ترجمہ: امتیازاحمدوریاہ
"بریمن کے موسیقار" ایک جرمن لوک کہانی ہے۔یہ گریم برادران کے پریوں کی کہانیوں کے مجموعے میں شامل ہے۔اس مجموعے کا عنوان "گریم کی پریوں کی کہانیاں" ("گریم کی مارخین") ہے۔ گریم ، جیکب اور ولہیلم گریم برادران ، جرمن اسکالر اور کہانی کار تھے۔انھوں نے 19 ویں صدی کے دوران میں یورپ کی لوک کہانیوں کو جمع کیا اور شائع کیا تھا۔ بریمن کے موسیقاروں کی کہانی اُن بہت سی روایتی لوک کہانیوں میں سے ایک ہے جو انھوں نے اپنے مجموعے میں شامل کی ہیں۔
گریم برادران نےیورپی لوک اور پریوں کی کہانیوں کو محفوظ کرنے اور مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کا مجموعہ پہلی بار 1812 میں شائع ہوا تھا ۔اس میں سنڈریلا ، اسنو وائٹ ، ہینسل اور گریٹل اور بہت سے دیگر مشہور کہانیاں شامل ہیں۔ ’’دی موسیقار آف بریمن‘‘ ایک مزاحیہ اور دل کو چھو لینے والی کہانی ہے جس میں چار جانوروں ۔۔۔۔ گدھے، کُتے، بلی اور مُرغے – کے دل چسپ سفر کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔ان کے مالکان ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن قبل اس کے کہ وہ اس کو عملی جامہ پہناتے ،ان چاروں نے اپنے اپنے مالک سے گلوخلاصی کا فیصلہ کیا اور وہ موسیقار بننے کے لیے بریمن کے سفر پرچل نکلے ۔ اس کہانی میں بھائی چارے، وسائل کی کمی اور پسماندہ طبقے کی فتح کے موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس کی ادبی افادیت اور دل چسپ اندازکے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر ہے۔ملاحظہ کیجیے:
ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔ایک گدھے نے موسیقار بننے کے لیے بریمن جانے کا فیصلہ کیا۔ راستے میں اس کی ملاقات ایک کُتّے سے ہوئی ۔وہ افسردہ نظر آ رہا تھا۔
’’پیارے کُتّے کیا ہوا ‘‘۔گدھے نے اس سے پوچھا۔
’’کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا ‘‘۔کُتّے نے جواب دیا ۔
آپ میرے ساتھ آؤ اور موسیقار بن جاؤ۔ گدھے نے اس کو پیش کش کی۔ ’’میں گٹار بجاؤں گا اور تم ڈھول پیٹ سکتے ہو ‘‘۔
پھر وہ دونوں اپنے سفر پر چل دیے۔ وہ دونوں سڑک پر چلتے جا رہے تھے۔ اس دوران میں ان کی ملاقات ایک بلی سے ہوئی۔ وہ بھی افسردہ تھی۔ گدھے نے اس سے پوچھا:’’ بلی بی کیا ماجرا پیش آیا ۔اتنی افسردہ کیوں نظر آ رہی ہو‘‘۔ اس نے بھی وہی جواب دیا۔’’ کوئی مجھ سے پیار و محبت نہیں کرتا‘‘۔ ’’اچھا تو پھر آؤ ہمارے ساتھ بریمن چلو اور تم بھی موسیقار بن جاؤ‘‘۔ گدھے نے اس کو پیش کش کی اور اس کو بتایا :’’میں گٹار بجاؤں گا، کتا ڈھول پیٹے گا اور تم وائلن بجا سکتی ہو‘‘۔
بلی بھی ان کے ہمراہ ہولی۔ انھوں نے اپنی منزل کی جانب سفر شروع کر دیا ۔راستے میں تینوں کی ملاقات ایک مُرغے سے ہوئی ۔اس کا بھی وہی مسئلہ تھا۔ تینوں نے اس سے پوچھا:’’ بھائی مُرغے کیا ہوا‘‘ ۔وہ بولا:’’ کوئی مجھ سے محبت نہیں کرتا ‘‘۔گدھے نے اس کو بھی پیش کش کی۔ آؤ ہمارے ساتھ بریمن چلو اور تم بھی موسیقار بن جاؤ ۔گدھے نے اس کو مزید بتایا :’’میں گٹار بجاؤں گا ،کتا ڈھول پیٹے گا، بلی وائلن بجائے گی اور تم گانا گا سکتے ہو‘‘۔
پھر وہ چاروں اپنی منزل کی جانب چل پڑے۔ انھیں سفر کرتے رات ہو گئی ۔وہ اندھیرے میں چلتے جا رہے تھے۔ اس دوران میں وہ ڈاکوؤں کے گھر کے قریب جا پہنچے۔ گدھے نے کھڑکی میں سے جھانکا ۔’’تم کیا دیکھ سکتے ہو ‘‘۔ کُتّے ،بلی اور مرغے نے اپنے ساتھی سے ایک ساتھ پوچھا ۔’’ کمرے میں بہت سا کھانا پڑا ہے‘‘۔ گدھے نے انھیں بتایا۔اور کیا کیا ہے؟ دوسروں نے مزید پوچھا ۔’’چار ڈاکو اپنا رات کا کھانا کھا رہے ہیں’’۔ گدھے نے جواب دیا ۔
اس کے بعد ان چاروں جانوروں نے ڈاکوؤں تک پہنچنے کا منصوبہ بنایا ۔گدھا اپنے سموں پر کھڑکی کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ کتا گدھے کی پیٹھ پر سوار ہوا ،بلی کُتّے کی کمر پر چڑھی اور مرغ بلی کے سر پر پنجوں کے بل کھڑا ہو گیا ۔پھر انھوں نے اپنی اپنی آوازیں نکالنا شروع کر دیں۔ وہ میاؤں میاؤں، ککڑوں کوں ، ککڑوں کوں اور ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگے۔ پھر وہ اچانک کھڑکی سے گر پڑے ۔ڈاکو ان کی آواز وں سے ایسے خوف زدہ ہوئے کہ وہاں سے بھاگ نکلے۔ پھر کیا تھا۔ گدھا، کتا، بلی اور مرغا کمرے میں داخل ہوئے اور کھانے پر ٹوٹ پڑے ۔انھوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور پھر وہ سونے کے لیے اپنے اپنے بستر کی جانب چل پڑے۔ گدھے کو باہر صحن میں تنکے پڑے ملے۔ کتا دروازے کے پیچھے نیم دراز ہو گیا ۔بلی آگ کے نزدیک لیٹ گئی۔ مرغا چھت پر چڑھ گیا ۔تھوڑی ہی دیر میں وہ چاروں خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے لگے۔
جب رات کافی گزر چکی تو ایک ڈاکو واپس اپنے گھر میں آیا۔ اس نے ماچس سے آگ جلانے کی کوشش کی لیکن بلی نے وہاں اس پر اپنی نظریں گاڑ رکھی تھی ۔وہ ڈاکو پر حملہ آور ہو گئی اور اس کے چہرے پر پنجے گاڑ دیے ۔ڈاکو پیچھے مڑا تو کُتّے نے اس کی ٹانگ اپنے مُنھ میں داب لی۔ وہ اس سے ٹانگ چھڑا کر بھاگ نکلا اور صحن میں آیا تو گدھے نے اس کے دولتی رسید کر دی۔ مُرغے نے جب یہ سب منظر دیکھا تو اس نے اونچی آواز میں اذان دینا شروع کر دی ؛ککڑوں کوں، ککڑوں کوں۔ ڈاکو ایسا خوف زدہ ہوا کہ وہاں سے اپنی جان بچا کر بھاگا اور اپنے دوستوں کے پاس لوٹ آیا اور ہانپتے کانپتے ہوئے بولا:’’ گھر میں کوئی چڑیل ہے اس نے میرا چہرہ نوچ لیا ہے‘‘۔ اس نے چلّاتے ہوئے انھیں بتایا :’’وہاں چاقو سے مسلح ایک شخص بھی ہے۔ اس نے میری ٹانگ میں چاقو گھونپ دیا اور صحن میں ایک دیو ہے۔ اس نے مجھے ڈنڈے سے پیٹا ہے اور وہاں کوئی جج بھی موجود ہے جو مجھے چلّا کر یہ کَہ رہا تھا میں تجھے جیل کوٹھڑی میں بند کر دوں گا ۔
دوسرے ڈاکو اس کی کہانی سن کر ایسے خوف زدہ ہوئے کہ وہاں سے بھاگ نکلے۔ پھر وہ کبھی اپنے گھر لوٹ کر نہیں آئے اور گدھا، کتا، بلی اور مرغا کبھی وہاں سے بریمن نہیں گئے۔ وہ وہیں ہنسی خوشی رہنے لگے۔
بریمن کے موسیقار
میڈیا میں گیٹ کیپر کون؟۔۔۔(2)
اگر
ہم میڈیا کی موجودہ چکاچوند کے مقابلے میں ماضی میں شائع ہونے والےاخبارات کاجائزہ
لیں تو پتا چلتا ہے کہ ان میں چھپنے والا تمام مواد مدیر کی نظر سے گزرتا تھا۔
مدیر ہی اس کا تمام تر ذمے دار ہوتا تھا اور وہی گیٹ کیپر گردانا جاتا تھا۔ اخبار
میں خبروں، مضامین ،کالموں یا اداریے کی صورت میں جو کچھ چھپتا تھا، اس کا ذمہ دار
مدیر ہی ہوتا تھا اوراس دورمیں بالعموم مالک ہی مدیرہوتا تھا۔ اس لیے
کسی ایرے غیرےکا دباؤ خاطر میں نہیں لاتاتھا کہ فلاں خبر چھاپ دے یا فلاں کے حق
میں مضمون لکھے اور فلاں کے حق میں نہیں۔ اداریہ نویسی میں بھی مدیر خود مختار
ہوتا تھا۔
( گذشتہ صدی کے اوائل کا قصہ ہے ۔مولانا ابوالکلام آزاد ( الہلال اور
البلاغ) ،مولانا ظفر علی خان ( زمیندار اور مولانا محمد علی جوہر( کامریڈ اور
ہمدرد )،ان کے معاً بعدمولانا غلام رسول مہر ، عبدالمجید سالک ،شورش کاشمیری اور چراغ حسن حسرت ایسے مدیر اور لکھاری تھے کہ ان کے زور قلم سے ایسی
ایسی ادارتی تحریریں منصۂ شہود پر آتی
تھیں کہ ایک تہلکہ مچ جاتا تھا۔ ان کی انقلاب آفرین تحریر
یں لوگوں کو گرما دیتی تھی اور یہی نہیں انگریز سرکار فعال ہوتی اور ان کے اخبارات
ضبط کر لیے جاتے ۔حکومت کی دم پر جب زیادہ شدت سے پاؤں آتاتو پھر پریس بھی ضبط کر
لیا جاتا اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار کا پریس تو کئی مرتبہ ضبط ہوا ۔اوّل
الذکر تینوں شخصیات کو ان کی تحریروں اور تقاریر کی پاداش میں کئی
مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں لیکن انھوں نے حق بیانی کو شعار
بنایا اور جو وہ قوم کے لیے درست سمجھتے تھے،انھوں نے وہی لکھا۔
قیام
پاکستان کے بعد پھر ایک دور ایسا آیا کہ مالک اور مدیر الگ الگ ہو
گئے۔البتہ آج کے مقابلے میں یہ فرق ضرور تھا کہ اخبار کا مالک سب کچھ
ہوتا تھا لیکن وہ ادارتی امور میں مداخلت نہیں کرتا تھا ۔پاکستان کے اوائل
میں پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اس کی مثالیں ہیں کہ ان کے مالک نے کبھی ادارتی
امور میں مداخلت نہیں کی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت نے ان اخبارات کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ 1960ءکےعشرے
میں روزنامہ مشرق نکلا ۔اس سے پہلے کوہستان کا ولولہ تھا ۔مشرق پر بھی صدر ایوب خان کی حکومت نے شب خون مارا اورقبضے میں لے لیا اور پھر ان اخبارات
میں جو کچھ چھپتا ،وہ حکومت وقت کی مدح
سرائی ہوتا۔ یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ حکومتِ وقت کے خلاف ان اخبارات میں کوئی چیز چھپ سکے ۔خبریں کچھ اس انداز کی ہوتی تھیں ؛صدر نے فلاں کہا،
وزیراعظم نے فلاں کہا ،وہ فلاں وزیر وہاں گیا، اس نے یہ کیا۔ فلاں وزیر کس وقت کس
علاقے کا دورہ کرے گا ،فلاں فلاں تاریخ کو وہ کہاں جائے گا ۔وغیرہ ۔و علیٰ ہٰذاالقیاس
۔بس اس قسم کی خبریں ہوتی تھیں اور اس دوران میں جسے ہم آج ترقیاتی صحافت کہتے ہیں،
اس کا وجود نہیں تھا ۔البتہ ترقیاتی صحافت اتنی تھی کہ حکومت کے جاری
کردہ یا زیرتکمیل منصوبوں کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا ۔حکومت اپنی مزعومہ
کامیابیوں کاجشن مناتی تو کئی کئی روز تک اس کےحق میں ایڈیشن چھپتے تھے۔جنرل ضیاء
الحق کے دور میں بھی ٹرسٹ کے اخبارات اور نام کے آزاد اخبارات کا یہی چلن رہا تھا۔
1990ء
کے عشرے میں ’’محدود‘‘ جمہوری دور شروع ہوا تو اخبارات کوبھی تھوڑی بہت آزاد ی ملی۔حکومت کی تحویل میں
اخبارات یاتو خسارے میں ہونے کی وجہ سے بند ہوگئے یا انھیں دوسرے اخباری مالکان نے خرید
کرلیا۔اس دور میں کئی ایک نئے اخبارات نکلے اور پرانے اخبارات نے بھی
نئے طرز میں اپنی اشاعت شروع کی۔ ان کے درمیان لاہور ہو یا کراچی مسابقت کا ایک دور شروع ہوا کیونکہ
اس زمانے میں لاہور اور کراچی ہی دو بڑے اشاعتی مراکز تھے ۔وہاں سے چھپنے
والے اخبارات میں روزنامہ نوائے وقت، جنگ، مشرق ،حریت ،پاکستان ٹائمز اور اور ڈان
نمایاں تھے۔اسلام آباد سے پہلی مرتبہ دوقومی اخبارات پاکستان اور خبریں نے سال
ڈیڑھ سال کے وقفے میں نوے ہی عشرے میں اشاعت
شروع کی ۔ اس کے بعد دوسرے اخبارات اوصاف ، ایکسپریس نیوز ،الاخبار
،پاکستان آبزور وغیرہ نے بھی وفاقی دارالحکومت سے اپنی اشاعت شروع کردی تھی جبکہ روزنامہ
جنگ پہلے سے راول پنڈی سے شائع ہورہا تھا۔
سنہ 2000
کی دہائی کے آغاز تک انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت ابلاغ عامہ اور ماس میڈیا کی دنیا مکمل تبدیل ہوچکی تھی۔
نئی صدی کے آغاز پر ٹیلی ویژن چینلوں کا دور شروع ہوا پاکستان میں اخبارات کے
مالکان اور ان کے گروپوں ہی کو ٹیلی ویژن
چینلوں کے لائسنس دیے گئے۔ بڑے اشاعتی ادارے جنگ گروپ کو جیو نیٹ ورک
کا لائسنس ملا۔روزنامہ ڈان کو ڈان نیوز کا ایکسپریس کو ایکسپریس نیوز کے
نام سے چینل چلانے کا اجازت نامہ دیا گیا اور ستر کے قریب باقی چھوٹے بڑے چینل
منظر عام پر آئے۔ مگر ان چینلوں کے مالکان میں کوئی صابن
فروش تھا کوئی تعلیم فروش تھا اور کوئی گھی فروش اور کوئی چینی فروش۔ بہ حیثیت
مجموعی ان تمام کا مطمح نظر اپنے دوسرے ناجائز اور جائز کاروباروں کو تحفظ دینا تھا
، ٹیکس بچانا تھا یا اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرنا تھا۔اگر ان میڈیا
مالکان کی تاریخ کا کھوج لگایاجائے ،ان کے پس پردہ کارفرما یہی محرک ہوگا۔اب ان
تمام کے جتنے بھی ملکیتی چینل ہیں، اس وقت ان کی نشریات ملاحظہ کرلیں۔
92 نیوزہو یا اےآر وائی ، دنیا نیوز ہو یا 24 ہو، ان کے مالکان کو دیکھ
لیں یا ان کے پس پردہ جن لوگوں کا سرمایہ لگا ہواہے،انھیں دیکھ لیں ، وہ سب کے سب
اس ملک کے بڑے سرمایہ دار ہیں اور وہ آپ
کو اپنے سرمائے اور مفادات کا جائز و
ناجائز تحفظ کرتے نظر آئیں گے ۔اس کی ایک مثال یوں جانیے کہ پاکستان میں چینی کی پیداوار
میں ہر سال شوگر مل مالکان پانچ ارب روپے جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں کھا
جاتے ہیں۔ یعنی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اسی طرح جن کے دوسرے کاروبار ہیں وہ بھی ٹیکس
چوری کرتے ہیں یا حکومت سے ناجائز مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ڈیوٹی فری نیوز پرنٹ کی
درآمد اس کی ایک اور بڑی مثال ہے ۔اخباری مالکان اپنے اخبارات تو سیکڑوں یا پھر چند ہزار کی
تعداد میں چھاپتے ہیں لیکن باقی نیوز پرنٹ اشاعتی مارکیٹ میں بیچ کر خوب نفع کماتے
ہیں۔
مذکورہ
تمام چینلوں میں مواد کو نشر کرنے کا اختیار مالکان ہی کے پاس ہے۔
ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹربرائے نام مقرر کیےجاتے ہیں۔ ڈائریکٹر نیوز تک بے اختیار ہوتے ہیں اور وہ وہی مواد نشر کرتے ہیں یا وہی خبر دیتے ہیں جو انھیں مالکان کہتے ہیں اور
جو خبریا تحقیقی رپورٹ انھوں نے روکنا ہوتی ہے خواہ وہ عوام کے لیے کتنی ہی اہم ہو،
اسے وہ سنسر کردیتے ہیں۔ایک طرح سے وہ خود
ہی سنسر بورڈ ہیں۔اس کی ایک مثال۔پاکستان کے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور ان کا بحریہ ٹاؤن
ہے۔ بحریہ ٹاؤن اسلام آباد میں ہو،لاہور میں ہو یاکراچی میں ہو،اس کی
تاریخ لاقانونیت سے لتھڑی ہوئی ہے۔ اس نے ہر جگہ لوگوں کی زمینوں پر قبضے کیے ہیں
اور زبردستی زمینیں ہتھیائی ہیں حتیٰ کہ تاراجی کے اس عمل میں قتل تک
کیے ہیں۔ اس گروپ اور اس کے ملازمین کے خلاف نہ تو
قانون حقیقی معنوں میں حرکت میں آیا ہےاور نہ ہی کسی چینل
میں ہمت ہوتی ہے کہ اس کے خلاف کوئی خبر دے سکے ۔حد تو یہ کہ اگر سپریم کورٹ
میں ملک ریاض یا بحریہ ٹاؤن کے خلاف کوئی مقدمہ زیر سماعت ہوتا ہے،ان کے خلاف کوئی آرڈر پاس ہوتا ہے تو یہ چینل اس کی خبر بھی
نشرنہیں کرتے اور اخبارات بھی شائع نہیں کرتےہیں ۔
تویہ ہےہمارے یہاں اخبارات اور ٹی وی چینلوںمیں گیٹ کیپر کا کردار۔ایسے گیٹ کیپر ہیں کہ پوری پوری خبر ہی گول کرجاتے ہیں۔نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
سوشل میڈیا میں گیٹ کیپر کون؟۔۔۔(1)
امتیازاحمد
وریاہ
ابلاغِ عامہ کی اصطلاح میں گیٹ کیپنگ
ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت میڈیا کے ذریعےعوام تک پہنچنے والی اطلاعات اورمعلومات
کو فلٹر کیا جاتا ہے۔ اس میں ان پیغامات کا انتخاب اور تیار ی شامل ہے جو مخصوص
معیاروں کی بنیاد پرناظرین اور سامعین تک پہنچتے ہیں ، جیسے خبروں کی قدر ، مطابقت
، اور نظریہ۔ گیٹ کیپنگ مختلف عوامل سے متاثر ہوتی ہے ۔ان میں تنظیمیں ، سامعین وناظرین ،خود میڈیا ادارے اور ان کی پالیسی، اور معاشرتی اور سیاسی سیاق و
سباق شامل ہیں۔ گیٹ کیپنگ حقیقت کے بارے میں عوام کے تصور کومتشکل کرتی ہے اور
میڈیا کے ایجنڈا ترتیب دینے کے کام کو متاثر کرتی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم معلومات کی نمائش اور رسائی کا تعین کرکے گیٹ کیپر کے طور پر کام کرسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے استعمال ہونے والے الگورتھم صارف کے طرز عمل اور پلیٹ فارم کی پالیسیوں سے متاثر ہوتے ہیں ، جو ہمارے آن لائن تجربات کو شکل دے سکتے ہیں۔مثال کے طور پر ، سوشل میڈیا پلیٹ فارم مخصوص قسم کے مواد کو دوسروں پر ترجیح دینے کے لیے الگورتھم کا استعمال کرسکتے ہیں ، جو حقیقت کے بارے میں عوام کے تصور کو متاثر کرسکتے ہیں اور نقطہ نظر اور تجربات کے تنوع کو محدود کرسکتے ہیں جن کی نمائندگی کی جاتی ہے۔ یہ الگورتھم گیٹ کیپنگ غلط معلومات کے پھیلاؤ اور انتہا پسند انہ خیالات کی توسیع کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
تاہم ، سوشل میڈیا کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ متنوع آوازوں اور متبادل نقطہ نظر کو سننے کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی فراہم کرسکتا ہے۔صارفین کو اپنا مواد بنانے اور شیئر کرنے کے قابل بنا کر ، سوشل میڈیا روایتی گیٹ کیپنگ طریقوں کو چیلنج کرسکتا ہے اور زیادہ جمہوری میڈیا منظر نامے کو فروغ دے سکتا ہے۔ سوشل میڈیا گیٹ کیپنگ کے طریقوں کو تقویت اور چیلنج دونوں کرسکتا ہے۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ممکنہ تعصبات اور حدود سے آگاہ ہو کر، ہم زیادہ جامع اور باخبر میڈیا ماحول پیدا کرنے کی سمت میں کام کر سکتے ہیں لیکن جب سوشل میڈیا کے بڑے پلیٹ فارموں کے مالکان ہی آڑے آجائیں تو کیا کیا جاسکتا ہے۔اس کا حالیہ مظہر غزہ پر اسرائیل کے نسل کشی کے حملے کے بعد سامنے آیا ہے۔
ابلاغِ عامہ کے سیاق و سباق میں "گیٹ کیپر" کی اصطلاح سے مراد ایسے افراد یا ادارے ہیں جو عوام تک پہنچنے سے پہلے مختلف چینلز کے ذریعے معلومات کے بہاؤ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ عوامی گفتگو کو تشکیل دینے، رائے کو متاثر کرنے اور میڈیا کے منظر نامے میں مخصوص معیارات کو برقرار رکھنے میں گیٹ کیپرز کا کردار انتہائی اہم ہے۔ عوامی ابلاغ میں گیٹ کیپر کے کردار کے کچھ اہم پہلو یہ ہیں:
ادارتی فیصلہ سازی: ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز خبروں کے انتخاب، جگہ اور پریزنٹیشن کے بارے میں فیصلے کرکے گیٹ کیپر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ ادارتی زاویے کا تعین کرتے ہیں، جگہ یا ایئر ٹائم مختص کرتے ہیں، اور تصور کردہ اہمیت کی بنیاد پر خبروں کو ترجیح دیتے ہیں۔
میڈیا ایجنڈا : گیٹ کیپرز کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ عوامی بحث کےلیے ایجنڈا طے کریں کہ کون سے مسائل کو وسیع پیمانے پر کوریج ملنی چاہیے۔ وہ کچھ موضوعات کو اجاگر کرکے اور دوسروں کو نیچا دکھا کر عوامی تصورات کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔سنسرشپ اور مواد پر کنٹرول: کچھ معاملات میں، گیٹ کیپر ز رضاکارانہ طور پر یا بیرونی دباؤ کی وجہ سے سنسرشپ میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ حکومتیں، مشتہرین، ارباب اقتدار وسیاست یا دیگر اسٹیک ہولڈرز مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے گیٹ کیپرز پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، جس سے میڈیا ممکنہ تعصب یا محدود معلومات کے بہاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ اخلاقی معیارات کو برقرار رکھنا: گیٹ کیپر میڈیا انڈسٹری کے اندر اخلاقی معیارات کو برقرار رکھنے کے ذمے دار ہیں. وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کیا شائع یا نشر ہونے والا مواد صحافتی اصولوں کی پاسداری کرتا ہے، رازداری کا احترام کرتا ہے، سنسنی پھیلانے سے گریز کرتا ہے، اور واقعات کی متوازن نمائندگی کرتا ہے۔
کوالٹی کنٹرول: گیٹ کیپر مواد کے مجموعی معیار کو برقرار رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ معلومات کی صحت ودرستی کا جائزہ لیتے ہیں، ذرائع کی تصدیق کرتے ہیں، اور سامعین کے سامنے اچھی طرح سے تحقیق شدہ اور متوازن خبریں یا مواد پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سامعین وناظرین کا خیال: گیٹ کیپر اپنے ہدف سامعین کی ترجیحات اور دلچسپیوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ناظرین ، قارئین ، یا سامعین کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے مواد تیار کرتے ہیں ، جس کا مقصد مؤثر طریقے سے انھیں مشغول اور مطلع کرنا ہے۔تکنیکی تبدیلیاں: ڈیجیٹل دور میں، گیٹ کیپر ز بھی نئی ٹیکنالوجیوں اور پلیٹ فارمز سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نبرد آزما ہیں۔ انھیں سوشل میڈیا، صارف کے ذریعے تیار کردہ مواد، اور 24/7 نیوز سائیکل کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے بدلتے ہوئے میڈیا کے منظرنامے کے مطابق ڈھلنا ہوگا۔
خلاصہ کلام یہ کہ ابلاغ عامہ میں گیٹ کیپرز کے کردار کو سمجھنا عوامی تصورات کو تشکیل دینے ، شفافیت کو فروغ دینے اور وسیع سامعین تک معلومات کی ذمہ دارانہ ترسیل کو یقینی بنانے میں ان کے اثر و رسوخ کو اجاگر کرتا ہے۔
(جاری ہے)
x
آزادیِ اظہار رائے اور پاکستان؛ کچھ زمینی حقائق
امتیازاحمد وریاہ
اظہارِ رائے کی آزادی، جسے تقریر کی آزادی بھی کہا جاتا ہے، ایک بنیادی انسانی حق ہے۔اس میں سنسرشپ یا روک تھام کے بغیر آزادانہ طور پر اپنے خیالات، رائے اور معلومات کا اظہار کرنے کی آزادی شامل ہے۔ یہ حق انسانی حقوق کی مختلف بین الاقوامی دستاویزات اورپاکستان سمیت بہت سے اقوام کے دساتیر میں درج ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں کو حکومت کی انتقامی کارروائیوں یا غیر منصفانہ پابندیوں کے خوف کے بغیر اپنے نقطہ نظر کو واضح کرنے، معلومات کا تبادلہ کرنے اور کھلے مکالمے میں مشغول یا شریک ہونے کی آزادی دی جائے۔
اس تعریف اور تعارف کے تناظر میں اگرپاکستان میں آزادی ِ اظہار کی صورت حال کاجائزہ لیا جائے تو ہر دوپہلو سے کوئی حوصلہ افزا تصویر سامنے نہیں آتی ہے۔وہ یوں کہ ارباب اقتدار وسیاست نے صحافیوں کو اپنی جکڑبندیوں میں جکڑ رکھا ہے،ان پر طرح طرح کی قدغنیں عاید کررکھی ہیں جبکہ مٹھی بھر صحافی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی اظہاررائے کا استعمال کررہے ہیں۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان صحافیوں کا رجحان طبع طرفین کی سیاسی جماعتوں کی طرف ہے۔ایک صحافی اگر جماعت الف یعنی پاکستان مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی یا اس کے اتحادیوں کا حامی ہے تو وہ جماعت ب یعنی پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کے خوب لتے لے رہا ہے۔بعض تو صحافیوں سے زیادہ سیاسی لیڈروں کے آلہ کار اور بھونپو زیادہ نظر آتے ہیں۔جب ان ہردوفریق صحافیوں کے پسندیدہ سیاسی لیڈر کے خلاف کوئی عدالت ، عظمیٰ یا عالیہ ، کوئی فیصلہ صادر کرتی ہے تو متاثرہ گروہ کا حامی صحافتی طبقہ معزز جج صاحبان کے لتے لینا شروع کردیتا ہے۔سیاسی کارکنان نما صحافی حضرات سوشل میڈیا پر بالخصوص بازاری اور سوقیانہ زبان کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرتے ۔وہ یہ سب کچھ اظہارِرائے کی آزادی کے نام پر کرتے ہیں۔جب ان کے خلاف قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں تو متاثرہ گروہ آزادیِ اظہار کا غلغلہ بلند کرتا ہے۔پاکستان میں یہ صورت حال گذشتہ چند برسوں کے دوران میں پیدا ہوئی ہے اور اب تو نوبت بہ ایں جا رسید کہ ایک فریق دوسرے فریق کی ماں بہن ایک کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے۔اس صورت حال میں دستور پاکستان اور اقوام متحدہ کے منشور کی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آزادی ِ اظہار رائے کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم۔اس کے عوامل کیا ہوتے ہیں؟کون ، کون متعلقہ فریق ہوتا ہے اور یہ شہریوں اور اربابِ اقتدار پر کیا کچھ ذمے داریاں عاید کرتی ہے۔
اگرچہ اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے ، لیکن یہ مطلق نہیں ہے اوریکساں طور پر اہم حقوق جیسے عوامی تحفظ، قومی سلامتی، اور دوسروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ حدود عاید کی جا سکتی ہیں۔ آزادی ِاظہار کے حق کو دیگر سماجی مفادات کے ساتھ متوازن کرنا ایک مسلسل چیلنج ہے جو مختلف قانونی نظاموں اور ثقافتی سیاق و سباق میں مختلف ہوتا ہے۔
آرٹیکل 19 انسانی حقوق کے مختلف بین الاقوامی معاہدوں میں موجود ایک دفعہ ہے ۔ان میں انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (یو ڈی ایچ آر) Universal Declaration of Human Rights اور شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدہ (آئی سی سی پی آر) شامل ہیں۔ یہ خاص طور پر رائے اور اظہار رائے کی آزادی کے حق سے متعلق ہے۔
انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (یو ڈی ایچ آر):
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1948 میں یو ڈی ایچ آر کو منظور کیا تھا۔اس کے آرٹیکل 19 میں کہا گیا ہے:
’’ہر ایک کو رائے اور اظہار رائے کی آزادی کا حق ہے۔ اس حق میں بغیر کسی مداخلت کے رائے رکھنے اور کسی بھی میڈیا کے ذریعے اور سرحدوں سے قطع نظر معلومات اور خیالات کی تلاش، وصولی اور فراہم کرنے کی آزادی شامل ہے‘‘۔
شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدہ (آئی سی سی پی آر):
سنہ 1966 میں منظور کردہ آئی سی سی پی آر میں اضافی تفصیل کے ساتھ آرٹیکل 19 بھی شامل ہے۔اس کے تین اہم نکات ہیں:
1۔ ہر ایک کو بغیر کسی مداخلت کے رائے رکھنے کا حق ہوگا۔
2۔ ہر ایک کو اظہار ِرائے کی آزادی کا حق حاصل ہوگا۔ اس حق میں سرحدوں سے قطع نظر، زبانی طور پر، تحریری یا پرنٹ میں، آرٹ کی شکل میں، یا اپنی پسند کے کسی دوسرے میڈیا کے ذریعے ہر قسم کی معلومات اور خیالات کو تلاش کرنے، وصول کرنے اور فراہم کرنے کی آزادی شامل ہوگی۔
3۔ اس آرٹیکل کے پیراگراف 2 میں فراہم کردہ حقوق کا استعمال اس کے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمے داریوں کو بھی عاید کرتا ہے۔ لہٰذا، یہ کچھ پابندیوں کے تابع ہوسکتا ہے، لیکن یہ صرف وہی ہوں گی جو قانون کے ذریعے نافذالعمل کی جاتی ہیں اور یہ ان وجوہ کی بنا پر ناگزیر ہیں:
(الف) دوسروں کے حقوق یا ساکھ کے احترام کے لیے؛
(ب) قومی سلامتی یا امن عامہ یا عوامی صحت یا اخلاقیات کے تحفظ کے لیے۔
اس سے واضح ہے کہ آرٹیکل 19 جمہوری معاشروں میں رائے اور اظہار رائے کی آزادی کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ یہ متنوع رائے رکھنے کے حق اور ابلاغ کی مختلف شکلوں کے ذریعے معلومات اور خیالات کی تلاش، وصولی اور فراہم کرنے کی آزادی کو تسلیم کرتا ہے۔ تاہم ، یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ مخصوص مقاصد کے لیے قانون کی حدود کے اندر کچھ قدغنیں عاید کی جاسکتی ہیں ، جیسے دوسروں کے حقوق کا تحفظ یا عوامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنا۔
آئین پاکستان میں بھی آرٹیکل 19 آزادیِ اظہار رائے اور معلومات کے حق سے متعلق ہے اور یہ آزادی ِ اظہار سے متعلق کچھ بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اس میں شہریوں کے حقوق کا خاکا پیش کیا گیا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 کا متن یہ ہے:
دفعہ 19: اظہار رائے کی آزادی وغیرہ۔
(1) ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہو گا اور(یہ آزادی ) اسلام کی شان و شوکت یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، بیرونی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ یا دفاع کے مفاد میں قانون کی طرف سے عاید کردہ کسی بھی معقول پابندی سے مشروط ہو گی۔ شائستگی، یا اخلاقیات، یا توہین عدالت، (کمیشن) یا کسی جرم کے لیے اُکسانے کے سلسلے میں۔
(2) ہر شہری کو عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہوگا جو قانون کے ذریعہ عاید ضابطوں اور معقول پابندیوں سے مشروط ہوگا۔
یہ آرٹیکل شہریوں کے لیے اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ پریس کی آزادی کے حق کو یقینی بناتا ہے۔ تاہم یہ آزادیاں اسلام کی عظمت، پاکستان کی سالمیت اور دفاع، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، شائستگی، اخلاقیات اور توہین عدالت سمیت مختلف پہلوؤں کے مفاد میں معقول پابندیوں کے تابع ہیں۔ مزید برآں ، یہ عوامی اہمیت کے معاملات میں معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے شہریوں کے حق کو تسلیم کرتا ہے ، جو قانون کے ذریعہ عاید کردہ قواعد و ضوابط اور معقول پابندیوں سے مشروط ہے۔
اسی طرح پریس کی آزادی سے مراد حکومت کی مداخلت، سنسرشپ یا کنٹرول سے پریس کی آزادی اور آزادی کی اجازت دینے اور اس کی حفاظت کرنے کا تصور ہے۔ یہ ایک بنیادی اصول ہے جو صحافیوں اور میڈیا تنظیموں کے حق کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ خبروں کی رپورٹنگ کریں، رائے کا اظہار کریں، اور غیر ضروری پابندیوں کے بغیر معلومات کو پھیلائیں۔ پریس کی آزادی کو جمہوری معاشرے کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ میڈیا کو واچ ڈاگ کے طور پر کام کرنے، شہریوں کو درست اور متنوع معلومات فراہم کرنے اور اقتدار میں موجود افراد کا احتساب کرنے کے قابل بناتا ہے۔
ایک آزاد پریس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حکومت کے کنٹرول، سیاسی اثر و رسوخ یا غیر ضروری تجارتی دباؤ سے آزاد ہے۔ تکثیریت یا متنوع میڈیا کے منظر نامے میں آوازوں اور نقطہ نظر کے تنوع کو یقینی بناتی ہے۔ ایک آزاد پریس کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ صحافیوں کو ان کے کام کی بنا پر ہراساں کرنے، دھمکیوں، تشدد یا قانونی انتقام سے تحفظ مہیا کیا جائے گا۔ صحافیوں کو سنسرشپ یا ظلم و ستم کے خوف کے بغیر کام کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پریس کی آزادی باخبر عوامی گفتگو کو فروغ دینے، خیالات کے تبادلے کو آسان بنانے اور حکومتی طاقت پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ایک صحت مند اور متحرک جمہوریت کے کام کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ایک آزاد پریس عوامی مفاد، بدعنوانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر معاملات کی تحقیقات اور رپورٹنگ کے ذریعے حکومتوں، سرکاری عہدےداروں اور اداروں کو جوابدہ بنانے میں مدد کرتا ہے۔پریس کی آزادی کو اکثر قانونی فریم ورک کی حمایت حاصل ہوتی ہے جو صحافیوں اور میڈیا تنظیموں کو سنسرشپ یا قانونی کارروائیوں سے بچاتے ہیں ۔ ان قانونی تحفظ میں آئینی ضمانتیں، صحافیوں کے ذرائع کا تحفظ کرنے والے قوانین اور ہتک عزت کے قوانین شامل ہوسکتے ہیں جو اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کو متوازن کرتے ہیں۔
دنیا کے ممالک میں پریس کی آزادی کا باقاعدگی سے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز اور فریڈم ہاؤس جیسی تنظیموں کی طرف سے جائزہ لیا جاتا ہے ، جو دنیا بھر میں پریس کی آزادی کی حالت کا اندازہ لگانے کے لیے سالانہ رپورٹس اور اشاریے شائع کرتے ہیں۔صحافیان ماورائے سرحد’’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘‘ (آر ایس ایف) کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق 2021 میں پاکستان 180 ممالک میں 145 ویں نمبر پرتھا۔ یہ 2020 کے مقابلے میں معمولی بہتری تھی ، جب پاکستان 147 ویں نمبر پر تھا۔ تاہم، پاکستان کو اب بھی پریس کی آزادی کے لیے بہت سے چیلنجوں اور خطرات کا سامنا ہے، ان میں سنسرشپ، ہراسانی، تشدد، اور قانونی پابندیاں نمایاں عوامل ہیں۔ پاکستان 2022ء میں دنیا کے 180 ممالک میں 157 ویں نمبر پر تھا اور2023ء میں 150 ویں نمبر پر تھا اور تنظیم کے اشاریے میں پاکستان کا اسکور 39٫95 تھا۔یہ صحافیوں اور میڈیا کے لیے مشکل صورت حال کی نشان دہی کرتا ہے۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق آزادیِ صحافت کی مضبوط روایت رکھنے والے ممالک اکثر ایک کھلے اور متنوع میڈیا منظر نامے کی خصوصیت رکھتے ہیں ، جبکہ پریس پر پابندیاں جمہوری حکمرانی اور انسانی حقوق کے لیے چیلنجوں کی نشان دہی کرسکتی ہیں۔
خلاصۂ کلام ؛اظہار رائے کی آزادی کی کچھ حدود یہ ہیں:
* قانونی پابندیاں: اظہارِ رائے کی آزادی مطلق نہیں ہے ، اور یہ کچھ قانونی پابندیوں کے تابع ہے جس کا مقصد دوسروں کے حقوق اور ساکھ کا تحفظ کرنا ، امن عامہ اور قومی سلامتی کو برقرار رکھنا ، اور تشدد یا نفرت کو بھڑکانے سے روکنا ہے۔ ان پابندیوں کا قانون کے ذریعے اطلاق کیا جانا چاہیے، ضروری اور متناسب، اور قانونی بنیادوں پر مبنی ہونا چاہیے۔
* سماجی اقدار اور دباؤ: اظہار رائے کی آزادی کو سماجی اصولوں اور دباؤ سے بھی محدود کیا جاسکتا ہے جو اظہار کی کچھ شکلوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں یا سزا دیتے ہیں ، جیسے تنقید ، اختلاف رائے ، یا طنز۔ یہ اصول اور دباؤ خوف، سیلف سنسرشپ، یا ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرسکتے ہیں، اور معاشرے میں رائے اور آوازوں کے تنوع اور کثرتیت کو کمزور کرسکتے ہیں۔
* ڈیجیٹل چیلنجز: اظہارِ رائے کی آزادی کو ڈیجیٹل دور میں نئے چیلنجز کا سامنا ہے ، جیسے آن لائن سنسرشپ ، نگرانی ، غلط معلومات ، اور سائبر حملے۔ یہ چیلنجز آن لائن معلومات اور ابلاغ کی رسائی، معیار اور حفاظت کو متاثر کرسکتے ہیں، اور افراد اور گروہوں کی رازداری، سلامتی اور وقار کے لیے خطرات پیدا کرسکتے ہیں۔
Enhance Your Writing Skills: Harnessing the Power of AI Tools
There
are many Artificial Intelligence (AI) tools that can help you improve your writing
skills or blog post in diverse ways. Some of the benefits of using AI tools
are:
- You
can write better posts with AI tools that check your spelling, grammar, tone,
and style.
- You
can blog about what people want to read with AI tools that suggest topics,
keywords, and outlines for your posts.
- You
can engage readers more with AI tools that personalize your content and
recommend related posts.
- You
can find more readers for your blog with AI tools that identify your target
audience and optimize your content for search engines.
- You
can scale your blog and create more posts with AI tools that generate content
from scratch or rewrite existing content.
Some of
the best AI tools for blog post improvement are:
- Copy.ai:
A versatile AI blog post generator that creates high-quality listicles, how-to
articles, and thought leadership pieces for your blog. It also has a chat tool
that helps you write your first draft or specific paragraphs within a post.
- Writesonic:
An AI writer that helps you produce SEO-optimized and plagiarism-free articles.
It also has a landing page generator, a headline generator, and a content
rephraser.
- Jasper:
An AI article generator that writes original, SEO-friendly content. It also has
a content assistant, a content planner, and a content analyzer.
- Peppertype.ai:
An AI content generator that helps you create engaging and catchy content for
your blog, social media, and email campaigns. It also has a blog idea
generator, a blog intro generator, and a blog title generator.
- Copysmith:
An AI copywriter that helps you write persuasive and creative copy for your
blog, website, ads, and emails. It also has a blog outline generator, a slogan
generator, and a tagline generator.
- Article
Forge: An AI content creator that writes high-quality and unique articles for
your blog in minutes. It also has a content spinner, a keyword tool, and WordPress
integration.
These
are just some of the AI tools that can help you improve your blog post with AI.
You can try them out and see which ones suit your needs and preferences. I hope
this helps you create amazing blog posts with AI.
The pricing of
these AI tools varies depending on the features, plans, and usage. Here is a
brief summary of the pricing of each tool:
- Copy.ai: Starts at $49/month billed monthly
or $36/month billed yearly and includes unlimited words. There is also a
free plan with a 2,000-word monthly limit.
- Writesonic: Starts at
$29/month billed monthly or $25/month billed yearly and includes 75
credits per month. Each credit can generate up to 400 words. There is also
a free plan with 10 credits per month.
- Jasper: Starts at $99/month billed monthly
or $79/month billed yearly and includes unlimited words and access to all
features. There is also a free plan with a 3,000-word monthly limit.
- Peppertype.ai: Starts
at $39/month billed monthly or $29/month billed yearly and includes
unlimited words and access to all features. There is also a free plan with
a 3,000-word monthly limit.
- Copysmith: Starts at
$19/month billed monthly or $16/month billed yearly and includes 50
credits per month. Each credit can generate up to 50 words. There is also
a free plan with 10 credits per month.
- Article Forge: Starts
at $57/month billed monthly or $27/month billed yearly and includes
unlimited words and access to all features. There is no free plan
available.
I hope this
helps you compare the pricing of these AI tools and choose the one that fits
your budget and needs.
References:
(1) 6
Best AI Blog Post Generators for 2023 | Copy.ai.
https://www.copy.ai/blog/ai-blog-post-generators.
(2) 14
AI Tools to Help You Grow Your Blog - HubSpot Blog.
https://blog.hubspot.com/marketing/ai-tools-grow-blog.
(3) 11
BEST AI Writing Software Tools for Bloggers in 2024.
https://johneengle.com/blog/ai-writing-software/.
مصنوعی ذہانت کی پاکستانی سیاست پر تخلیق کردہ دو نظمیں
Ø AI
has authored this satirical poem on Pakistani politics. Here is what AI produced:
Pakistani politics is a game of thrones
Where the players are kings, queens, and drones
They fight for power, wealth, and fame
But they don't care about the people's pain
They make promises, alliances, and deals
But they break them as soon as they feel
That they can gain more by switching sides
Or by spreading lies and creating divides
They claim to be champions of democracy
But they act like dictators and aristocracy
They manipulate the media and the courts
And they silence the voices of dissent and reports
They blame each other for the country's woes
But they are all part of the same status quo
They are the puppets of foreign masters
And they are the cause of the nation's disasters
پاکستانی
سیاست تخت و اقتدار کا اِک کھیل ہے
جہاں
کھلاڑی بادشاہ ، ملکہ ، اور ماتر ہیں
وہ
طاقت ، دولت ، اور شہرت کے لیے لڑتے ہیں
لیکن
وہ عوام کے درد کی پروا نہیں کرتے
-------
وہ
وعدے ، اتحاد ، اور معاہدے کرتے ہیں
لیکن
وہ انھیں توڑ دیتے ہیں جیسے ہی وہ محسوس کرتے ہیں
کہ
وہ طرف بدل کر زیادہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں
یا
جھوٹ اور فرقہ واریت پھیلا کر
------
وہ
جمہوریت کی دلیل دیتے ہیں
لیکن
وہ آمرانہ انداز اور اشرافیہ کی طرح کام کرتے ہیں
وہ
میڈیا اور عدالتوں کو تحریک کرتے ہیں
اور
وہ اختلاف اور رپورٹوں کی آوازوں کو خاموش کرتے ہیں
--------
وہ
ایک دوسرے کو ملک کے مصائب کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں
لیکن
وہ سب ایک ہی حالت کا حصہ ہیں
وہ
غیر ملکی سامراج کے کٹھ پتلی ہیں
اور
وہ قوم کے لیے آفات و بلیات کا سبب ہیں
اب دوسری نظم ملاحظہ کیجیے۔ یہ چیٹ جی پی ٹی کی
تخلیق کردہ ہے:
In the land
of the pure, so they say,
Politics
dances in a peculiar way,
Where
leaders vie for power and fame,
Playing a
never-ending, twisted game.
In
Islamabad's corridors of power,
Schemes are
hatched by the hour,
Promises
made, alliances formed,
While the
common man's voice is scorned.
The rulers
sit in their ivory towers,
Counting
their wealth by the hours,
Ignoring the
cries of the poor,
As they
revel in luxury galore.
Corruption
thrives in every nook,
Like a
disease in an open book,
Bribes and
kickbacks, the norm of the day,
While
justice and honesty are led astray.
The media
sings a different tune,
Swayed by
agendas, like a puppet on a spoon,
Spreading
propaganda, twisting the truth,
Feeding the
masses with lies, uncouth.
But amidst
this chaos, there's a glimmer of hope,
A silent
revolution, a way to cope,
For the
people have the power to change,
To demand
accountability, to rearrange.
So, let's
rise up, oh people of the land,
And
together, let us take a stand,
Against the
corruption, the greed, the lies,
For a better
future, under the Pakistani skies.
پاک سرزمین کے نام ، یوں کہتے ہیں
سیاست ایک عجیب طرح سے ناچتی ہے
جہاں رہنماؤں کی طاقت اور شہرت کی کوشش ہوتی ہے
ایک کبھی ختم نہ ہونے والا ، مڑا ہوا کھیل کھیلتے
ہیں
-----------
اسلام آباد کی اقتدار کی راہ داریوں میں
ہر گھنٹے سازشیں پیدا ہوتی ہیں
وعدے کیے جاتے ہیں ، اتحاد بنائے جاتے ہیں
جبکہ عام آدمی کی آواز کو نظرانداز کیا جاتا ہے
---------
حاکمان اپنے کانچ کے محلوں میں بیٹھے ہوتے ہیں
گھنٹوں کے حساب سے اپنی دولت گنتے ہیں
غریبوں کی چیخوں کو نظرانداز کرتے ہیں
جبکہ وہ خود عیش و عشرت میں مست ہوتے ہیں ۔
--------------
رشوت خوری ہر کونے میں پھیلی ہوئی ہے
ایک کھلی کتاب میں، ایک بیماری کی طرح
رشوت اور کمیشن ، دن کا معمول ہے
جبکہ انصاف اور ایمانداری کو گمراہ کیا جاتا ہے
------------
میڈیا ایک مختلف راگ الاپتا ہے
ایجنڈوں سے متاثر ہوکر ، ایک چمچے پر کٹھ پتلی کی
طرح
پروپیگنڈا پھیلاتا ہے ، حقیقت کو مروڑتا ہے ،
جہل کے ساتھ جھوٹے ، بے ہودہ کو کھلاتا ہے
--------
لیکن اس افراتفری کے بیچ ، ایک امید کی کرن ہے
ایک خاموش انقلاب ، نمٹنے کا ایک طریقہ
کیونکہ لوگوں کے پاس تبدیلی لانے کی طاقت ہے
ذمہ داری کا مطالبہ کرنے کے لیے، نظم دوبارہ ترتیب دینے کے لیے
----------
تو آئیے اٹھیں ، اے پاک سرزمین کے لوگو
اور ساتھ مل کر ، ہم ایک مؤقف لیں
رشوت خوری ، لالچ ، جھوٹ کے خلاف ،
ایک بہتر مستقبل کے لیے ، پاکستانی آسمانوں کے نیچے
فیچرپوسٹ
رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار
امتیازاحمد وریاہ اگر آپ شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں ، وہاں رونما ہونے والے تشدد...
مقبول تحریریں
-
امتیازاحمدوریاہ کیا دنیا فیک نیوز کی آماج گاہ ہے ؟اگر موجودہ عالمی ،ابلاغی اور سیاسی منظرنامے میں اس سوال پر غور کیا جائے تو اس کا جواب ہے:...
-
امتیاز احمد وریاہ پیارے پڑھنے والو!جناب مرزا جہلمی اجہل الجاہلین اور آفت کا پرکالہ ہیں۔ جو بات پورا مضمون ثبت کرنے کے بعد ...
-
تہران میں واقع پاسداران انقلاب ایران کے مہمان خانہ کی غیرمصدقہ تصویر۔اسی عمارت میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہَنیہ 31 جولائی کو مبیّنہ بم د...
-
امتیازاحمدوریاہ آج کل سوشل میڈیا پر مسلم مفکرین ،فلاسفروں اور دانشوروں کے بارے میں بہت سی غیر مصدقہ تحریریں خوب پھیلائی جارہی ہیں۔طرفین موضو...
-
امتیازاحمد وریاہ یہ ہمارا جون شریف کا بجلی کا بل ہے۔اس مہینے بجلی کے دیگر آلات کے علاوہ شدید گرمی سے بچنے کے لیے روزانہ چند گھنٹے اے سی چل...