جوردین حبیب
اپریل میں امریکا بھر کی جامعات میں اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ان میں طلبہ مظاہرین نے غزہ میں جنگ بندی، کیمپس میں
فلسطینیوں کی حمایت میں تقریر کے لیے بہتر تحفظ، اسرائیل سے ادارہ جاتی علاحدگی اختیار کرنے
سمیت دیگر مطالبات
کیے تھے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے کیمپس سے شروع ہونے
والے مظاہرے ملک بھر کی جامعات میں پھیل گئے تھے۔ ان ملک گیر مظاہروں
کا موازنہ 1960 کی دہائی میں ویت نام جنگ مخالف
احتجاج سے کیا جاتا
ہے۔ مظاہروں کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ
یونیورسٹیوں کے رد عمل – بشمول طلبہ کے کیمپوں
کو زبردستی اکھاڑنے کے لیے پولیس کے
استعمال – نے ان مظاہروں کو نمایاں قومی
خبر بنادیا اور انھیں شہ سرخیوں
کے ساتھ شائع اور نشر کیا جاتا رہا تھا۔
خود طلبہ صحافی ان مظاہروں کی کوریج کے لیے اپنی رپورٹنگ کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور انھوں نے بدامنی
اور اس کے نتائج کو دستاویزی شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔میں نے اس حوالے سے دو جامعات
کے طلبہ صحافیوں سے بات کی۔انھوں نے اپنی
رپورٹنگ کے دوران میں مزید جاننے کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہروں کو
کور کیا تھا یا ان میں حصہ لیا اور اس نے خود ان کے اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ اہداف کو بھی متاثر کیا ہے۔
اپنے ساتھیوں کے بارے میں رپورٹنگ
غیر جانبدارانہ کوریج اس وقت مشکل ہوسکتی
ہے جب ایک صحافی اپنے رپورٹنگ کے موضو ع
سے قریبی تعلق رکھتا ہو۔ کیمپس کے احتجاج کی کوریج کرنے والے طلبہ صحافیوں کے ساتھ
اکثر ایسا ہی ہوتا تھا۔امریکن یونیورسٹی کے جونیئر اور طلبہ کے اخبار 'دی ایگل' کے نیوز منیجنگ ایڈیٹر ٹائلر
ڈیوس کا کہنا ہے کہ 'جب آپ رپورٹ کرتے ہیں تو
مکمل طور پر معروضی ہونے کا توازن تلاش کرنا ہمیشہ تھوڑا مشکل ہوتا ہے‘ ۔ انھوں
کہا کہ ’’اس کو یوں جانیے کہ ہم
پیر کو کلاس میں جا رہے ہیں اور میں آپ سے ملنے جا رہا ہوں‘‘۔
ڈیوس نے مزید کہا، "نقصان کو کم سے کم
کرنے کے ساتھ ساتھ سچائی کی اطلاع دینے کا اضافی دباؤ بھی ہوتا ہے۔میں کسی کو
[احتجاج کے رکن کے طور پر] شناخت نہیں
کرنا چاہتا ۔ اگر
ایسا کرتا ہوں تو اس صورت میں پھر انھیں
نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہوں یا انھیں
(جامعہ کے) اسکول سے نکلوا دینا چاہتا
ہوں۔ اس پس منظر میں، میں کہانی اور رونما ہونے والے واقعات کی سب سے زیادہ درست
نمائندگی بھی کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
طلبہ صحافیوں کے لیے کبھی کبھار اس انداز میں
آگے بڑھنا ایک مشکل امر تھا۔ نومبر
2023 میں ، دی ایگل نے ایک طالب علم مقرر کے
نام کی شناخت کی جس نے اس سے پہلے ان سے بات کیے بغیر اپنی شناخت چھپانے کی کوشش
کی تھی۔ طلبہ کے اس اخبار نے اپنے اخلاقیات کے کوڈ کو اپ ڈیٹ کیا تاکہ
اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ رپورٹر کسی بھی ایسے طالب علم کے ساتھ بات چیت کرسکیں
جو اپنا نام شائع کرنے سے پہلے گم نام رہنا چاہتا ہے۔
طلبہ صحافیوں کی مظاہرین کے ساتھ قربت اور
کیمپس کی ثقافت کے بارے میں علم سے بھی انھیں
فائدہ پہنچا۔ ان کی رپورٹنگ، بڑے اخباری
اداروں کی کوریج کے مقابلے میں، مظاہروں
کو زیادہ "اندرونی" نظر سے دیکھنے میں کامیاب رہی کیونکہ طلبہ اپنے
ساتھیوں اور ان کے مظاہروں کی نوعیت کو سمجھتے
تھے۔
معروف خبر رساں اداروں نے اس منفرد پوزیشن
کو نوٹ کیا۔ دی نیشن نے طلبہ صحافیوں کو مظاہروں کی کوریج کے لیے 'بہترین ہتھیاروں سے لیس'
قرار دیا ہے، جو کیمپس میں فلسطین نواز
گروپوں کے بارے میں مرکزی دھارے کے میڈیا کی کوریج میں نئے نقطہ نظر اور بصیرت پیش
کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ڈیوس نے ایک اور پہلو کی بھی نشان دہی کی "این بی سی چینل جب چاہے اپنے صحافیوں
کے لیے گاڑی چلا سکتا ہے اور اسے باہر سے آنا پڑتا ہے لیکن
میں تو یہیں جامعہ کے اندر
ہی رہتا ہوں۔ میں ان تمام لوگوں کو جانتا ہوں اور میں انھیں ہر روز دیکھتا
ہوں۔ لہٰذا یہ قیام صرف ان رابطوں کو مضبوط ہی کرتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر [طلبہ مظاہرین]
کسی رپورٹر سے بات کرنے جا رہے ہیں، تو وہ
سب سے پہلے اپنی ساتھی طالب علم صحافیوں ہی سے بات کریں گے‘‘۔
محدود وسائل اور تجربہ
طلبہ صحافیوں کو احتجاج کی کوریج میں وقف
کرنے کے لیے وسائل اور وقت کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ جامعات میں بدامنی
موسم بہار کے سمسٹر کے آخری ہفتوں میں شروع ہوئی تھی جبکہ سال کے آخر کے امتحانات بھی قریب تھے مگر اس کے باوجود لائبریری میں رہنے کے بجائے طلبہ صحافی اکثر کیمپس کے احتجاجی کیمپوں میں
چوبیس گھنٹے رپورٹنگ کرتے نظر آتے تھے۔
بوسٹن
کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی سے وابستہ زوئے میک ڈیئرمڈ
اور اس کے اسٹوڈنٹ پیپر دی ہنٹنگٹن نیوز کی اسٹاف رائٹر نے اسی ہفتے فائنل
امتحانات دیے تھے ۔ انھوں نے احتجاج کو رپورٹ کرنے کا اپنا تجربہ بیان کرتے
ہوئے کہا: "میں جان بوجھ کر [مطالعہ کے لیے] ایک ایسی عمارت میں گئی تھی اور وہاں
سے [ کواڈ میں طالب علموں کے
احتجاجی کیمپ پر] نظر رکھے ہوئے تھی۔ میں
کھڑکی سے باہر احتجاجی کیمپ کو دیکھ رہی تھی، اور میں نے واقعی باہر جانے کے لیے
کشش ثقل کی طاقت محسوس کی‘‘۔
ڈیوس نے واشنگٹن ڈی سی میں امریکن
یونیورسٹی میں اپنی رپورٹنگ کے تجربے کے
دوران میں درپیش ہونے والے اسی طرح کے
چیلنجوں کا ذکر کیا، جہاں مظاہرین نے دیگر اسکولوں کے طلبہ کے ساتھ مل کر جارج
واشنگٹن یونیورسٹی میں ریلی نکالی۔یہ عوامی ٹرانسپورٹ سے قریباً 40 منٹ کی دوری پر تھی: "ہم یا تو
کار پول کر رہے تھے یا لوگ اوبر کے ذریعے سفر کرکے ریلی میں شرکت کے لیے آ رہے تھے، اور پھر صبح تین، چار یا پانچ بجے تک
وہاں رہنا یقینی طور پر بہت اہم تھا۔ خاص طور پر فائنل امتحانات کے وسط میں۔
لاجسٹک مسائل کے علاوہ، طالب علم صحافی اب
بھی رپورٹنگ کے نشیب و فراز سیکھ رہے ہیں۔ کچھ، جیسے میک ڈیئرمڈ، اسکول میں صحافت
کی تعلیم بھی نہیں لے رہی ہیں بلکہ وہ
حیاتیات کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
"میں یقینی طور پر خود کو کافی غیر تیار محسوس کر رہی تھی لیکن یہ ایک
طالب علم صحافی ہونے کی فطرت ہے۔اس کا
مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے آپ جاتے ہیں، سیکھتے ہیں اور چیزوں کے عملی تجربہ سے زیادہ سیکھتے
ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ ہم اس کے لیے بہتر ہیں، "میک ڈیئرمڈ نے کہا۔
صحافت میں طلبہ کا مستقبل
ان طلبہ صحافیوں کے لیے، مظاہروں کی کوریج
کے ان کے تجربات نے بنیادی طور پر صحافت کو جاری رکھنے کے بارے میں ان کے نیا نقطہ نظر کو بھی تشکیل دیا ہے۔میک ڈیئرمڈ نے بتایا کہ اگرچہ
وہ صحافت کو اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کے طور پر نہیں لے رہی ہیں ، لیکن ان کے کیمپس
میں طلبہ کی تحریکوں کا احاطہ کرنے سے انھیں اسٹوڈنٹ جرنلزم میں دل چسپی پیدا ہوئی
ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'اس طرح کی زمینی کوریج کے
تجربے سے ایک طالبہ صحافی کے طور پر کام جاری رکھنے اور
اس میں مسلسل بہتری لانے کی خواہش تقویت ملی ہے۔
ڈیوس نے اپنی رپورٹنگ ٹیم کے ساتھ اشتراک کردہ لمحات کو "صحافت کے بارے میں فلمیں بناتے ہیں" کے طور پر بیان کیا اور
دکھایا کہ صحافت میں کیریئر کیا ہوسکتا ہے۔ ڈیوس کا کہنا تھا کہ 'چونکہ میں جامعہ
میں جونیئر سال گزار رہا ہوں ،اس لیے شاید مجھے اپنا
میجر مضمون تبدیل کرنا چاہیے۔'لیکن کیمپس
کے مظاہروں کی کوریج کرنے سے ان کا ذہن بدل گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس سے یہ بات
ثابت ہوئی ہے کہ میں اپنی باقی زندگی کے لیے ہر روز یہی کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
----------------------
جوردین حبیب
جوردن آئی سی ایف جے کی سابق کمیونی کیشن انٹرن ہیں اور فی الوقت امریکن یونیورسٹی میں سینئر ہیں ، جہاں وہ ابلاغیات
، قانونی اداروں اور حکومت پر مشتمل ایک انٹر ڈسپلنری میجر میں تعلیم حاصل
کررہی ہیں اور عرب ورلڈ اسٹڈیز ان کا دوسرا بڑا مضمون ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں