جنگ ستمبر 1965 : پرائمری اسکول کے ایک طالب علم کی یادداشتیں
ارشد سلیم کا تعلق پاکستان کے مردم خیز ضلع سیال کوٹ
سے ہے۔انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ثانوی اور
اعلیٰ ثانوی تعلیم سیال کوٹ ہی سے حاصل کی۔جامعہ
پنجاب سے ایم اے کرنے کے بعد وہ پاکستان
ٹیلی ویژن کارپوریشن میں نیوز پروڈیوسر کی حیثیت سے بھرتی ہوگئے۔ان کا شمار پی ٹی
وی کے کہنہ مشق اور محنتی رپورٹروں میں ہوتا تھا۔انھوں نے سرکاری ٹیلی ویژن چینل
کے رپورٹر کی حیثیت سے پاکستان کے کئی ایک
حکمرانوں کے ساتھ اندرون اور بیرون ملک خدمات انجام دیں،ان کی مصروفیات اور
تقریبات کی کوریج کی اور انھیں بہت قریب سے دیکھا۔ پارلیمان کی رپورٹنگ کی ۔ان کے
پاس تاریخی نوعیت کی حامل یادداشتوں کا
ایک وسیع ذخیرہ ہے۔وہ پاکستان کی تاریخ ، سیاست اور ثقافت کے بہت سے اہم واقعات کے امین اور سنگ ہائے میل کے چشم دید گواہ ہیں۔ان کی یادداشتیں ’’خبربے‘‘ کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں۔پہلی
قسط 6 ستمبر 1965ء کو بھارت کے
پاکستان پر اچانک حملے سے متعلق ہے۔اس دن کی صبح کم سن طالب علموں کی کیا
مصروفیات تھیں اور انھوں نے جنگ کو کس نظر
سے دیکھا۔اس وقت ان کے احساسات اور خدشات کیا تھے۔ ملاحظہ کیجیے:
اتوار کی چھٹی گزارنے کے بعد پیر کی صبح مُنھ
ہاتھ دھو کر ، اس زمانے کے فیشن کے مطابق سر پر سرسوں کا تیل لگا کر ، بودے شودے
بنا کر ، آنکھوں میں سرمہ ڈال کر ملیشیا (کالے) رنگ کی وردی پر
ایک آنے والا ریڈ کراس کا بلا فخر سے سجایا اور بڑی سڑک پر خراماں خراماں ہم اپنے پرائمری اسکول کی طرف چل دیے ۔ ہمارا اسکول گھر سے کوئی ایک کلومیٹر دور واقع
تھا۔ وہاں پہنچے تو سب کچھ بہت اچھا اور معمول کے مطابق
تھا۔ اسمبلی کا وقت شروع ہونے پر چوتھی اور پانچویں جماعت کے بچے اسکول کے دونوں کمروں
میں اور اوّل ، دِوُم اور سِوُم جماعت کے بچّے برآمدے میں اور عمارت کے
پچھلی طرف کچے فرش پر بستے رکھ کر صحن میں پہنچ گئے ۔تلاوت قرآن پاک کے بعد علامہ اقبال کی مشہور زمانہ نظم
لب پہ آتی ہے دعا بن کے
تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
پڑھی گئی۔پھر دعا سے فارغ ہو کر جماعتوں میں پہنچے اور معمول کی پڑھائی شروع ہو گئی۔ ابھی ایک دو گھنٹیاں
ہی گزری تھیں کہ اچانک زور زور سے اور مسلسل گھنٹی بجنا شروع ہو گئی۔بالکل پوری
چھٹی کی گھنٹی کی طرح ، انداز سے تو لگتا تھا کہ واقعی چھٹی ہو گئی ہے۔
یہ
6ستمبر 1965 ء کی صبح کی بات ہورہی ہے۔ سیالکوٹ شہر کے جنوب مغرب میں واقع پہلے گاؤں فتح گڑھ ملہیاں میں
ہمارا گورنمنٹ پرائمری اسکول دو کمروں ، ایک برآمدے اور بڑے صحن پر مشتمل تھا۔ ہماری جماعت چہارم کے انچارج ماسٹر شفاعت حسین شاہ صاحب تھے۔ وہ اور ہم سب طالب علم پریشان ہوگئے کہ ابھی تو
آدھی چھٹی یعنی تفریح کا وقت بھی نہیں ہوا اور یہ پوری چھٹی کی گھنٹی
بجنا شروع ہوگئی ہے ۔ لگتا تھا کہ کسی بچے
نے انجانے میں، شرارت یا غلطی سے گھنٹی
بجا دی ہے ۔اب اس بچے کی خیر نہیں اور وڈھے ( ہیڈ) ماسٹر صاحب کے ہاتھوں اس کا حشر تو دیکھنے
والا ہو گا لیکن گھنٹی تھی کہ مسلسل بجے جا رہی
تھی ،رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ گھنٹی کے تسلسل اور تیزی کے پیچھے کوئی گہرا
اضطراب اور غیر معمولی پن واضع طور پر جھلک رہا تھا ۔ طالب علم کچی ،پکی جماعت کا
ہو یا کسی بڑی جماعت کا ، تعلیمی اداروں
کی سب سے زیادہ دلکش ، پر تسکین اور خوب صورت چیز اچانک چھٹی کا اعلان یا پوری
چھٹی کی گھنٹی ہی ہوتی تھی ۔ عام حالات
میں تو کسی روز اچانک وقت سے پہلے یا آدھی چھٹی کے موقع پرہی
پوری چھٹی کر دی جاتی توبچّوں کویہ فعل اتنا پسندیدہ اور خوابوں کی تعبیر لگتا تھا
کہ وہ فورا ً تک بند بچکانہ شاعری پر اتر
آتے تھے اور بے ساختہ لہک لہک کر بول اٹھتے تھےؔ:
اَدھی
چھٹی ساری
میاں مکھی ماری
میاں بیٹھا پل تے
کنڈا چبھا بُل تے
میاں وچارا کیہ کرے
ٹھنڈا پانی پی مرے
اسی ترنگ اور خوشی میں طالب علم گھر پہنچ
جاتے ، بستہ پھینک کر کھیل کود یا کسی کام میں جت جاتے اور چھٹی کے عمل کا باعث بننے
والے تمام افراد کو درجہ بہ درجہ ثواب دارین پہنچاتے ۔ لیکن آج ایسا کچھ نہیں تھا
اور پہلی مرتبہ کسی نامعلوم ، ناگہانی اور غیر متوقع خدشے کی وجہ سے صبح ہی صبح اس
چھٹی کی ذرا برابر خوشی محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔اسی تجسس ، تشویش اور کشمکش میں گھنٹی
کی آواز ایک زبردست شور میں دب کر مدھم ہونا شروع ہو گئی ،کھڑکی میں سے باہر صحن
کی طرف دیکھا تو واقعی چھٹی ہو چکی تھی ، پوری چھٹی اور حیران کن بات یہ کہ اس پر
عمل بھی کروایا جا رہا تھا ۔ تمام بچے شور مچاتے ، کسی کھیس یا چادر کے بڑے چوکور
کپڑے کے بنائے ہوئے بستے میں کتابیں ، سلیٹ ، تختی ، قلم دوات ، سلیٹی ڈھنگ سے سمیٹے
بغیر ہی باہر کی طرف بھاگ رہے تھے ۔چند ہی لمحوں میں ہم بھی ماسٹر شفاعت حسین صاحب
کو نظر انداز کرکے اور انھیں مبہوت حالت میں کمرا جماعت ہی میں چھوڑ کر اس بھیڑ میں شامل ہو گئے اور
لکڑی کے چھوٹے سے گیٹ کی طرف بڑھنے لگے ۔ایسی اچانک پیدا ہونے والی صورت حال پر
ماسٹر شفاعت حسین جیسے حلیم ،سنجیدہ اور وضع دار شخص ، ماسٹرمحمد سعید جیسے چلبلے
،حاضر دماغ اور پھرتیلے بندے اور ماسٹر نواب خان صاحب جیسےبھاری
بھرکم اور حال مست استاد تو حیران و پریشان تھے ہی , آج تو قد آور ، مضبوط الجثہ ،
دبنگ ، رعب دار ، گھنی مونچھوں ، سرخ بڑی آنکھوں ،اونچے شملے کی پگ والے اور دنیا
میں چھٹیوں کے فلسفے کے سب سے بڑے مخالف اور ناقد ہیڈ ماسٹر محمد عبداللہ صاحب کو بھی کسی انجانے خوف اور تشویش میں مبتلا
دیکھا۔ وہ بچوں کو جلدی سے گھر چلے جانے
کا اشارہ کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر تشویش
ہوئی کہ سب اچھا نہیں ، کوئی انہونا اور غیر متوقع معاملہ ضرور درپیش ہے۔ آج تو ہیڈ ماسٹر صاحب کو یہ فکر بھی لاحق نہیں تھی کہ شہر کے بڑے ڈاک خانے سے فتح گڑھ اور
اردگرد کی بستیوں رویل پورہ ، شتاب گڑھ ، گنجیانوالی ، دوبرجی ملہیاں اور بوگڑا کی
ڈاک کیسے تقسیم ہوگی اور لوگوں کی چٹھیاں ، پوسٹ کارڈ ، ایرو گرام اور بیرنگ خط
کیسے ان کے گھروں تک پہنچائے جائیں گے ۔ کیونکہ یہ بھی انکے فرائض منصبی اور
ترجیحات میں شامل تھا اور اس کے لیے انھیں محکمہ ڈاک کی طرف سے 15
روپے
ماہوار اضافی الاؤنس بھی ملتا تھا ۔ اس لیے ماسٹر عبداللہ صاحب کی کوشش ہوتی تھی کہ ممکن ہو تو اپنے شاگردوں کو شام
تک اسکول ہی میں بٹھائے رکھیں ، دنیا بھر کے تمام علوم انھیں گھول گھوٹ کر پلا دیں
۔ وہ پاؤ، آدھے ، پونے ، سوا،ڈیڑھ اور پونے
تک کے تمام "پہاڑے " اور رقبے اور اکائی کے سوال ایسے تیرتے پانی کی طرح
از بر کرا تے تھے تاکہ ان کا کوئی بھی شاگرد منٹوں سیکنڈوں میں شفتل (شٹالے ) ، مکئی ، باجرے ، جئی ، سنجی یا
کسی دوسرے چارے یا کماد کی فروخت کے لیے سادہ
لوح کسانوں کو منٹوں سیکنڈوں میں پیمائش اور قیمت کا حساب کتاب کرکے دے سکے ۔ لیکن
آج کیا ہوا، وہ کسی درجے کی شفقت تو
درکنار وہ تو کسی کی طرف روایتی غصے اور رعب دبدبے سے گھور بھی نہیں رہے تھے ۔اسکول
کے منتظم اور ذمہ دار کی حیثیت سے ان کی
بس یہی خواہش اور کوشش تھی کہ جتنی جلدی ہو سکے سب بچے حفاظت سے اسکول سے نکل کر
اپنے گھروں میں پہنچ جائیں ۔ الغرض نفسا نفسی میں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ
اصل ماجرا ہے کیا ، یہ سب کچھ کیا اور کیوں ہو رہا ہے ؟ سب کی آنکھیں اور کان
جاننا سننا چاہتے تھے لیکن جو جانتے تھے وہ بتا نہیں رہے تھے اور جو بتانا چاہ رہے
تھے وہ کچھ زیادہ جانتے نہیں تھے ، اس لیے ان کو بھی غالباً منع کر دیا گیا تھا کہ بچوں کے
اپنے گھروں تک پہنچنے سے پہلے کوئی بات نہیں کرنی- اسی بھاگ دوڑ میں کسی کو کھسر پھسر کرتے بس اتنا سنا کہ
"جنگ چھڑ گئی ، بہت خطرہ ہے "۔ لیکن ہم بچوں کو کیا پتا تھا کہ جنگ کیا
ہوتی ہے ، خطرہ کیا ہوتا ہے۔وہ تو بس ہنسنا، کھیلنا ہی زندگی سمجھتے تھے ۔ ۔ چند
ہی لمحوں میں ہم بھی پیچھے سے آنے والے دوسرے طالب علموں کے ریلے کی زد میں آکر بیرونی دروازے کے پاس پہنچ چکے تھے لیکن وہاں تو ایک بالکل ہی الگ اور عجیب سا منظر
تھا ۔ گیٹ کے باہر پوری سڑک بچوں کے والدین ، بڑے بہن بھائیوں اور دوسرے بزرگوں
اور عزیزوں سے بھری پڑی تھی ۔ تمام کے چہرے اترے ہوئے ، روکھے ، پریشان ، مضطرب ،
انجانے خطرات اور وسوسوں کا شکار تھے ۔ کچھ تو باقاعدہ رو رہے تھے اور اپنے بچوں ،
بھائیوں ، بھتیجوں ، بھانجوں ، پوتوں ، نواسوں کو تلاش کر رہے تھے ۔ جونہی ان کا
بچہ نظر آتا وہ بڑھ کر اس کو و اچک لیتے ، زور سے اپنے ساتھ بھینچ لیتے اور اٹھا
کر یا مضبوطی سے پکڑکر تیزی سے گھر کی طرف روانہ ہوجاتے ۔ جتنی محبت ، شفقت ،
انسیت بچوں کو آج مل رہی تھی ، سب بڑے واری صدقے جا رہے تھے ، وہ پنجاب کے کسی گاؤں
کے نیم خواندہ ، غریب اور متوسط کاشتکار اور محنت کش گھرانوں کے سخت گیر
ماحول کا خاصا نہیں تھا ۔ بچوں ، خاص طور
پر لڑکوں کو زیادہ ناز نخروں کے بجائے سرد گرد موسم اور حالات کی سختیوں میں خود
رو پودوں کی طرح بڑھنے پھولنے دیا جاتا تھا تاکہ بےرحم عملی زندگی میں کسی مرحلے
پر مات نہ کھائیں ۔
ابا جی تو صبح سویرے ہمارے اسکول آنے سے
پہلے ہی دُکان پر جا چکے تھے ۔اس لیے اماں جی نے جنگ چھڑنے کی خبر سن کر مجھے اسکول
سے لانےکے لیے دونوں بڑے بھائیوں محمد اسلم اور محمد اشرف کو بھیج دیا تھا ۔ ان
گنت وسوسوں کو چھپائے گھر میں بیٹھ کر ہمارا انتظار کرنے کے بجائے وہ قبرستان کے
سامنے گلی کے نکڑ پر سڑک کے کنارے کھڑی ہوکر ہمارے پہنچنے کا انتظار کر رہی تھیں ۔
ہم تینوں بھائیوں کو خاص طور پر سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے مجھے دیکھ کر انکی جان
میں جان آئی اور وہ ہمیں لیکر گھر پہنچیں ۔ بڑے بھائی محمد اسلم نے پاکستان آرڈنینس فیکٹریز (پی او ایف )واہ کے ایکسپلوزو ڈیپارٹمنٹ میں ایک سال قبل ہی
انجینئر کی حیثیت سے سروس شروع کی تھی ، وہ بھی ان
دنوں چھٹی پر گھر آئے ہوئے تھے ۔ مشترکہ خاندان میں دادا جان کے سب سے بڑے پوتے
اور سب سے تعلیم یافتہ اور ذمے مہ دار ہونے کی حیثیت سے انھوں نے گھر کے وسیع کچے
صحن میں شیشم (ٹاہلی) کے قدیم درخت کے نیچے سب بہن بھائیوں اور کزنز کو اکٹھا
کیا ، سب کو سمجھایا کہ ہندوستان کی فوج نے رات کو لاہور پر حملہ کر دیا ہے اور اب
دونوں ملکوں کی سیدھی اور کھلی جنگ شروع ہو گئی ہے ۔ سیالکوٹ چونکہ بارڈر کے بالکل
قریب ہے۔ اس لیے یہاں بہت زیادہ خطرہ ہے۔ جموں تو گوجرانوالہ اور وزیر آباد سے بھی
کم فاصلے پر واقع ہے ۔ان کی بات درست تھیں کیونکہ بہت نزدیک اور
قدرے بلندی پر ہونے کی وجہ سے سردیوں کی راتوں میں وہاں جلتی ہوئی لائٹیں دیکھ کر
ہمارے ہمسائے میں جموں سے ہجرت کرکے آنے والے تایا مہر دین اور حاجی حاکم دین بھٹی
تو اکثر جذباتی ہو جایا کرتے تھے اور ڈوگری پہاڑی زبان کے خوش کن گیت ، ماہیے اور ترانے
گنگنا کر اپنی یادیں تازہ کیا کرتے تھے ۔
•میرے وطن تیری جنت
میں آئیں گے اک دن
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے ایک دن
بھائی جان اسلم نے متنبہ کیا کہ جموں ، سچیت
گڑھ ، خوشحال گڑھ اور اکھنور سے ہندوستانی فوج کے توپخانے سے داغے جانے والے گولے یہاں بھی
گر سکتے ہیں اور بارڈر کے قریب فیلڈ ہوائی اڈوں سے اڑ کر دشمن کے طیارے ادھر بمباری
کر سکتے ہیں ، اس لیے اب سب لوگوں کو بہت
احتیاط کرنا ہوگی ۔ کوئی بھی گھر سے باہر نہیں نکلے گا خاص طور پر بچے۔ اور جب
انڈین جہاز آئے۔ ت ت تو وو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی انھوں نے جہاز کا نام لیا ہی تھا کہ
صور اسرافیل کی طرح انتہائی خطرناک ، شدید تیز ، چبھنے والی اور کلیجہ پھاڑ دینے
والی آواز ابھری ، میری متجسس نظر اوپر اٹھی تو دیکھا کہ انتہائی کم بلندی پر بمبار
اڑ رہا ہے ۔جہاز کی آواز کی ہیبت سے ہم
تمام لوگ زمین پر لیٹ گئے اور موت سمیت کسی بھی ممکنہ سانحے کے لیے اپنے آپ کوتیار کر لیا ۔ جہاز ریڈار سے بچنے کے
لیے اتنی کم بلندی پر تھا کہ اس کے کئی حصے ،حتیٰ کہ پائلٹ تک کو دیکھا جا سکتا
تھا ۔ جہاز انتہائی سرعت اور بھر پور ہیبت کے ساتھ ہمارے گھر کے اوپر پہنچ چکا تھا
۔ ویسے تو ہم بچپن ہی سے کھلونا ٹینکوں اور لڑاکا جہازوں کو شوق اور تجسس سے دیکھا
کرتے تھے اور یہ کھلونے سب بچوں کو بڑے مسحور کن لگتے تھے ۔ ربیع الاول میں
"بارہ وفات" کی
شب سجائی جانے والی ' پہاڑیوں ' پر تو ان کے ماڈل سجا کر خوشی ہوتی تھی لیکن آج پہلی
مرتبہ ان لڑاکا اور بمبار جہازوں کی خطرناک اور منحوس آواز سنی تو بہت بھیانک اور
نفرت انگیز لگی ۔ ہم زمین سے پائلٹ تک کو دیکھ سکتے تھے تو یقیناً ہم بھی اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوں گے ۔ اب ہم مکمل طور
پر بےرحم دشمن ہواباز کے رحم و کرم پر تھے کہ وہ چاہے تو ہم پر بم گرا
کر ملیامیٹ کردے یا سیکڑوں گولیوں کی بیک وقت بوچھاڑ کرکے سب کچھ تہس نہس کردے۔
تایا نواب دین ، تائی اماں ، والدہ صاحبہ اور چچی جان نے تو اونچی آواز میں کلمہ طیّبہ کا ورد شروع کردیا کہ اب "وعدے
" کا وقت آیا کہ آیا ۔ بڑوں کو پریشان دیکھ کر تمام بچے سہمے ہوئے ، ساکت ،
مبہوت اور خاموش ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے اور کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اچانک
یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہو رہا ہے ۔ ۔ !!!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں