امتیازاحمدوریاہ
2 نومبر 1917ء کو برطانوی وزیرخارجہ آرتھر جیمز بالفور نے اپنے مشہور زمانہ بالفور اعلامیے کا اعلان
کیا تھا اور یہ دراصل فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کی غرض سے برطانوی حمایت کا دوٹوک اظہار تھا۔یہ بات برطانوی وزیر خارجہ جیمز بالفور نے اینگلو یہودی برادری کے رہنما لیونل والٹر روتھچائلڈ
(ٹرِنگ سے تعلق رکھنے والے) کو لکھے گئے ایک خط میں بھی کہی تھی۔ اس
اعلان نے صہیونیوں میں پرجوش امیدیں جگا دیں اور انھیں عالمی صہیونی تنظیم کے
مقاصد اور اپنے لیے الگ وطن کے قیام کا
خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا ہوا نظر آنے لگا۔برطانوی
حکومت کا جاری کردہ بالفور اعلامیہ فلسطین
میں "یہودیوں کے قومی وطن" کے
قیام کی اساس ثابت ہوا۔ اس نے مشرق اوسط کے
جغرافیے ، سیاست اور معاشرت کو نمایاں طور
پر متاثر کیا جس کے گہرے اور دیرپا نتائج برآمد ہوئے۔
1۔ تاریخی سیاق و سباق:
بیسویں صدی کے اوائل تک تھیوڈور ہرزل کی قائم کردہ صہیونی تحریک نے زور پکڑ
لیا تھا اور یہ یورپ میں صدیوں سے جاری
ظلم و ستم اور یہود دشمنی کے جواب میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی وکالت کررہی
تھی۔ سرزمین فلسطین اس وقت
سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھی اور بنیادی طور
پر عرب آبادی کا مسکن تھی۔اس میں ایک
چھوٹی سی یہودی اقلیت تھی۔ یادرہے کہ 1899ء میں صہیونی تنظیم نے "یہودی نوآبادیاتی
ٹرسٹ" قائم کیا تھاجس کے نتیجے میں
1902ء میں فلسطین میں اینگلو فلسطین بینک کے نام سے ایک ذیلی ادارہ قائم کیا گیا
تھا۔ تھیوڈور ہرزل اور چیم ویزمین جیسے
اہم صہیونی رہنماؤں نے ہولوکاسٹ سے بہت
پہلے یہودی وطن کے قیام کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی غرض
سے انتھک کوششیں کی تھیں اور وہ بالادستی
پسند سیسل رہوڈز، فاشسٹ مسولینی جیسے لوگوں کے ساتھ اتحاد کی بھی کوشش کر تے رہے
تھے۔یوگنڈا، قبرص اور ارجنٹائن میں اپنے وطن
کے قیام سمیت مختلف آپشنز پر غور
کرتے ہوئے صہیونیوں نے بالآخر فلسطین کا "منتخب لوگوں کی سرزمین" کے طور
پر انتخاب کیا اور پھر وہاں بیرون ملک سے
یہود کو لاکر آباد کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ۔
2۔پہلی جنگ عظیم کی حرکیات:
برطانوی حکومت نے پہلی جنگ عظیم کے دوران میں دنیا بھر کے یہودیوں کی حمایت طلب کی۔ اس حمایت
کا حصول بالخصوص ریاست ہائے متحدہ امریکا اور سوویت روس کے بااثر یہودیوں کی طرف سے فائدہ مند سمجھا
گیا، تاکہ ان ممالک کو اتحادی ممالک کے
نصیب العین (کاز)کی طرف راغب کرنے میں مدد
مل سکے۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان 1916 ء میں پہلے ہی سائکس
پیکوٹ کا خفیہ معاہدہ طے پاچکا تھا۔ اس کے تحت
انھوں نے مشرق اوسط میں عثمانی علاقوں کو اپنے اثر و رسوخ کے دائروں میں
لانے اور اس کے مطابق تقسیم کر نے کا بندوبست کیا تھا اور تب فلسطین بین الاقوامی انتظامیہ کے ماتحت تھا۔
3۔ سیاسی چال بازی:
ڈیوڈ لائیڈ جارج اور آرتھر بالفور جیسے برطانوی سیاست دان صہیونی کاز سے
ہمدردی رکھتے تھے اور وہ تزویراتی مفادات اور فلسطین میں یہودیوں کی واپسی کے
مسیحی صہیونی عقیدے سے متاثر تھے۔اس تناظر میں بالفور نے صہیونیوں کے سرزمین
فلسطین میں الگ وطن کے قیام کی غرض سے اپنے اعلامیے کا اعلان کیا۔
اعلامیے کا متن:
اس اعلامیے میں آرتھر بالفور کی جانب سے
برطانوی یہودی برادری کے رہنما لارڈ روتھچائلڈ کے نام خط میں کہا گیا تھا:
’’شہنشاہ معظم کی حکومت فلسطین میں یہودیوں
کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کے حق میں
ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری کوششیں بروئے کار لائے گی، یہ واضح طور
پرسمجھا جاتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا جائے گا جس سے فلسطین میں موجود غیر
یہودی برادریوں کے شہری اور مذہبی حقوق، یا کسی دوسرے ملک میں یہودیوں کو حاصل
حقوق اور سیاسی حیثیت کو نقصان پہنچے‘‘۔
ابہام اور تنازعات:
- اعلامیے میں "قومی گھر(وطن)" کی اصطلاح مبہم تھی ،
اور اس میں ایسے گھر کی سیاسی حیثیت کی
وضاحت نہیں کی گئی تھی۔
- "موجودہ غیر یہودی برادریوں کے شہری اور
مذہبی حقوق" کے تحفظ کا وعدہ مختلف تشریحات اور بعد میں تنازعات کا باعث بنا
تھا۔
اعلامیے کے فوری مضمرات
1۔ یہودی نقل مکانی اور آبادکاری:
-
اس اعلان سے حوصلہ پاکر بعد کی چند دہائیوں ہی میں فلسطین میں دنیا بھر بالخصوص یورپی ممالک سے یہود
کی نقل مکانی میں نمایاں اضافہ ہوا ، جس
کے نتیجے میں فلسطینی علاقوں میں نئی بستیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
یہودی تارکینِ وطن کی آمد فلسطین
میں معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کا سبب بنی، جس سے یہودی اور عرب برادریوں کے درمیان تناؤ
پیدا ہوا۔واضح رہے کہ 1939 میں برطانوی حکومت نے ایک وائٹ پیپر میں اپنی پالیسی میں
تبدیلی کرتے ہوئے مزید 75 ہزار تارکینِ
وطن کی حد مقرر کرنے اور 1944 تک نقل مکانی کو ختم کرنے کی سفارش کی تھی، جب تک کہ خطے کے رہائشی فلسطینی مزید
امیگریشن پر رضامند نہ ہوں مگر صہیونیوں نے نئی پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے برطانیہ
پر عربوں کی حمایت کرنے کا الزام عاید کیا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اور 1948 میں یورپی کالونی کے قیام نے فلسطین
میں یہودی ریاست کے قیام کے خلاف قانونی دلائل کو ناقابل سماعت بنا دیا تھا۔ جنگ
کے واقعات اور اس کے ما بعد اسرائیل کے قیام نے صہیونی خواب کو تقویت بخشی اور خطے میں ایک نئی حقیقت
پیش کی۔ صہیونیوں کا کہنا تھا کہ اسرائیل
تو ’ ہولوکاسٹ ‘کے متاثرین کے لیے بنایا گیا تھا۔ لیکن بالفور اعلامیہ تو 1917 میں
لکھا گیا تھا۔ذرا غور کریں ،یہ اعلامیہ کس نے پیش کیا تھا:
(الف) ایک یورپی طاقت نے۔
(ب) ایک غیر یورپی علاقے کے بارے میں۔
(ج) اس علاقے میں رہنے والے مقامی اکثریت کی
موجودگی اور خواہشات دونوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے،
(د) اس نے اسی علاقے کے بارے میں ایک دوسرے
غیر ملکی گروہ سے وعدہ (بالفور) کی شکل اختیار کی تاکہ یہ غیر ملکی گروہ عملی طور پر اس علاقے کو یہودیوں کا قومی وطن بنا دے۔
اعلامیے میں بالفور کے بیانات نوآبادیاتی
طاقت کے اس اعلیٰ حق کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ کسی علاقے کو اپنی صواب دید کے مطابق ٹھکانے لگا دے اور جیسا اسے مناسب لگتا ہے،اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کردے
۔
2۔عربوں کا رد عمل:
فلسطین اور آس پاس کے علاقوں کی عرب آبادی نے اس اعلان کو برطانیہ کی اپنے
ساتھ ایک خیانت کے طور پر دیکھا تھا، کیونکہ انھیں انگریزوں نے میک موہن ،حسین
خط کتابت (1915-1916) میں عثمانی حکمرانی (سلطنت عثمانیہ ) سے آزادی دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ عرب رہنماؤں اور برادریوں کو خدشہ تھا کہ
یہودی ریاست کے قیام سے ان کی نقل مکانی اور سیاسی کنٹرول ختم ہوجائے گا۔
3۔ برطانوی مینڈیٹ :
پہلی جنگ عظیم کے بعد ، مجلس اقوام (لیگ آف نیشنز) نے برطانیہ کو فلسطین پر
مینڈیٹ دیا ، اس عرب علاقے پربرطانوی
کنٹرول کو باضابطہ بنایا اور اسی کے تحت بالفور اعلامیے پر عمل درآمد کیا گیا۔ مینڈیٹ سسٹم کا مقصد فلسطینی علاقوں کو خود مختاری کے لیے تیار کرنا
تھا ، لیکن فلسطین میں یہ مسابقتی عمل قومی امنگوں کی تکمیل کے لیے میدان جنگ بن گیا۔ اسی مینڈیٹ نے فلسطین میں یہودی قومی وطن کے قیام
کے لیے ایک ناقص فریم ورک فراہم کیا ۔اسی سے بالآخر فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بالفور
اعلامیہ کالعدم تھا اور اس نے قانونی طور پر فلسطین میں ایک خاص یہودی ریاست قائم
نہیں کی۔ ان کے بہ قول بالفور اعلامیے کی
متعلقہ شقیں قانونی طور پر کالعدم تھیں۔کیمبرج یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر رالف وائلڈ کہتے ہیں کہ فلسطین میں خاص طور پر یہودی ریاست کے لیے اس
مینڈیٹ کی کوئی قانونی بنیاد تھی اور نہ ہے۔
طویل المدت مضمرات
1۔ قوم پرستی کا عروج:
-
بالفور اعلامیے نے یہودی اور عرب قوم پرستی دونوں کو تقویت دی۔ صہیونی تحریک نے
اسے یہودی ریاست کے قیام کے جائز دعوے کے طور پر دیکھا ، جبکہ عرب قوم پرستی نے اس
کی مخالفت کی ، جس کے نتیجے میں زمین اور شناخت کی بنیاد پر جدوجہد شروع ہوئی۔
2۔تنازعات اور تشدد:
متضاد قومی امنگوں کی وجہ سے گذشتہ
قریباً 10 دہائیوں سے سرزمین فلسطین
میں تشدد اور مسلح تنازعات کا سلسلہ جاری ہے اور بالفور اعلامیہ درحقیقت فلسطین میں تمام تنازعات اور جنگوں کی
’’ماں‘‘ ثابت ہوا ہے۔ فسادات، قتلِ عام اور بغاوتیں عام ہو گئیں ، جیسے عرب بغاوت
(1936-1939) اور اس کے بعد برطانوی حکمرانی کے خلاف یہودی بغاوت جیسے واقعات قابلِ ذکر ہیں۔اس وقت اس تنازع کی تاریخ
میں غزہ کی پٹی میں سب سے خونریز جنگ لڑی جارہی ہے اور اس کے نتیجے میں مصدقہ
اعدادوشمار کے مطابق 40 ہزار سے زیادہ اور غیرمصدقہ اعداد وشمار کے مطابق کم سے کم
دولاکھ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ان میں کی اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔غزہ شہر
اور دوسرے قصبے اسرائیلی فوج کی تباہ کن بمباری کے نتیجے میں تباہ وبرباد ہوچکے
ہیں اور وہاں انسانی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔
3۔اقوام متحدہ کی تقسیم کا منصوبہ اور
اسرائیل کا قیام:
1947ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے
کی تجویز پیش کی تھی مگر اس
میں ملک کے مقامی باشندوں کے ساتھ مشاورت شامل نہیں تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی
جانب سے قانونی حمایت نہ ملنے کے باوجود تقسیم کا یہ منصوبہ فلسطین میں ایک یورپی چوکی کے قیام کی جانب ایک اہم قدم ثابت
ہوا۔ یہودنے پس وپیش کے بعد اس میں
پنہاں اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے اس منصوبے کو قبول کیا ، لیکن عرب برادری نے اسے
مسترد کردیا تھا۔ 1948ء میں اسرائیل کی
ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا جس کے نتیجے میں پہلی عرب
اسرائیل جنگ ہوئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں کم
سے کم ساڑھے سات لاکھ فلسطینی اپنے ہی قدیم آبائی گھروں اور علاقوں سے بے گھر ہوگئے تھے اور وہ محفوظ علاقوں کی جانب
نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔انھوں نے اس بہ جبر بے دخلی
اور مہاجرت کو ’’نکبہ‘‘(قومی مصیبت) سے تعبیرکیا تھا۔ فلسطینی پناہ گزینوں کا بحران آج بھی جاری ہے اور اسرائیل کے قیام کے وقت بے
گھر ہونے والے فلسطینیوں کی آل اولاد اس
وقت اسرائیل کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں یا
پڑوسی ممالک اردن ، شام اور لبنان میں مہاجر کیمپوں یا خیمہ
بستیوں میں رہ رہی ہے۔
4۔ اسرائیل فلسطین لاینحل تنازع:
بالفور اعلامیے نے اسرائیل فلسطین تنازع
کو جنم دیا ۔ یہ اب زمین، شناخت
اور سیاسی حقوق کے لیے ایک پیچیدہ اور پُرپیچ تنازع کی شکل اختیار کرچکا ہے اورہنوز
لاینحل
ہے۔ اوسلو معاہدے اور مختلف بین
الاقوامی مداخلتوں سمیت امن کی کوششوں کے باوجود مسئلہ فلسطین کو آج تک حل نہیں کیا جاسکا ہے ۔یہ بین الاقوامی تعلقات میں سب سے
زیادہ متنازع اور غیر مستحکم مسائل میں سے ایک ہے۔
علاقائی اور عالمی مضمرات:
برطانوی اعلامیہ مشرق اوسط کی جغرافیائی سیاست میں ایک مستقل کشیدگی کا سبب بن گیا ۔اس سے عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے علاوہ خطے کے ساتھ وسیع تر بین الاقوامی برادری کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اس تنازع نے گذشتہ عشروں کے دوران میں عالمی سیاست کو متاثر کیا ہے، جس سے مغربی اور مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے اوریہ عالمی سلامتی کی حرکیات پر اثر انداز ہوا ہے۔بالفور اعلامیہ مشرق اوسط کی تاریخ میں ایک اہم لمحہ تھا، جس نے ایسے پے درپے واقعات کا ایک سلسلہ شروع کیا جن کے گہرے اور دیرپا نتائج مرتب ہوئے۔ اگرچہ اس نے ایک یہودی وطن کے قیام میں سہولت فراہم کی ، لیکن اس نے فلسطینی عرب آبادی کے لیے افراتفری ، تنازعات اور مصائب کو بھی جنم دیا۔اس تناظر میں بالفور اعلامیے اور اس کے مختلف النوع مضمرات کی تفہیم اسرائیل فلسطین تنازع کی جاری پیچیدگیوں اور مشرق اوسط کی جغرافیائی سیاست کی وسیع تر حرکیات کو سمجھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں