فلسطین میں پائیدار امن امریکا کے ہاتھ میں ہے اور یہ امن
اس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں حاصل
ویٹو طاقت میں مضمر ہے۔یہ بات معروف
امریکی پروفیسر نارمن فنکلسٹائن نے آج سے کوئی 16 سال قبل 13 نومبر 2008ء میں ماستریحت یونیورسٹی (نیدرلینڈز) میں ایک لیکچر
کے دوران میں کہی تھی۔اسرائیل نے اس کے بعد غزہ کی پٹی پر چار بڑی جنگیں مسلط کی ہیں
اور گذشتہ گیارہ ماہ کے دوران میں اس نے غزہ کی پٹی میں واقع شہروں اور قصبوں کو تباہ
کن بمباری کرکے ملبے
کے ڈھیروں میں تبدیل کردیا ہے ۔اس جنگ کے
دوران میں غیر مصدقہ اعدادوشمار کے مطابق کم سے کم دو لاکھ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ، باقی تمام آبادی
دربدر ہوچکی ہے اور نان جویں کو ترس رہی ہے ۔لاکھوں زخمیوں کے علاج معالجے کے لیے
طبی عملہ ہے اور نہ ادویہ اور آلات وسامان۔ اب اسرائیلی فوج نے مقبوضہ
مغربی کنارے میں بھی فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کے خلاف کارروائی شروع کردی ہےجس
میں 25 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
سیاسیات کے پروفیسر نارمن نے اس لیکچر میں اپنی مذکورہ بات کی
یوں وضاحت کی تھی:’’آج ایک بہتر سربستہ راز یہ ہے کہ پوری دنیا میں اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کے لیے اتفاق رائے
پایا جاتا ہے۔دنیا میں آج ایسا کوئی اور تنازع
نہیں جواس جیسا پیچیدہ ہو۔دنیا میں آج
کوئی اور تنازع نہیں جس کے حل کے لیے اصول
اور شرائط وضوابط پروسیع تراتفاق رائے
پایاجاتا ہو۔ آئیے دنیا کے سب سے نمایندہ سیاسی ادارے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔نام اس
کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہے۔ہر سال ایک ہی وقت میں، جی ہاں ایک ہی وقت میں اور
نومبر کے مہینے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں’مسئلہ فلسطین کے پُرامن حل کے
عنوان‘ سے ایک قرارداد پر رائے شماری ہوتی ہے۔اس قرارداد میں ہرسال مسئلہ کے حل کے شرائط
وضوابط وضع کیے جاتے ہیں۔ان کی قریب قریب زبان ایک ہی جیسی ہوتی ہے اورشرائط بھی بالعموم
یکساں ہوتی ہیں اور وہ یہ ہیں:
1۔تنازع کو جون 1967ء کی سرحدوں کے مطابق
حل کیا جائے۔اس کے تحت اسرائیل کو ان تمام علاقوں کو مکمل طور پر خالی کرنا
ہوگا،جن پر اس نے جون 1967ء کی جنگ میں قبضہ کرلیا تھا۔یہ دراصل بین الاقوامی
قانون کا بنیادی اصول ہے اور اس کی اساس اقوام متحدہ کے منشور کا آرٹیکل 2 ہے۔اس
میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ جنگ کے ذریعے حاصل کردہ علاقے کو تسلیم نہیں کیا جائے
گا اور جنگ میں کسی علاقے کو ہتھیانے کی
اجازت نہیں ہے مگر’’ اسرائیل اور امریکا کے نزدیک اس دفعہ کی کوئی اہمیت یا قانونی
حیثیت نہیں ہے‘‘۔
2۔فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ حقِ واپسی کے
اصول کے تحت طے کیا جائے اور انھیں اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کی اجازت دی جائے۔
انھوں نےاپنی اس بات کی یوں وضاحت کی: جب میں یہ کہتا ہوں کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کا مکمل انخلاء ہونا چاہیے ،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو دریائے اردن کے مغربی کنارے کا تمام علاقہ ، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المقدس (یروشلم) کو خالی کرنا ہوگا کیونکہ اس نے ان علاقوں پر 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا۔اسرائیل نے بعد میں مشرقی بیت المقدس کو ریاست میں ضم کر لیا تھا اور مغربی کنارے میں بہت سی یہودی بستیاں قائم کرلی ہیں جہاں دوسرے ممالک بالخصوص یورپ سے ہزاروں ، لاکھوں یہودیوں کو لا کر بسادیا گیا ہے۔ اب یہ قابض آبادکار آئے دن فلسطینیوں کے خلاف متشدد کارروائیاں کرتے رہتے ہیں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں ان کی آبائی زمینیں ہتھیا رہے ہیں۔یہودی آبادکاروں کی یہ بستیاں ہی اب قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں کیونکہ اسرائیل انھیں خالی کرنے کو تیار نہیں۔
پروفیسر نارمن نے اپنے سامعین کو بتایا کہ ’’ میں نے گذشتہ دس سال کے
دوران میں (2008ء سے قبل) جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین سے متعلق قرارداد پر ہونے والی رائے شماری کا جائزہ لیا ہے۔اس کے نتائج
کم وبیش ایک ہی جیسے رہے ہیں اور وہ یہ کہ 1997ء میں 155 ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور دو
نے مخالفت کی۔ منفی ووٹ والے یہ دونوں ممالک امریکا اور اسرائیل تھے۔سنہ 2002ء
میں 160ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ
دیا جبکہ چار نے اس کی مخالفت کی تھی۔یہ چار ممالک امریکا ،اسرائیل ،مارشل آئلینڈ اور
میکرونیشیا تھے۔ 2004ء میں 161ممالک نے فلسطینی تنازع کے حل کے لیے قرارداد
کے حق میں ووٹ دیا جبکہ سات نے اس کی مخالفت کی تھی۔ان میں مذکورہ چاروں ممالک کے علاوہ آسٹریلیا ، گریناڈا اور پلاؤ شامل تھے۔2007ء میں بھی 161ممالک نے حمایت اور سات نے مخالف کی تھی۔قرارداد
کے مخالفین میں اسرائیل ، امریکا ، آسٹریلیا ،مارشل آئلینڈ ،میکرونیشیا ، نارو اور پلاؤ شامل تھے‘‘۔
پروفیسر نارمن فنکلسٹائن
نے ماستریحت یونیورسٹی (نیدرلینڈز) کے یورپی
صحافت مرکز میں یہ لیکچر دیا تھا۔ اس لیکچر میں انھوں نے تنازع فلسطین کے حل کے لیے جو تجاویز
پیش کی تھیں،وہ کوئی نئی نہیں تھیں اور گذشتہ
50 سال کے دوران میں ان کی صدائے بازگشت سنی جارہی ہے لیکن یہ تنازع امریکا اور اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے نتیجے
میں پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔
وہ سیاسیات بالخصوص اسرائیلی فلسطینی تنازع اور ہولوکاسٹ کی سیاست کے
ایک آزاد ماہر تعلیم ہیں۔ ان کا استدلال تھا
کہ اسرائیل فلسطین تنازع اپنے حل کے
اعتبار سے معاصر دنیا میں سب سے کم متنازع ہے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ماضی کے بارے میں مؤرخین کے درمیان، حال میں
انسانی حقوق کی تنظیموں کے درمیان اور مستقبل کی قانونی و سفارتی برادری کے درمیان اس بات پر اتفاق
رائے پایا جاتا ہے کہ اس تنازع کو کس طرح حل کیا جائے۔ دیگر نظریات وخیالات کے علاوہ ، انھوں نے 'ہولوکاسٹ
انڈسٹری' کے وجود کا نظریہ
بھی پیش کیا تھا۔اس پر ان کا بعض ماہرین سے تنازع بھی پیدا ہوگیا تھا اور انھیں شکاگو کی جامعہ ڈی پال
نے مدت ِملازمت میں توسیع نہیں دی تھی۔فنکلسٹائن نے 2000
میں
اپنی کتاب ’’ہولوکاسٹ انڈسٹری ‘‘ شائع کی
تھی۔ اس کی اشاعت کے بعد انھیں عالمگیر شہرت
حاصل ہوئی تھی۔اس میں انھوں نے لکھا کہ ہولوکاسٹ کی یاد کو ایک نظریاتی ہتھیار کے طور
پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اسرائیل کو تنقید سے مستثنا
قراردیا جاسکے۔ وہ اسرائیلی پالیسی
اور اس کے حکمران طبقے کے سخت ناقد ہیں۔ اسرائیلی
حکومت نے سنہ 2008 میں ان کے ملک میں
داخلے پر دس سال کے لیے پابندی عاید کر دی تھی۔
پروفیسر فنکلسٹائن نے اسرائیل کو "یہودی بالادستی کی ریاست" قرار دیا ہے، اور اسے فلسطینی عوام کے
خلاف نسلی امتیاز کے جرم کا مرتکب قرار دیا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں اسرائیلی قبضے میں رہنے والے فلسطینیوں کی حالت زار
کا موازنہ نازیوں کی ہولناکیوں سے کیا ہے۔ ان کی فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں آخری کتاب
2018 میں شائع ہوئی تھی۔اس
کا عنوان تھا: غزہ:
اس
کی شہادت کی تحقیقات ۔ اور اب غزہ حقیقت میں اسرائیل کے ہاتھوں لہو لہو ہے اور
اسرائیل کی بہیمانہ اور سفاکانہ جنگی کارروائیوں کا کوئی اختتام نظر نہیں آرہا ہے۔