meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: بریمن کے موسیقار

Empowering Through Media Literacy

بریمن کے موسیقار



ترجمہ: امتیازاحمدوریاہ

"بریمن کے موسیقار" ایک جرمن لوک کہانی ہے۔یہ  گریم  برادران  کے پریوں کی کہانیوں کے مجموعے میں شامل ہے۔اس مجموعے کا عنوان "گریم کی پریوں کی کہانیاں" ("گریم کی مارخین") ہے۔ گریم ، جیکب اور ولہیلم گریم برادران ، جرمن اسکالر اور کہانی کار تھے۔انھوں نے 19 ویں صدی کے دوران میں یورپ کی  لوک کہانیوں کو جمع کیا اور شائع کیا تھا۔ بریمن کے موسیقاروں کی کہانی  اُن بہت سی روایتی لوک کہانیوں میں سے ایک ہے جو انھوں نے اپنے مجموعے میں شامل کی ہیں۔

گریم   برادران نےیورپی لوک اور پریوں کی کہانیوں کو محفوظ کرنے اور مقبول بنانے میں اہم  کردار ادا کیا تھا۔ ان کا مجموعہ  پہلی بار 1812 میں شائع ہوا تھا ۔اس میں سنڈریلا ، اسنو وائٹ ، ہینسل اور گریٹل اور بہت سے دیگر  مشہور کہانیاں شامل ہیں۔ ’’دی موسیقار آف بریمن‘‘ ایک مزاحیہ اور دل کو چھو لینے والی کہانی ہے جس میں چار جانوروں ۔۔۔۔ گدھے،  کُتے،  بلی اور  مُرغے – کے   دل چسپ سفر کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔ان کے  مالکان ان  سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن قبل اس کے کہ وہ  اس کو عملی جامہ پہناتے ،ان چاروں نے اپنے اپنے مالک سے گلوخلاصی کا فیصلہ کیا اور وہ  موسیقار بننے کے لیے بریمن کے سفر پرچل نکلے ۔ اس کہانی میں بھائی چارے، وسائل کی کمی اور پسماندہ طبقے کی فتح کے موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔اس کی ادبی افادیت  اور دل چسپ اندازکے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر ہے۔ملاحظہ کیجیے:


 ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔ایک گدھے نے موسیقار بننے کے لیے بریمن جانے کا فیصلہ کیا۔ راستے میں اس کی ملاقات ایک کُتّے سے ہوئی ۔وہ افسردہ نظر آ رہا تھا۔

’’پیارے کُتّے کیا ہوا ‘‘۔گدھے نے اس سے پوچھا۔

’’کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا ‘‘۔کُتّے نے جواب دیا ۔

آپ میرے ساتھ آؤ  اور موسیقار بن جاؤ۔ گدھے نے اس کو پیش کش کی۔ ’’میں گٹار بجاؤں گا اور تم  ڈھول پیٹ سکتے ہو ‘‘۔

پھر وہ دونوں  اپنے  سفر پر چل  دیے۔ وہ دونوں سڑک پر چلتے جا رہے تھے۔ اس دوران میں  ان کی ملاقات ایک بلی سے ہوئی۔ وہ بھی افسردہ تھی۔  گدھے نے اس سے پوچھا:’’ بلی بی کیا ماجرا پیش آیا ۔اتنی افسردہ کیوں   نظر آ رہی   ہو‘‘۔ اس نے بھی وہی جواب دیا۔’’ کوئی مجھ سے پیار و محبت نہیں کرتا‘‘۔ ’’اچھا تو پھر آؤ ہمارے ساتھ بریمن  چلو اور تم بھی موسیقار  بن جاؤ‘‘۔ گدھے نے اس  کو پیش کش کی  اور اس کو بتایا :’’میں گٹار بجاؤں گا، کتا  ڈھول پیٹے گا اور تم وائلن بجا سکتی ہو‘‘۔

 بلی بھی ان کے ہمراہ ہولی۔ انھوں نے اپنی منزل کی جانب سفر شروع کر دیا ۔راستے میں تینوں کی ملاقات ایک  مُرغے سے ہوئی ۔اس کا بھی وہی مسئلہ تھا۔ تینوں   نے اس سے پوچھا:’’ بھائی مُرغے کیا ہوا‘‘ ۔وہ بولا:’’ کوئی مجھ سے محبت نہیں کرتا ‘‘۔گدھے نے اس کو بھی پیش کش کی۔ آؤ  ہمارے ساتھ بریمن چلو اور تم بھی موسیقار بن جاؤ ۔گدھے نے اس کو مزید بتایا :’’میں گٹار بجاؤں گا ،کتا ڈھول پیٹے گا، بلی وائلن بجائے گی اور تم گانا     گا سکتے ہو‘‘۔

پھر وہ  چاروں  اپنی منزل کی جانب چل پڑے۔ انھیں سفر کرتے رات ہو گئی ۔وہ اندھیرے میں چلتے جا رہے تھے۔ اس  دوران میں وہ ڈاکوؤں کے گھر کے قریب جا پہنچے۔ گدھے نے کھڑکی میں سے جھانکا ۔’’تم کیا دیکھ سکتے ہو ‘‘۔ کُتّے ،بلی اور مرغے نے اپنے ساتھی سے ایک ساتھ پوچھا ۔’’ کمرے میں بہت سا کھانا پڑا ہے‘‘۔ گدھے نے انھیں بتایا۔اور کیا کیا ہے؟ دوسروں  نے مزید پوچھا ۔’’چار ڈاکو اپنا رات کا کھانا کھا رہے ہیں’’۔ گدھے نے جواب دیا ۔

اس کے بعد ان چاروں جانوروں نے ڈاکوؤں تک پہنچنے کا منصوبہ بنایا ۔گدھا  اپنے سموں پر کھڑکی کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ کتا گدھے کی پیٹھ پر سوار ہوا ،بلی کُتّے کی کمر پر چڑھی اور مرغ بلی کے سر پر پنجوں کے بل کھڑا ہو گیا ۔پھر انھوں نے اپنی اپنی  آوازیں نکالنا شروع کر دیں۔ وہ میاؤں میاؤں، ککڑوں کوں ، ککڑوں کوں  اور ڈھینچوں  ڈھینچوں  کرنے  لگے۔ پھر وہ اچانک کھڑکی سے گر پڑے ۔ڈاکو  ان کی آواز وں سے  ایسے خوف زدہ    ہوئے  کہ وہاں  سے  بھاگ نکلے۔ پھر کیا تھا۔ گدھا، کتا، بلی اور مرغا کمرے میں داخل ہوئے اور کھانے پر ٹوٹ پڑے ۔انھوں  نے خوب سیر ہو کر  کھانا کھایا اور پھر وہ سونے کے لیے اپنے اپنے بستر کی جانب چل پڑے۔ گدھے کو  باہر صحن میں تنکے پڑے ملے۔ کتا دروازے کے پیچھے نیم دراز ہو گیا ۔بلی آگ کے نزدیک لیٹ گئی۔ مرغا چھت پر چڑھ گیا ۔تھوڑی ہی دیر میں وہ چاروں  خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے لگے۔

جب رات کافی گزر چکی تو ایک ڈاکو واپس اپنے گھر میں آیا۔ اس نے  ماچس  سے آگ  جلانے  کی کوشش کی لیکن بلی نے وہاں اس پر  اپنی نظریں  گاڑ  رکھی تھی ۔وہ ڈاکو پر  حملہ آور  ہو گئی اور اس کے چہرے پر پنجے گاڑ دیے ۔ڈاکو پیچھے مڑا تو کُتّے نے اس کی ٹانگ اپنے مُنھ میں  داب  لی۔ وہ اس سے ٹانگ چھڑا کر بھاگ  نکلا  اور صحن میں  آیا تو گدھے نے اس کے  دولتی رسید کر دی۔ مُرغے نے جب یہ سب منظر دیکھا  تو  اس نے اونچی آواز میں اذان دینا شروع کر دی ؛ککڑوں کوں، ککڑوں کوں۔ ڈاکو   ایسا خوف زدہ ہوا کہ  وہاں سے  اپنی جان بچا کر بھاگا اور اپنے دوستوں کے پاس لوٹ آیا اور  ہانپتے کانپتے ہوئے بولا:’’ گھر میں کوئی چڑیل ہے اس نے میرا چہرہ نوچ لیا ہے‘‘۔ اس نے چلّاتے ہوئے انھیں بتایا :’’وہاں چاقو سے مسلح ایک  شخص بھی ہے۔ اس نے میری ٹانگ میں چاقو  گھونپ  دیا اور صحن میں ایک دیو ہے۔ اس نے مجھے ڈنڈے سے پیٹا ہے اور وہاں کوئی جج بھی موجود ہے جو مجھے چلّا کر یہ کَہ  رہا تھا میں تجھے جیل کوٹھڑی میں بند کر   دوں  گا ۔

دوسرے ڈاکو اس کی کہانی سن کر ایسے خوف  زدہ ہوئے کہ  وہاں سے بھاگ  نکلے۔ پھر وہ کبھی  اپنے گھر لوٹ  کر نہیں آئے   اور  گدھا، کتا، بلی اور مرغا کبھی وہاں سے  بریمن نہیں گئے۔ وہ وہیں ہنسی خوشی رہنے لگے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں