meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: پیرس اولمپکس : ارشد ندیم نے لاج تو رکھ لی ، مگر؟

Empowering Through Media Literacy

پیرس اولمپکس : ارشد ندیم نے لاج تو رکھ لی ، مگر؟

 


احسان غنی

عزم، ہمت، محنت، لگن، جستجو ،جذبہ جنون سے ستاروں پر کمند ڈالی جاسکتی ہے۔ پاکستان زندہ باد۔ دنیا میں پاکستانی پرچم کی لاج رکھنے پر ارشدندیم کوجتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے ،کم ہے۔ارشد ندیم نے اپنے  زوربازو   پر  بڑاکارنامہ سرانجام دیا ہے۔بغیر کچھ کھائے پیے ،سخت گرمی میں پھٹے جوتوں میں پریکٹس کرتے ہوئے جیولین تھرو پیرس اولمپکس  میں  طلائی تمغا   جیتنے تک کاسفر عزم ،ہمت اورسخت محنت کی ایک لازوال داستان ہے۔ ان  کا اولمپکس  کی 118سالہ    تاریخ  میں ایک نئے  ریکارڈ کا اضافہ کرکے  40سال بعد پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتنا یقیناً  عظیم  کامیابی ہے۔اس کامیابی کاسہرا ارشدندیم کے سر  ہی ہے۔اس  نے  جانفشانی سے یہ  اعزاز  اپنے نام کیا۔

کھیلوں کی مختلف سرگرمیوں سے صحت مند معاشرہ پروان چڑھتا ہے ۔کھیل معاشر ے میں ہم آہنگی ،مثبت سوچ، بھائی چارے اوراُخوت کے فروغ کاباعث بنتے ہیں۔ ہارجیت کے جذبے سے سرشار  نوجوانوں  میں مقابلہ کارحجان پیداہوتا ہے۔عالمی سطح پر کھیلوں کے انعقاد سے دنیا بھر کے ملکوں کے کھلاڑیوں کے درمیان جذبہ خیر سگالی اور ایک دوسرے کوملنے کا موقع ملتا ہے۔مختلف اقوام کی ثقافت اورتہذیبی روایات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور یوں بین الاقوامی سطح  پر مثبت اقدامات سے  قیام امن  کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔پیرس سمر اولمپکس مقابلے  گذشتہ ہفتے   فرانس کے دارالحکومت میں پوری شان وشوکت سے اختتام پذیر ہو گئے۔204ملکوں کے 10,500کھلاڑیوں نے  40کھیلوں کے 239مختلف مقابلوں میں حصہ لیا۔دنیابھر کی اقوام کے کھلاڑی چارسال تک   اولمپکس  منعقد ہونے کاشدت سے انتظار کرتے ہیں۔

دراصل جسمانی نشوونما اوردماغی صحت کے لیے کھیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے  بھی کھیل بہترین ذریعہ ہیں۔مختلف ثقافتوں ،تہذیبوں اورعلاقوں کے کھلاڑی ایک ملک میں اکٹھے ہوتے ہیں اور کھیل ہی کھیل میں ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ بھائی چارے، اخوت اورہمدردی کے جذبات کے ساتھ دوستی کے رشتے  استوار ہو جاتے ہیں۔اقوام عالم کھیلوں اورکھلاڑیوں پرخاص توجہ دیتی ہیں۔چین ،جاپان، فرانس ،امریکا ،بیلجیم ،ہا نگ  کانگ ،ازبکستان ،افریقیوں   اور دیگر ملکوں کے کھلاڑی بڑھ چڑھ کر اولمپکس   مقابلوں میں  حصہ لیتے  ہیں۔عالمی سطح پر صحت مند سرگرمیوں کے سب سے بڑے مقابلے اولمپکس  ہیں۔ان مقابلوں میں جیتنے والوں کو بھاری نقدانعامات کے ساتھ سونے، چاندی اور کانسی کے میڈلز دیے جاتے ہیں۔کھلاڑی اپنے اپنے  ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا   میں قوم و ملت کا نام روشن کرتے ہیں۔ہر کھلاڑی اپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے۔مہینہ بھر جاری رہنے والے اولمپکس  دنیا میں امن و آشتی قائم کرنے میں مددگارثابت ہوں گے۔ اولمپکس  میں شریک ممالک کے کھلاڑی تقریباً ہر کھیل میں حصہ لیتے ہیں۔ماضی میں  جب پاکستان ہاکی ٹیم  کے عروج کا دور تھا  تو  اولمپکس  میں  طلائی  تمغا  اس  کے نام ہوتا  تھا اوراس نے ہاکی کے میدان میں متعدد  مرتبہ تمغے  حاصل کیے تھے  لیکن اس   مرتبہ تو   یہ حال ہوا  کہ کوالیفائی راؤنڈ ہی  میں پاکستان  کی ہاکی ٹیم باہر ہو گئی۔ باقی  کھیلوں  کا تو کوئی ہی   ذکر کیا ۔پاکستا ن بھر میں 52کے لگ بھگ سپورٹس فیڈریشن ،تنظیمیں اوربورڈ کھیلوں کے فروغ کے لیے موجود ہیں۔اربوں روپے کا بجٹ ہرسال کہاں خرچ ہوتاہے؟ کسی کو  کچھ  معلوم نہیں اورکھیلوں کا معیار اورکھلاڑیوں کی حالت زاردیکھ کر بندہ سرپکڑلیتا ہے۔فیڈریشن اور بورڈ کے  عہدوں پر براجمان رہنے کے لیے رسہ کشی ہوتی ہے۔ جو ایک مرتبہ چیئرمین ،صدریا چیف ایگزیکٹو بن  جاتا ہے، وہ تاحیات کرسی چھوڑنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔کھیلوں اور کھلاڑیوں پر کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔ہونہار کھلاڑی بیچارے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔پاکستان کے چپے چپے میں ایک سےبڑھ کر  ایک ناقابل شکست کھلاڑی ہے۔ وہ  اپنے طورپر تربیت اور مہارت سے بہت عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن افسو س اُن کی پذیرائی اورحوصلہ افزائی کسی سطح پر نہیں ہوتی ہے۔

پیرس اولمپکس  میں شریک  پاکستانی دستے میں صرف 7کھلاڑی شامل  تھے اوراُن کے ساتھ27افراد پر مشتمل وفد بھی  فرانس گیا تھا ۔اس سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور وطن عزیز میں کھیلوں کی خراب صورت  حال حکام بالا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔پاکستان  تین  بار ہاکی کا اولمپک   چیمپین  اور چار  مرتبہ کانسی کے  میڈل جیت چکا ہے۔ تین چار  عشرے قبل   دنیا  میں   ہاکی کے بہترین   کھلاڑی پاکستانی ہی     ہوتے تھے۔بھارت کی اولمپکس  ایسوسی ایشن کی صدر گولڈ میڈلسٹ ایتھیلٹ ہیں 101بین الاقوامی میڈل جیتے چکی ہیں جبکہ ہمارے یہاں   ایک سابق  لیفٹیننٹ جنرل (ر)عارف حسن گذشتہ 24سال  تک  اولمپک  ایسوسی ایشن کے صدر  کے  عہدے  پربراجمان  رہے تھے ۔اس عرصے  کے دوران  میں  پاکستان ایک بھی میڈل نہیں جیت سکا تھا ۔ اس کی اعلیٰ سطح  پر تحقیقات ہونی چاہیے۔سیاست جب  اقتدار   اور  پارلیما ن کے ایوانوں سے کھیل  کے میدان میں کودتی ہے تو پھر یہی بھیانک صورت حال  سامنے  آتی  ہے۔اولمپکس  کھیلوں کی تیاری کے لیے مسلسل تربیت ،مضبوط قوت ارادی اور  برسوں پر محیط محنتِ شاقہ  درکارہوتی ہے۔کھلاڑیوں کا جسمانی اورذہنی طورپرفٹ رہنا کسی بھی مقابلے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔اس کے ساتھ وٹامنز سے بھرپور غذا ئیں کھلاڑیوں کی قوت وطاقت بحال رکھتی ہیں۔بدقسمتی سے وطن عزیزمیں کھیلوں کے شعبے کوبالکل نظرانداز کردیا گیا ہے۔نوجوانوں کے لیے جب کھیل کے مناسب مواقع دستیاب   نہیں ہو ں گے تو وہ منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔معاشرے میں بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز ،منشیات کابڑھتا  ہوا استعمال ،نشے کی لت، لڑائی جھگڑے  اور خودکشی کے رحجان میں اضافہ یہ سب کھیل نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔پاکستان میں کھیلوں کی بدترین صورت حال پرایک غیر جانبدارانہ کمیشن بنایاجائے ۔اس  کی  مکمل تحقیقات کی جائیں اور جو ذمہ دارہوں ، انھیں   قرارواقعی سزادی جائے۔کھیلوں کے ڈھانچے کومکمل تبدیل کرناہوگا۔اسکول ،کالج ،یونیورسٹی ، سرکاری  محکمے،کارپوریشن، بنک اور پرائیویٹ کمپنیاں   اپنی  اپنی ٹیمیں بنائیں ۔ابتدائی سطح پر شروع ہو کر صوبائی اورملکی سطح کے مقابلے منعقد کروائے جائیں۔ان مقابلوں کی بدولت گوہر نایاب ملیں گے جن کی باقاعدہ تربیت کی جائے تاکہ مستقبل  میں   اولمپکس  میں وطن عزیز کی  بھرپور  نمائندگی کی جاسکے  اور  وہ  تمغے  جیت  کرکے سبزہلالی پرچم سربلند کریں لیکن  اس  کے لیے  ضرورت اس  امر کی ہے کہ  کھیلوں کوسیاست سے پاک  کیا جائے   نوجوانوں کو کھیلنے کے مواقع   مہیا کیے جائیں    تاکہ ملک کا مستقبل تابناک ہو سکے۔

 پہلا انفرادی گولڈمیڈل جیت کر ایتھلیٹ ارشدندیم نے تاریخ رقم کردی ہے ۔وہ نئی نسل کے لیے ایک ہیرو بن کر سامنے آئے ہیں ۔حکومت کو اب ہوش کے ناخن لینے  چاہییں   اور ارشدندیم کے نام سے جیولین تھرو سٹیٹ آف دی آرٹ اکیڈمی قائم کرنی چاہیے جہاں ارشد ندیم خود  جیولین تھرو کی نوجوانوں کو تربیت دیں    اور   مستقبل میں وطن عزیز کے لیے   مزید گولڈمیڈل جیت سکیں  مگر  کھیلوں پر حکومت  کی توجہ ہی   سے بہت سارے ارشدندیم وطن عزیز کے لیے  طلائی  تمغے  جیت سکتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں