اگر
ہم میڈیا کی موجودہ چکاچوند کے مقابلے میں ماضی میں شائع ہونے والےاخبارات کاجائزہ
لیں تو پتا چلتا ہے کہ ان میں چھپنے والا تمام مواد مدیر کی نظر سے گزرتا تھا۔
مدیر ہی اس کا تمام تر ذمے دار ہوتا تھا اور وہی گیٹ کیپر گردانا جاتا تھا۔ اخبار
میں خبروں، مضامین ،کالموں یا اداریے کی صورت میں جو کچھ چھپتا تھا، اس کا ذمہ دار
مدیر ہی ہوتا تھا اوراس دورمیں بالعموم مالک ہی مدیرہوتا تھا۔ اس لیے
کسی ایرے غیرےکا دباؤ خاطر میں نہیں لاتاتھا کہ فلاں خبر چھاپ دے یا فلاں کے حق
میں مضمون لکھے اور فلاں کے حق میں نہیں۔ اداریہ نویسی میں بھی مدیر خود مختار
ہوتا تھا۔
( گذشتہ صدی کے اوائل کا قصہ ہے ۔مولانا ابوالکلام آزاد ( الہلال اور
البلاغ) ،مولانا ظفر علی خان ( زمیندار اور مولانا محمد علی جوہر( کامریڈ اور
ہمدرد )،ان کے معاً بعدمولانا غلام رسول مہر ، عبدالمجید سالک ،شورش کاشمیری اور چراغ حسن حسرت ایسے مدیر اور لکھاری تھے کہ ان کے زور قلم سے ایسی
ایسی ادارتی تحریریں منصۂ شہود پر آتی
تھیں کہ ایک تہلکہ مچ جاتا تھا۔ ان کی انقلاب آفرین تحریر
یں لوگوں کو گرما دیتی تھی اور یہی نہیں انگریز سرکار فعال ہوتی اور ان کے اخبارات
ضبط کر لیے جاتے ۔حکومت کی دم پر جب زیادہ شدت سے پاؤں آتاتو پھر پریس بھی ضبط کر
لیا جاتا اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار کا پریس تو کئی مرتبہ ضبط ہوا ۔اوّل
الذکر تینوں شخصیات کو ان کی تحریروں اور تقاریر کی پاداش میں کئی
مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں لیکن انھوں نے حق بیانی کو شعار
بنایا اور جو وہ قوم کے لیے درست سمجھتے تھے،انھوں نے وہی لکھا۔
قیام
پاکستان کے بعد پھر ایک دور ایسا آیا کہ مالک اور مدیر الگ الگ ہو
گئے۔البتہ آج کے مقابلے میں یہ فرق ضرور تھا کہ اخبار کا مالک سب کچھ
ہوتا تھا لیکن وہ ادارتی امور میں مداخلت نہیں کرتا تھا ۔پاکستان کے اوائل
میں پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اس کی مثالیں ہیں کہ ان کے مالک نے کبھی ادارتی
امور میں مداخلت نہیں کی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت نے ان اخبارات کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ 1960ءکےعشرے
میں روزنامہ مشرق نکلا ۔اس سے پہلے کوہستان کا ولولہ تھا ۔مشرق پر بھی صدر ایوب خان کی حکومت نے شب خون مارا اورقبضے میں لے لیا اور پھر ان اخبارات
میں جو کچھ چھپتا ،وہ حکومت وقت کی مدح
سرائی ہوتا۔ یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ حکومتِ وقت کے خلاف ان اخبارات میں کوئی چیز چھپ سکے ۔خبریں کچھ اس انداز کی ہوتی تھیں ؛صدر نے فلاں کہا،
وزیراعظم نے فلاں کہا ،وہ فلاں وزیر وہاں گیا، اس نے یہ کیا۔ فلاں وزیر کس وقت کس
علاقے کا دورہ کرے گا ،فلاں فلاں تاریخ کو وہ کہاں جائے گا ۔وغیرہ ۔و علیٰ ہٰذاالقیاس
۔بس اس قسم کی خبریں ہوتی تھیں اور اس دوران میں جسے ہم آج ترقیاتی صحافت کہتے ہیں،
اس کا وجود نہیں تھا ۔البتہ ترقیاتی صحافت اتنی تھی کہ حکومت کے جاری
کردہ یا زیرتکمیل منصوبوں کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا تھا ۔حکومت اپنی مزعومہ
کامیابیوں کاجشن مناتی تو کئی کئی روز تک اس کےحق میں ایڈیشن چھپتے تھے۔جنرل ضیاء
الحق کے دور میں بھی ٹرسٹ کے اخبارات اور نام کے آزاد اخبارات کا یہی چلن رہا تھا۔
1990ء
کے عشرے میں ’’محدود‘‘ جمہوری دور شروع ہوا تو اخبارات کوبھی تھوڑی بہت آزاد ی ملی۔حکومت کی تحویل میں
اخبارات یاتو خسارے میں ہونے کی وجہ سے بند ہوگئے یا انھیں دوسرے اخباری مالکان نے خرید
کرلیا۔اس دور میں کئی ایک نئے اخبارات نکلے اور پرانے اخبارات نے بھی
نئے طرز میں اپنی اشاعت شروع کی۔ ان کے درمیان لاہور ہو یا کراچی مسابقت کا ایک دور شروع ہوا کیونکہ
اس زمانے میں لاہور اور کراچی ہی دو بڑے اشاعتی مراکز تھے ۔وہاں سے چھپنے
والے اخبارات میں روزنامہ نوائے وقت، جنگ، مشرق ،حریت ،پاکستان ٹائمز اور اور ڈان
نمایاں تھے۔اسلام آباد سے پہلی مرتبہ دوقومی اخبارات پاکستان اور خبریں نے سال
ڈیڑھ سال کے وقفے میں نوے ہی عشرے میں اشاعت
شروع کی ۔ اس کے بعد دوسرے اخبارات اوصاف ، ایکسپریس نیوز ،الاخبار
،پاکستان آبزور وغیرہ نے بھی وفاقی دارالحکومت سے اپنی اشاعت شروع کردی تھی جبکہ روزنامہ
جنگ پہلے سے راول پنڈی سے شائع ہورہا تھا۔
سنہ 2000
کی دہائی کے آغاز تک انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت ابلاغ عامہ اور ماس میڈیا کی دنیا مکمل تبدیل ہوچکی تھی۔
نئی صدی کے آغاز پر ٹیلی ویژن چینلوں کا دور شروع ہوا پاکستان میں اخبارات کے
مالکان اور ان کے گروپوں ہی کو ٹیلی ویژن
چینلوں کے لائسنس دیے گئے۔ بڑے اشاعتی ادارے جنگ گروپ کو جیو نیٹ ورک
کا لائسنس ملا۔روزنامہ ڈان کو ڈان نیوز کا ایکسپریس کو ایکسپریس نیوز کے
نام سے چینل چلانے کا اجازت نامہ دیا گیا اور ستر کے قریب باقی چھوٹے بڑے چینل
منظر عام پر آئے۔ مگر ان چینلوں کے مالکان میں کوئی صابن
فروش تھا کوئی تعلیم فروش تھا اور کوئی گھی فروش اور کوئی چینی فروش۔ بہ حیثیت
مجموعی ان تمام کا مطمح نظر اپنے دوسرے ناجائز اور جائز کاروباروں کو تحفظ دینا تھا
، ٹیکس بچانا تھا یا اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرنا تھا۔اگر ان میڈیا
مالکان کی تاریخ کا کھوج لگایاجائے ،ان کے پس پردہ کارفرما یہی محرک ہوگا۔اب ان
تمام کے جتنے بھی ملکیتی چینل ہیں، اس وقت ان کی نشریات ملاحظہ کرلیں۔
92 نیوزہو یا اےآر وائی ، دنیا نیوز ہو یا 24 ہو، ان کے مالکان کو دیکھ
لیں یا ان کے پس پردہ جن لوگوں کا سرمایہ لگا ہواہے،انھیں دیکھ لیں ، وہ سب کے سب
اس ملک کے بڑے سرمایہ دار ہیں اور وہ آپ
کو اپنے سرمائے اور مفادات کا جائز و
ناجائز تحفظ کرتے نظر آئیں گے ۔اس کی ایک مثال یوں جانیے کہ پاکستان میں چینی کی پیداوار
میں ہر سال شوگر مل مالکان پانچ ارب روپے جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں کھا
جاتے ہیں۔ یعنی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اسی طرح جن کے دوسرے کاروبار ہیں وہ بھی ٹیکس
چوری کرتے ہیں یا حکومت سے ناجائز مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ڈیوٹی فری نیوز پرنٹ کی
درآمد اس کی ایک اور بڑی مثال ہے ۔اخباری مالکان اپنے اخبارات تو سیکڑوں یا پھر چند ہزار کی
تعداد میں چھاپتے ہیں لیکن باقی نیوز پرنٹ اشاعتی مارکیٹ میں بیچ کر خوب نفع کماتے
ہیں۔
مذکورہ
تمام چینلوں میں مواد کو نشر کرنے کا اختیار مالکان ہی کے پاس ہے۔
ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹربرائے نام مقرر کیےجاتے ہیں۔ ڈائریکٹر نیوز تک بے اختیار ہوتے ہیں اور وہ وہی مواد نشر کرتے ہیں یا وہی خبر دیتے ہیں جو انھیں مالکان کہتے ہیں اور
جو خبریا تحقیقی رپورٹ انھوں نے روکنا ہوتی ہے خواہ وہ عوام کے لیے کتنی ہی اہم ہو،
اسے وہ سنسر کردیتے ہیں۔ایک طرح سے وہ خود
ہی سنسر بورڈ ہیں۔اس کی ایک مثال۔پاکستان کے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور ان کا بحریہ ٹاؤن
ہے۔ بحریہ ٹاؤن اسلام آباد میں ہو،لاہور میں ہو یاکراچی میں ہو،اس کی
تاریخ لاقانونیت سے لتھڑی ہوئی ہے۔ اس نے ہر جگہ لوگوں کی زمینوں پر قبضے کیے ہیں
اور زبردستی زمینیں ہتھیائی ہیں حتیٰ کہ تاراجی کے اس عمل میں قتل تک
کیے ہیں۔ اس گروپ اور اس کے ملازمین کے خلاف نہ تو
قانون حقیقی معنوں میں حرکت میں آیا ہےاور نہ ہی کسی چینل
میں ہمت ہوتی ہے کہ اس کے خلاف کوئی خبر دے سکے ۔حد تو یہ کہ اگر سپریم کورٹ
میں ملک ریاض یا بحریہ ٹاؤن کے خلاف کوئی مقدمہ زیر سماعت ہوتا ہے،ان کے خلاف کوئی آرڈر پاس ہوتا ہے تو یہ چینل اس کی خبر بھی
نشرنہیں کرتے اور اخبارات بھی شائع نہیں کرتےہیں ۔
تویہ ہےہمارے یہاں اخبارات اور ٹی وی چینلوںمیں گیٹ کیپر کا کردار۔ایسے گیٹ کیپر ہیں کہ پوری پوری خبر ہی گول کرجاتے ہیں۔نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں