیاں کرتے ہیں اور کسی سرکاری اہلکار کی جرآت
نہیں کہ اُن کے خلاف کوئی کارروائی کرسکے۔
تعلیم سے متعلق بہت سارے مسائل میں سے طلبہ
کی کثیر تعداد کے لیے ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی والدین
کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔سرکاری اورنجی تعلیمی اداروں میں طلبہ کے لیے
ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابرہے۔صبح سویرے سڑکوں پر چلتی گاڑیوں، موٹرسائیکلوں،
رکشوں پر والدین اپنے نونہالوں کو اسکول چھوڑنے
جاتے ہیں اور دوپہر کو اسی طرح واپس گھر چھوڑتے ہیں۔ سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک نے طوفان بدتمیزی اور اُودھم مچا رکھا ہوتا ہے۔بے ہنگم گاڑیوں سے اکثر سڑکوں پر ٹریفک جام رہتا ہے جبکہ برائے
نام ٹریفک وارڈن بددلی سے ڈیوٹی دیتے نظر آتے ہیں۔کسی کو پروا نہیں کہ
شہریوں کا کتنا وقت اور پٹرول ضائع ہورہا
ہے۔بڑی بڑی گاڑیوں میں صرف ایک بچہ کوسوں دوراپنے گھر سے اسکول پہنچتا ہے۔ سڑکوں
پر اتنی زیادہ تعداد میں گاڑیوں کی موجودگی سے سموگ اورآلودگی میں تیزی سے اضافہ
ہورہا ہے۔اس صورت میں والدین
ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں۔اس گمبھیر مسئلے
کوحل کرنے کے لیے حکومت فی الفور سرکاری اسکولوں کو بسیں
مہیا کرے اور نجی تعلیمی اداروں کو
بھی ہدایات دی جائیں کہ وہ طلبہ کے لیے ٹرانسپورٹ کا مناسب بندوبست کریں۔تمام بچے بس پرسوار ہو کر اسکول آئیں
اورجائیں۔ہمارے حکمران لندن، امریکا اور یورپی ممالک میں بھاگ بھا گ کر جاتے رہتے
ہیں۔اِ ن ممالک میں مفت تعلیم کے علاوہ ٹرانسپورٹ
بھی حکومت مہیا کرتی ہے۔دوسرا گھر کے قریب اسکول میں بچوں
کو داخلہ کرایا جائے۔اس کے لیے واضح پالیسی مرتب کی جائے اور اس مقصد کے لیے تمام تعلیمی اداروں کو معیاری بناناہوگا۔حکومتی وزراء،مشیروں اور
تعلیمی شعبے سے وابستہ اہلکاروں کو اپنے دفاتر سے باہر نکل کر ذرا سڑکوں پر بہ چشم خود صورت حال کا
جائزہ لیں اور
ایک سروے کریں تو ایک بہتر اور قابل عمل پالیسی تیار کی جاسکتی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف
کی ملک میں تعلیمی
ایمرجنسی کی بازگشت ابھی تک سنی جاسکتی ہے مگر ہماری افسرشاہی نے تعلیمی ایمرجنسی
کو ہنوز فائلوں تک ہی محدود رکھا ہوا ہے۔زمینی حقائق سے بے خبر
افسر حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے سب اچھا کی رپورٹ دے دیتے
ہیں۔ ان سب کی نگرانی اوراحتساب کے کڑے نظام کے بغیر تعلیمی شعبے کے مسائل حل نہیں
ہوسکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کاحصول آسان سے آسان تربنایا جائے۔بچوں اور
والدین پر کوئی اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے۔یکساں
نصابِ تعلیم کے نفاذ سے معاشرے میں پائی جانے والی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہوسکتا
ہے۔ چناں چہ امیر اور غریب سب کے بچے ایک اسکول میں تعلیم
حاصل کریں گے تو معاشرے میں مساوات اورہم آہنگی کا فروغ حاصل ہوگا۔
اسکولوں میں بچوں کے داخلے کی شرح میں
اضافے کی فکر اپنی جگہ، یہ بہت ضروری ہے لیکن جو بچے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں اُنھیں مناسب
اور ضروری سہولتیں مہیا کرنا حکومت کافرضِ
اولین ہونا چاہیے۔طلبہ اور اساتذہ کے لیے
اگر حکومت کی جانب سے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کردیا جاتا ہے تو سڑکوں پر ٹریفک کم ہونے سے پٹرول کی بھی بچت ہوگی اور سموگ اورآلودگی جیسے ماحولیاتی مسائل پر
قابو پایاجاسکتا ہے۔ نیز سڑکوں پر بلا وجہ سارا سارا دن
ٹریفک جام رہنے کا مسئلہ بھی حل
کیا جاسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ
کہ والدین اور طلبہ دونوں کو ذہنی سکون میسر آسکے گا۔حکومت فی الفور
اسکولوں اور کالجوں کوبسیں مہیا کرنے کے لیے
بجٹ مختص کرے۔طلبہ کو صحت مند ماحول مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ پوری د ل جمعی
سے پڑھائی پر توجہ مرکوز کرسکیں بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔انھیں تعلیم،
صحت اور تفریح کے مواقع مہیا کرکے دراصل ہم ان کے حقوق کا تحفظ
کرسکتے ہیں۔ان حقوق کی بدولت ہمارے
نونہال بہتر اور اچھے ماحول میں پروان چڑھیں
گے اور یوں وہ ملک وقوم کا نام روشن کرسکتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں