امتیازاحمد وریاہ
اردو ایک لشکری زبان ہے اور یہ مختلف زبانوں کے ملاپ سے
معرض وجود میں آئی تھی۔ اس کے قواعد ان ہی
زبانوں سے مستعار تھے جن کے الفاظ کے
ذخیرے کو اس نے اپنے دامن میں سمیٹا تھا۔کوئی
بھی زبان وقت گزرنے کے ساتھ اپنے راستے خود بناتی ہے اور اس کے زندہ رہنے کو اس
اصول سے جانچا جاتا ہے کہ اس میں ابلاغ کی صلاحیت کتنی ہے اور کیا جن لوگوں نے اس
کو ذریعہ اظہار بنایا ہے،ان میں اس کا موثر ابلاغ ہو رہا ہے۔
اردو زبان کی ابتدا عربی ،فارسی ،ہندی، پنجابی اور سنسکرت
زبانوں کی آمیزش سے ہوئی تھی۔ چناں چہ اس کے قواعد انہی زبانوں کے قواعد کی بنیاد یا طرز پر مرتب کیے گئے تھے اور پھر
وقت گزرنے کے ساتھ ان میں تبدیلیاں کی گئیں۔
اس وقت دستیاب مواد میں میر انشاء
اللہ خان انشا کی دریائے لطافت اردو قواعد پر پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ اس میں انھوں نے اردو گرامر کے اصول بیان کیے
ہیں۔ یہ انیسویں صدی کے بالکل ابتدائی دور کا قصہ ہے۔ اس وقت فارسی کا سرکاری
دفتروں میں چلن تھا۔اس لیے اس دور کی اردوکی عام تحریروں میں بھی فارسی کے علاوہ عربی
الفاظ بہ کثرت ملتے ہیں لیکن اس وقت سے ہی اردو کے مؤیدین اور مشتہرین نے اس کو
دوسری زبانوں سے پاک رکھنے،نامانوس،مغلق اور گنجلک الفاظ کے بجائے سادہ الفاظ کو
رواج دینے کی کوششیں شروع کردی تھی۔[1]انھوں
نے املا اور رموز اوقاف کے قواعد وضع کیے اور دہلی اور لکھنؤ کا روزمرہ اور
محاورہ اردو لکھاوٹ کا معیار قرار پایا۔ انیسویں
صدی کے نصف دوم میں شائع ہونے والے اخبارات میں مسجع اور مقفیٰ عبارت لکھنے کا
رواج عام تھا۔اس کی ایک مثال لکھنؤ سے منشی نول کشور کی ادارت میں شائع ہونے والا
اوَدھ اخبار ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں سیاسی اتھل پتھل جاری تھی اور اس کے اثرات صحافت پر مرتب ہوئے تھے۔اس دور میں مزاحمتی صحافت نے نیا رخ اختیار کیا اور مدیران اور لکھاریوں نے مرصع عبارت آرائی کے ساتھ سلاست اور روانی کو اپنا شعار بنایا تا کہ عام لوگوں تک ان کی بات پہنچ سکے اور وہ بخوبی اس بات کو سمجھ سکیں مگر اس کے باوجود اردو املا اور قواعد کا خیال رکھا جاتا تھا۔مولانا ابوالکلام آزادؒ [2] کے اخبارات البلاغ اور الہلال، مولانا محمد علی جوہرؒ کا ہمدرد اور مولانا ظفر علی خانؒ کا زمیندار اس کی بہترین مثالیں ہیں۔اوّل الذکر دونوں اخبار پڑھے لکھے اردو داں طبقے کے ترجمان سمجھے جاتے تھے۔زمیندار خالص عوامی اخبار تھا مگر اس نے اپنی عوامیت کے باوجود خبروں ،اداریوں اور مضامین میں املا کا حتی الامکان خیال رکھا جاتا تھا۔معروف صحافی جمیل اطہر[3] راوی ہیں کہ ایک مرتبہ کسی سب ایڈیٹر نے کسی کے انتقال کی خبر میں لفظ ''فوتیدگی'' لکھ دیا تھا۔صرف اس ایک لفظ پر ہی مولانا نے اس سب ایڈیٹر کو دفتر سے نکال دیا تھا۔یہ صاحب کوئی اور نہیں مولانا کے سگے بھانجے راجا مہدی علی خان تھے۔
قیام پاکستان کے
بعد ابتدائی برسوں میں شائع ہونے والے اخبارات میں املا حتی کہ رموز اوقاف کا خیال
رکھا جاتا تھا۔پھر جیسے جیسے عربی اور فارسی جاننے ،پڑھنے اور لکھنے والے کم ہوتے
گئے،اردو صحافت بھی زبان وبیان کے اعتبار سے رو بہ زوال ہوتی گئی۔۔اس عرصے کے
دوران میں اردو کے محققین اور اخبارات کے مدیروں سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ وہ املا
کے اصولوں پر متفق ہوئے اور نہ انھوں نے یہ اصول مرتب کیے تاکہ صحافی ان کی
پاسداری کرتے ہوئے ان اصولوں کے مطابق املا لکھتے۔اب نوبت بہ ایں جا رسید ایک قاری
کو ایک ہی اخبار یا ویب گاہ میں الفاظ کا
مختلف املا پڑھنے کو ملتا ہے۔روزمرہ اور محاورے کا خیال نہیں رکھاجاتا ہے۔خبروں
،تحاریر ،اداریوں ،کالموں اور مضامین میں انگریزی الفاظ کی آمیزش عام ہے۔جن الفاظ
کے مترادفات مستعمل ہیں،انھیں بھی انگریزی میں لکھا جارہا ہے۔انگریزی زبان کے نئے
نئے الفاظ اور تراکیب کو اردو میں ڈھالنے سے پہلوتہی کی جاتی ہے۔اگر کوئی صحافی
اپنے تئیں یہ کام کرتا بھی ہے تو دوسرے اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔
اردو صحافت کے برعکس انگریزی زبان میں شائع ہونے والے اخبارات میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔کسی انگریزی لفظ کے غلط سلط ہجے یا غلط تراکیب کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انگریزی زبان میں مواد پیش کرنے والے مغربی خبر رساں اداروں رائٹرز ،ایجنسی فرانس پریس(اے ایف پی) ، ایسوسی ایٹڈ پریس اور بی بی سی وغیرہ نے املا اور رموز اوقاف کے لیے اپنے اپنے رہ نما اصول اور مینول مرتب کر رکھے ہیں۔ان پر وقتی ضروریات کے مطابق نظرثانی کی جاتی ہے اور نئے الفاظ کو ان میں جگہ دی جاتی ہے۔ان مینولوں میں صحافیوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کون سا لفظ کیسے لکھیں ؟ جگہوں کے ناموں کو کیسے لکھا جائے گا مگر بد قسمتی سے قیام پاکستان کے کوئی چھہتر سال (2024ء) کے بعد بھی اردو اخبارات اور الیکٹرانک یا آن لائن میڈیا کے مدیران اور ان کی تنظیمیں ایسے کسی مینول کو وضع اور مرتب نہیں کرسکے ہیں کہ جس پر سب کا اتفاق ہو اور تمام اخبارات اور جرائد میں اس کے مطابق الفاظ کا یکساں املا لکھا جائے۔
[3] ایڈیٹر روزنامہ جرآت وتجارت لاہور
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں