meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: اگست 2024

Empowering Through Media Literacy

’’فلسطین میں پائیدارامن امریکا کے ہاتھ میں ہے‘‘

پروفیسر نارمن فنکلسٹائن  
 امتیازاحمدوریاہ

فلسطین میں  پائیدار امن امریکا کے ہاتھ میں ہے اور یہ امن اس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں  حاصل ویٹو طاقت میں مضمر ہے۔یہ بات    معروف امریکی   پروفیسر نارمن فنکلسٹائن  نے آج سے کوئی 16  سال قبل 13 نومبر   2008ء  میں   ماستریحت یونیورسٹی (نیدرلینڈز) میں ایک لیکچر کے دوران میں کہی تھی۔اسرائیل نے اس کے بعد غزہ کی پٹی پر چار بڑی جنگیں مسلط کی ہیں اور گذشتہ گیارہ ماہ کے دوران میں اس نے غزہ کی پٹی میں واقع شہروں اور قصبوں  کو  تباہ کن بمباری  کرکے    ملبے کے  ڈھیروں میں تبدیل کردیا ہے ۔اس جنگ کے دوران میں غیر مصدقہ اعدادوشمار کے مطابق کم سے کم دو لاکھ  فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ، باقی تمام آبادی دربدر ہوچکی ہے اور نان جویں کو ترس رہی ہے ۔لاکھوں زخمیوں کے علاج معالجے کے لیے طبی عملہ ہے اور نہ  ادویہ  اور آلات وسامان۔ اب اسرائیلی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کے خلاف کارروائی شروع کردی ہےجس میں 25 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

سیاسیات کے پروفیسر نارمن نے اس  لیکچر میں اپنی مذکورہ  بات  کی یوں  وضاحت  کی تھی:’’آج  ایک بہتر سربستہ راز یہ ہے  کہ پوری دنیا میں  اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کے لیے اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔دنیا میں آج ایسا کوئی  اور تنازع نہیں جواس  جیسا پیچیدہ ہو۔دنیا میں آج کوئی اور  تنازع نہیں جس کے حل کے لیے اصول اور شرائط وضوابط  پروسیع تراتفاق رائے پایاجاتا ہو۔ آئیے دنیا کے سب سے نمایندہ سیاسی ادارے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔نام اس کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہے۔ہر سال ایک ہی وقت میں، جی ہاں ایک ہی وقت میں اور نومبر کے مہینے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں’مسئلہ فلسطین کے پُرامن حل کے عنوان‘ سے ایک قرارداد پر رائے شماری ہوتی  ہے۔اس قرارداد میں ہرسال مسئلہ کے حل کے شرائط وضوابط وضع کیے جاتے ہیں۔ان کی قریب قریب زبان ایک ہی جیسی ہوتی ہے اورشرائط  بھی  بالعموم  یکساں ہوتی ہیں اور وہ یہ ہیں:

1۔تنازع کو جون 1967ء کی سرحدوں کے مطابق حل کیا جائے۔اس کے تحت اسرائیل کو ان تمام علاقوں کو مکمل طور پر خالی کرنا ہوگا،جن پر اس نے جون 1967ء کی جنگ میں قبضہ کرلیا تھا۔یہ دراصل بین الاقوامی قانون کا بنیادی اصول ہے اور اس کی اساس اقوام متحدہ کے منشور کا آرٹیکل 2 ہے۔اس میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ جنگ کے ذریعے حاصل کردہ علاقے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور جنگ میں  کسی علاقے کو ہتھیانے کی اجازت نہیں ہے مگر’’ اسرائیل اور امریکا کے نزدیک اس دفعہ کی کوئی اہمیت یا قانونی حیثیت نہیں ہے‘‘۔

2۔فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ حقِ واپسی کے اصول کے تحت طے کیا جائے اور انھیں اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کی اجازت دی جائے۔

انھوں نےاپنی اس بات کی یوں  وضاحت کی: جب میں یہ کہتا ہوں کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں  سے  اسرائیل کا مکمل انخلاء ہونا چاہیے ،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو دریائے اردن کے مغربی کنارے کا  تمام علاقہ ، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المقدس (یروشلم) کو خالی کرنا ہوگا کیونکہ اس نے ان علاقوں پر 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا۔اسرائیل نے بعد میں مشرقی بیت المقدس کو ریاست میں ضم کر لیا تھا اور مغربی کنارے میں بہت سی یہودی بستیاں قائم کرلی ہیں جہاں دوسرے ممالک بالخصوص یورپ سے ہزاروں ، لاکھوں  یہودیوں کو لا کر بسادیا گیا ہے۔ اب یہ قابض آبادکار  آئے دن  فلسطینیوں کے خلاف  متشدد کارروائیاں کرتے رہتے ہیں  اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں  ان کی آبائی زمینیں ہتھیا رہے  ہیں۔یہودی آبادکاروں کی یہ بستیاں ہی اب قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں کیونکہ اسرائیل  انھیں خالی کرنے کو تیار نہیں۔

 پروفیسر نارمن  نے   اپنے سامعین کو بتایا کہ ’’ میں نے گذشتہ دس سال کے دوران میں (2008ء سے قبل) جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین سے متعلق قرارداد پر  ہونے والی رائے شماری کا جائزہ لیا ہے۔اس کے نتائج کم وبیش ایک ہی جیسے رہے ہیں اور وہ یہ کہ 1997ء میں  155  ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور دو نے مخالفت کی۔ منفی ووٹ والے یہ دونوں  ممالک امریکا اور اسرائیل تھے۔سنہ 2002ء میں  160ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ چار نے اس کی مخالفت کی تھی۔یہ چار ممالک امریکا ،اسرائیل ،مارشل آئلینڈ  اور  میکرونیشیا تھے۔ 2004ء میں   161ممالک نے فلسطینی تنازع کے حل کے لیے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ سات نے اس کی مخالفت کی تھی۔ان میں  مذکورہ چاروں ممالک کے علاوہ  آسٹریلیا ، گریناڈا  اور پلاؤ شامل تھے۔2007ء میں بھی 161ممالک نے حمایت اور سات نے مخالف کی تھی۔قرارداد کے مخالفین میں اسرائیل ، امریکا ، آسٹریلیا ،مارشل آئلینڈ ،میکرونیشیا ، نارو  اور پلاؤ شامل تھے‘‘۔

پروفیسر نارمن  فنکلسٹائن  نے ماستریحت یونیورسٹی (نیدرلینڈز)  کے  یورپی  صحافت مرکز میں  یہ لیکچر دیا تھا۔ اس لیکچر میں  انھوں نے تنازع فلسطین کے حل کے لیے جو تجاویز پیش کی تھیں،وہ کوئی نئی  نہیں تھیں اور گذشتہ 50 سال کے دوران میں ان کی صدائے بازگشت سنی جارہی ہے لیکن یہ تنازع  امریکا اور اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں  پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔

وہ سیاسیات  بالخصوص  اسرائیلی فلسطینی تنازع اور ہولوکاسٹ کی سیاست کے ایک آزاد ماہر تعلیم ہیں۔ ان کا استدلال  تھا کہ اسرائیل فلسطین تنازع  اپنے حل کے اعتبار سے معاصر دنیا میں سب سے کم متنازع ہے۔ ان کی دلیل یہ  تھی کہ ماضی کے بارے میں مؤرخین کے درمیان، حال میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے درمیان اور مستقبل کی  قانونی و سفارتی برادری کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس   تنازع کو کس طرح حل کیا جائے۔ دیگر  نظریات وخیالات  کے علاوہ ، انھوں نے 'ہولوکاسٹ انڈسٹری' کے وجود کا نظریہ بھی پیش کیا تھا۔اس پر ان کا بعض ماہرین سے تنازع بھی پیدا ہوگیا تھا اور انھیں  شکاگو کی جامعہ  ڈی پال  نے مدت ِملازمت میں توسیع نہیں دی تھی۔فنکلسٹائن نے 2000 میں  اپنی کتاب ’’ہولوکاسٹ انڈسٹری ‘‘  شائع  کی تھی۔ اس کی اشاعت کے بعد انھیں عالمگیر  شہرت حاصل  ہوئی تھی۔اس میں انھوں نے لکھا  کہ ہولوکاسٹ کی یاد کو ایک نظریاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اسرائیل کو تنقید سے  مستثنا  قراردیا  جاسکے۔ وہ اسرائیلی پالیسی اور اس کے حکمران طبقے کے سخت  ناقد ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے سنہ 2008 میں ان کے ملک میں داخلے پر دس سال کے لیے پابندی عاید کر دی تھی۔ 

پروفیسر فنکلسٹائن نے اسرائیل کو "یہودی بالادستی کی ریاست" قرار دیا ہے، اور اسے فلسطینی عوام کے خلاف نسلی امتیاز کے جرم کا  مرتکب  قرار دیا ہے۔ انھوں نے اپنی  کتاب میں  اسرائیلی قبضے میں رہنے والے فلسطینیوں کی حالت زار کا موازنہ نازیوں کی ہولناکیوں سے کیا ہے۔ ان کی فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں  آخری  کتاب 2018 میں شائع ہوئی تھی۔اس کا عنوان  تھا: غزہ: اس کی شہادت کی تحقیقات ۔ اور اب غزہ حقیقت میں اسرائیل کے ہاتھوں لہو لہو ہے اور اسرائیل کی بہیمانہ اور سفاکانہ جنگی کارروائیوں کا کوئی اختتام نظر نہیں آرہا ہے۔

پاکستان:خواب کی تعبیر سے تعمیر تک اور موجودہ حالات

 

احسان غنی      

       حاکمیتِ اعلیٰ صرف اللہ رب العزت کی ہوگی اور ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کے پرجوش نعرے کے ساتھ جدوجہدآزادی کاآغازہوا۔شاعر مشرق علامہ اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے بابائے قوم محمد علی جناح کی سربراہی میں  انگریز سامراج  کے زیرقبضہ ہندوستان میں  مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے حصول کی تحریک شروع ہوئی۔23 مارچ 1940ء  کو منٹو پارک    ، لاہور میں  آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں  قرار داد لاہور  منظورکی گئی، جو بعد میں قرارداد   پاکستان  کہلائی  اور اس کے صرف سات سال بعد پاکستان معروض وجود میں آگیا۔

پاکستان ایک طویل ، محیّرالعقول  ،درد انگیز قربانیوں کی لازوال داستان ہے۔پاکستان کی بنیادوں میں عورتوں ،مردوں ،جوانوں اوربچوں کا لہو شامل ہے۔ 1947ء میں انسانی تاریخ  کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ لاکھوں  لوگ  اپنے ہنستے بستے گھر ،منافع بخش کاروبار، لہلاتے کھیت چھوڑ کرنئے ارض  وطن کی جانب  عازم سفر ہوئے لیکن  ان میں لاکھوں راستوں ہی میں  بلوائیوں  کے ہاتھوں  اپنی جانیں  گنوا بیٹھے اور ان کے بے گورو کفن لاشے  ندی نالوں ، دریا ؤں   کی نذر  ہوئے ۔یوں لاکھوں    جانوں کا نذرانہ پیش کر کے  یہ پاک سرزمین حاصل ہوئی۔بے سرو سامانی میں لاکھوں لوگ مہاجر ہو کر لاہور والٹن کیمپ میں پہنچے آنکھوں میں خواب سجائے کہ ہمیں اب ہمارا پیارا وطن مل گیاہے۔جہاں ہرطرح کا آرام راحت وسکون میسرہو گا۔مگر77سال گزرگئے،انھیں  اس خواب کی تعبیر نہ  مل سکی۔آج لاکھوں کی تعداد میں نوجوان مایوسی کے عالم میں پیاراوطن چھوڑ کر روزگار کے لیے  بیرون ملک ہجرت کررہے ہیں۔سیاستدان کوآپسی  لڑائی  جھگڑوں   ہی  سے فرصت نہیں۔ریاستی ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔قیام پاکستان کامقصد اسلامی فلاحی ریاست  کا قیام تھاجہاں شہریوں کے  جملہ حقوق کا تحفظ یقینی ہو  اور معاشرے  میں  عدل وانصاف   کا بول بالا ہو۔وطن عزیز کی بدقسمتی ان مقاصد کاحصول ہنوز ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

جنوبی ایشیا  کے ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جو محل وقوع کے لحاظ سے مثالی ہے۔فلک بوس کہسار، ٹھاٹھے مارتا گہراسمندر ،وسیع وعریص صحرا، ریگستان ، جنگلات اور سرسبز لہلاتے سونا اُگلتے کھیت کھلیان اس دھرتی کی شان ہیں۔پاکستان کے موجودہ حالات کا عمیق جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ یہاں   بحرانوں کا ایک لامنتاعی سلسلہ ہے جو روکنے میں نہیں آرہا۔ایک بحران کے بعد دوسرا اورپھرتیسرا بحران سراُٹھاتا ہے۔ قرضوں کواتارنے کے لیے نئے قرضے لیے جاتے ہیں  جن   کا بھاری بوجھ  مہنگائی  کے بوجھ تلے دبے  عوام پرپڑرہا ہے۔ روزافزوں  مہنگی اشیاء خورونوش اور بجلی کی قیمت میں ہوشربا اضافے سے لوگ سخت پریشان ہیں۔دوسری طرف ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے خوف وہراس کی فضاقائم کررکھی ہے۔آئے دن  خود کش بم دھماکوں  اور دہشت گردوں کے حملوں  میں عام شہری اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شہید ہورہے ہیں۔ایک طرف أفغانستان کی سرزمین  پاکستان  میں  دہشت گردی کے لیے  استعمال ہورہی ہے  اوردوسری طرف سے بھارت شر انگریزی کررہا ہے۔تعلیم اور صحت کے شعبوں کابُراحال ہے ۔ڈھائی کروڑ کے قریب بچے اسکولوں سے باہر بھٹک رہے ہیں۔شہروں  میں  گنتی  کے سرکاری  اسپتالوں میں مریض ایسے اُمڈے چلے  آتے ہیں کہ  تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔امن وامان کی صورتحال یہ ہے کہ ہرشہری خوف کاشکار ہے۔اغوابرائے تاوان ، قتل ،چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں  معمول   بن چکی ہیں ۔دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہورہی ہے ۔پاکستان میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی آفات آناشروع ہو گئی ہیں۔اِ ن میں بے موسمی معمول سے زیادہ بارشیں ،سیلاب  اور طغیانیوں  سے عوام کو بہت زیادہ نقصانات کا سامنا ہے۔ لوگوں کے مال مویشی  اور فصلیں سیلاب کی نذرہور ہے ہیں۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے  سبب چھوٹی بڑی  صنعتیں اورکاروبار بند ہورہے ہیں۔ملک میں ہرطرف افراتفری کا عالم  ہے   مگر ہر کوئی دوسرے کو مودِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ اصلاح کی  کوئی  ایک بھی  سنجیدہ  کوشش نہیں کی جارہی۔دہشت گردی اورمہنگائی کا جن قابو میں نہیں آرہا ہے۔اس کے ساتھ سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔یہ تمام محرکات ملک میں مزید  سیاسی عدم استحکام  کا سبب بن  رہے  ہیں۔ہمارے سیاستدانوں کی   ہٹ دھرمی  ،انا اورضد سے معاملات بگڑتے جارہے ہیں۔کسی بھی جانب سے اصلا ح کی کوشش نہیں ہو رہی۔25کروڑ عوام فرقوں ،گروہوں اورمختلف جماعتوں میں تقسیم ہیں۔قیادت  میں  عزم  کے فقدان کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔اِ ن تمام مسائل کا واحد حل تو  یہ ہے کہ  ملک میں   منصفانہ ،غیر جانبدارانہ انتخابات کروائے جائیں۔ اس کے نتیجے میں جو جماعت اکثریت حاصل کرے اسے حکومت کرنے کا پورا موقع دیا جائے تمام متعلقہ ادارے اپنی حدود میں رہ کرصرف اپنے دائرہ  کار میں کام کریں۔وطن عزیز میں سیاسی استحکام کے ذریعے ہی معیشت میں بہتری آئے گی اور امن وامان قائم ہوسکے گا۔جس سے خوشحالی کے سفر کا آغاز ہوگا۔ ہمارے بزرگوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے اور پاکستان حقیقت میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بن کر اقوام عالم میں نمایاں مقام حاصل کرسکے گا ۔؎

              "خدا کرے میری ارضِ پاک پر اُترے

              وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو"

غربِ اردن : یہودی آبادکاروں کی دہشت گردی پر شین بیت کے سابق اورموجودہ سربراہ چلّا اٹھے!


اسرائیل کی داخلی سلامتی  کی ذمے دار ایجنسی شین بیت  کے سربراہ رونن بار مقبوضہ مغربی کنارے میں  یہودی آباد کاروں کی دہشت گردی کی کارروائیوں پر چیخ اٹھے ہیں اور انھوں نے پہلی مرتبہ وزیراعظم  نیتن یاہو کی حکومت سے ان سرگرمیوں پر قابو پانے کا مطالبہ کیا ہے۔ رونن بار 2021 سے اس عہدے پر فائز ہیں ۔انھوں نے ملک کی قیادت کو خبردار کیا ہے کہ غربِ اردن میں  یہودکی دہشت گردی((Jewish terrorism بے قابو ہوچکی ہے اور یہ قومی سلامتی کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔انھوں نے یہ انتباہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو ،اٹارنی جنرل اور اسرائیلی کابینہ کے ارکان کے نام ایک خط میں کیا ہے۔واضح رہے کہ بعض اسرائیلی وزراء غربِ اردن میں  فلسطینیوں  کے خلاف تشدد کے ذمے دار انتہاپسند یہودی آبادکاروں کی کھلم کھلا پشت پناہی کرتے ہیں۔

رونن بار نے یہ خط  گذشتہ ہفتے بھیجا تھا لیکن اس کو اسرائیلی چینل 12 نیوز نے گذشتہ جمعرات کی شب  شائع کیا تھا۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کی قیادت میں انتہاپسند دائیں بازو کے حکمراں  اتحاد اور اسرائیل کے سکیورٹی اداروں کے درمیان غربِ اردن میں امن  وامان کے  امور پر بُعد المشرقین    پایا جاتا ہے۔اسرائیل کے قومی سلامتی کے انتہاپسند  وزیر ایتمار بن غفیر  نے رونن بار کے خط  کو  اشتعال انگیز رویے کا آئینہ دار  قرار دیا ہے، انھیں  تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انھیں  شین بیت  کے ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ  وزیردفاع گیلنٹ نے  بار کا دفاع کیا ہے اور بن غفیر کے رویے کی مذمت کی ہے۔

بار نے اپنے اس خط میں  یہودی انتہاپسند وں  کی مغربی کنارے میں   غیر قانونی سرگرمیوں کا  ہے۔ یہ  ’’چوٹی کے نوجوان‘‘ کے طور پر بھی معروف ہیں۔ یہ متشدد جنگجو گذشتہ کئی برسوں سے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف قتل وغارت ، آتش زنی  اور انھیں دہشت زدہ کرنے کی مہم  برپا کیے ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے نکال باہر کرنا اور وہاں قابض ہونا  ہے اور پھر ان علاقوں  کو صہیونی ریاست میں ضم کرنا ہے۔یہ آئے دن فلسطینیوں پر لاٹھیوں ، ڈنڈوں اور آتشیں اسلحہ سے حملے کرتے رہتے ہیں۔اب غزہ میں اسرائیل کی جنگ کی وجہ سے انھیں مزید شہ ملی ہے اور وہ بے روک ٹوک قبضے اور جلاؤ گھیراؤ کی کارروائیوں میں  مصروف ہیں۔

شین بیت کے سربراہ  نے کہا کہ انھوں نے  ایک یہودی، ایک اسرائیلی اور ایک سکیورٹی اہلکار کی حیثیت سے ’’ چوٹی کے نوجوانوں‘‘ کی جانب سے یہودی دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے  پیش نظر درد اور بڑے خوف کے ساتھ خط بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انھوں نے لکھا کہ ’’ہم ایک اہم، حقیقت کو تبدیل کرنے والے عمل کی دہلیز پر ہیں۔اسرائیل کو، خاص طور پر اس وقت، اور آباد کاروں کی اکثریت کو جو نقصان پہنچا ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔ایک ایسے وقت میں آئی ڈی ایف فورسز  کو یہاں تعینات کیا جار ہا ہے، جن کا مقصد ان مشنوں سے نمٹنا نہیں ہے   اور ان کو اپنے تمام کاموں کو انجام دینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘‘۔ بار نے  خط میں  یہ نتیجہ اخذ کیا کہ’’ قوم پرست قیادت اپنے نظریے کے نام پر ریاست کی سلامتی اور اس کے وجود  ہی کو خطرے میں ڈالنے کو تیار ہے‘‘۔نیز دہشت گردی کی  یہ مہم  یہودیت پر ایک دھبا ہے۔

اسرائیل اخلاقیات اور انسانیت کھوچکا

حال ہی میں شین بیت کے ایک سابق سربراہ  ایمی ایالون نے بھی امریکا کے کیبل نیوز نیٹ ورک ( سی این این)  سے  ایک انٹرویو میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے  لیکن انھوں نے     اسرائیل کی غزہ کی پٹی میں برپا کردہ  سفاکانہ جنگ  کے بارے میں زیادہ  ترگفتگو کی ہے۔سی این این کی کرسٹیان  امان پور کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایمی ایالون  نے اسرائیل کی اخلاقیات اور انسانیت کھونے پر تشویش کا اظہار  کیا اور کہا کہ’’  قتل و غارت ' اسرائیل کی  فطرت  ثانیہ بن چکی ہے‘‘۔انھوں نے کہا کہ  ہمیں 'سیاسی طور پر درست' ہونے اور "صہیونیت یہودیت نہیں ہے" کا اعلان کرنے کا جنون تھا کیونکہ ہمیں صہیونیوں نے دھوکا دیا تھا، بنیاد پرست یہودیت (جو صہیونیت کا ایک اہم حصہ ہے) کے بارے میں کسی بھی طرح کی بحث، اور اس  بحث پر یقین کرنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ یہودیت کے ساتھ اتحاد ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیلی حکام اکثر فلسطینیوں کو غزہ میں  اپنی  نسل کشی کا جواز پیش کرنے کے لیے انسان سے کم یعنی 'انسانی جانور' قرار دیتے رہے ہیں۔اس رویّے  پر  ایالون نے افسوس کا اظہار کیا کہ اخلاقیات کا یہ نقصان اسرائیلی عوام، یہودیوں اور بالآخر انسانوں کے طور پر شناخت کو ختم کر رہا ہے۔انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین  نیتن یاہو کی قیادت پر سخت تنقید کی ،  اس   
کو "زہریلا" قرار دیا اور  خبردار کیا کہ اس سے صہیونیت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امن کے لیے دو ریاستی حل  ناگزیر ہے اور اس کے بغیر حماس   کو ختم  نہیں کیا جاسکے گا۔ انھوں نے غزہ میں جاری جنگ اور اسرائیل کے مستقبل پراس کے وسیع تر مضمرات پر  اظہار خیال کیا تھا۔

یادرہے کہ  ایالون نے 1963 سے 1996 تک اسرائیلی بحریہ میں خدمات انجام دی تھیں اور اس  کمانڈر ان چیف  رہے تھے 1995 میں  سابق وزیر اعظم  اضحاک رابن کے قتل کے بعد ، ایالون کو اسرائیل کی داخلی سلامتی کی سروس شین بیت کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور وہ 2000ء تک اس عہدے پر فائز رہے تھے۔ریٹائرمنٹ  کے بعد  ایالون   نے  لیبر پارٹی کے رکن کی حیثیت سے سیاست میں قدم رکھا اور 2006 سے 2009 تک  اسرائیلی پارلیمان  الکنیست   کے رکن  رہے تھے۔وہ اسرائیلی کابینہ  میں  وزیر بے محکمہ بھی  رہ چکے ہیں۔

بہتر اور جاندار زُود نویسی کے 5 گُر

رابرٹ ڈبلیو بلی



اس مضمون  میں  فری لانس  لکھاری  رابرٹ ڈبلیو بلی  نے صنف یا فارمیٹ سے قطع نظر بہتر اور تیز تر لکھنے  (زُود نویسی) کے لیے اپنی پانچ بہترین تجاویز کا اشتراک کیا ہے۔

سیموئل جانسن (اٹھارویں  صدی کے  نامور انگریزلکھاری اور  نقاد)   کا یہ مشہور مقولہ ہے: ’’پیسے کے علاوہ کسی شخص نے کبھی نہیں لکھا،سوائے ایک بند دماغ (احمق) کے ‘‘۔لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ پیسے کے لیے ہی لکھتے ہیں ۔ بشمول میرے! اور، جتنے آپ زُود نویس ہوتے ہیں، اتنا ہی زیادہ آپ لکھتے ہیں   اور اتنا ہی زیادہ پیسہ کما سکتے ہیں۔ آج بہت سے مصنفین چیٹ جی پی ٹی کو تیزی سے لکھنے کی صلاحیت کا کریڈٹ دیتے ہیں۔ لیکن مصنوعی ذہانت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، مصنفین کے لیے اعلیٰ تخلیقی  لکھائی کی ایک اور کلید یہ ہے کہ  وہ  واقف لوگوں یا من پسند موضوعات کے بارے میں لکھیں -آپ  اس بارے میں لکھیں جو آپ جانتے ہیں، جو دیکھا ہے، تجربہ کیا ہے، یا  کوئی عملی کیا ہے۔اس ضمن میں  میری بہتر زُودنویسی  کے لیے پانچ   تجاویز  حسب ذیل ہیں:

 1 - کسی ایسی چیز کے بارے میں لکھیں جو آپ جانتے ہیں:

کسی ایسی چیز کے بارے میں لکھنے کے بہت سے  فوائد ہیں جو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ یا تو آپ  اپنے وسیع مطالعہ اور تحقیق  کی بہ دولت اس موضوع پر کثیر مواد سے  آگاہ ہوں  گے  یا بہ صورت دیگر ایک شوقین ،  مواد کے فراہم  کنندہ ،یا مداح کی حیثیت سے اس موضوع  سے  براہ راست  تعلق رکھتے ہوں گے۔مثال کے طور پر، میں کئی دہائیوں سے مزاحیہ کتابیں پڑھ رہا ہوں اور انھیں  جمع کر رہا ہوں۔ لہٰذا میں نے  مزاحیہ کتب  کے   ہیروز کے لیے ایک کتاب  تحریر کی: ایٹم سے ایکس مین تک ، امریکا کے پسندیدہ سپر ہیروز کے بارے میں 1،001  دلچسپ  سوالات ۔ اس کتاب کو  میرے ایجنٹ نے سیٹاڈیل پریس کو فروخت کیا ہے۔

چونکہ میں   طنزومزاح سے بھرپور  کتب  کا بہت  شائق  اور قاری ہوں، اس لیے بہت سا تحقیقی مواد یا تو پہلے سے ہی میرے ذہن میں تھا یا پھر میری  مزاحیہ کتاب کے مجموعے میں موجود تھا، یہ سب میرے قلمی نسخے کو مکمل کرنے کے لیے کافی شارٹ کٹ  ثابت ہوا تھا۔

 2 - آپ جو کچھ کرچکے ہیں، اس کے بارے میں لکھیں:

ماضی میں مجھے میرے آجر صنعت ساز ادارے ’کوچ انجنیئرنگ ‘نے مین ہیٹن  (نیویارک) سے کمپنی کے وچیٹا ، کنساس میں واقع صدر دفاتر میں منتقل ہونے کے لیے کہا تھا۔اس کے بجائے میں نے اپنے طور پر ایک نئے راستے کا انتخاب کیا اور ایک فری لانس کاپی رائٹر اور مارکیٹنگ مشیر (کنسلٹنٹ) بن گیا۔میں یہ بات جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ 9سے 5 بجے تک چوہا دوڑ والی نوکریوں کو خیرباد کہنا چاہتے ہیں اور وہ اپنے طور پر فری لانسر بننا چاہتے ہیں یا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔چناں چہ میں نے ان کی رہ نمائی کے لیے ایک کتاب لکھی  تھی:’’ آؤٹ آن یور اون: کارپوریٹ سے سیلف ایمپلائمنٹ تک‘‘،اسے جان ولی نے شائع کیا تھا۔

میں ایک اچھی، محفوظ نوکری چھوڑنے اور نئے اور غیر معروف علاقے میں منتقلی کے بارے میں اعتماد کے ساتھ لکھ سکتا تھا  کیونکہ میں  خود  اس تجربے سے گزر چکا تھا۔

 3 - اپنی ملازمت ، کام ، پیشے ، یا شعبے کے بارے میں لکھیں:

میں نے  سب سے پہلے  ایک ایرو اسپیس کمپنی  میں تکنیکی مصنف کی حیثیت سے کام کیا تھا لیکن  مجھے اس وقت  مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ کمپنی نے ملازمین کو اسٹائل گائیڈ فراہم نہیں کی۔ لہٰذا میں نے اپنے استعمال کے لیے ایک غیر رسمی تکنیکی تحریری اسٹائل شیٹ  مرتب کی۔ اس سے تحریری حالات اور مسائل کو حل کرنے میں مدد ملی  کیونکہ ان کے لیے مجھے کہیں اورسے  اچھا مشورہ یا رہنمائی نہیں مل سکی تھی۔

چند سال  کے بعد، میں نے اپنی اس  اسٹائل شیٹ کو  مزید وسعت دے کر ایک  کتاب  کی شکل دی ۔اسے  میک گرا ہل نے شائع کیا  تھا۔یہ  آج بھی  ایک نئے عنوان ، ’’تکنیکی تحریر کے عناصر ‘‘کے ساتھ   اشاعت پذیر ہے اور اس کو  ایک نیا پبلشر شائع  کررہا  ہے۔

 4 ۔ اپنے مشاہدات قلم بند کریں:

ان چیزوں کے بارے میں لکھیں ،جن کے بارے میں آپ نے قریب سے ،  محتاط  روی  سے ، اور اچھی طرح سے مشاہدہ کیا ہے ، مطالعہ کیا ہے ،  یا ان کے بارے میں بات کی ہے۔ جب میں بالٹی مور میں رہتا تھا، تو مجھے  ہر جمعہ کی  شب کو اسٹاک کار ریس دیکھنے  کے لیے ڈورسی اسپیڈ وے جانا پسند تھا۔ ٹریک پر دوستانہ انداز میں رہتے ہوئے میں نے وہاں موجود بہت سے لوگوں سے  گفتگو کی، جن میں اسٹینڈز میں موجود تماشائی، ٹریک کا عملہ، ڈرائیوروں کی  کھولی میں موجود مکینک اور  کاریں دوڑانے والے  شامل تھے۔ وہ  مجھے کار دوڑ کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں   بات چیت سے محظوظ کرتے تھے۔پھر میں نے اس تمام  بات چیت  اور مشاہدے کو ’’بالٹی مور سٹی پیپر ‘‘کے لیے ایک فیچر مضمون  کی شکل دی۔ اس کا عنوان تھا:"ڈورسی ٹریک پر یہ کوئی ڈریگ ریسنگ نہیں ‘‘

5۔بازیافت ،مختلف موضوعات کے بارے میں تحریروں کا اعادہ:

 ان  موضوعات پر دوبارہ لکھیں جن کے بارے میں آپ پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔یہ ایسے موضوعات ہیں جن کے بارے میں آپ شاید بار بار لکھتے ہیں۔ میرے  نزدیک   ان مضامین میں سرمایہ کاری، متبادل صحت، اور سائنس شامل ہیں۔ ان کے علاوہ  باغبانی اور پالتو جانوروں سے لے کر سکّے جمع کرنے اور گھر کی مرمت تک ، آپ کے دیگر موضوعات ہوسکتے ہیں۔

یقینی طور پر آپ کو  میڈیا  اداروں کے لیے اسی طرح کے یا متعلقہ موضوعات پر کچھ   نیا مختصر لکھنے یا مواد پیش کرنے   کے لیے ماضی  میں   کیے گئے  انٹرویوز اور تحقیق  سے مدد ملے گی  اور اس طرح آپ کے بہت  سے  وقت کی بچت ہوسکے گی جس کو آپ دوسرے موضوعات پر لکھنے کے لیے صرف کرسکتے ہیں۔

ایک اور بات: میں اپنے تحریری منصوبوں کا انتخاب کرنے میں 80/20 کا اطلاق مندرجہ ذیل طریقے  کے مطابق کرتا ہوں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جو مواد اور کاپی لکھتا ہوں، اس کا 80 فی صد ان چیزوں سے متعلق ہے جن کے بارے میں، میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔ ان  میں متعدد منصوبوں میں اس مواد میں سے کچھ کو  دوبارہ استعمال میں لاتا  ہوں (اور ایسا  اکثر کرتا ہوں)۔ جس کی وجہ سے میری  زود نویسی  کارآمد  اور میری آمدنی زیادہ رہتی ہے۔لیکن، میرے دیگر  20 فی صد  منصوبے نئے موضوعات  سے متعلق ہوتے  ہیں جو  نسبتاً  بالکل نئے  ہوتے ہیں۔ غیر معروف موضوعات پر لکھتے وقت مجھے زیادہ وقت  صرف کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ سیکھنے کا  پہلو  میرے لیے زیادہ  اہم  اور تیز ہوتا ہے۔ لیکن، وہ مجھے ایک مصنف اور ایک قاری کی حیثیت سے بھی   تازہ  دم اور مصروف رکھتے ہیں اور ان میں میری دل چسپی برقرار رہتی ہے۔میرے لیے، 80/20  ایک  درست  توازن ہے لیکن اس تناسب کے بارے میں کچھ بھی جادوئی نہیں ہے  اور میں آپ کو یہ  مشورہ دیتا ہوں کہ وہ تناسب منتخب کریں جو آپ کے لیے بہتر کام کرتا ہے اور قابلِ عمل ہے۔

………………..

رابرٹ ڈبلیو بلی ایک فری لانس کاپی رائٹر ہیں ۔وہ  چار عشرے  سے زیادہ تجربے کے حامل ہیں۔ میک گرا ہل  پبلشر  رابرٹ   (باب) کو "امریکا کا سب سے بڑا کاپی رائٹر" قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے آئی بی ایم ، اے ٹی اینڈ ٹی ، فوربز اور  امریکا کے ریٹائرڈ افراد کی تنظیم  اے اے آر پی سمیت 100 سے زیادہ  اداروں  کے لیے کاپی لکھنے کا کام کیا ہے۔  باب   100 کتابوں کے مصنف ہیں۔ان میں ’’کاپی رائٹر کی ہینڈ بک‘‘ بھی شامل ہے۔اس کے  اب تک  چار ایڈیشن شائع  ہوچکے ہیں۔ ان کی ویب سائٹ کا پتا  bly.com ہے۔

پس تحریر:

"زود نویسی" کا اردو میں مطلب "تیزی سے لکھنا" یا "جلدی لکھنا" ہے۔ یہ اصطلاح اس حالت کو بیان کرتی ہے جب کوئی شخص مختصر وقت میں بہت زیادہ مواد لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب کسی  مصنف کو مخصوص مدت میں اپنا کام مکمل کرنا ہو تو اسے تیزی سے لکھنا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ کسی  مصنف کے ذہن میں بہت سے خیالات ہوں تو وہ جلدی سے لکھنا شروع کر دیتا ہے تاکہ وہ خیالات ضائع نہ ہوں۔نیز   بعض اوقات زود نویسی مقابلوں کا حصہ ہوتی ہے، جہاں لکھنے والوں کو مختصر وقت میں بہت سا مواد تیار کرنا ہوتا ہے۔ ان حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے بعض لکھنے والے زود نویسی کی مشق کرتے ہیں تاکہ وہ تیزی سے اور مؤثر طریقے سے لکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنا سکیں۔ زود نویسی ایک مفید صلاحیت ہو سکتی ہے، خاص طور پر ان حالات میں جب وقت کی پابندی ہو، لیکن یہ ضروری ہے کہ مصنف معیار کو برقرار رکھنے کے لیے  اپنے لکھے مواد میں  مناسب ترامیم اور نظرثانی بھی  کرتا رہے۔

 زُود نویسی کے نقصانات:

زودنویسی کے بالعموم  بہت سے نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ان میں چند ایک یہ ہیں:

1۔معیار میں کمی: زود نویسی کے دوران  میں  مواد کی تفصیل، زبان کی خوب صورتی اور معیار پر کم توجہ دی جاتی ہے۔

2۔زیادہ ترمیم کی ضرورت: زود نویسی کے نتیجے میں تیار کردہ مواد میں عام طور پر زیادہ غلطیاں ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے اس  میں  مزید ترمیم اور نظرثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

3۔تناؤ اور دباؤ۔زود نویسی کبھی کبھار لکھنے والے کے لیے تناؤ اور دباؤ کا باعث بن سکتی ہے، خاص طور پر اگر یہ وقت کی کمی کی وجہ سے ہو۔

مرزا جہلمی کی کتربیونت ، انٹ شنٹ باتیں اور بے سروپا دعوے

 


امتیاز احمد وریاہ 

 پیارے  پڑھنے والو!جناب  مرزا جہلمی اجہل الجاہلین  اور آفت کا پرکالہ ہیں۔    جو بات پورا مضمون ثبت کرنے کے بعد لکھنا تھی ، وہ ہم نے  ابتدا ہی میں  لکھ دی ہے  تاکہ  جو پوری تحریر نہیں  پڑھنا چاہتا،اس کو حاصل کلام  کا پتا چل جائے اور کہانی کا سبق  پردۂ  اخفا میں  نہ  رہے ۔تو عرض یہ ہے کہ ہم ایسے نیم  جاہلی معاشروں میں   گل افشانی  گفتار  کے فن کا  مظاہرہ کرنے والوں کا دھندا  خوب  چل نکلتا  ہے  اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایسی  ’’جلیل  القدر‘‘ ہستیاں  ’’  مستند  ہے،میرا  فرمایا  ہوا ‘‘ کے عالی  شان  منصب  پر خود  ہی فائز ہوجاتی ہیں۔ہمارے مرزا جہلمی بھی کچھ  ایسے   واقع  ہوئے ہیں۔ وہ   محض   طلاقت لسانی کا کھٹا  خوب  کھا ر ہے ہیں۔اسی کی بدولت ان کی شہرت چاردانگ عالم ہے اور نیم خواندگان  انھیں ملک کا سب سے بڑا عالم   گردانتے ہیں۔

 ہمارے ایک بزرگ   محترم  نے ’’کتاب چہرہ‘‘ پر ایک کلپ کا اشتراک کیا ہے۔اس   میں مرزا کے    دو تین وڈیو کلپ شامل ہیں۔ ان   میں مرزا جی تاریخی زقند لگاتے ہوئے  جلیل القدر صحابیِ رسول  حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ کے بارے میں  اظہار خیال کررہے ہیں   اور انھیں   محض  چھے سال کی عمر میں جلیل القدر بزرگ  صحابہؓ کا امام بنا دیا ہے جبکہ  حضرت معاذؓ نے 18 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ حضور  انورصلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں یمن کا امیر اور معلم بنا کر بھیجا تو اس وقت مرزے کے حساب   کے مطابق  ان کی عمر کوئی گیارہ ،بارہ سال  ہی ہونی چاہیے۔یہ  بھی ذہن نشین   رہے کہ  حضرت معاذ بن جبلؓ بن عمرو بن اوس بن عائذ الانصاری  نے جس وقت اسلام قبول کیا، اس وقت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ  منورہ  میں ہجرت نہیں  فرمائی تھی۔ یہ مدینہ سے  مکہ مکرمہ  میں جاکر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے اور بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے ستر جلیل القدر  مدنی صحابہؓ میں سے ایک  تھے۔ آپ ؓ کا شمار مجتہد  اور فقیہ   صحابہؓ میں ہوتا ہے۔آپ  رضی اللہ عنہ نے سنہ 18ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے دور خلافت   میں   36سال کی  کم عمر  میں  وفات پائی  تھی۔اس حساب سے آپ کا سنِ  پیدائش خاتم النبیین ﷺ  کو نبوت ملنے سے پانچ سال قبل بنتا ہے۔گویا جس  وقت آپ ﷺ کی عمر 35 سال تھی تو اس  کے لگ بھگ   حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی پیدائش  ہوئی ہوگی۔   جس  علاقے میں آپ ؓ  مدفون ہوئے، وہ اس وقت اردن میں واقع ہے۔

آمدم  برسر مطلب ۔مرزا علی جہلمی جی     کم  وبیش  روزانہ  بغیر کسی تیاری اور مطالعے کے یوٹیوب  پر ایک آدھ وڈیو کھڑکا دیتے ہیں۔اس مقصد کے لیے موصوف نے باقاعدہ اسٹوڈیو اور دفتر شفتر سجا  رکھا  ہے جہاں کم یا طویل دورانیے کی وڈیوز مکمل ’’سرخی پاؤڈر ‘‘کے ساتھ تیار کی جاتی ہیں۔ان کے موضوعات بالعموم امت میں انتشار وافتراق  ہوتے ہیں یا پھر وہی موضوعات جو ایسے ’’اَ ن پاڑھ‘‘ مولویوں کا وتیرہ‘‘ ہیں ۔یعنی کسی گزرے ہوئے عالم کی کوئی کتاب نکالی،سیاق وسباق سے ہٹ  کر اس کی عبارت پڑھی اور پھر اس   پر لب کشائی شروع کردی۔ یہ جانے اور دیکھے بغیر کہ موضوع گفتگو کا عام آدمی سے کوئی  تعلق ہے بھی یا نہیں ۔گذشتہ دنوں موصوف  ایک وڈیو میں  امام  ابو حامد محمد غزالیؒ ( متوفیٰ 505ھ)  پر تنقید  فرما رہے تھے۔اس پر تو یہی  کہا جاسکتا ہے: ذات دی کوڑھ کرلی تے شہتیروں نے جپھے۔کہاں   گنگوا تیلی  اور کہاں  راجا بھوج(Bhoj) ۔ پاکستان میں علم وفلسفے  اور دین وتصوف پر یہ  کڑا دور بھی آنا تھا۔

حد تو  یہ ہے کہ  ہمارے  نوآموز اور نامی یوٹیوبر حضرات  محض   ویوز کے چکر میں مرزا جہلمی  سے مصاحبوں کے لیے ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ آئے دن   موصوف کا انٹرویو کرنے  جہلم میں ان  کے درِ دولت  پر پہنچے ہوتے ہیں ۔ شاید  ان کی صحافت کی معراج یہی ہے۔گذشتہ دنوں تو ہمارے کئی  معروف  صحافی  اور اینکر حضرات بھی  مرزا  جی  کے  ساتھ مصاحبے   ( انٹرویو ) کے لیے  اپنے لاؤ لشکر سمیت  جہلم  کے چکر کاٹ  رہے تھے۔شاید ان کی صحافت جان کنی کے عالم میں تھی یا کوئی اور موضوع ان کے پاس  گل افشانی گفتار کے لیے رہا نہیں تھا یا  پھر اگر وہ مرزا کا انٹرویو نہیں چلاتے تو ان کے ٹی وی چینل بند ہونے کا اندیشہ تھا یا انھیں   اداروں سے فارغ خطی کی دھمکیاں   مل رہی تھی۔

مرزا جی  کی مدح سرائی کرنے والوں میں اہلِ تشیع کے ایک یوٹیوبر مولوی جواد نقوی  بھی  پیش پیش   ہیں۔خود اہل تشیع  ہی  کے سخت  گیر ان پر وہابی شیعہ ہونے کی پھبتی کستے ہیں۔شیعہ اور وہابی ۔ کیا خوب امتزاج  ہے۔ یوٹیوب پر موجود وڈیو کلپس میں یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کی خوب تعریف وتوصیف کرتے نظرآتے  ہیں  اور ان کی ایسی وڈیوز دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ  اردو میں مستعمل فارسی کی یہ  مشہور  کہاوت  شاید  ان ہی کے لیے وضع کی گئی تھی: مَن تُرا حاجی بَگویَم، تُو مُرا مُلّا بَگو۔یعنی تم مجھے حاجی کہتے جاؤ ،میں تمھیں   ملّاکہتا جاتا ہوں۔

جناب مرزا جہلمی پر صدقے واری جانے والے صحافیوں کی وفاشعاری ملاحظہ کیجیے کہ وہ  اپنے اس ممدوح  کی خاطر برسوں سے جان پہچان والے دوستوں یا صحافتی ساتھیوں ہی سے کٹی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔آپ نے باطنی تحریک اور اس کے پیروکاروں کا ذکر تو کہیں تاریخ میں پڑھا ہوگا۔ یہ موئے خود تو خون آشامیوں کے بعد مرکھپ گئے مگر اپنے اثرات ہمیشہ  کے لیے  چھوڑ گئے۔اب مرزے ایسے  جب جب   ڈیڑھ اینٹ کی  مسجد الگ سے بسالیتے  ہیں  تو ،ان کے پیروکار باطنیوں سے کسی طرح کم نہیں ہوتے۔ اپنے ممدوح پر ذرا سی تنقید پر مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں ۔یہ ہے ان کی کل مذہبیت  اور مذہبی کائنات  کی کل حقیقت ۔ اس رویّے کو آپ  کیا نام  دیں گے ، انتہا پسندی ، سخت  گیری ، جہالت  یا مزعومہ  تقویٰ ۔ مگر ٹھہریے  تقویٰ  کا تو نام نہ لیجیے کہ اس کا تو ان کے قریب سے  شاید کبھی گزر  ہوا  ہی نہیں ۔ایسے رویّے ہی معاشرے میں درحقیقت انتشار وافتراق کا سبب  ہوتے ہیں۔

یہ چند ماہ ادھر کی بات ہے۔ مرزے کے کسی انٹ شنٹ کلام پر ہم نے ایک  تنقید ی پوسٹ ایکس ( سابق ٹویٹر) پر لگا دی۔ پھر کیا تھا کہ ایک مذہبی جماعت کے خود ساختہ مؤید صحافی صاحب  بھڑک بیٹھے۔ ہمیں جلی  کٹی سنائیں ۔ان موصوف  ہر جگہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دینے کی عادت ہے اور  وہ کسی بڑی سے بڑی علمی شخصیت  پر کوئی سا الزام  لگانے میں ذرا  دیر نہیں  کرتے ۔پھر کیا ہوتا ہے، سوشل میڈیا  پر ان شخصیات کے پیروکاروں  اور ان خودساختہ خدائی فوجدار صاحب میں  باندر کلّے  کا کھیل شروع ہوجاتا ہے اور ہم اس سے خوب محظوط ہوتے ہیں کہ آج کل تفننِ طبع کے لیے بس یہی ایک ساماں رہ گیا ہے۔ تو جناب آپ بھی ان خود ساختہ موضوعات پر سنجیدہ اور رنجیدہ ہونے کے بجائے محظوظ ہوا کیجیے۔ یہی زندگی ہے اور یہی آگے بڑھنے کا رویہ ہے۔

پیرس اولمپکس : ارشد ندیم نے لاج تو رکھ لی ، مگر؟

 


احسان غنی

عزم، ہمت، محنت، لگن، جستجو ،جذبہ جنون سے ستاروں پر کمند ڈالی جاسکتی ہے۔ پاکستان زندہ باد۔ دنیا میں پاکستانی پرچم کی لاج رکھنے پر ارشدندیم کوجتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے ،کم ہے۔ارشد ندیم نے اپنے  زوربازو   پر  بڑاکارنامہ سرانجام دیا ہے۔بغیر کچھ کھائے پیے ،سخت گرمی میں پھٹے جوتوں میں پریکٹس کرتے ہوئے جیولین تھرو پیرس اولمپکس  میں  طلائی تمغا   جیتنے تک کاسفر عزم ،ہمت اورسخت محنت کی ایک لازوال داستان ہے۔ ان  کا اولمپکس  کی 118سالہ    تاریخ  میں ایک نئے  ریکارڈ کا اضافہ کرکے  40سال بعد پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتنا یقیناً  عظیم  کامیابی ہے۔اس کامیابی کاسہرا ارشدندیم کے سر  ہی ہے۔اس  نے  جانفشانی سے یہ  اعزاز  اپنے نام کیا۔

کھیلوں کی مختلف سرگرمیوں سے صحت مند معاشرہ پروان چڑھتا ہے ۔کھیل معاشر ے میں ہم آہنگی ،مثبت سوچ، بھائی چارے اوراُخوت کے فروغ کاباعث بنتے ہیں۔ ہارجیت کے جذبے سے سرشار  نوجوانوں  میں مقابلہ کارحجان پیداہوتا ہے۔عالمی سطح پر کھیلوں کے انعقاد سے دنیا بھر کے ملکوں کے کھلاڑیوں کے درمیان جذبہ خیر سگالی اور ایک دوسرے کوملنے کا موقع ملتا ہے۔مختلف اقوام کی ثقافت اورتہذیبی روایات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور یوں بین الاقوامی سطح  پر مثبت اقدامات سے  قیام امن  کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔پیرس سمر اولمپکس مقابلے  گذشتہ ہفتے   فرانس کے دارالحکومت میں پوری شان وشوکت سے اختتام پذیر ہو گئے۔204ملکوں کے 10,500کھلاڑیوں نے  40کھیلوں کے 239مختلف مقابلوں میں حصہ لیا۔دنیابھر کی اقوام کے کھلاڑی چارسال تک   اولمپکس  منعقد ہونے کاشدت سے انتظار کرتے ہیں۔

دراصل جسمانی نشوونما اوردماغی صحت کے لیے کھیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے  بھی کھیل بہترین ذریعہ ہیں۔مختلف ثقافتوں ،تہذیبوں اورعلاقوں کے کھلاڑی ایک ملک میں اکٹھے ہوتے ہیں اور کھیل ہی کھیل میں ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ بھائی چارے، اخوت اورہمدردی کے جذبات کے ساتھ دوستی کے رشتے  استوار ہو جاتے ہیں۔اقوام عالم کھیلوں اورکھلاڑیوں پرخاص توجہ دیتی ہیں۔چین ،جاپان، فرانس ،امریکا ،بیلجیم ،ہا نگ  کانگ ،ازبکستان ،افریقیوں   اور دیگر ملکوں کے کھلاڑی بڑھ چڑھ کر اولمپکس   مقابلوں میں  حصہ لیتے  ہیں۔عالمی سطح پر صحت مند سرگرمیوں کے سب سے بڑے مقابلے اولمپکس  ہیں۔ان مقابلوں میں جیتنے والوں کو بھاری نقدانعامات کے ساتھ سونے، چاندی اور کانسی کے میڈلز دیے جاتے ہیں۔کھلاڑی اپنے اپنے  ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا   میں قوم و ملت کا نام روشن کرتے ہیں۔ہر کھلاڑی اپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے۔مہینہ بھر جاری رہنے والے اولمپکس  دنیا میں امن و آشتی قائم کرنے میں مددگارثابت ہوں گے۔ اولمپکس  میں شریک ممالک کے کھلاڑی تقریباً ہر کھیل میں حصہ لیتے ہیں۔ماضی میں  جب پاکستان ہاکی ٹیم  کے عروج کا دور تھا  تو  اولمپکس  میں  طلائی  تمغا  اس  کے نام ہوتا  تھا اوراس نے ہاکی کے میدان میں متعدد  مرتبہ تمغے  حاصل کیے تھے  لیکن اس   مرتبہ تو   یہ حال ہوا  کہ کوالیفائی راؤنڈ ہی  میں پاکستان  کی ہاکی ٹیم باہر ہو گئی۔ باقی  کھیلوں  کا تو کوئی ہی   ذکر کیا ۔پاکستا ن بھر میں 52کے لگ بھگ سپورٹس فیڈریشن ،تنظیمیں اوربورڈ کھیلوں کے فروغ کے لیے موجود ہیں۔اربوں روپے کا بجٹ ہرسال کہاں خرچ ہوتاہے؟ کسی کو  کچھ  معلوم نہیں اورکھیلوں کا معیار اورکھلاڑیوں کی حالت زاردیکھ کر بندہ سرپکڑلیتا ہے۔فیڈریشن اور بورڈ کے  عہدوں پر براجمان رہنے کے لیے رسہ کشی ہوتی ہے۔ جو ایک مرتبہ چیئرمین ،صدریا چیف ایگزیکٹو بن  جاتا ہے، وہ تاحیات کرسی چھوڑنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔کھیلوں اور کھلاڑیوں پر کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔ہونہار کھلاڑی بیچارے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔پاکستان کے چپے چپے میں ایک سےبڑھ کر  ایک ناقابل شکست کھلاڑی ہے۔ وہ  اپنے طورپر تربیت اور مہارت سے بہت عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن افسو س اُن کی پذیرائی اورحوصلہ افزائی کسی سطح پر نہیں ہوتی ہے۔

پیرس اولمپکس  میں شریک  پاکستانی دستے میں صرف 7کھلاڑی شامل  تھے اوراُن کے ساتھ27افراد پر مشتمل وفد بھی  فرانس گیا تھا ۔اس سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور وطن عزیز میں کھیلوں کی خراب صورت  حال حکام بالا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔پاکستان  تین  بار ہاکی کا اولمپک   چیمپین  اور چار  مرتبہ کانسی کے  میڈل جیت چکا ہے۔ تین چار  عشرے قبل   دنیا  میں   ہاکی کے بہترین   کھلاڑی پاکستانی ہی     ہوتے تھے۔بھارت کی اولمپکس  ایسوسی ایشن کی صدر گولڈ میڈلسٹ ایتھیلٹ ہیں 101بین الاقوامی میڈل جیتے چکی ہیں جبکہ ہمارے یہاں   ایک سابق  لیفٹیننٹ جنرل (ر)عارف حسن گذشتہ 24سال  تک  اولمپک  ایسوسی ایشن کے صدر  کے  عہدے  پربراجمان  رہے تھے ۔اس عرصے  کے دوران  میں  پاکستان ایک بھی میڈل نہیں جیت سکا تھا ۔ اس کی اعلیٰ سطح  پر تحقیقات ہونی چاہیے۔سیاست جب  اقتدار   اور  پارلیما ن کے ایوانوں سے کھیل  کے میدان میں کودتی ہے تو پھر یہی بھیانک صورت حال  سامنے  آتی  ہے۔اولمپکس  کھیلوں کی تیاری کے لیے مسلسل تربیت ،مضبوط قوت ارادی اور  برسوں پر محیط محنتِ شاقہ  درکارہوتی ہے۔کھلاڑیوں کا جسمانی اورذہنی طورپرفٹ رہنا کسی بھی مقابلے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔اس کے ساتھ وٹامنز سے بھرپور غذا ئیں کھلاڑیوں کی قوت وطاقت بحال رکھتی ہیں۔بدقسمتی سے وطن عزیزمیں کھیلوں کے شعبے کوبالکل نظرانداز کردیا گیا ہے۔نوجوانوں کے لیے جب کھیل کے مناسب مواقع دستیاب   نہیں ہو ں گے تو وہ منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔معاشرے میں بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز ،منشیات کابڑھتا  ہوا استعمال ،نشے کی لت، لڑائی جھگڑے  اور خودکشی کے رحجان میں اضافہ یہ سب کھیل نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔پاکستان میں کھیلوں کی بدترین صورت حال پرایک غیر جانبدارانہ کمیشن بنایاجائے ۔اس  کی  مکمل تحقیقات کی جائیں اور جو ذمہ دارہوں ، انھیں   قرارواقعی سزادی جائے۔کھیلوں کے ڈھانچے کومکمل تبدیل کرناہوگا۔اسکول ،کالج ،یونیورسٹی ، سرکاری  محکمے،کارپوریشن، بنک اور پرائیویٹ کمپنیاں   اپنی  اپنی ٹیمیں بنائیں ۔ابتدائی سطح پر شروع ہو کر صوبائی اورملکی سطح کے مقابلے منعقد کروائے جائیں۔ان مقابلوں کی بدولت گوہر نایاب ملیں گے جن کی باقاعدہ تربیت کی جائے تاکہ مستقبل  میں   اولمپکس  میں وطن عزیز کی  بھرپور  نمائندگی کی جاسکے  اور  وہ  تمغے  جیت  کرکے سبزہلالی پرچم سربلند کریں لیکن  اس  کے لیے  ضرورت اس  امر کی ہے کہ  کھیلوں کوسیاست سے پاک  کیا جائے   نوجوانوں کو کھیلنے کے مواقع   مہیا کیے جائیں    تاکہ ملک کا مستقبل تابناک ہو سکے۔

 پہلا انفرادی گولڈمیڈل جیت کر ایتھلیٹ ارشدندیم نے تاریخ رقم کردی ہے ۔وہ نئی نسل کے لیے ایک ہیرو بن کر سامنے آئے ہیں ۔حکومت کو اب ہوش کے ناخن لینے  چاہییں   اور ارشدندیم کے نام سے جیولین تھرو سٹیٹ آف دی آرٹ اکیڈمی قائم کرنی چاہیے جہاں ارشد ندیم خود  جیولین تھرو کی نوجوانوں کو تربیت دیں    اور   مستقبل میں وطن عزیز کے لیے   مزید گولڈمیڈل جیت سکیں  مگر  کھیلوں پر حکومت  کی توجہ ہی   سے بہت سارے ارشدندیم وطن عزیز کے لیے  طلائی  تمغے  جیت سکتے ہیں۔

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں