27 ستمبر کو عالمی
یومِ سیاحت پر خصوصی تحریر
احسان غنی
اللہ
کی زمین میں نکل کر دیکھیں، قدرت کی نشانیاں، فطرت کی نیرنگیاں صاحبانِ بصیرت کو دعوتِ نظارہ دے رہی ہیں۔ندیوں، آبشاروں اوردریاؤں کی ابھرتی موجوں سے مسحور کن سُروں کا جلترنگ
بج رہا ہے۔ پاکستان کی دھرتی قدیم دور سے دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ رہی ہے۔پانچ
ہزار سال قبل یہاں موہنجو داڑو اورہڑپہ کی تہذیب موجود تھی۔اس کے بعدکئی تہذیبیں
نمودار ہوئیں اور وقت کی دھول میں مٹ گئیں۔عہدرفتہ کی عظیم الشان تہذیبیں یہاں دفن
ہیں۔بڑے بڑے شہر، قلعے،شاندار محل اور دیوہیکل فصیلوں کی دلچسپ اور انوکھی داستانیں
بکھری پڑی ہیں۔بلندوبالا پہاڑ وسیع وعریض میدان، ریگستان،لق ودق صحرا کے علاوہ سرسبز
وشاداب زرخیز خطے، بہتے دریا،بے مثل محل وقوع،جنوب، شمال، مشرق اور وسط ایشیا کے فضائی،بری اور بحری تمام گزرگاہیں پاکستان
سے ہو کرگزرتی ہیں۔ایک طرف سر بفلک برف پوش چوٹیاں،بل کھاتی ندیاں اورپہاڑوں کے جھرنوں
سے بہتی آبشاریں ہیں تودوسری طرف چولستان اورتھل کے لق ودق بظاہر خاموش نظر آنے والے
صحرا کی ریت میں صدیوں پر محیط تہذیب کے آثار جگہ جگہ نمودارہیں۔ صحرائی دنیا کااپنا
الگ اورمنفرد روپ ہوتاہے۔تاحد نظر چمکتی دھمکتی
ریت کے ذرات،سرابوں،ٹوبوں اورٹیلوں سے آباد یہ صدا بصحرا دے رہے ہیں۔چولستان دنیا کا
ساتواں بڑاصحرا ہے۔صوبہ بلوچستان،سندھ، خبیر
پختونخوا اور پنجاب میں بہت سے سیاحتی مقامات حکومت اور انتظامیہ کی غفلت اور بے پروائی سے ویران پڑے ہیں۔صرف صوبہ پنجاب
میں 412تاریخی اور مذہبی مقامات ہیں۔ان میں سے تین قدیم تاریخی سیاحتی مقامات کو یونیسکو (UNESCO) نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار
دے رکھاہے۔اس طرح خیبر پختونخوا میں جگہ جگہ قدیم گندھا ر ا تہذیب کے آثار موجودہیں۔موہنجوداڑواور
ہڑپہ وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب کا حصہ ہیں اور ان کی تاریخ پانچ سے دس ہزار سال پرانی
بتائی جاتی ہے۔ٹیکسلا کو1980میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا تھا۔2700سال
پہلے ٹیکسلا میں جولیاں کے مقام پر ایک بڑی یونیورسٹی موجود تھی۔جہاں دنیا بھر سے طلبہ
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آتے تھے۔اس کے آثار کے نزدیک ہی ٹیکسلا کی موجودہ یونیورسٹی
آف انجنئیرنگ اور ٹیکنالوجی واقع ہے۔
دنیا کے اکثر ممالک میں سیاحت کا معیشت
کی ترقی میں بنیادی کردار ہے۔مالدیپ چھوٹا سا ملک ہے لیکن سیاحت کے شعبے سے سالانہ
قریباً 5ارب ڈالرکمارہا ہے۔نیوزی لینڈ میں سیاحت تیزی سے ترقی کررہی ہے۔گذشتہ مہینوں
میں صرف2.6 ارب ڈالر سے معیشت کو استحکام ملا
ہے۔امریکا،فرانس،سوئٹزرلینڈ، ترکیہ اور بھارت اربوں ڈالر، سیاحت کے شعبے میں خرچ کرکے
دُگنا کمارہے ہیں۔گلگت،بلتستان دنیا کا واحد خطہ ہے جس کا رقبہ سوئٹزرلینڈکے رقبے سے
دُگنا ہے۔ یہاں کے پہاڑ دنیا کے بلندترین پہاڑوں میں شمار ہوتے ہیں۔اسی طرح آزاد جموں
وکشمیر میں بے شمار خو ب صورت ترین سیاحتی
مقامات نیلم اور جہلم ویلی کے حسین قدرتی مناظر انسان کو سحر میں مبتلا کردیتے ہیں۔ٹیکسلاکے
قریب خانپور ڈیم کے اطراف میں بدھ مت مذہب کے مقد س مقامات ہیں۔ایبٹ آباد کے قریب ٹھنڈیانی
بھی بہت خو ب صورت قدرتی مناظر سے مالا مال جگہ ہے۔مری ملکی سیاحوں کے لیے سب سے پسندیدہ
تفریحی مقام ہے۔گرمی کے ستائے عوام مری کا رخ کرتے ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں سوات،
کالام، جھیل سیف الملوک اور بے شمار علاقوں میں کہساروں سے بہتی آبشار یں، ٹھنڈے یخ
پانی کے اُبلتے چشمے،قطار در قطار، درخت پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی گھاٹیوں اور پگڈنڈیوں کے خو ب صورت، حسین نظارے ایسے دکھائی
دیتے ہیں جسے قدرت انسان سے ہم کلام ہو رہی ہو۔
دنیاکے بہت سے ممالک نے سیاحت کو باقاعدہ
ایک صنعت کا درجہ دے کر اپنی معیشت کو مستحکم کرلیا ہے اور ایک ہم ہیں کہ ہاتھ پہ ہاتھ
دھرے منتظر فردا سیاحت کے شعبے کو یکسر نظرانداز کیا ہوا ہے۔حالانکہ پاکستان میں سیاحت
کو صنعت کا درجہ دینے،اس سے روزگار پیدا کرنے اور معاشی ثمرات سمیٹنے کے وسیع ترمواقع
موجود ہیں۔سیاحت کے شعبے کو اہمیت نہ دے کر معاشی طورپر ہم خود اپنانقصان کررہے ہیں۔
صرف مذہبی سیاحت کے فروغ سے اربوں ڈالر ز کا رمبادلہ کمایاجاسکتا ہے۔وطن عزیز مذہبی
سیاحت کے حوالے سے بہت اہم ملک ہے۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ سکھ برادری کے مذہبی مقامات
مختلف شہروں میں موجود ہیں۔ڈیرہ صاحب لاہور، نارووال،کرتارپور،پنجہ صاحب،حسن ابدال
سکھ مذہب کے بانی اور روحانی پیشوا باباگرونانک کا جنم استھان ننکانہ صاحب اہم ترین
مذہبی مقامات ہیں۔اس کے علاوہ سکھ دورحکومت کی تاریخی عمارتیں سیاحوں کی منتظر ہیں۔
بدھ مت کے پیروکاروں کی آٹھ خانقاہیں اور دیگر عمارتوں کے آثار صوبہ خیبرپختونخوا پنجاب،سندھ
اور بلوچستان میں آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں۔چکوال کے قریب کٹاس راج مندر ہندوؤں کے
لیے بہت اہم مذہبی جگہ ہے۔اس طرح مردان، سوات، ہری پور، ٹیکسلا اور دیگر شمالی علاقوں
میں قدیم گندھارا تہذیب اورمقدس مقامات کے آثار موجود ہیں۔ثقافتی،مذہبی اورتہذیبی آثار
قدیمہ کے اتنے زیادہ مقامات شایدہی دنیا کے
کسی دوسرے ملک میں موجود ہیں۔لیکن افسوس کہ ہم دنیا کویہ باور کروانے میں بُری طرح
ناکام ہیں کہ وہ وطن عزیز میں آکر ان آثارقدیمہ کودیکھ سکیں۔ضلع ڈیرہ غازی خان میں
واقع کوہ سلیمان کے وسیع پہاڑی سلسلہ سے چند کلومیٹر دورفورٹ منرو کا سیاحتی مقام بالکل
لاوراث ہے۔حکومت کی بے حسی کے باعث اتنا پرُفضا اور پُرسکون قدرتی ماحول والا علاقہ
ویران پڑا ہے۔جب سیاحت کاقریباً سارابجٹ مری کے لیے مختص کردیاجائے گاتو باقی کے علاقے
ترقی سے محروم رہ جائیں گے۔ ایک خبر کے مطابق محکمہ سیاحت کا 90فی صد ترقیاتی بجٹ مری کے لیے مختص کرنے کی تجویز زیرِ
غور ہے لیکن مری کے ساتھ ساتھ دوسرے سیاحتی مقامات کو بھی بہتر
سہولتیں دیناحکومت کا فرض ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ فی الفور سیاحت کے شعبہ کو ترقی
دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ پیشہ ور حضرات کو سیاحت کے فروغ کے لیے ذمہ داری
دی جائے۔ملک بھر کے سیاحتی مقامات پر صفائی کا انتظام بے حد ضروری ہے۔صاف ستھرے واش
رومز، سیاحوں کے بیٹھنے کا مناسب بندوبست کیا جائے۔سیاحتی مقامات پر قائم مختلف دکانوں،
ہوٹل اور ڈھابوں پر غیر معیاری اشیاء خورونوش کی ہوشرباقیمت پر فروخت عام ہے۔ دکانداروں
کے سیاحوں سے نامناسب رویے، ٹھیکے داروں کی من مانیوں سے متعلق شکایات عام ہیں۔ سکیورٹی
نہ ہونے کے برابر ہے اور وقت ضرورت ابتدائی
طبی امداد کا بھی کوئی انتظام نہیں ہوتا۔انتظامیہ کے متحرک اہلکاروں کوسیاحتی مقامات
پر تعینات کیا جائے۔سیاحتی مقامات پر عالمی
معیار کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی کی جائے۔ملک میں سیاحت
کے فروغ کے لیے ایک تھنک ٹینک بنایا جائے۔جو سیاحت کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ماہرین
پر مشتمل ہو۔راقم کی رائے میں کامران لاشاری۔سینئر صحافی و محقق مجید شیخ، سلمان رشید،
پروٹوکول اور ٹورازم سپیشلسٹ سیف اللہ خالد
اور اسجد غنی طاہر پر مشتمل تھنک ٹینک تشکیل
دیا جائے جو سیاحت کے متعلق پالیسی وضع کرے
اور پھر اس پرعملدرآمد کی نگرانی بھی کرے۔پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن،محکمہ
سیاحت پنجاب اور محکمہ آثار قدیمہ کو مشترکہ طورپر سیاحت کی پالیسی بنانے میں اس مجوزہ
تھنک ٹینک کی معاونت کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ محکمہ پروٹوکول پنجاب کو غیر ملکی سیاحوں
کو پروٹوکول دینے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ہماری روایتی مہان نوازی سے متاثر ہو کر غیر
ملکی سیاح اپنے ساتھ خوشگوار یادیں لے کرجائیں گے تو اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔سیاحتی
مقامات پر صاف، محفوظ،ماحول اوردیگر سہولتوں کی دستیابی سے غیر ملکی سیاح یہاں آنا
پسند کریں گے۔ہمیں مربوط حکمتِ عملی کے ساتھ پرنٹ،الیکٹرانک اورسوشل میڈیاپر آگہی مہم
چلائی جائے۔بیرون ملک سفارت خانوں میں ایک عدد ٹورازم آفیسر تعینات کیاجائے۔جس کے ذمے
اپنے میزبان ملک کے عوام کو پاکستانی ثقافت اور سیاحت کے بارے میں آگاہی دینا ہواور
مختلف سیاحتی سیمی نار اور روڈ شو منعقد کیے جائیں۔قومی نصاب میں سیاحت کاکورس متعارف
کرایا جائے۔بچوں کو اسکول کی سطح سے ہی سیاحت کے متعلق مکمل معلومات دی جانا چاہیے۔ملک
میں سیاحت خصوصاً مذہبی سیاحت کے فروغ سے عالمی سطح پرپاکستان کا نرم تشخص اُبھرے گا۔اس
کے ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی اور راو داری
کے فروغ میں مدد مل سکے گی۔غیر ملکی سیاحوں کو وطن عزیز میں موجود ثقافتی،تاریخی
اور سیاحتی مقامات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کچھ فوری نوعیت کے اقدامات کی اشد ضرورت
ہے۔ملک بھر کے ایئر پورٹس خصوصاً سکردو اورگوادر ایئر پورٹ کوعالمی معیار کے مطابق
جدید سہولیات سے مزین کیا جائے۔امیگریشن عملہ چہروں پر مسکراہٹ سجائے سیاحوں کو خوش
آمدید کہنے کے ساتھ بغیر کسی غیرضروری رکاوٹ کے امیگریشن کا عمل پور اکرے اور اگر ممکن
ہو تو غیر ملکی سیاحوں کے لیے الگ امیگریشن کاوئنٹر بنایا جائے۔چولستان اورتھل کے صحرا
میں محکمہ سیاحت پنجاب ہر سال جیپ ریلی منعقد کرواتا ہے۔یہ ایک بہت اچھی روایت بن چکی
ہے۔اس سرگرمی کومزید بڑھانے کے لیے عالمی کاراور موٹر سائیکل ہیوی بائیک ریس کے منتظمین
سے رابطہ کرکے اُن کو دعوت دی جائے کہ وہ بھی اس جیپ ریلی میں حصہ لیں۔دیگر سیاحتی
مقامات پر بچوں اور سیاحوں کے لیے جدید الیکٹرک جھولے، چیر لفٹ، کیبل کار لگائی جائے۔اس
کے ساتھ واٹرسپورٹس، پیراسیلنگ،پیراگلائیڈنگ، گھڑسواری اور دیگر کھیلوں کے فروغ کے
لیے بہتر حکمت عملی اپنائی جائے۔
تفریح،سیروسیاحت اورمہم جوئی کی خواہش
انسانی جبلت ہے۔انسان قدرت کے مختلف کرشموں کانظارہ کر کے اُن کو اپنے دل میں سمو لیناچاہتا
ہے۔دنیا بھر میں مختلف مذاہب کے پیروکار اپنے مذہبی مقامات سے قلبی لگاؤ رکھتے ہیں۔غیر
ملکی سیاحوں کو پاکستان کے ثقافتی سیاحتی اور مذہبی مقامات کی طر ف متوجہ کرنے کے لیے
سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان کی قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبی معیشت کو مستحکم کرنے
کے لیے سیاحت کے شعبے کو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دیا جائے۔ایسی صنعت، جس پر لاگت
کم اور کمائی بہت زیادہ ہے۔کثیر زرِمبادلہ سے معاشی خوشحالی
ہمار امقدر بن سکے گی۔اقوام متحدہ کے تحت ہرسال 27ستمبرکو عالمی یوم سیاحت منانے کا
مقصد عالمی سطح پر سیاحت کو فروغ دینا ہے۔سیاحت کے فروغ سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب
ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی اور ثقافتی رواداری اور ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں بھی مدد ملے
گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں