جنگِ ستمبر 1965 : پرائمری اسکول کے طالب علم کی یادداشتیں
ارشد سلیم کی کہانی ان کی اپنی زبانی
مختلف ذرائع سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ جانے کے بارے میں جاننے کے بعد ہم چھوٹی عمر کے طالب علموں کی طرح گھر سے دور روزی روٹی ، تعلیم ، یا نوکری کے لیے دفتر گئے ہوئے افراد بھی اپنے اپنے کام ادھورے چھوڑ کر گھروں میں بیوی بچوں اور والدین کے پاس پہنچ گئے
۔ سیالکوٹ شہر سے واپس آنے والے لوگوں سے لاہور
پر بھارت کے بڑے حملے اور جنگ کے بارے میں مزید اطلاعات گاؤں کے لوگوں کو ملیں جو بہت
تشویش ناک اور پریشان کن تھیں اور کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے۔ پریشان
کن اور غیر یقینی صورت حال اس لیے
بھی تھی کہ لوگوں نے فروری 1849 میں چیلیانوالہ ، ضلع گجرات (اب ضلع منڈی بہاء الدین) میں پنجاب
پر قبضے کے لیے انگریزوں اور سکھوں کے درمیان آخری اور فیصلہ کن جنگ اور مئی 1857 ء میں انگریزوں کے خلاف محدود اور کمزور
سی جنگِ آزادی کے بعد گذشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے میں اپنے علاقے میں کوئی لڑائی نہیں دیکھی تھی ۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں ہندوستان پر قابض انگریز استعمار تو براہ راست شامل تھا اور اس کی فوج میں اس خطے سے باقاعدہ بھرتی شدہ ہندوستانی شامل تھے۔ان کے علاوہ عام لام بندی کے تحت بیگار میں پکڑ ے گئے افراد (سری) لنکا ، برما اور ملایا (ملائشیا ) کے محاذوں پر
پرائے کی جنگ کے لیے ضرور لے جائے گئے تھے ۔ لیکن یہاں براہ راست کوئی عالمی سطح کی
یا مقامی نوعیت کی جنگ کئی نسلوں نے نہیں دیکھی
تھی۔
جس
طرح افراد کے لیے بعض مواقع یا اقدام فیصلہ
کن ثابت ہوتے ہیں ، اس طرح قوموں پر بھی ایسے
مواقع آتے ہیں کہ جہاں ان کی تقدیریں بنتی یا بگڑتی ہیں ۔ ایسا ہی چھے ستمبر کو ہوا ۔ قدرت کی طرف سے اور
خالق کائنات کے خصوصی فضل و کرم کی بدولت انجانے خوف و ہراس کی صورت حال ،پریشانی اور بے یقینی کے یہ لمحات
صرف ایک ہی دن میں اولوالعزمی ، بے خوفی ،
یک جہتی ، اخوت ، اتحاد ، خود اعتمادی اوررجوع
و توکل الی اللہ میں بدل گئے ،
ڈر اورخوف کے گہرے بادل چھٹ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک نئی ، پرعزم اور دلیر قوم
نے انگڑائی لی کہ جس کا ایمان ، غیرت ،ولولہ
اور اعتماد آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا ۔ سرحد
، ورکنگ باؤنڈری سےمحض پچیس تیس کلو میڑ دور ہونے اور دشمن کے بمبار طیاروں اور بھاری توپخانے کی زد میں ہونے کے باوجود ،اللہ تعالیٰ نے قوم پر سکینت
نازل کی ، کوئی افراتفری نہیں ہوئی اور بھگدڑ نہیں
مچی ، کسی نے گھر یا گاؤں چھوڑ کر کسی دوسرے
شہر پناہ لینے کا نہیں سوچا بلکہ اسی دھرتی پر رہ کر حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ
کیا ۔ کچھ دیر اپنے والدین ، بیوی بچوں اور
عزیزوں میں گزارنے اور ا نھیں صورت حال کے
بارے میں آگاہ کرنے اور تسلی دینے کے بعد دوستوں اور ہم جولیوں کی بیٹھکیں شروع ہو گئیں تاکہ
تازہ صورت حال کا پتا چل سکے ۔ محلے کے نوجوانوں نے کسی سرکاری ہدایت کا انتظار
کیے بغیر گھروں میں پڑے زنگ آلود مقامی ہتھیار ، ڈنڈے ، بلمیں ، کلہاڑے اور نیزے اٹھا کر ٹولیوں کی صورت میں گلیوں میں حفاظتی گشت شروع کر
دیا اور اپنی مدد آپ کے تحت شہری دفاع کا کام
سنبھال لیا ۔ بڑے بزرگوں نے اور خاص
طور پر عالمی جنگوں میں جبری بھرتی کے تحت انگریز فوج کے لیے عسکری خدمات انجام دینے
والے سابق فوجیوں نے نوجوانوں کی رہ نمائی اور ہلکی پھلکی جسمانی تربیت شروع کر دی
۔ کل تک محض ہمسایہ ، محلہ دار یا سرسری جان
پہچان والا شخص ماں جایا اور عزیر تر لگنے
لگا ۔ اس کی جان ، مال اور آبرو اپنی جان کی
طرح عزیز اور مقدس محسوس ہونے لگی ۔ سب دعاؤں ، آسروں اور سہاروں کا مرکز ایک ہی ذات تھی ، وحدہ لا شریک والی
ہستی۔ یہاں کے لوگوں کی اسی غیر معمولی اولو العزمی ، ثابت قدمی اور دلیری پر سیالکوٹ شہر کو جنگ ختم ہونے کے بعد لاہور
اور سرگودھا کے ساتھ "ہلالِ استقلال
" کا قومی اعزازدیا گیا ۔
نمازِ
ظہر کے وقت فتح گڑھ کی مرکزی جامع مسجد ، جو
ابھی مسجد حنفیہ غوثیہ نہیں بنی تھی ، نمازیوں
کے لیے تنگ پڑ گئی ۔ اذان کی آواز گھر گھر پہنچانے کے لیے مسجد کے اونچے میناروں پر ابھی تک لاؤڈا سپیکر نہیں لگے تھے اور صرف چند پکے
نمازیوں ہی کو نماز کے اوقات کا پتا ہوتا تھا
، لیکن اس دن تو مسجد وقت سے پہلے ہی بھر چکی تھی ۔ لوگ نماز میں رو رہے تھے ، گڑ گڑا
رہے تھے ، ہر کوئی براہ راست اپنے مالک اور
خالق سے لو لگائے ہوئے تھا۔ اسی سے مخاطب و
ملتجی ، اسی کا طالب ، اسی کا بندہ ، اسی کا گدا ۔ آنسوؤں کی جھڑی میں اپنے گناہوں
پر نادم ، اسی سے مدد اور فتح کے طالب ۔ توبتہ النصوح کا کچھ کچھ مطلب اس دن سمجھ میں آیا ۔ مسجد کے صحن میں آگے والی صف میں ایک شخص کی گریہ زاری اور آنسوؤں میں رندھی آواز نے میری خصوصی توجہ حاصل کی ۔لگتا
تھا کہ جس خشوع و خضوع، عاجزی و انکساری اور دل کی گہرائیوں سے وہ دعا کر رہا ہے ،
اللہ کے اسی برگزیدہ ولی کی دعا براہ راست
بیت المعمور سے ٹکرا رہی ہو گی اور
مالک کائنات بڑے فخر سے اپنے مقرب فرشتوں کو اس بندے کے عجز ، خلوص اور بے مائیگی کے احساس کی مثال دے
رہا ہو گا ۔ وہ شخص سجدے میں گیا تو اتفاق
سے میری نظر اس کے پاؤں پر پڑی ۔ اللہ کے اس
عاجز مسکین بندے کے پاؤں پر مٹی اور گرد کے کھرینڈ(کھرنڈ) بنے ہوئے تھے اور بچپن ہی
سے کچی پکی گلیوں اور کھیتوں کھلیانوں میں ننگے پاؤں چلنے پھرنے اور محنت مشقت کرنے کی وجہ
سے ایڑھی کا گوشت پھٹ چکا تھا اور اس کے اندر میل کچیل
کی پکی تہیں جمی ہوئی تھیں ۔ لگتا تھا
کہ زندگی بھر اس نے کبھی نماز کے لیے وضو تو درکنار ، کبھی ڈھنگ سے پاؤں بھی نہ دھوئے ہوں گے ۔ اس شخص کےملتجیانہ انداز نے
مجھے بہت متاثر کیا اور زندگی میں جب بھی اپنے خالق اور داتا سے کچھ خاص دعا کی توفیق
ہوئی تو اس خوش بخت بندے کی کیفیت کو سامنے
رکھ کے دعا کرنےکی کوشش کی ۔میری توجہ اور نظر مسلسل اسی آدمی
کی حالتِ نماز کے طرف رہی ۔ نماز کے
بعد دیکھا تو وہ اتفاق سے ہماری ہی گلی کا
سائیں کھوارا تھا ۔اس کی آنکھوں سے ابھی آنسوؤں کی شکل میں موتیوں کی جھڑی جاری تھی ۔ میں
نے اس کو بہت عقیدت و احترام اور رشک سے دیکھا اور برسوں بعد بھی جب وہ میرے سامنے آیا ، اس کے وجدان اور ' پہنچ '
کا وہی منظر میری آنکھوں میں گھوم جاتا
۔میں اسی وجہ سے عمر بھر اس کا احترام کرتا رہا ۔ مجھے لگتا تھا کہ گاؤں کا یہ کمی
، ماشکی ، خدمتگار ، مشکیزے میں پانی پلانے
والا "بہشتی " بھی ایک بار پھر چودھریوں ، عالم فاضل ،جبہ و دستار اور ڈگریوں اور سوٹ بوٹ والے افسروں پر بازی لے گیا ہے ۔ گاؤں کی دوسری دو مساجد ،مسجد
آرائیاں اور مسجد اہل حدیث میں بھی نمازیوں
کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا تھا اور لگتا تھا کہ غیر مشروط اور قلبی
رجوع کی بدولت بھولے بھٹکے غلاموں کو رحمت
خداوندی میں پناہ مل گئی ہے ۔
آہستہ
آہستہ جنگ کا منظر نامہ واضح ہونے لگا ۔ ہمارا گاؤں فتح گڑھ ملہیاں بنیادی طور پر تو
بھاری سکھ آبادی کا تھا ۔ نوّے فی صد کے قریب زرعی زمینیں گاؤں کے مکھی ذیلدار منگل سنگھ ملہی اور دوسرے خالصوں کی ملکیت تھیں
، مسلمان دوسری بڑی آبادی تھے مگر وہ چھوٹی موٹی اراضی کے مالک تھے ۔ اکثر مسلمان غریب ، کھیت مزدور ، مزارع اور محنت کش تھے ۔ سکھ زمیندار جب چاہتے طاقت اور دولت
کے نشے میں مسلمانوں کی تذلیل کردیتے۔ کسی
مسلمان کو فارغ دیکھتے تو کہتے " او مسلیا ویہلا بیٹھاں ایں تاں میری بانہہ سنگھ
ایں چک لے " ( اوئے مسلمان کے بچے ، ایسے
ہی فضول فارغ بیٹھے ہوئے ، نکمے ،ادھر آؤ اور
میرا مقدس بازو اٹھائے رکھو ) ۔ اسی ذیلدار منگل سنگھ کے بیٹے نے قیام پاکستان سے
پہلے پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام میٹرک
کے امتحان میں پورے صوبہ پنجاب میں ٹاپ کیا تو دوردراز سے لوگ اس لڑکے کو
دیکھنے آتے تھے ۔ لیکن قیام پاکستان کے وقت وہ سب سکھ یہاں سے
بھارت چلے گئے اور ایسے ناپید ہوئے کہ
پہچان کے لیے اب ان کا ایک فرد بھی یہاں موجود نہیں تھا ۔ بلکہ میں نے تو خود زندگی میں پہلا گوشت پوست والا زندہ سکھ
کوئی بیس سال کی عمر میں سیالکوٹ شہر میں
دیکھا ۔ سکھوں کی جگہ ہجرت کرکے فتح
گڑھ میں آباد ہونے والوں میں سے اکثر مسلمان
گھرانوں کا تعلق جموں ، کشمیر اور گردو نواح سے تھا ۔ وہ جموں ،توی ، خوشحال گڑھ ،
سچیت گڑھ کے چپے چپے سے واقف تھے ۔ وہ اکٹھے
ہوتے تو بتاتے کہ ہندو مہاشوں کا کشمیر سے
رابطہ توڑنے کے لیے اکھنور کا علاقہ اور خاص
طور پر کٹھوعہ کا رابطہ پل تباہ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ سپلائی لائن کاٹ کر جموں وکشمیر پر بھارت کا تسلط ختم کیا جا سکے ۔ چھمب جوڑیاں ، ٹیٹوال ، درہ حاجی پیر اور دوسرے مقامات سے گرم
خبریں تو پچھلے چند ماہ سے مل رہی تھیں لیکن ان کی تسلی نہیں ہو رہی تھی
کہ کٹھوعہ کا پل ابھی تک موجود تھا ۔
بھارتی
فضائی حملے اب معمول بن چکے تھے۔ البتہ اب یہ اضافہ ہوگیا تھا کہ جونہی ریڈار پر دشمن کے
جہاز نظر آتے تو شہر سیالکوٹ سے سائرن/ ہوٹر
کی آواز گونجنے لگتی جسے ہم" گگو " بولا کرتے تھے ۔اپنی آواز کی ساخت
میں
ہولناک، خطرے کے سائرن کی آواز سنتے ہی لوگ
ممکنہ حفاظتی تدابیر اختیار کر لیتے ، درختوں کے نیچے یا گھروں میں چھپ جاتے ، دیواروں
کے ساتھ لگ جاتے۔ پھر خطرہ ٹلنے کا نرم آواز والا سائرن بجنے تک تمام سرگرمیاں روک دیتے ۔ اب رات کے وقت "بلیک آؤٹ
" کے احکامات بھی جاری ہو گئے ۔ ہدایت
تھی کہ رات کو ہوائی حملے کے خطرے کے وقت تمام لالٹینیں دیے اور
چراغ گل کر دیے جائیں اور چولہوں سمیت کہیں
بھی آگ جلتی نظر نہیں آنی چاہیے تاکہ دشمن
جہاز کو یہاں آبادی کی موجودگی کا علم نہ ہو اور ہم بمباری کا نشانہ بننے سے بچ جائیں
۔ بجلی ابھی گاؤں کے چند ہی گھروں میں لگی تھی اور ان کو زیادہ احتیاط کا کہا گیا
تھا ۔ گلیوں میں گشت کرنے والے رضاکار اس بلیک آؤٹ کی پابندی کو بھی یقینی بناتے تھے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والا دشمن کا ایجنٹ گردانا
جاتا تھا ۔
بھارت
کی طرح اب پاکستان کی فضائیہ بھی کھل کر میدان میں آ چکی تھی اور اپنی زمینی افواج
کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی سرحد کر اندر گھس کر دشمن کے ہوائی اڈوں ، اسلحہ
کے ذخائر اور کلیدی دفاعی تنصیبات پر تابڑ
توڑ اور جارحانہ حملے کر رہی تھی ۔ ریڈیو پر جہاں نئے نئے جنگی
ترانے ہمارا خون گرماتے وہاں خبروں میں شکیل
احمد اور انور بہزاد کی گرجدار اور رعب دار آواز میں جنگی محاذوں پر لڑائی کے مناظر اور ہلواڑہ ، پٹھانکوٹ، امرتسر ،جالندھر
، جیسلمیر ، سمیت دشمن کے ہوائی اڈوں اور جنگی تنصیبات پر پاکستانی پائلٹوں ایم ایم عالم ، سرفراز رفیقی ،یونس حسین، امتیاز احمد ، علاؤالدین احمد ، سیسل چودھری ، حکیم اللہ اور چنگیزی کے تباہ کن حملوں کی روداد سننے کو ملتی تو اپنے
آپ پر اور مسلح افواج پر فخر محسوس ہوتا اور ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتیں ۔ جنگ میں
جہاں مسلح افواج نے اپنے اپنے محاذاور دائرہ کار میں منفرد اور غیر معمولی انداز میں
اور جذبہ جہاد سے بہادری کی داستانیں رقم کیں
اور جانوں کی قربانی دی ، وہیں سفارت کاروں , رضاکاروں ، میڈیا ، شعراء ، ادیبوں ، فن کاروں اور گلوکاروں نے بھی بھرپور قومی خدمات انجام دیں ۔ جنگوں میں قوم اور
سپاہیوں کا مورال بلند کرنے میں ملی نغموں اور گائیکوں کا کردارصدیوں سے
مسلمہ ہے ۔ 1965ء کی جنگ میں بھی ملی نغموں
نے جوش و جذبہ بیدار کرنے اور خون گرمانے میں
اہم کردار ادا کیا اور مختصر وقت اور نامساعد
حالات میں عظیم شاہکار تخلیق ہوئے ۔ ایک ایسے ہی ملی نغمے
"میرا ڈھول سپاہیا
تینوں رب دیاں رکھاں
"
کے
بارے میں 1985 میں پاکستان ٹیلی وژن اکیڈمی، اسلام آباد میں ہم ٹرینی نیوز پروڈیوسروں
کے ساتھ ایک شام میں ملکہ ترنم نور جہاں نے
بتایا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور کے سٹوڈیوز میں صوفی غلام
مصطفیٰ تبسم اور کئی مایہ ناز شاعر اور ادیب ، موسیقار اور سنگر رضاکارانہ طور پر ہر وقت موجود رہتے تھے ۔ جونہی
کسی شاعر کو آمد ہوتی ، گیت موزوں ہوتا ، موسیقار
اس کی دھنیں مرتب کرتے اور ایک دو ریہرسل کے بعد ملی نغمہ ریکارڈ کرکے نشر
کر دیا جاتا ۔ ملکہ ترنم نے بتایا کہ صوفی
صاحب نے مجھے فون کرکے بلا بھیجا کہ ایک خاص
نغمہ ہوا ہے ، یہ آپ ہی گائیں گی۔ میں فوراً ریڈیو پہنچی ۔ سکرپٹ پڑھا تو ایک لفظ پر تسلی نہیں ہوئی ۔ دراصل سکرپٹ میں کسی
روایتی پالیسی یا مصلحت کے تحت صوفی صاحب کے
" میریا ڈھول سپاہیا "
کی جگہ
"میریا ویر سپاہیا "
کر دیا گیا تھا جو صوفی صاحب اور
مجھے بھی کھٹک رہا تھا لیکن صوفی صاحب وسیع تر قومی مفاد میں اور صورت حال کی نزاکت پیش نظر اس تبدیلی پر زیادہ معترض
نہیں ہوئے ۔ لیکن میں نے کہا کہ
"ڈھول "( دوست / سجن/ ہمدم / ساتھی ) کے مقابلے
میں لفظ "ویر" ( بھائی ) ادائی ،
شعری وزن ، نغمگی ،معنویت، اثراور جمالیاتی لحاظ سے جنگی ملی نغمے میں لگا نہیں کھاتا ،اس لیے میں تو
" میریا ڈھول سپاہیا " ہی گاؤں گی ۔تب جا کر میرے اصرار اور ضد پر یہ نغمہ
اس کی اصلی صورت میں ریکارڈ ہوا اور اس جنگ
کے بہترین نغموں میں شمار ہوا۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں