meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: اکتوبر 2024

Empowering Through Media Literacy

گوگل یا بنگ پر پی ڈی ایف کتاب کیسے تلاش کریں؟

 امتیازاحمدوریاہ

اگلے روز راقم نے کتاب چہرہ (فیس بُک) پر گوگل یا دوسرے سرچ انجن کی مدد سے پی ڈی ایف میں کتب یا مضامین میں تلاش کرنے کے لیے ایک نسخہ شیئر کیا تھا۔دنیا جہاں  کی کتب  کی تلاش کے لیے یہ ایک بڑا کارآمد نسخہ ہے۔اگر آپ کتب بینی کے شوقین ہیں لیکن معاشی مشکلات کے پیش نظر اپنی پسندیدہ کتابوں کو خرید  کرنے سے قاصر ہیں تو  یہ  نسخہ بس پھر آپ ہی کے لیے  ہے۔اس کی مدد سے آپ کوئی  بھی کتاب تلاش کرسکتے ہیں۔اگر وہ انٹر نیٹ پر موجود ہوئی ،خواہ اس کو  کسی نے کانواں لِٹ  یا تلونڈی  بھنڈراں سے اپ لوڈ کیا ہوتو آپ کو فراہم ہوجائے گی۔

اس کا طریق   کار یہ ہے  کہ آپ اپنی مطلوبہ کتاب کا نام کاموں میں لکھیں؛ انورٹڈ کامے۔اس کے بعد کولن اور سپیس دیں،پھر فائل ٹائپ ڈاٹ پی ڈی ایف لکھیں۔ اردو اور انگریزی میں دودو مثالیں ملاحظہ کیجیے:

“Mass Communication Living in a Media World”: filetype.pdf

“Introduction to Mass Communication”: filtype.pdf

: file type.pdf‏’’پھر مارشل لا آگیا ‘‘‏

: file type.pdf‏’’ابلاغ عام ‘‘‏

 یوں کتاب جس بھی ویب سائٹ پر ہوگی یا جہاں بھی ہوگی ، اس کی تفصیل سامنے آجائے گی اور اس کو ڈاؤن لوڈ کرلیجیے۔

مثال کے طور اسی کتاب [پھر مارشل آگیا] کو جب اس نسخے کی مدد سے تلاش کیا گیا تو گوگل کے پہلے صفحے پر یہ نتائج سامنے آئے:

بنگ کے پہلے صفحے پر یہ نتائج ظاہر ہوئے۔اس  سے اسی موضوع پر انٹر نیٹ پر دستیاب دوسری کتب کے بارے میں بھی معلومات مل جاتی ہیں۔

اس سے یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ یہ کتاب کس شہر میں اور کس کتب خانے میں موجود ہے۔اگر کسی کتاب  کی نیٹ پر پی ڈی ایف فائل دستیاب نہیں تو اس کے بارے میں یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ وہ پرنٹ شکل میں کس کتب فروش ادارے کے پاس دستیاب ہے اور وہاں سے کتنی رقم میں خرید کی جاسکتی ہے یا کیسے منگوائی جاسکتی ہے۔

دوم، اگر آپ کسی موضوع پر  پی پی ٹی (پاورپوائنٹ) فائل کی تلاش میں ہیں  تو  مذکورہ بالا  لنک میں پی ڈی ایف کی جگہ  انگریزی میں  پی پی ٹی لکھ دیں تو   وہ فائل دستیاب ہوجائے گی۔نیز یہ بھی پتا چل جاتا ہے کس ویب سائٹ پر  فائل مفت میں دستیاب  ہے اور کہاں پیسے بھرنا پڑیں گے۔ہم پاکستانی کیونکہ ہمیشہ مفت کی تلاش میں ہوتے ہیں ،اس لیے یہ  کارآمد نسخے ہمارے ہی لیے ہیں۔انھیں  آزمائیے اور اپنی پسندیدہ کتب سے بھرپور استفادہ  کیجیے۔

شوگر اور امراضِ قلب کا تریاق ’ تُلسی‘کے حیرت انگیز طبّی فوائد وخواص


طالبُ الحکمت

تُلسی (Tulsi) ایک خوشبودار جڑی بوٹی ہے ۔ یہ عام طور پر  بھارت اور پاکستان میں پائی جاتی ہے اور اسے مقدس تُلسی (Holy Basil) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سنسکرت میں اسے "تُلسی"  کا نام  دیا گیا تھا۔اس کا مطلب  ایسی چیز ہے جو" لاجواب" ہو۔ تُلسی کو آیورویدک  طب یعنی طبِ  مشرق  میں صدیوں سے اہم مقام حاصل ہے اور اسے مختلف طبی فوائد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تُلسی کو قدیم زمانے سے ہی  ہندوستان  میں  ایک مفید جڑی بوٹی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اور یہ قدرتی طور پر مختلف بیماریوں سے بچاؤ اور علاج میں مؤثر ثابت ہوتی ہے۔

’فرہنگِ آصفیہ‘ میں لفظ  تُلسی کے  تحت لکھا ہے کہ یہ اسم مؤنث ہے اور ایک پودے کا نام ہے جسے ہندو لوگ پوجتے اور متبرک سمجھتے ہیں ۔اس میں اس کو ریحان ،بالنگو اور نیازبو بھی قرار دیا گیا ہے ۔مزاجاً اوّل درجے میں گرم دوسرے میں خشک مفید ہے اور اس کا گھر میں رکھنا حشرات الارض جیسے کھٹملوں ،جوؤں اور مچھروں وغیرہ کو نیست و نابود کرتا ہے۔اس کی  دوسری تفصیل یہ لکھی  ہے کہ یہ ایک عورت کا نام ہے جس پر کرشن جی عاشق تھے اور اسے انھوں نے تُلسی کا پودا بنا دیا تھا۔اسی میں تلسی دانہ بھی لکھا ہے جو اسم مذکر ہے اور ایک زیور کا نام ہے۔ہندومذہب میں اس کے متبرک ہونے کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ بچوں کے نام تُلسی کے سابقے کے ساتھ رکھتے ہیں،جیسے تُلسی رام ،تُلسی داس ، تُلسی دیو ،تُلسی رائے چودھری ، تُلسی سنگھ ایسے نام  عام ہیں۔

 تُلسی کے طبی فوائد:

1۔ مدافعتی نظام  کی مضبوطی:

   تُلسی میں اینٹی آکسیڈنٹ اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات ہوتی ہیں جو  ہماری قوتِ  مدافعت  اور  بہ الفاظ  دیگر جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہیں۔ اس کا روزانہ استعمال بیماریوں سے بچنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

2۔ تناؤ اور ذہنی دباؤ میں کمی:

   تُلسی میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ مرکبات ذہنی دباؤ ، تناؤ اور اضطراب کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اسے چائے کی صورت میں پینے سے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔

3۔ سانس کی بیماریوں کا علاج:

 تُلسی کے پتے  نظامِ تنفس کو بہتر بنانے میں مددگار ہوتے ہیں۔تُلسی کو سانس کی بیماریوں جیسے کھانسی، نزلہ، زکام اور دمہ کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تُلسی کی پتیاں چبانے سے بلغم میں کمی ہوتی ہے اور سانس کی نالیاں کھلتی  ہیں۔

4۔ امراضِ قلب میں  مفید:

   تُلسی میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ خون میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرتے ہیں اور دل کی بیماریوں سے بچاؤ میں  اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

5۔ معدے کے مسائل کا حل:

 تُلسی کو ہاضمہ بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ گیس، بدہضمی اور قبض جیسے مسائل کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ تُلسی کے پتے اور بیج معدہ کی بیماریوں کےعلاج میں مددگارثابت ہوئے ہیں۔ 

6۔ ذیابیطس  پرقابو پانے میں مددگار:

   تُلسی کی پتیاں خون میں شوگر کی سطح کو متوازن رکھنے میں مدد  دیتی ہیں، جس سے ذیابیطس کے مریضوں کو فائدہ ہوتا ہے۔

7۔ جلد کی حفاظت:

   تُلسی کا استعمال جلد کے مسائل جیسے مہاسے، دانے اور  سوزش کو کم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تُلسی کا پیسٹ چہرے پر لگانے سے جلد صاف اور تروتازہ ہوتی ہے۔

 استعمال کے طریقے:

·      تُلسی کی پتیاں چبائی جا سکتی ہیں۔

·      تُلسی کی چائے بنا کر پی جا سکتی ہے۔

·      تُلسی کا رس شہد کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

·      تُلسی کا تیل بھی جلد اور بالوں کے لیے مفید ہوتا ہے۔

·      ۔ تُلسی کا پیسٹ  بنا کرچہرے پر لگایا جاسکتا ہے۔

یہاں قارئین  کے لیے مذکورہ بالا سطور میں استعمال کردہ ایک  اصطلاح اینٹی آکسیڈنٹ  کی وضاحت ہوجائے۔ اس  سے مراد ایسے مرکبات ہیں جو جسم میں موجود نقصان دہ آزاد ریڈیکلز (Free Radicals) کو ختم یا بے اثر کرتے ہیں۔ آزاد ریڈیکلز وہ غیر مستحکم مالیکیول ہوتے ہیں جو جسم کے خلیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور مختلف بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں، جیسے کہ دل کی بیماریاں، کینسر، اور بڑھاپا۔

 آسان الفاظ میں اینٹی آکسیڈنٹس وہ مادے ہیں جو جسم کے خلیوں کو نقصان سے بچاتے ہیں۔ یہ آزاد ریڈیکلز کو بے اثر کر کے جسم کو صحت مند رکھتے ہیں۔مثال کے طور پر  وٹامن سی، وٹامن ای، بیٹا کیروٹین، اور سیلینیم جیسے غذائی اجزاء اینٹی آکسیڈنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔- پھلوں، سبزیوں، چائے، گری دار میوے  اور بیجوں میں اینٹی آکسیڈنٹس کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ان کی اہمیت یہ ہے کہ اینٹی آکسیڈنٹس جسم کی قوتِ مدافعت کو بڑھانے، بیماریوں سے بچاؤ، اور خلیوں کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

کیا تُلسی اور تلخم ملنگا ایک چیز ہے؟

اس کا جواب ہے:نہیں۔ تلسی اور تلخم ملنگا (Basil seeds) دو مختلف چیزیں ہیں، اگرچہ ان کے پودے ایک ہی خاندان (Lamiaceae) سے تعلق رکھتے ہیں۔جیسا کہ مضمون کے تعارف میں ذکر کیا گیا ہے ، تلسی  کو انگریزی میں Holy Basil کہا جاتا ہے اور اس کا سائنسی نام Ocimum Tenuiflorum ہے۔ تلسی کو مقدس جڑی بوٹی کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسے عام طور پر مذہبی رسوم  اور روایتی ادویہ میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ  تلخم ملنگا (Basil Seeds) کا سائنسی نام Ocimum basilicum ہے، اور انگریزی میں اسے Sweet Basil یا Basil Seeds کہا جاتا ہے۔ تلخم ملنگا کے بیج عموماً چھوٹے اور سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں اور یہ تخم بالَنگا یا سبزہ کے بیج کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

ان دونوں میں کیا  فرق ہے؟

 تلسی کی پتیوں اور اس کے پودے کو زیادہ تر مذہبی رسومات اور  طبی مقاصد کے لیے  استعمال کیا جاتا ہے۔

تلخم ملنگا کے بیج مشروبات اور کھانوں میں استعمال کیے جاتے ہیں اور یہ صحت کے لیے فائدہ مند سمجھے جاتے ہیں، جیسے کہ ہاضمہ بہتر کرنے اور وزن کم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔اس لیے یہ دونوں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود مختلف پودے ہیں۔

Tulsi# #تلسی Holy_Basil #NaturalRemedy #AyurvedicHerbs#

Benefits of Tulsi, Tulsi for immunity, Ayurvedic herb Tulsi, Medicinal uses of Tulsi, Tulsi tea benefits

سموگ

 

احسان غنی

بارشوں، سیلاب اور  ڈینگی  کے بعد  اب سموگ نے لاہور کے باسیوں کاجینادوبھر کر رکھا ہے۔ایک کے بعد دوسری وبا پہلے سے بھی خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔بحران دربحران مگر حل کوئی  نظرنہیں آتا۔حکومت اور متعلقہ محکموں کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے کسی ایک وباکا موثر تدارک نہیں ہوسکا۔عوام کے لیے  یہ صورت حال  وبا ل  جان بن چکی ہے اور اس میں سانس لینادشوار ہورہا ہے۔انتظامیہ روایتی سستی کا مظاہرہ کررہی ہے اور وہ گمبھیر مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔کوئی پائیدارنظام نہیں جس کے تحت ان وباؤں کاسدِباب کیا جاسکے۔نظام قدرت بالکل ٹھیک چل رہا ہے۔کسی قسم کاکوئی بگاڑ نہیں ۔غلطی اور قصور ہم انسانوں کا ہے۔جب پیشگی انتظامات نہ کیے جائیں تو پھر یہی معمولی معاملات غیر معمولی بن کرتباہی وبربادی برپا کرتے ہیں۔

مون سون کی  شدید بارشوں کے بعد  جگہ جگہ کھڑے گندے پانی نے  ڈینگی مچھر کی افزا ئش میں اہم کردار ادا کیا  اور اکتوبر  کے ساتھ  ہی حالیہ برسوں کی طرح سموگ کاخطرہ سرپرمنڈلانے لگا مگر حکومت  کی  انتظامی مشینری کوئی عملی اقدام کرنے کے بجائے   صرف بڑے بڑے اعلانات کرکے عوام کوڈرارہی ہے۔ سموگ کے خاتمے کے لیے ٹھوس  اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔فضا میں سموگ ہونے کی بڑی وجوہات میں اینٹوں کے بھٹے، کوئلہ پر چلنے والی فیکٹریوں کا دھواں، سڑکوں پربے تحاشا بے ہنگم ٹریفک  اور  تجاوزات،فصلوں کی باقیات کو جلانا، دھواں چھوڑتی بسیں، رکشے،کاریں اورموٹرسائیکلیں اور جگہ جگہ جلتا ہوا کوڑاکرکٹ  ہے مگر سب سے بڑی وجہ  صفائی ستھرائی  کانظام  نہ ہونا ہے۔ساری فضا گردوغبار  سے اٹی پڑی ہے۔شہرلاہور میں چوکوں ، چوراہوں  پر ٹریفک کا شدید دباؤ ہے اور چوکوں  کے  65 پوائنٹس سموگ کابڑا سبب ہیں۔آئے  دن  مال روڈ اوردیگر شاہراہیں  احتجاج کے  سبب  بلاک ہوجاتی ہیں  اور پھر ہر طرف  ٹریفک  ہی ٹریفک نظر آتاہے لیکن  شہریوں کو درپیش  ان تمام مشکلات کاکوئی تدارک نہیں کیا جارہا ہے۔جس سے دلکش باغوں کاشہر فضائی آلودگی میں نمبرون اورسموگ کاگڑھ بن چکا ہے۔لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس اکثرخطرناک حد سے بڑھ جاتا ہے۔لاہوریوں کی جنت کو دوزخ بنادیاگیا ہے۔شہر بے مثال کواجاڑ کررکھا دیاگیا اور مزید بگاڑ زورشور سے جاری ہے۔شہر کے گردونواح میں درختوں کابے دریغ خاتمہ اور زرخیز زمین میں رہائشی کالونیاں بنائی جارہی ہیں۔ سیمنٹ اور سریے   کے ساتھ بے ڈھنگے تعمیراتی ڈھانچے   کھڑے کیے  جارہے ہیں۔ریت،مٹی بجری،سیمنٹ اور گرد وغبار سے گندگی اورسموگ دونوں میں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔

محکمہ تحفظ ماحول وموسمیاتی تبدیلی پنجاب کے اعداد وشمار کے مطابق لاہور میں 83فی صد ماحولیاتی آلودگی کی وجہ پٹرول اورڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں  ہیں۔ ان کے علاوہ موٹر سائیکلوں  کا دھواں کینسر، دمے اورسانس کی بیماریاں  پھیلنے کا سبب  بن رہا ہے۔پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی  کے نتیجے میں  ہر سال 256000اموات  ہوتی ہیں۔اسی طرح فصلوں کی باقیات جلانے سے کینسر اورسموگ پھیلاتا ہے۔ہمارے وزیر اور افسرشاہی کے اعلیٰ افسر ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر یہ بیاں داغ دیتے ہیں کہ سرحد پار سے بھارتی کسانوں کےفصلوں کی باقیات جلانے سے سموگ ہوتا ہے۔ایسا دعویٰ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے جبکہ سموگ اور فضائی آلودگی کے کنٹرول کرنے کے لیے موثر انتظامات نہیں کیے جارہے ہیں۔ماحولیاتی آلودگی اورموسمیاتی تبدیلی دنیا بھر کی اقوام کے لیے ایک  بڑاچیلنج ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلی کے  سب سے زیادہ ذمہ دار  ہیں۔صنعتی انقلاب کے بعد دھڑادھڑ فیکٹریوں اورکارخانوں نے اپنی پیدوار شروع کی توفضا میں دھواں ہی دھواں ہو گیا۔کوئلہ اور پلاسٹک کااستعمال بڑھنے سے آلودگی میں اضافہ ہوتاچلاگیا۔اب ہوش کے ناخن لینے کے بعد  ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کررہے ہیں مگرہم ابھی تک سموگ اور ڈینگی کو کنٹرول نہیں کرپائے۔لاہور سمیت صوبے بھر کے شہروں کی فضا  مسموم  ہوچکی ہے اور اس میں  عوام کا دم گھٹنا شروع ہوگیاہے۔بہت جلدیہ مضر صحت ہوا سموگ میں تبدیل ہو جائے گی۔کاربن  گیسوں  کے اخراج والی تمام فیکٹریاں، کارخانے اوراینٹوں کے بھٹے سموگ بڑھنے کاسبب ہیں۔ماحول کو  آلودہ کرنے میں سموگ اب  ایک مستقل  عنصر بن چکی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سموگ سے بچے اور بزرگ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔اس تناظر میں ہمیں ہنگامی،ٹھوس  اورمستقل بنیادوں پر جامع حکمت عملی کے تحت موثراقدامات کرنا ہوں گے۔معاشرے کے تمام طبقات کوباہم مل کر اس پیچیدہ مسئلہ کے حل کے لیے  غور وفکر کرنا ہوگا۔سول سوسائٹی،اساتذہ،علماء کرام،بااثر شخصیات ،بچوں، بڑوں، جوانوں،عورتوں سب کومسئلہ کی سنگینی سمجھانے اور اس سے نمٹنے کے بارے  میں آگاہی دینے کی  ضرورت  ہے۔اسکول،کالج اور جامعات  کے نصاب  میں موسمیاتی تبدیلی کے علاوہ  سموگ کاکورس بھی مضمون  کے طور پر متعارف کرایاجائے۔مساجد میں جمعہ کے خطبوں میں خطیب حضرات سموگ کو موضوع سخن بنائیں۔الخدمت فاؤنڈیشن، ایدھی  اور دیگر غیرسرکاری تنظیموں کا نیٹ ورک بہت وسیع ہے۔اس سلسلے میں ان کی معاونت بہت کارگرثابت ہوسکتی ہے۔عوام کی شمولیت کے بغیر سموگ، ڈینگی جیسی وباؤں پرقابو  پانا ناممکن ہے۔سموگ کی روک وتھام کے لیے کچھ اقدامات فی الفورکرنے کی ضرورت ہے۔اس ضمن  میں سڑکوں پرٹریفک کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ  بسوں کی تعداد بڑھائی جائے۔عوام کو بسوں پرسفر کرنے کی تلقین کے ساتھ سائیکل کی سواری کارواج عام کیا جائے۔انتظامیہ کے آفیسر،معزز جج صاحبان رضاکارانہ طورپر اپنی چمکتی دمکتی گاڑیوں کوگیراج میں پارک کر کے بسوں پرعدالت اوردفاتر آئیں۔سڑک پر بلاضرورت اکیلے ڈرائیونگ  پرچالان   کا نظام متعارف کرایا جائے ۔زیادہ سے زیادہ شجرکاری کی جائے۔جنگلات کارقبہ وسیع کیا جائے۔ان اقدامات کے نتیجے میں سموگ اورآلودگی میں یکدم کمی واقع ہوگی اورہم صاف ستھری فضا میں سانس لینے کے قابل ہوسکیں گے۔صاف فضا سب کے لیے بہت اہم ہے۔

دنیا کی مختلف زبانوں میں اسم ضمیر کا استعمال

 امتیازاحمد وریاہ

اردو کے بے مثل شاعر مرزا اسداللہ خان غالبؔ    کا ایک مشہور شعر ہے؎

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تُم کہ تُو کیا ہے

تمہیں کہو کہ یہ انداز ِگفتگو کیا ہے

دنیا کی مختلف ادبی روایات میں ضمائر (Pronouns) کو زبان، ثقافت اور طرزِ تحریر کے مطابق مختلف  انداز میں برتا جاتا ہے، اور دنیا کی مختلف  زبانوں اور ادبی روایات میں ان کے استعمال  کا کوئی یکساں أصول رائج نہیں ہے۔ البتہ، عمومی طور پر ضمیر کے استعمال میں چند قابل ذکررجحانات  پائے جاتے ہیں۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:

 1۔ شخصی یا ذاتی ضمیر متکلم(First-Person) کا استعمال

·      انگریزی ادب: پہلی شخصی ضمیر واحد وجمع  متکلم ("میں"، "ہم")  کا  خودنوشت، ڈائری، سوانح عمری اور جدید ناولوں میں استعمال  عام ہے۔اس کا جواز یہ  پیش کیا جاتا ہے کہ اس طرح قاری  مرکزی کردار کے ذاتی خیالات اور جذبات  کا بخوبی ادراک کرسکتا ہے اور وہ ایسی کسی تحریر کو پڑھتے ہوئے مرکزی کردار ہی میں   خود کو جذب کر لیتا ہے،بہ الفاظ دیگر اس میں ’’کھب‘‘ کررہ جاتا ہے اور اس کے رنج وآلام  کو اپنا لیتا ہےاور اس کی  ناکامیوں ، کامیابیوں کو اپنی کامرانی وناکامی سمجھنے لگتا ہے۔گاہے وہ تحریر کے مرکزی کردار کی خوشیوں  کے ساتھ  کھلکھلا  اٹھتا ہے اور گاہےاس کے مصائب کی ٹیسوں کو محسوس کرتا ہے۔یہ سب عمل محض ضمیر واحد متکلم کی بدولت ہی ممکن ہوتا ہے۔ جیسے کہ جے ڈی سیلینجر کے The Catcher in the Rye یا ورجینیا وولف کے To the Lighthouse میں "میں" کا استعمال قاری کو کردار کے قریب کر دیتا ہے۔

·      فرانسیسی اور روسی ادب: مارسل پروست کیIn Search of Lost Time یا فیودور دوستوئیفسکی کی Notes from Underground  اور ایسی بہت سی دوسری تحریروں  میں  "میں" کا استعمال ذاتی مسائل، وجودی پریشانیوں یا فلسفیانہ بحثوں کے اظہار  کے لیے کیا گیاہے۔

 2۔ تیسری شخصی ضمیر غائب  (Third-Person Pronouns)

·      یورپی کلاسیکی ادب: 19ویں صدی کے مشہور مصنفین جیسے چارلس ڈکنز یا لیو ٹالسٹائی کی تحریروں میں تیسری شخصی ضمیر  غائب ("وہ") کا  صیغہ  دیکھنے میں آتاہے۔ان  میں ایک  ثقہ  راوی (واحد غائب) کرداروں کے خیالات، احساسات اور محرکات کو بیان کرتا ہے۔ اس سے معاشرتی تصویر کو وسیع تر تناظر میں  دکھانے کا موقع ملتا ہے۔

·      مشرقی ادب: جاپانی ادب میں، جیسے یاسوناری کاواباتا یا ہاروکی مرکامی کی تحریروں میں، تیسری شخصی ضمیر  غائب کا استعمال کیا گیا ہے۔ان میں  بیانیہ اکثر غیر جذباتی اور مختصر ہوتا ہے، جس میں ضمیروں کا محتاط استعمال کرداروں کو مبہم اور غیر واضح رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

·      عربی ادب: کلاسیکی تحریریں جیسے ’’الف لیلہ و لیلہ‘‘ میں ضمیر غائب کے صیغے  میں  بیانیہ عام  ہے، لیکن عربی زبان میں ضمیر کا استعمال مغربی زبانوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے، کیونکہ اکثر ضمائر(متصل) افعال کی بناوٹ میں شامل ہوتی ہیں۔جملے کی ساخت میں بالعموم ضمیرمتصل غائب کا استعمال عام ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ضمیر منفصل کا استعمال کم ہوتا ہے۔

 3۔ صنفی شناخت پر مبنی ضمیریں

·      ہسپانوی، فرانسیسی، عربی اور ہندی جیسی زبانیں صنفی شناخت  والی سمجھی جاتی ہیں۔ان میں  اسم ضمیرکردار کی جنس کو ظاہر کرتا ہے۔ ادبی کرداروں کی شناخت میں یہ جنس بہت اہم ہو سکتی ہے، مثلاً فرانسیسی زبان میں "elle" یا عربی میں "ھو" (وہ مذکر) اور "هی (وہ مؤنث) کا استعمال۔

·      غیر جنس والی زبانیں: کچھ زبانوں جیسے ترکی، فِنِش اور چینی میں ضمائر جنس پر مبنی نہیں ہوتی ہیں۔ اس  لیے ان زبانوں کے ادب  یا تحریروں میں کرداروں کی جنس غیر واضح رہ سکتی ہے ۔اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس طرح  ادبی انداز میں زیادہ لچک پیدا ہوتی ہے۔

 4۔ ضمیر کے استعمال میں تبدیلی

·      مابعد جدیدیت اور تجرباتی ادب: جدید ادب میں ضمیر کا استعمال تجرباتی  طور پر بھی کیا گیا ہے۔ جیسے سیموئل بیکٹ کی The Unnamable یا ایتالو کالوینو کی If on a Winter's Night a Traveler میں ضمیر  کے استعمال میں  روایتی انداز میں  کہانی کہنے کے طریق  کو تبدیل کیا گیا ہے۔

·      ضمیر حاضر (Second-Person) بعض ادبی  کتب  میں ضمیر حاضر (واحد) یعنی  دوسری شخصی ضمیر ("تُم") کا استعمال کیا  گیا ہے، جیسے جے میک انیرنی کی Bright Lights, Big City یا ایتالو کالوینو کی If on a Winter's Night a Traveler میں۔ ضمیر حاضر کو اس طرح برت کر دراصل   قاری کو کہانی کا حصہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 5۔ شاعری میں  اسم ضمیر کا استعمال

·      دنیا کی بہت سی شعری روایات میں ضمیر کا استعمال علامتی اور لطیف  انداز میں کیا جاتا ہے۔ مثلاً فارسی شاعری میں "وہ" کا استعمال محبوب یا روحانی ہستیوں کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انگریزی رومانوی شاعری میں "میں" کا استعمال  محض  ذاتی تجربہ نہیں بلکہ ایک عمومی یا روحانی تجربے کو ظاہر کرتا ہے۔

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمی ادب یا تحقیقی مطالعات میں ضمائر کے استعمال کا جدید رجحان کیا ہے؟جدید ادب میں   فردِ  واحدکے لیے واحد جمع غائب  کی ضمیر  کے استعمال پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے، خاص طور پر انگریزی اور دیگر مغربی زبانوں میں’’ ہی‘‘(وہ مرد)  اور’’ شی‘‘  (وہ عورت) کی جگہ مشمولہ ضمیر "دے" (They ) کا واحد کے طور پر استعمال اب عام ہو گیا ہے۔اس کو غیر بائنری سمجھا جاتا ہے اوریہ  عددی  اور صنفی لحاظ سے  غیر جانبدارجنس   اور زبان کی عکاسی کرتا ہے۔ نیز تحقیق کے بہت سے طرز ہائےتحریر میں   بھی محققین کو '' ہی'' اور'' شی'' کی جگہ ''دے'' کو  اختیار کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔مثال کے طور پر دنیا کی بیشتر جامعات میں مروج امریکن سائیکو لوجیکل ایسوسی ایشن  کے تحقیقی طرزِ تحریر (اسٹائل ) میں واحد غائب  کی جگہ جمع غائب  کا صیغہ استعمال کرنے پر زوردیا گیا ہے۔جدید دور کے ادیبوں کی تحریروں میں صنفی شناخت کے حوالے سے ایک ترقی پسند طرز اختیار کیاگیا ہے۔ مزید برآں ،  دنیا کی مختلف ادبی روایات میں ضمائر کا استعمال زبان، ثقافتی روایات اور دور کے اعتبار  سے بدلتا رہتا ہے۔ اسم ضمائر کسی تحریر میں  بیان کردہ  کہانی  کے کرداروں اور قاری کے درمیان تعلق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جدید اور معاصر ادب  میں بالخصوص  روایتی ضمیروں کے استعمال کو چیلنج کیا گیا ہے  اور  ہمیں اس میں ''مشمولاتی'' ضمیروں ( وہ ، ہم،جمع)   کے استعمال کی زیادہ  مثالیں ملتی ہیں۔اردو میں تو ،تم کی جگہ آپ کا استعمال کہیں زیادہ مناسب سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح ''اُس'' اسے کی جگہ وہ (جمع) زیادہ فصیح لگتا ہے۔ظاہر ہے،ان کا استعمال سیاق وسباق کے مطابق کیا جائے گا۔کسی چور ،ڈاکو کے لیے تو یہ  تعظیمی الفاظ  ، القاب نہیں بولے جاسکتے۔یہ اور بات ہے کہ بی بی سی ایسے ادارے کی ویب گاہ پر خبروں میں   ایسی مثالیں مل جاتی ہیں جہاں مجرموں کے لیے بھی   وہ (جمع) اور آپ کی تعظیمی ضمیریں استعمال کی گئی ہیں اور  اب  اس کی دیکھا دیکھی پاکستان کے بعض ٹیلی ویژن چینلوں کے نشری مواد میں یہی چلن دیکھنے میں آرہا ہے۔

سوال کی عالمانہ شان اور جہالت آمیز خلطِ مبحث

 

 ڈاکٹر ذاکر نائیک سے کیا سیکھا اوراُنھیں کیا سکھایا؟

 

امتیازاحمد وریاہ

طالب علمی کے زمانے میں دواساتذہ نے سوال  پوچھنے سے متعلق کم وبیش  ایک جیسی نصیحت کی تھی۔اس کا مضمون یہ تھا:’’ سوال میں بھی ایک عالمانہ شان ہونی چاہیے‘‘۔ اور’’ آدھا جواب تو سوال  کے اندر ہی ہوتا ہے‘‘۔

ان کا زور سوال کی عالمانہ شان پر   ہوتاتھا، یعنی کوئی جہالت آمیز سوال  نہیں ہونا چاہیے  اور ایسا سوال بھی نہیں ہونا چاہیے جس کا موضوع زیرِبحث سے کوئی تعلق نہ ہو۔اہلِ علم کے ہاں اس  بات کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے ،بالعموم اس سے  خلط بحث ہوجاتا ہے اور یوں بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے۔اب ایک لڑکی کے  ڈاکٹرذاکر نائیک سے  بھری مجلس میں سوال اور اس پر  شروع ہونے والے بحث ومجادلے کو ملاحظہ کیجیے۔ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں جا پہنچی۔یار لوگ ہجو وتضحیک سے ہوتے ہوئے اب  ڈانگ سوٹے   نکالنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اصل موضوع  بحث    اور سنگین مسئلہ کہیں دب کر بلکہ  دفن ہوکررہ گیا ہے۔اگر پاکستان کے کسی خاص علاقے میں ایک مکروہ برائی  سالہا سال سے موجود ہے تو  پہلے  اس کا اسلامی  شریعت اور ملک کے مروجہ قانون کے تحت تدارک ہونا چاہیے۔اس میں ملوث افراد کو کڑی سزائیں دلانے کے لیے کسی بھی فریق کو کوئی اعتراض  ہونا چاہیے اور نہ کسی مذہبی یاسیاسی طبقے کواس ضمن میں  پس وپیش سے کام لینا چاہیے۔کیا آپ جانتے ہیں ،ملکی قانون میں اس قبیح جرم کی زیادہ سے زیادہ  سزا  کیا ہے؟ نیز اس  فعل بد کی اسلامی ریاست کے بالکل ابتدائی برسوں میں کیا سزائیں دی گئی تھیں۔وہ تین سزائیں  تھیں اور تینوں کا انجام موت ہے۔تفصیل ملاحظہ کرنا چاہتے ہیں تو ایک کتاب ہے ’’درباررسولﷺ کے فیصلے‘‘ ۔اس سے رجوع کر لیجیے۔

اب ایک  علمی شخصیت  کے بلند علمی ذوق اور رویّے کا واقعہ  ملاحظہ کیجیے۔پروفیسر ڈاکٹرآغا سہیل صاحب[1]  1980ء کے عشرے کے آخر اور 90کے اوائل میں ہمارے زمانے کے گورنمنٹ ایف سی کالج (اب صرف ایف سی کالج )   لاہور میں شعبہ اردو کے سربراہ تھے۔وہ ایم اے اردو سال اوّل کے نئے آنے والے طلبہ و طالبات سے تعارفی ملاقات میں  ایک بات کیا کرتے تھے:’’دیکھیں، آپ ہمارے پاس پڑھنے کے لیے آئے ہیں۔آپ ہمارے دو سال کے لیے مہمان ہیں۔اس دوران میں آپ کچھ ہم سے سیکھیں گے اور ہم کچھ آپ سے سیکھیں گے‘‘۔

توپیارے پاکستانیو! آپ نے ڈاکٹرذاکر نائیک سے کیا سیکھا اور وہ آپ سے کیا سیکھ کر گئے ہیں؟یا غُل غپاڑا  ہی حصے میں آیا ہے۔ پیارے روشن خیال الباکستانی اور منتقم مزاج نیک روحیں جس طرح بال کی کھال اتار رہی ہیں،  اس سے تو لگتا  ہے  کہ کسی یورپی اسکول   آف تھاٹ  کی طرف سے ان کا بلاوا ٓیا کہ آیا۔اگر کسی ادارے نے انھیں مانگ لیا یا اُچک لیا  تو ہم  پھر  کورے کے کورے  اور ہاتھ ملتے   رہ جائیں گے۔ایسے ارباب ِ ’’دانش وبینش‘‘ کے’’علمی وفکری‘‘ سوتے خشک  ہوگئے تو سوشل میڈیا پر گلشن کا کاروبار کیسے چلے گا۔تحقیق کے بنیادی اصولوں سے عاری لوگ اٹھ گئے تو  سائنس کی  افادیت و اہمیت پر ہم  کس کے لیکچروں سے خرد افروز  ہوں گے؟ اور اپنے احساس ِکمتری کے مارے آکسفورڈ اور ہارورڈ ’’ پلٹ عالموں‘‘ کا کیا بنے گا؟ ہم تو ان کے بلند پایہ افکار عالیہ سے یکسر محروم  ہو کر رہ جائیں گے اور ہاں قرآن مجید کا 360 ڈگر ی  غلط  اردو ترجمہ اور تشریح کرنے والے نیم خواندہ   یوٹیوبرمذہبیوں کا کیا بنے گا؟

پس تحریر: ہماری دانش   اجتماعی کے انحطاط   کا اندازہ اس   بات سے کریں ،ایک نیم خواندہ عام شخص  بازاری قسم کی جو پوسٹ فیس بُک یا سوشل میڈیا کےکسی اور پلیٹ فارم پر شئیر کرتا ہے،وہی پوسٹ لفظ بہ لفظ  مادی سائنس  کے کسی مضمون میں پی ایچ ڈی صاحب بھی شیئر  فرما رہے ہیں۔ اس  رجحان سے لگتا ہے کہ سائنس کی اعلیٰ تعلیم نے بھی ان ’’موصوفوں‘‘ کا کچھ نہیں بگاڑا اور ان کے پاس لوگوں کو کسی بلند پایہ علمی میراث  یا جدید سائنسی اکتشافات  سے آگاہ کرنے  کے لیے کچھ نہیں۔ ہمارے نظری وفکری زوال میں ان صاحبان کا حصہ کسی فرقہ پرست مولوی سے کم نہیں۔

سبق : شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ  کا   ایک مقولہ ہے:
لسان الجاهل أمام قلبه، ولسان العاقل العالم وراء قلبه.(الفتح ربانی للجیلانی، ص ١٧٤)

ترجمہ: ’’جاہل کی زبان اس کے دل کے آگے ہوتی ہے، اور عاقل عالم کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہوتی ہے‘‘۔



[1] ڈاکٹر آغا سہیل (پیدائش: 6 جون 1933ء - وفات: 26 فروری 2009ء)اردو کے ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار، نقاد اور محقق تھے۔ ان کا اصل نام آغا محمد صادق تھا اور وہ لکھنؤ،(متحدہ صوبہ جات یوپی ، اب  اترپردیش) میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ لاہور منتقل ہو گئے اور ایف سی کالج لاہور میں اردو کے پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔انھوں نے"دبستان لکھنؤ کے داستانوی ادب کا ارتقا" کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی مشہور تصانیف میں "کوچہ جاناں"، "بدلتا ہے رنگ آسماں"، "شہر نا پرساں"، اور "خاک کے پردے" شامل ہیں۔

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں