جنگِ ستمبر 1965 : پرائمری اسکول کے طالب علم کی یادداشتیں
تاشقند میں 10 جنوری 1966ء کو جنگ بندی معاہدے پر دست خط کے دوسرے روز بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری پُراسرار طور پر چل بسے تھے۔
پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان ان کے تابوت کو کندھا دے رہے ہیں۔
فائل تصویر
ارشد سلیم کی کہانی، ان
کی اپنی زبانی
اس
جنگ میں میریا ڈھول سپاہیا کے علاوہ نور جہاں
، مہدی حسن ، شوکت علی ، عنایت حسین بھٹی اور دوسرے بڑے گلو کاروں کے گائے بہت سے جنگی نغمے بھی امر ہوئے۔
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
،
ناں ایویں ٹکراں مار کڑے
ایہہ سودا نقد وی نئیں ملدا
توں لبھ دی پھریں ادھار کڑے
-------------
· ساتھیو
، مجاہدو ، جاگ اٹھا ہے سارا وطن
· اپنی جاں نذر کروں ، اپنی وفا پیش کروں
· اے مردِ مجاہد جاگ ذرا ، اب وقتِ شہادت ہے آیا
، اللہ اکبر ، اللہ اکبر
· سیالکوٹ تو زندہ رہے گا
· خطۂ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام
· میرا سوہنا شہر قصور نیں
· میرا ماہی چھیل چھبیلا ، کرنیل نیں ، جرنیل
نیں
· جوٹھ بولنی ایں جو ٹھیے آکاش وانی ایں
· کدی سچ وی تے بول اڈھ پڈھ جانی ایں
ان جنگی
نغمات نے سپاہ اور عوام کا مورال بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جنگ کے بعد بھی برسوں
تک یہ نغمے بچوں بڑوں سب کا خون گرماتے
رہے ۔ جنگ چھڑنے کے چند روز بعد ہی لوگ نئی صورت حال کے عادی ہوگئے اور انھوں نے آہستہ آہستہ ، چھپ چھپا کر اور بچ بچا
کر اپنی کچھ نا کچھ روزمرہ مصروفیات شروع کردیں۔
جنگی طیارے مشرق سے اُبھرتے اور کچھ لوگ ڈر کرچھپنے لگتے تو دوسرے لوگ ہمت بندھاتے اور مذاق اڑاتے کہ باہر آجاؤ اور ساتھ کہتے :’’اے ساڈا ای اے ‘‘
(پریشان نہ ہوں ،یہ بھارتی نہیں بلکہ ہمارا
پاکستانی جنگی طیارہ ہے جو دشمن کے خلاف مشن
مکمل کرکے لوٹا ہے ) - اس کی وجہ یہ تھی کہ
سات ستمبر کوپاک فضائیہ کے متحرک ہونے کے بعد بھارتی فضائیہ کی کمر ٹوٹ چکی تھی ، فضاؤں میں پاکستانی ہوا بازوں ہی کا راج تھا
اور وہ جب چاہتے دھڑلے سے سرحد کے آر پار پروازیں کررہے تھے ۔
سیالکوٹ کے محاذ اور شہر کے حالات کی خبریں تو دن بھر ملتی رہتی تھیں اور معلوم ہوتا رہتا تھا کہ آج کہاں بھارتی حملہ ہوا
، کہاں بمباری ہوئی اور کتنی شہادتیں ہو ئیں ۔ برکی ہڈیارہ ، چونڈہ ، کھیم کرن ، فاضلکا ، جسڑ ، راجستھان اور
دوسرے محاذوں کی خبریں البتہ شام کو اکثر لوگ
بلیک آؤٹ کی حالت میں گلی محلے کے کسی ریڈیو
یا ٹرانسسٹر والے گھر یا دکان پر جمع ہو کرسن
لیا کرتے تھے ۔ شکیل احمد اور انور بہزاد کی
زبانی پتا چل جاتا کہ ہمارے جانبازوں ، مجاہدوں نے آج دشمن کے کس کس شہر اور ہوائی
اڈے پر "ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے" ، اسلحہ کے ڈپو تباہ کیے اور اس کے ٹینکوں
اور توپوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا ۔ گاؤں کے مختلف محلوں کے نوجوان لڑکوں نے
شہری دفاع کے رضاکاروں کی تنظیم منظم کرلی ۔ حکیم امان اللہ بٹ کمپنی کمانڈر کی قیادت
میں ہمارے محلے کی ایک پلاٹون بھی ملیشیا کی وردی اور سبز قلغی
والی ٹوپی پہنے دن بھر پریڈ اور لیفٹ رائٹ کرتی۔اس میں شامل نوجوان کسی ممکنہ ایمرجنسی کے لیے چوکس رہتے اور ان کا ایک حصہ رات کو لاٹھیاں پکڑے اندھیرے
میں گشت کر رہا ہوتا ۔میں بھی گاؤں کا دس سالہ سادہ اور کم گو لڑکا ہونے کے باوجود ہر جگہ موجود ہونے ، ہر بات جاننے اور ہر واقعہ کے بارے میں ’’فرسٹ
ہینڈ انفرمیشن‘‘ حاصل کرنے کے جنون میں رات
کو بھی اپنے بڑے بھائی مرحوم محمد اشرف ، حکیم امان اللہ ، گوری بٹ ، شوکت بٹ ، انور پاشا اور ڈاکٹر مبارک ماکھو کے ساتھ
گاؤں کے بیرونی محلوں، گلیوں میں گشت کرتا تھا ۔ اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ بڑے بھائی کے ساتھ
گاؤں کے اندر گشت کرنے کی حد تک تو موجودگی
ٹھیک تھی لیکن جس دن بھارتی فضائیہ نے ہمارے گاؤں سے کوئی پانچ
،چھے میل دور شہر کے وسط میں واقع قلعہ کی گھاس منڈی کی طرف
والی سیڑھیوں پر بم گرایا تو اس سے
ہونے والی تباہی دیکھنے کو میں اکیلا ہی وہاں
پہنچ گیا تھا۔ سیالکوٹ شہر کے بازار کلاں اور علامہ اقبال کی رہائش
گا ہ کی طرف شہر کا مصروف ترین گھاہ( گھاس)
منڈی چوک اس بمباری سے شدید متاثر ہوا تھا ۔اس حملے میں کئی افراد شہید ہوئے تھے۔اس وجہ سے اب اسے چوک شہیداں کہا جاتا ہے ۔ اس وقت ہمارے گھر تو درکنار محلے میں بھی کسی
کے پاس بائیسکل تک کی سواری نہیں تھی ۔
جنگ
میں لڑاکا طیاروں کی گھن گرج اور مخصوص آواز
کے ساتھ ایک اور آواز بلکہ افسانوی کردار
نے شہریوں کے روزمرہ معمولات میں جگہ لے لی
تھی ۔ یہ تھی ایک دورمار توپ، جس کی اکثر
رات کو وقفے وقفے سے منفرد اور بھاری آواز فضا میں گونجتی تھی۔ بڑے بزرگوں نے خود ہی اس کا نام "رانی توپ " رکھا ہوا تھا
۔ جونہی اس کی آواز گونجتی اور اس کی کُوک
سے طلاطم پیدا ہوتا ، خوشی اور جذبات سے سب لوگ جھوم اٹھتے کہ ہماری سب سے اہم
، بڑی اور فتح و نصرت کی علامت" رانی توپ" ایکشن میں ہے اور اب دشمن کی خیر نہیں ۔ جنگ ستمبر
میں غازی آبدوز اور ایم ایم عالم کے سیبر فائٹر کے ساتھ ساتھ اس "رانی" توپ
نے بھی رومانوی حیثیت حاصل کر لی تھی۔
اس
جنگ میں ایک اور پہلو جو ابھر کر سامنے آیا ،وہ شک کا تھا ۔ جہاں کہیں کسی کو کوئی انجان
، گم صُم ، عجیب یا مشکوک حالت والا یا نیم
ہوش مند شخص ویران جگہ پر نظر آتا ،اس کو بھارتی جاسوس قرار دے کر پکڑ لیا جاتا ۔ سارا گاؤں جاسوس کو دیکھنے ، اس سے جاسوسی کا اعتراف کرانے اور موقع پر انجام
تک پہنچانے کے لیے نالہ اَیک کے کنارے ، کماد کے کھیتوں ، سروٹوں (سرکنڈوں ) کے جھنڈوں یا ٹوئے ٹبوں میں پہنچ جاتا ۔ اس کی بدن بولی ، گم صُم رہنے اور نگاہوں کی حرکت کو ہر کوئی اپنی مرضی کے معنی پہنا رہا ہوتا ۔ گویا عوامی سطح پر یہ سمجھ
لیا گیا تھا کہ جاسوس کے لیے نیم پاگل ، جھلا اور گندا ہونا ضروری ہے اور وہ کسی اچھے ، صاف ستھرے
، پڑھے لکھے بندے کے روپ میں نہیں ہو سکتا
۔ پولیس یا شہری رضاکاروں کے پہنچنے سے پہلے ہی پرجوش نوجوان اس کی اچھی خاصی دھلائی
کرکے حب الوطنی کا ثبوت دے چکے ہوتے تھے۔
اندرون
ملک سے تازہ دم فوجی دستے ، توپخانہ اور دوسرے قافلے جب گاؤں کے پاس سے گزر کر سیالکوٹ شہر کی دوسری
جانب محاذ جنگ کی طرف بڑھتے تو عام لوگ فرط ِجذبات میں نعرتے لگاتے ، فوجی گاڑیوں اور توپوں پر پھول
پھینکتے اور ا نھیں کھانے پینے کا سامان دیتے ۔ وہ ملکی سرحدوں کا دفاع کر نے والے
ان مجاہدوں کو خوش بخت سمجھتے اور اس سعادت سے اپنی محرومی پر کسک سی محسوس کرتے ۔ جنگ کے آخری دنوں میں مسلح افواج
کی مدد کے لیے رضا کاروں کی کمک طلب کی گئی تو سیکڑوں لوگوں نے اپنی خدمات پیش
کردیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے فتح
گڑھ کے بڑے زمیندار اور میو خاندان کے دو بیٹوں عبدالمجید اور عبدالرشید کو گاؤں کے
لوگ قریباً دس میل دور گانگڑے پہاڑ (اصل سابق نام 'کانلے پارک
' اور موجودہ جناح پارک / سٹیڈیم ) تک جلوس کی شکل میں پیدل چھوڑنے گئے تھے ۔ایسے موقعوں پر بھلا میں کہاں پیچھے رہ سکتا تھا ، اس کاروان میں
شامل ہو گیا ۔ اور ہم پر جوش اور فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے محلہ حاجی پورہ ، چراغ پورہ
، کنک منڈی ، لہائی بازار اور ریلوے روڈ سے
گزرتے ہوئے کئی گھنٹوں میں پارک تک پہنچے ۔ دونوں بھائی ہاروں سے لدے ہوئے تھے اور رستہ بھر دکاندار ان
پر پھول نچھاور کر رہے تھے۔ راہ گیر بھی رک کر اور مڑ مڑ کر ملک وقوم کی بقاء کے لیے بلا معاوضہ اور رضاکارانہ
طور پر اپنی خدمات پیش کرنے والے ان خوش نصیب
بھائیوں کو رشک سے دیکھ رہے تھے۔
پارک
میں کئی دوسرے محلوں سے بھی رضاکار جوان پہنچے ہوئے تھے لیکن اس وقت ہماری مایوسی کی کوئی انتہا نہ رہی جب ہمیں بتایا گیا کہ فی الحال ہمیں مزید رضاکاروں
کی ضرورت نہیں ، آپ لوگ واپس چلے جائیں ،جب
مزید ضرورت پڑے گی تو آپ کو طلب کر لیا جائے گا ۔ مجبوراً سب لوگوں کو مُنھ لٹکائے مایوس لوٹنا
پڑا لیکن اب خفت مٹانے کےلیے ہم دوسرے غیر معروف راستے سے امام صاحب ، بن اور کوٹھی اسکول کے پیچھے سے ہوتے ہوئے جلوس کے بجائے
چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں واپس گاؤں پہنچے ۔
دونوں بھائی بھی بہت افسردہ تھے اور کئی روز
لوگوں سے نہیں ملے حالانکہ اس میں اتنی دل شکنی اور مایوسی والی کوئی بات نہیں تھی
۔ ہر شخص نے الگ الگ محاذ پرملک و قوم کی خدمت کرنا ہوتی ہے ۔ کافی عرصے کے بعد سنا
کہ ان میں سے ایک سادہ لوح بھائی کسی نوسر باز
کے ہتھے چڑھ گیا اور لاہور میں کسی
فلم کے لیے سرمایہ کاری کے نام پر زیادہ تر زمینیں بیچ کر بھاری رقم اڑا دی
اور پھر کسمپرسی کی حالت میں باقی زندگی گزاری
۔
پاکستان
اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑنے کے ساتھ ہی
کچھ بڑی طاقتوں اور دوست ممالک نے اس کو
رکوانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں جو آخر کار بار آور ثابت ہوئیں اور چھے ستمبر کو شروع ہونے والا معرکہ سترہ روز
جاری رہنے کے بعد 23 ستمبر 1965 کو جنگ بندی
پر ختم ہوگیا ۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ
جنگ بندی اقوام متحدہ کی ایک قرار داد کے تحت
ہوئی تھی۔اس کے بعد سابق سوویت یونین نے دونوں ملکوں کے سربراہوں
کو اپنی ثالثی میں مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ مذاکرات سابق
سوویت ریاست ازبکستان کے شہر تاشقند میں ہوئے تھے اور ان کے نتیجے میں پاکستان کی طرف سےصدر جنرل محمد ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم شری
لال بہادر شاستری نے 10 جنوری 1966 کو
"اعلان تاشقند "پر دست خط
کیے تھے
۔ وزیر اعظم شاستری تواس اعلان کے اگلے
ہی روز پر اسرار طور پر چل بسے تھے اور تابوت میں بھارت پہنچے تھے جبکہ ایوب خان خود چل کر زندہ و سلامت اور
اہلِ وطن کی نظر میں بظاہر ایک فاتح
کے طور پر پاکستان لوٹے تھے مگر اس فتح کے باوجود ان کے اقتدار
اور سیاست کے سفر کے خاتمے کا آغاز
ہوگیا تھا ۔تاشقند میں شاستری کے تابوت کو
کندھا دیتے وقت ان کے شاید وہم وگمان میں بھی نہ ہو کہ ان کے ساتھ کیا بُرا پیش آنے والا ہے اور کس کے ہاتھوں ؟
ان ہی کے خاص الخاص اور وزیر خارجہ
ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان تاشقند کو سازش
اور ملکی سالمیت کے خلاف قرار دیا۔ انھوں نے کسی مناسب موقع پر ' اعلان ِتاشقند کی بلی کو تھیلے
سے باہر نکالنے' ، اس کے اصل رازافشا کرنے اور کشمیر کی آزادی کے لیے' ہزار سالہ جنگ' لڑنے کے نعروں پر وزارت کو 'ملک اور عوام کی خاطر ٹھوکر مار دی' اور
صدر ایوب خان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر
دی ۔ ایوب خان ہزار وضاحتیں دیتے رہے لیکن نہ تو بھٹو صاحب نے وہ وضاحتیں سنیں نہ ہی
عوام نے ان پر کوئی خاص توجہ دی اور انھیں
اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔اعلان تاشقند کے گیارہ سال بعد 1977 ء میں تاریخ نے اپنے آپ کو کسی
اور انداز میں پھر دُہرایا ۔منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت جاتی رہے
اور جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھال لیا۔
اس وقت سے اقتدار کا یہ کھیل جاری ہے ، بس چہرے بدل رہے ہیں اور یوں لگتا ہے ملک پر کوئی آسیب کا سایہ ہے جو
اس کو ہر دوچار سال کے بعد پیچھے دھکیل دیتا ہے
اور ہم مسلسل ترقیِ معکوس کا سفر طے کررہے ہیں۔
(ختم شد)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں