meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: سوال کی عالمانہ شان اور جہالت آمیز خلطِ مبحث

Empowering Through Media Literacy

سوال کی عالمانہ شان اور جہالت آمیز خلطِ مبحث

 

 ڈاکٹر ذاکر نائیک سے کیا سیکھا اوراُنھیں کیا سکھایا؟

 

امتیازاحمد وریاہ

طالب علمی کے زمانے میں دواساتذہ نے سوال  پوچھنے سے متعلق کم وبیش  ایک جیسی نصیحت کی تھی۔اس کا مضمون یہ تھا:’’ سوال میں بھی ایک عالمانہ شان ہونی چاہیے‘‘۔ اور’’ آدھا جواب تو سوال  کے اندر ہی ہوتا ہے‘‘۔

ان کا زور سوال کی عالمانہ شان پر   ہوتاتھا، یعنی کوئی جہالت آمیز سوال  نہیں ہونا چاہیے  اور ایسا سوال بھی نہیں ہونا چاہیے جس کا موضوع زیرِبحث سے کوئی تعلق نہ ہو۔اہلِ علم کے ہاں اس  بات کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے ،بالعموم اس سے  خلط بحث ہوجاتا ہے اور یوں بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے۔اب ایک لڑکی کے  ڈاکٹرذاکر نائیک سے  بھری مجلس میں سوال اور اس پر  شروع ہونے والے بحث ومجادلے کو ملاحظہ کیجیے۔ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں جا پہنچی۔یار لوگ ہجو وتضحیک سے ہوتے ہوئے اب  ڈانگ سوٹے   نکالنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اصل موضوع  بحث    اور سنگین مسئلہ کہیں دب کر بلکہ  دفن ہوکررہ گیا ہے۔اگر پاکستان کے کسی خاص علاقے میں ایک مکروہ برائی  سالہا سال سے موجود ہے تو  پہلے  اس کا اسلامی  شریعت اور ملک کے مروجہ قانون کے تحت تدارک ہونا چاہیے۔اس میں ملوث افراد کو کڑی سزائیں دلانے کے لیے کسی بھی فریق کو کوئی اعتراض  ہونا چاہیے اور نہ کسی مذہبی یاسیاسی طبقے کواس ضمن میں  پس وپیش سے کام لینا چاہیے۔کیا آپ جانتے ہیں ،ملکی قانون میں اس قبیح جرم کی زیادہ سے زیادہ  سزا  کیا ہے؟ نیز اس  فعل بد کی اسلامی ریاست کے بالکل ابتدائی برسوں میں کیا سزائیں دی گئی تھیں۔وہ تین سزائیں  تھیں اور تینوں کا انجام موت ہے۔تفصیل ملاحظہ کرنا چاہتے ہیں تو ایک کتاب ہے ’’درباررسولﷺ کے فیصلے‘‘ ۔اس سے رجوع کر لیجیے۔

اب ایک  علمی شخصیت  کے بلند علمی ذوق اور رویّے کا واقعہ  ملاحظہ کیجیے۔پروفیسر ڈاکٹرآغا سہیل صاحب[1]  1980ء کے عشرے کے آخر اور 90کے اوائل میں ہمارے زمانے کے گورنمنٹ ایف سی کالج (اب صرف ایف سی کالج )   لاہور میں شعبہ اردو کے سربراہ تھے۔وہ ایم اے اردو سال اوّل کے نئے آنے والے طلبہ و طالبات سے تعارفی ملاقات میں  ایک بات کیا کرتے تھے:’’دیکھیں، آپ ہمارے پاس پڑھنے کے لیے آئے ہیں۔آپ ہمارے دو سال کے لیے مہمان ہیں۔اس دوران میں آپ کچھ ہم سے سیکھیں گے اور ہم کچھ آپ سے سیکھیں گے‘‘۔

توپیارے پاکستانیو! آپ نے ڈاکٹرذاکر نائیک سے کیا سیکھا اور وہ آپ سے کیا سیکھ کر گئے ہیں؟یا غُل غپاڑا  ہی حصے میں آیا ہے۔ پیارے روشن خیال الباکستانی اور منتقم مزاج نیک روحیں جس طرح بال کی کھال اتار رہی ہیں،  اس سے تو لگتا  ہے  کہ کسی یورپی اسکول   آف تھاٹ  کی طرف سے ان کا بلاوا ٓیا کہ آیا۔اگر کسی ادارے نے انھیں مانگ لیا یا اُچک لیا  تو ہم  پھر  کورے کے کورے  اور ہاتھ ملتے   رہ جائیں گے۔ایسے ارباب ِ ’’دانش وبینش‘‘ کے’’علمی وفکری‘‘ سوتے خشک  ہوگئے تو سوشل میڈیا پر گلشن کا کاروبار کیسے چلے گا۔تحقیق کے بنیادی اصولوں سے عاری لوگ اٹھ گئے تو  سائنس کی  افادیت و اہمیت پر ہم  کس کے لیکچروں سے خرد افروز  ہوں گے؟ اور اپنے احساس ِکمتری کے مارے آکسفورڈ اور ہارورڈ ’’ پلٹ عالموں‘‘ کا کیا بنے گا؟ ہم تو ان کے بلند پایہ افکار عالیہ سے یکسر محروم  ہو کر رہ جائیں گے اور ہاں قرآن مجید کا 360 ڈگر ی  غلط  اردو ترجمہ اور تشریح کرنے والے نیم خواندہ   یوٹیوبرمذہبیوں کا کیا بنے گا؟

پس تحریر: ہماری دانش   اجتماعی کے انحطاط   کا اندازہ اس   بات سے کریں ،ایک نیم خواندہ عام شخص  بازاری قسم کی جو پوسٹ فیس بُک یا سوشل میڈیا کےکسی اور پلیٹ فارم پر شئیر کرتا ہے،وہی پوسٹ لفظ بہ لفظ  مادی سائنس  کے کسی مضمون میں پی ایچ ڈی صاحب بھی شیئر  فرما رہے ہیں۔ اس  رجحان سے لگتا ہے کہ سائنس کی اعلیٰ تعلیم نے بھی ان ’’موصوفوں‘‘ کا کچھ نہیں بگاڑا اور ان کے پاس لوگوں کو کسی بلند پایہ علمی میراث  یا جدید سائنسی اکتشافات  سے آگاہ کرنے  کے لیے کچھ نہیں۔ ہمارے نظری وفکری زوال میں ان صاحبان کا حصہ کسی فرقہ پرست مولوی سے کم نہیں۔

سبق : شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ  کا   ایک مقولہ ہے:
لسان الجاهل أمام قلبه، ولسان العاقل العالم وراء قلبه.(الفتح ربانی للجیلانی، ص ١٧٤)

ترجمہ: ’’جاہل کی زبان اس کے دل کے آگے ہوتی ہے، اور عاقل عالم کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہوتی ہے‘‘۔



[1] ڈاکٹر آغا سہیل (پیدائش: 6 جون 1933ء - وفات: 26 فروری 2009ء)اردو کے ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار، نقاد اور محقق تھے۔ ان کا اصل نام آغا محمد صادق تھا اور وہ لکھنؤ،(متحدہ صوبہ جات یوپی ، اب  اترپردیش) میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ لاہور منتقل ہو گئے اور ایف سی کالج لاہور میں اردو کے پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔انھوں نے"دبستان لکھنؤ کے داستانوی ادب کا ارتقا" کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی مشہور تصانیف میں "کوچہ جاناں"، "بدلتا ہے رنگ آسماں"، "شہر نا پرساں"، اور "خاک کے پردے" شامل ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں