احسان غنی
حاکمیتِ
اعلیٰ صرف اللہ رب العزت کی ہوگی اور ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کے
پرجوش نعرے کے ساتھ جدوجہدآزادی کاآغازہوا۔شاعر مشرق علامہ اقبال کے خواب کو شرمندہ
تعبیر کرنے کے لیے بابائے قوم محمد علی جناح کی سربراہی میں انگریز سامراج
کے زیرقبضہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے الگ وطن
کے حصول کی تحریک شروع ہوئی۔23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک
، لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرار داد لاہور منظورکی گئی، جو بعد میں قرارداد پاکستان
کہلائی اور اس کے صرف سات سال بعد پاکستان
معروض وجود میں آگیا۔
پاکستان ایک طویل ، محیّرالعقول ،درد انگیز قربانیوں کی لازوال داستان ہے۔پاکستان
کی بنیادوں میں عورتوں ،مردوں ،جوانوں اوربچوں کا لہو شامل ہے۔ 1947ء میں انسانی تاریخ
کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ لاکھوں لوگ اپنے
ہنستے بستے گھر ،منافع بخش کاروبار، لہلاتے کھیت چھوڑ کرنئے ارض وطن کی جانب
عازم سفر ہوئے لیکن ان میں لاکھوں راستوں
ہی میں بلوائیوں کے ہاتھوں
اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور ان کے
بے گورو کفن لاشے ندی نالوں ، دریا ؤں کی نذر
ہوئے ۔یوں لاکھوں جانوں
کا نذرانہ پیش کر کے یہ پاک سرزمین حاصل ہوئی۔بے
سرو سامانی میں لاکھوں لوگ مہاجر ہو کر لاہور والٹن کیمپ میں پہنچے آنکھوں میں خواب
سجائے کہ ہمیں اب ہمارا پیارا وطن مل گیاہے۔جہاں ہرطرح کا آرام راحت وسکون میسرہو گا۔مگر77سال
گزرگئے،انھیں اس خواب کی تعبیر نہ مل سکی۔آج لاکھوں کی تعداد میں نوجوان مایوسی کے
عالم میں پیاراوطن چھوڑ کر روزگار کے لیے بیرون
ملک ہجرت کررہے ہیں۔سیاستدان کوآپسی لڑائی جھگڑوں
ہی سے فرصت نہیں۔ریاستی ادارے ایک دوسرے
کے مدمقابل ہیں۔قیام پاکستان کامقصد اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھاجہاں شہریوں کے جملہ حقوق کا تحفظ یقینی ہو اور معاشرے
میں عدل وانصاف کا بول
بالا ہو۔وطن عزیز کی بدقسمتی ان مقاصد کاحصول ہنوز ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جو محل وقوع کے
لحاظ سے مثالی ہے۔فلک بوس کہسار، ٹھاٹھے مارتا گہراسمندر ،وسیع وعریص صحرا، ریگستان
، جنگلات اور سرسبز لہلاتے سونا اُگلتے کھیت کھلیان اس دھرتی کی شان ہیں۔پاکستان کے
موجودہ حالات کا عمیق جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ یہاں بحرانوں
کا ایک لامنتاعی سلسلہ ہے جو روکنے میں نہیں آرہا۔ایک بحران کے بعد دوسرا اورپھرتیسرا
بحران سراُٹھاتا ہے۔ قرضوں کواتارنے کے لیے نئے قرضے لیے جاتے ہیں جن کا بھاری بوجھ مہنگائی
کے بوجھ تلے دبے عوام پرپڑرہا ہے۔
روزافزوں مہنگی اشیاء خورونوش اور بجلی کی
قیمت میں ہوشربا اضافے سے لوگ سخت پریشان ہیں۔دوسری طرف ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی
نے خوف وہراس کی فضاقائم کررکھی ہے۔آئے دن خود کش بم دھماکوں اور دہشت گردوں کے حملوں میں عام شہری اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے
اہلکار شہید ہورہے ہیں۔ایک طرف أفغانستان کی سرزمین پاکستان
میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے اوردوسری طرف سے بھارت شر انگریزی کررہا ہے۔تعلیم
اور صحت کے شعبوں کابُراحال ہے ۔ڈھائی کروڑ کے قریب بچے اسکولوں سے باہر بھٹک رہے ہیں۔شہروں میں
گنتی کے سرکاری اسپتالوں میں مریض ایسے اُمڈے چلے آتے ہیں کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔امن وامان کی صورتحال
یہ ہے کہ ہرشہری خوف کاشکار ہے۔اغوابرائے تاوان ، قتل ،چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں
معمول
بن چکی ہیں ۔دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیوں
کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہورہی ہے ۔پاکستان میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے
قدرتی آفات آناشروع ہو گئی ہیں۔اِ ن میں بے موسمی معمول سے زیادہ بارشیں ،سیلاب اور طغیانیوں سے عوام کو بہت زیادہ نقصانات کا سامنا ہے۔
لوگوں کے مال مویشی اور فصلیں سیلاب کی نذرہور
ہے ہیں۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے سبب چھوٹی
بڑی صنعتیں اورکاروبار بند ہورہے ہیں۔ملک میں
ہرطرف افراتفری کا عالم ہے مگر ہر کوئی
دوسرے کو مودِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ اصلاح کی کوئی
ایک بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی۔دہشت گردی اورمہنگائی کا جن
قابو میں نہیں آرہا ہے۔اس کے ساتھ سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔یہ تمام محرکات ملک
میں مزید سیاسی عدم استحکام کا سبب بن
رہے ہیں۔ہمارے سیاستدانوں کی ہٹ دھرمی ،انا اورضد سے معاملات بگڑتے جارہے ہیں۔کسی بھی
جانب سے اصلا ح کی کوشش نہیں ہو رہی۔25کروڑ عوام فرقوں ،گروہوں اورمختلف جماعتوں میں
تقسیم ہیں۔قیادت میں عزم کے
فقدان کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔اِ ن تمام مسائل کا واحد حل تو یہ ہے کہ
ملک میں منصفانہ ،غیر جانبدارانہ انتخابات کروائے جائیں۔
اس کے نتیجے میں جو جماعت اکثریت حاصل کرے اسے حکومت کرنے کا پورا موقع دیا جائے تمام
متعلقہ ادارے اپنی حدود میں رہ کرصرف اپنے دائرہ کار میں کام کریں۔وطن عزیز میں سیاسی استحکام کے
ذریعے ہی معیشت میں بہتری آئے گی اور امن وامان قائم ہوسکے گا۔جس سے خوشحالی کے سفر
کا آغاز ہوگا۔ ہمارے بزرگوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے اور پاکستان حقیقت میں ایک
اسلامی فلاحی ریاست بن کر اقوام عالم میں نمایاں مقام حاصل کرسکے گا ۔؎
"خدا کرے میری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو"
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں