meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: سموگ

Empowering Through Media Literacy

سموگ

 

احسان غنی

بارشوں، سیلاب اور  ڈینگی  کے بعد  اب سموگ نے لاہور کے باسیوں کاجینادوبھر کر رکھا ہے۔ایک کے بعد دوسری وبا پہلے سے بھی خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔بحران دربحران مگر حل کوئی  نظرنہیں آتا۔حکومت اور متعلقہ محکموں کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے کسی ایک وباکا موثر تدارک نہیں ہوسکا۔عوام کے لیے  یہ صورت حال  وبا ل  جان بن چکی ہے اور اس میں سانس لینادشوار ہورہا ہے۔انتظامیہ روایتی سستی کا مظاہرہ کررہی ہے اور وہ گمبھیر مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔کوئی پائیدارنظام نہیں جس کے تحت ان وباؤں کاسدِباب کیا جاسکے۔نظام قدرت بالکل ٹھیک چل رہا ہے۔کسی قسم کاکوئی بگاڑ نہیں ۔غلطی اور قصور ہم انسانوں کا ہے۔جب پیشگی انتظامات نہ کیے جائیں تو پھر یہی معمولی معاملات غیر معمولی بن کرتباہی وبربادی برپا کرتے ہیں۔

مون سون کی  شدید بارشوں کے بعد  جگہ جگہ کھڑے گندے پانی نے  ڈینگی مچھر کی افزا ئش میں اہم کردار ادا کیا  اور اکتوبر  کے ساتھ  ہی حالیہ برسوں کی طرح سموگ کاخطرہ سرپرمنڈلانے لگا مگر حکومت  کی  انتظامی مشینری کوئی عملی اقدام کرنے کے بجائے   صرف بڑے بڑے اعلانات کرکے عوام کوڈرارہی ہے۔ سموگ کے خاتمے کے لیے ٹھوس  اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔فضا میں سموگ ہونے کی بڑی وجوہات میں اینٹوں کے بھٹے، کوئلہ پر چلنے والی فیکٹریوں کا دھواں، سڑکوں پربے تحاشا بے ہنگم ٹریفک  اور  تجاوزات،فصلوں کی باقیات کو جلانا، دھواں چھوڑتی بسیں، رکشے،کاریں اورموٹرسائیکلیں اور جگہ جگہ جلتا ہوا کوڑاکرکٹ  ہے مگر سب سے بڑی وجہ  صفائی ستھرائی  کانظام  نہ ہونا ہے۔ساری فضا گردوغبار  سے اٹی پڑی ہے۔شہرلاہور میں چوکوں ، چوراہوں  پر ٹریفک کا شدید دباؤ ہے اور چوکوں  کے  65 پوائنٹس سموگ کابڑا سبب ہیں۔آئے  دن  مال روڈ اوردیگر شاہراہیں  احتجاج کے  سبب  بلاک ہوجاتی ہیں  اور پھر ہر طرف  ٹریفک  ہی ٹریفک نظر آتاہے لیکن  شہریوں کو درپیش  ان تمام مشکلات کاکوئی تدارک نہیں کیا جارہا ہے۔جس سے دلکش باغوں کاشہر فضائی آلودگی میں نمبرون اورسموگ کاگڑھ بن چکا ہے۔لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس اکثرخطرناک حد سے بڑھ جاتا ہے۔لاہوریوں کی جنت کو دوزخ بنادیاگیا ہے۔شہر بے مثال کواجاڑ کررکھا دیاگیا اور مزید بگاڑ زورشور سے جاری ہے۔شہر کے گردونواح میں درختوں کابے دریغ خاتمہ اور زرخیز زمین میں رہائشی کالونیاں بنائی جارہی ہیں۔ سیمنٹ اور سریے   کے ساتھ بے ڈھنگے تعمیراتی ڈھانچے   کھڑے کیے  جارہے ہیں۔ریت،مٹی بجری،سیمنٹ اور گرد وغبار سے گندگی اورسموگ دونوں میں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔

محکمہ تحفظ ماحول وموسمیاتی تبدیلی پنجاب کے اعداد وشمار کے مطابق لاہور میں 83فی صد ماحولیاتی آلودگی کی وجہ پٹرول اورڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں  ہیں۔ ان کے علاوہ موٹر سائیکلوں  کا دھواں کینسر، دمے اورسانس کی بیماریاں  پھیلنے کا سبب  بن رہا ہے۔پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی  کے نتیجے میں  ہر سال 256000اموات  ہوتی ہیں۔اسی طرح فصلوں کی باقیات جلانے سے کینسر اورسموگ پھیلاتا ہے۔ہمارے وزیر اور افسرشاہی کے اعلیٰ افسر ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر یہ بیاں داغ دیتے ہیں کہ سرحد پار سے بھارتی کسانوں کےفصلوں کی باقیات جلانے سے سموگ ہوتا ہے۔ایسا دعویٰ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے جبکہ سموگ اور فضائی آلودگی کے کنٹرول کرنے کے لیے موثر انتظامات نہیں کیے جارہے ہیں۔ماحولیاتی آلودگی اورموسمیاتی تبدیلی دنیا بھر کی اقوام کے لیے ایک  بڑاچیلنج ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلی کے  سب سے زیادہ ذمہ دار  ہیں۔صنعتی انقلاب کے بعد دھڑادھڑ فیکٹریوں اورکارخانوں نے اپنی پیدوار شروع کی توفضا میں دھواں ہی دھواں ہو گیا۔کوئلہ اور پلاسٹک کااستعمال بڑھنے سے آلودگی میں اضافہ ہوتاچلاگیا۔اب ہوش کے ناخن لینے کے بعد  ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کررہے ہیں مگرہم ابھی تک سموگ اور ڈینگی کو کنٹرول نہیں کرپائے۔لاہور سمیت صوبے بھر کے شہروں کی فضا  مسموم  ہوچکی ہے اور اس میں  عوام کا دم گھٹنا شروع ہوگیاہے۔بہت جلدیہ مضر صحت ہوا سموگ میں تبدیل ہو جائے گی۔کاربن  گیسوں  کے اخراج والی تمام فیکٹریاں، کارخانے اوراینٹوں کے بھٹے سموگ بڑھنے کاسبب ہیں۔ماحول کو  آلودہ کرنے میں سموگ اب  ایک مستقل  عنصر بن چکی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سموگ سے بچے اور بزرگ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔اس تناظر میں ہمیں ہنگامی،ٹھوس  اورمستقل بنیادوں پر جامع حکمت عملی کے تحت موثراقدامات کرنا ہوں گے۔معاشرے کے تمام طبقات کوباہم مل کر اس پیچیدہ مسئلہ کے حل کے لیے  غور وفکر کرنا ہوگا۔سول سوسائٹی،اساتذہ،علماء کرام،بااثر شخصیات ،بچوں، بڑوں، جوانوں،عورتوں سب کومسئلہ کی سنگینی سمجھانے اور اس سے نمٹنے کے بارے  میں آگاہی دینے کی  ضرورت  ہے۔اسکول،کالج اور جامعات  کے نصاب  میں موسمیاتی تبدیلی کے علاوہ  سموگ کاکورس بھی مضمون  کے طور پر متعارف کرایاجائے۔مساجد میں جمعہ کے خطبوں میں خطیب حضرات سموگ کو موضوع سخن بنائیں۔الخدمت فاؤنڈیشن، ایدھی  اور دیگر غیرسرکاری تنظیموں کا نیٹ ورک بہت وسیع ہے۔اس سلسلے میں ان کی معاونت بہت کارگرثابت ہوسکتی ہے۔عوام کی شمولیت کے بغیر سموگ، ڈینگی جیسی وباؤں پرقابو  پانا ناممکن ہے۔سموگ کی روک وتھام کے لیے کچھ اقدامات فی الفورکرنے کی ضرورت ہے۔اس ضمن  میں سڑکوں پرٹریفک کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ  بسوں کی تعداد بڑھائی جائے۔عوام کو بسوں پرسفر کرنے کی تلقین کے ساتھ سائیکل کی سواری کارواج عام کیا جائے۔انتظامیہ کے آفیسر،معزز جج صاحبان رضاکارانہ طورپر اپنی چمکتی دمکتی گاڑیوں کوگیراج میں پارک کر کے بسوں پرعدالت اوردفاتر آئیں۔سڑک پر بلاضرورت اکیلے ڈرائیونگ  پرچالان   کا نظام متعارف کرایا جائے ۔زیادہ سے زیادہ شجرکاری کی جائے۔جنگلات کارقبہ وسیع کیا جائے۔ان اقدامات کے نتیجے میں سموگ اورآلودگی میں یکدم کمی واقع ہوگی اورہم صاف ستھری فضا میں سانس لینے کے قابل ہوسکیں گے۔صاف فضا سب کے لیے بہت اہم ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں