امتیازاحمدوریاہ
جناب جاوید احمد غامدی کے فکروفلسفہ کا جس شخصیت نے دوعشرے سے زیادہ عرصہ پہلے علمی انداز میں محاکمہ کیا ، وہ تھے جناب مفتی ڈاکٹر عبدالواحد مرحوم۔ جامعہ مدنیہ لاہور میں سالہا سال انھیں قریب سے دیکھنے ، حضرت انورحسین شاہ صاحب نفیس رقم کی مجلس میں ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔بالکل سادہ مزاج وانداز کے حامل ڈاکٹر عبدالواحد صاحب علم وعمل کا کامل نمونہ تھے۔ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔بعد میں شوق ورغبت سے درس نظامی کیا اورجامعہ مدینہ میں استا ذ اور مفتی ہوگئے۔طب کے ساتھ ساتھ ساری زندگی افتاء اور درس وتدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ان کی کتاب کا عنوان ’’تحفہ غامدی‘‘ ہے۔اس میں جناب جاوید احمد غامدی کے مغالطوں کی نشان دہی کی ہے اور ان کا جواب دیا ہے۔
یہ چند سال ادھر
کی بات ہے ۔حضرت مولانا زاہد الراشدی
صاحب کے فرزند ارجمند جناب عمارخان ناصر نے تحفۂ غامدی اور
ڈاکٹر صاحب کی ایک اور کتاب’’ عمار خان کا نیا اِسلام اَور اُس کی سرکوبی‘‘ کے سرورق اپنی ’’کتاب چہرہ‘‘ دیوار پر آویزاں کیے اور پھر
اس پر ناصر صاحب کے پیروکاروں اور غالی
مؤیدین نے لچرقسم کے وہ ، وہ سوقیانہ
تبصرے کیے تھے کہ اللہ کی پناہ اور بعض نے تو دشنام طرازی سےبھی گریز نہیں کیا تھا۔انھوں نے ان کا جواب
کیا دینا تھا انھیں حذف کرنا یا ہٹانا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ان کے اس رویے سے
اندازہ ہوا کہ بندہ ’’روشن خیالی‘‘ کے چکر میں بنیادی انسانی اخلاق وآداب سے کہاں دور جاپڑتا
ہے۔
حضرت مولانا ڈاکٹر
مفتی عبدالواحد صاحب نے اپنی کتاب''عمار خان کا نیا اِسلام'' کے پیش لفظ میں لکھا تھا:’’متجدِدین
(Modernists) میں سے جاوید
غامدی کو کچھ نا سمجھ لوگوں میں مقبولیت حاصل ہوئی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ
اِن کی گمراہیوں کو نہ سمجھ سکے۔ جاوید غامدی بات کرتے ہیں تو قرآن و حدیث کے
حوالے دیتے ہیں جس سے سننے والے یہ تأثر لیتے ہیں کہ یہ منکر حدیث نہیں ہیں۔ اِن
کی خرافات کو سمجھنے کے لیے ہمارے کتابچے '' تحفہ ٔغامدی'' کا مطالعہ کیجیے۔ بعض
اَور حضرات نے بھی غامدی صاحب کی گمراہیوں کو کھولا ہے۔مقامِ عبرت ہے کہ جاوید
غامدی باقاعدہ عالم نہیں ہیں لیکن دو چار وہ اَفراد جو معروف مدرسوں کے پڑھے ہوئے
ہیں، اُنھوں نے بھی غامدی صاحب کی بارگاہ ِعقیدت میں سر جھکا کر اَپنے علم کو
اُن پر فدا کر دیا ہے۔اُن میں سے ایک
غامدی صاحب کے شاگرد ِرشید مولوی عمار خان ناصر ہیں جو مشہور و معروف مولانا زاہد الراشدی صاحب کے
صاحبزادے ہیں۔ عمار خان، جاوید غامدی کو ہم عصر اہلِ علم میں سے شمار کرتے ہیں
اَور اُن کے بے باک ترجمان ہیں۔ دونوں یہ چاہتے ہیں کہ اِسلام کا نیا اَیڈیشن
لوگوں میں پھیلائیں۔ عمار خان چونکہ مولوی
بھی ہیں اِس لیے وہ علم کے نام پر ایک تو علماء کے اَندر اِنتشار پیدا کرنے میں
لگے ہوئے ہیں اَور دُوسرے عوام کو اہلِ حق
علماء سے برگشتہ کرنے کے شغل کو بھی اِختیار کیے ہوئے ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی
صاحب اِن کے پشت پناہ ہیں‘‘۔حال ہی میں ایک انٹرویو میں انھوں
نے اس حوالے سے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔
ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب کے کے بعد محترم ومکرم ڈاکٹر محمد الیاس فیصل صاحب نے ایک
کورس کی شکل میں جاوید غامدی صاحب کے علمی افکار کا جائزہ لیا تھا۔ان کی وڈیوز
یوٹیوب پر موجود ہیں اور وہ ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔فیصل صاحب ایک عرصے سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں ۔انھوں
نے جابجا غامدی صاحب کے غلط افکار
اور دینی لٹریچر سے غلط حوالوں کی نشان دہی کی ہے اور بتایا ہے کہ ان
کی عربی دانی میں کیا کیا اسقام ہیں ۔ایک
وڈیو میں تو غامدی صاحب ایک کتاب کا عنوان
تک غلط پڑھتے پائے گئے ، عبارت تو بہت دور کی بات ہے۔
اب ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کی ’’غامدی فکرو فلسفہ‘‘ کے محاکمے پر نئی کتاب
منظرعام پر آئی ہے۔اس پر مختلف لوگوں
کے تبصروں سامنے آرہے ہیں۔ ان کو
دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یار لوگوں نے اس سے قبل ماضی میں سطور بالا میں مذکور دونوں حضرات کی غامدی صاحب کے بارے میں نقد اور علمی محاکمے کو ملاحظہ نہیں کیا ہے۔اگر فی الواقع ایسا ہے تو اس میں کچھ قصور ان
کا اپنا بھی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں