امتیازاحمد وریاہ
اردو کے بے مثل شاعر مرزا اسداللہ خان
غالبؔ کا ایک مشہور شعر ہے؎
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تُم
کہ تُو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز ِگفتگو
کیا ہے
دنیا کی مختلف ادبی روایات میں ضمائر (Pronouns) کو زبان، ثقافت اور طرزِ
تحریر کے مطابق مختلف انداز میں برتا جاتا
ہے، اور دنیا کی مختلف زبانوں اور ادبی
روایات میں ان کے استعمال کا کوئی یکساں أصول
رائج نہیں ہے۔ البتہ، عمومی طور پر ضمیر کے استعمال میں چند قابل ذکررجحانات پائے جاتے ہیں۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1۔ شخصی یا ذاتی ضمیر متکلم(First-Person)
کا استعمال
·
انگریزی
ادب: پہلی شخصی ضمیر واحد وجمع متکلم
("میں"، "ہم") کا خودنوشت، ڈائری، سوانح عمری اور جدید ناولوں میں
استعمال عام ہے۔اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس طرح قاری مرکزی کردار کے ذاتی خیالات اور جذبات کا بخوبی ادراک کرسکتا ہے اور وہ ایسی کسی تحریر
کو پڑھتے ہوئے مرکزی کردار ہی میں خود
کو جذب کر لیتا ہے،بہ الفاظ دیگر اس میں ’’کھب‘‘ کررہ جاتا ہے اور اس کے رنج وآلام کو اپنا لیتا ہےاور اس کی ناکامیوں ، کامیابیوں کو اپنی کامرانی وناکامی سمجھنے لگتا ہے۔گاہے
وہ تحریر کے مرکزی کردار کی خوشیوں کے ساتھ
کھلکھلا
اٹھتا ہے اور گاہےاس کے مصائب کی ٹیسوں کو محسوس کرتا ہے۔یہ سب عمل محض
ضمیر واحد متکلم کی بدولت ہی ممکن ہوتا ہے۔ جیسے کہ جے ڈی سیلینجر کے The Catcher in the Rye یا
ورجینیا وولف کے To the Lighthouse
میں "میں" کا استعمال قاری کو کردار کے قریب
کر دیتا ہے۔
·
فرانسیسی
اور روسی ادب: مارسل پروست کیIn Search of Lost Time یا
فیودور دوستوئیفسکی کی Notes from
Underground اور
ایسی بہت سی دوسری تحریروں میں "میں" کا استعمال ذاتی مسائل، وجودی
پریشانیوں یا فلسفیانہ بحثوں کے اظہار کے
لیے کیا گیاہے۔
2۔ تیسری شخصی ضمیر
غائب (Third-Person Pronouns)
·
یورپی
کلاسیکی ادب: 19ویں صدی کے مشہور مصنفین جیسے چارلس ڈکنز یا لیو ٹالسٹائی کی
تحریروں میں تیسری شخصی ضمیر غائب ("وہ")
کا صیغہ دیکھنے میں آتاہے۔ان میں ایک ثقہ راوی (واحد غائب) کرداروں کے خیالات، احساسات
اور محرکات کو بیان کرتا ہے۔ اس سے معاشرتی تصویر کو وسیع تر تناظر میں دکھانے کا موقع ملتا ہے۔
·
مشرقی
ادب: جاپانی ادب میں، جیسے یاسوناری کاواباتا یا ہاروکی مرکامی کی تحریروں میں،
تیسری شخصی ضمیر غائب کا استعمال کیا گیا
ہے۔ان میں بیانیہ اکثر غیر جذباتی اور
مختصر ہوتا ہے، جس میں ضمیروں کا محتاط استعمال کرداروں کو مبہم اور غیر واضح
رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
·
عربی
ادب: کلاسیکی تحریریں جیسے ’’الف لیلہ و لیلہ‘‘ میں ضمیر غائب کے صیغے میں بیانیہ عام ہے، لیکن عربی زبان میں ضمیر کا استعمال مغربی
زبانوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے، کیونکہ اکثر ضمائر(متصل) افعال کی بناوٹ میں
شامل ہوتی ہیں۔جملے کی ساخت میں بالعموم ضمیرمتصل غائب کا استعمال عام ہے جبکہ اس
کے مقابلے میں ضمیر منفصل کا استعمال کم ہوتا ہے۔
3۔ صنفی شناخت پر
مبنی ضمیریں
·
ہسپانوی،
فرانسیسی، عربی اور ہندی جیسی زبانیں صنفی شناخت والی سمجھی جاتی ہیں۔ان میں اسم ضمیرکردار کی جنس کو ظاہر کرتا ہے۔ ادبی
کرداروں کی شناخت میں یہ جنس بہت اہم ہو سکتی ہے، مثلاً فرانسیسی زبان میں "elle" یا عربی میں "ھو"
(وہ مذکر) اور "هی (وہ مؤنث) کا استعمال۔
·
غیر
جنس والی زبانیں: کچھ زبانوں جیسے ترکی، فِنِش اور چینی میں ضمائر جنس پر مبنی
نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے ان زبانوں کے ادب یا تحریروں میں کرداروں کی جنس غیر واضح رہ سکتی
ہے ۔اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس طرح ادبی انداز میں زیادہ لچک پیدا ہوتی ہے۔
4۔ ضمیر کے استعمال
میں تبدیلی
·
مابعد
جدیدیت اور تجرباتی ادب: جدید ادب میں ضمیر کا استعمال تجرباتی طور پر بھی کیا گیا ہے۔ جیسے سیموئل بیکٹ کی The Unnamable یا
ایتالو کالوینو کی If on a Winter's
Night a Traveler میں ضمیر کے استعمال میں روایتی انداز میں کہانی کہنے کے طریق کو تبدیل کیا گیا ہے۔
·
ضمیر
حاضر (Second-Person) بعض
ادبی کتب میں ضمیر حاضر (واحد) یعنی دوسری شخصی ضمیر ("تُم") کا استعمال
کیا گیا ہے، جیسے جے میک انیرنی کی Bright Lights, Big City یا
ایتالو کالوینو کی If on a Winter's
Night a Traveler میں۔ ضمیر حاضر کو اس طرح برت کر
دراصل قاری کو کہانی کا حصہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
5۔ شاعری میں اسم ضمیر کا
استعمال
·
دنیا
کی بہت سی شعری روایات میں ضمیر کا استعمال علامتی اور لطیف انداز میں کیا جاتا ہے۔ مثلاً فارسی شاعری میں
"وہ" کا استعمال محبوب یا روحانی ہستیوں کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح
انگریزی رومانوی شاعری میں "میں" کا استعمال محض ذاتی تجربہ نہیں بلکہ ایک عمومی یا روحانی تجربے
کو ظاہر کرتا ہے۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمی ادب یا تحقیقی مطالعات میں ضمائر کے
استعمال کا جدید رجحان کیا ہے؟جدید ادب میں فردِ واحدکے لیے واحد جمع غائب کی ضمیر کے استعمال پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے، خاص طور
پر انگریزی اور دیگر مغربی زبانوں میں’’ ہی‘‘(وہ مرد) اور’’ شی‘‘ (وہ عورت) کی جگہ مشمولہ ضمیر "دے" (They
) کا واحد کے طور پر استعمال اب عام ہو گیا
ہے۔اس کو غیر بائنری سمجھا جاتا ہے اوریہ عددی اور صنفی
لحاظ سے غیر جانبدارجنس اور زبان
کی عکاسی کرتا ہے۔ نیز تحقیق کے بہت سے طرز ہائےتحریر میں بھی محققین کو '' ہی'' اور'' شی'' کی جگہ ''دے''
کو اختیار کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔مثال کے طور پر دنیا کی بیشتر جامعات
میں مروج امریکن سائیکو لوجیکل ایسوسی ایشن
کے تحقیقی طرزِ تحریر (اسٹائل ) میں واحد غائب کی جگہ جمع غائب کا صیغہ استعمال کرنے پر زوردیا گیا ہے۔جدید
دور کے ادیبوں کی تحریروں میں صنفی شناخت کے حوالے سے ایک ترقی پسند طرز اختیار
کیاگیا ہے۔ مزید برآں ، دنیا کی مختلف
ادبی روایات میں ضمائر کا استعمال زبان، ثقافتی روایات اور دور کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے۔ اسم ضمائر کسی تحریر میں بیان کردہ کہانی کے کرداروں اور قاری کے درمیان تعلق پیدا کرنے
میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جدید اور معاصر ادب میں بالخصوص روایتی ضمیروں کے استعمال کو چیلنج کیا گیا ہے اور ہمیں اس میں ''مشمولاتی'' ضمیروں ( وہ ، ہم،جمع) کے
استعمال کی زیادہ مثالیں ملتی ہیں۔اردو
میں تو ،تم کی جگہ آپ کا استعمال کہیں زیادہ مناسب سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح ''اُس''
اسے کی جگہ وہ (جمع) زیادہ فصیح لگتا ہے۔ظاہر ہے،ان کا استعمال سیاق وسباق کے
مطابق کیا جائے گا۔کسی چور ،ڈاکو کے لیے تو یہ تعظیمی الفاظ
، القاب نہیں بولے جاسکتے۔یہ اور بات ہے کہ بی بی سی ایسے ادارے کی ویب گاہ
پر خبروں میں ایسی مثالیں مل جاتی ہیں
جہاں مجرموں کے لیے بھی وہ (جمع) اور آپ کی تعظیمی ضمیریں استعمال کی گئی
ہیں اور اب اس کی دیکھا دیکھی پاکستان کے بعض ٹیلی ویژن
چینلوں کے نشری مواد میں یہی چلن دیکھنے میں آرہا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں