اسرائیل کی داخلی سلامتی کی ذمے دار ایجنسی شین بیت کے سربراہ رونن بار مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کی دہشت گردی کی کارروائیوں پر چیخ اٹھے ہیں اور انھوں نے پہلی مرتبہ وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت سے ان سرگرمیوں پر قابو پانے کا مطالبہ کیا ہے۔ رونن بار 2021 سے اس عہدے پر فائز ہیں ۔انھوں نے ملک کی قیادت کو خبردار کیا ہے کہ غربِ اردن میں یہودکی دہشت گردی((Jewish terrorism بے قابو ہوچکی ہے اور یہ قومی سلامتی کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔انھوں نے یہ انتباہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو ،اٹارنی جنرل اور اسرائیلی کابینہ کے ارکان کے نام ایک خط میں کیا ہے۔واضح رہے کہ بعض اسرائیلی وزراء غربِ اردن میں فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے ذمے دار انتہاپسند یہودی آبادکاروں کی کھلم کھلا پشت پناہی کرتے ہیں۔
رونن بار نے یہ خط گذشتہ ہفتے بھیجا تھا لیکن اس کو اسرائیلی چینل
12 نیوز نے گذشتہ جمعرات کی شب شائع کیا
تھا۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کی قیادت میں انتہاپسند دائیں بازو
کے حکمراں اتحاد اور اسرائیل کے سکیورٹی
اداروں کے درمیان غربِ اردن میں امن وامان
کے امور پر بُعد المشرقین پایا جاتا ہے۔اسرائیل کے قومی سلامتی کے
انتہاپسند وزیر ایتمار بن غفیر نے رونن بار کے خط کو اشتعال انگیز رویے کا آئینہ دار قرار دیا ہے، انھیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انھیں شین بیت کے ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے
جبکہ وزیردفاع گیلنٹ نے بار کا دفاع کیا ہے اور بن غفیر کے رویے کی مذمت
کی ہے۔
بار نے اپنے اس خط میں یہودی انتہاپسند وں کی مغربی کنارے میں غیر
قانونی سرگرمیوں کا ہے۔ یہ ’’چوٹی کے نوجوان‘‘ کے طور پر بھی معروف ہیں۔ یہ
متشدد جنگجو گذشتہ کئی برسوں سے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف قتل وغارت ، آتش
زنی اور انھیں دہشت زدہ کرنے کی مہم برپا کیے ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد فلسطینیوں کو ان
کی آبائی سرزمین سے نکال باہر کرنا اور وہاں قابض ہونا ہے اور پھر ان علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنا ہے۔یہ آئے دن فلسطینیوں
پر لاٹھیوں ، ڈنڈوں اور آتشیں اسلحہ سے حملے کرتے رہتے ہیں۔اب غزہ میں اسرائیل کی
جنگ کی وجہ سے انھیں مزید شہ ملی ہے اور وہ بے روک ٹوک قبضے اور جلاؤ گھیراؤ کی
کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
شین بیت کے سربراہ نے کہا کہ انھوں نے ایک یہودی، ایک اسرائیلی اور ایک سکیورٹی اہلکار
کی حیثیت سے ’’
چوٹی کے نوجوانوں‘‘ کی جانب سے یہودی دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر درد اور بڑے خوف کے ساتھ خط بھیجنے کا
فیصلہ کیا تھا۔ انھوں نے لکھا کہ ’’ہم ایک اہم، حقیقت کو تبدیل کرنے والے عمل کی
دہلیز پر ہیں۔اسرائیل کو، خاص طور پر اس وقت، اور آباد کاروں کی اکثریت کو جو
نقصان پہنچا ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔ایک ایسے وقت میں آئی ڈی ایف فورسز کو یہاں تعینات کیا جار ہا ہے، جن کا مقصد ان
مشنوں سے نمٹنا نہیں ہے اور ان کو اپنے تمام کاموں کو انجام دینے میں
دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘‘۔ بار نے خط میں
یہ نتیجہ اخذ کیا کہ’’ قوم پرست قیادت اپنے نظریے کے نام پر ریاست کی
سلامتی اور اس کے وجود ہی کو خطرے میں
ڈالنے کو تیار ہے‘‘۔نیز دہشت گردی کی یہ مہم
یہودیت پر ایک دھبا ہے۔
اسرائیل اخلاقیات اور انسانیت کھوچکا
حال ہی میں شین بیت کے ایک سابق سربراہ ایمی ایالون نے بھی امریکا کے کیبل نیوز نیٹ ورک
( سی این این) سے ایک انٹرویو میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا
ہے لیکن انھوں نے اسرائیل
کی غزہ کی پٹی میں برپا کردہ سفاکانہ جنگ کے بارے میں زیادہ ترگفتگو کی ہے۔سی این این کی کرسٹیان امان پور کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایمی ایالون
نے اسرائیل کی اخلاقیات اور انسانیت کھونے
پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ’’ قتل و غارت ' اسرائیل کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے‘‘۔انھوں نے کہا کہ ہمیں 'سیاسی طور پر درست' ہونے اور "صہیونیت
یہودیت نہیں ہے" کا اعلان کرنے کا جنون تھا کیونکہ ہمیں صہیونیوں نے دھوکا
دیا تھا، بنیاد پرست یہودیت (جو صہیونیت کا ایک اہم حصہ ہے) کے بارے میں کسی بھی
طرح کی بحث، اور اس بحث پر یقین کرنے کا
مطلب یہ تھا کہ یہ یہودیت کے ساتھ اتحاد ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیلی حکام اکثر فلسطینیوں کو غزہ میں اپنی نسل کشی کا جواز پیش کرنے کے لیے انسان سے کم
یعنی 'انسانی جانور' قرار دیتے رہے ہیں۔اس رویّے پر ایالون نے افسوس کا اظہار کیا کہ اخلاقیات کا یہ
نقصان اسرائیلی عوام، یہودیوں اور بالآخر انسانوں کے طور پر شناخت کو ختم کر رہا
ہے۔انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی قیادت پر سخت تنقید کی ، اس کو "زہریلا" قرار دیا اور خبردار کیا کہ اس سے صہیونیت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امن کے لیے دو
ریاستی حل ناگزیر ہے اور اس کے بغیر حماس کو ختم نہیں کیا جاسکے گا۔ انھوں نے غزہ میں جاری جنگ اور اسرائیل کے مستقبل
پراس کے وسیع تر مضمرات پر اظہار خیال کیا تھا۔
یادرہے کہ ایالون نے 1963 سے 1996 تک اسرائیلی بحریہ میں خدمات انجام دی تھیں اور اس کمانڈر ان چیف رہے تھے 1995 میں سابق وزیر اعظم اضحاک رابن کے قتل کے بعد ، ایالون کو اسرائیل کی داخلی سلامتی کی سروس شین بیت کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور وہ 2000ء تک اس عہدے پر فائز رہے تھے۔ریٹائرمنٹ کے بعد ایالون نے لیبر پارٹی کے رکن کی حیثیت سے سیاست میں قدم رکھا اور 2006 سے 2009 تک اسرائیلی پارلیمان الکنیست کے رکن رہے تھے۔وہ اسرائیلی کابینہ میں وزیر بے محکمہ بھی رہ چکے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں