meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: جون 2024

Empowering Through Media Literacy

اُف! یہ بجلی کے بل

امتیازاحمد وریاہ

یہ ہمارا جون شریف کا بجلی کا بل ہے۔اس مہینے بجلی کے دیگر آلات کے علاوہ شدید گرمی سے بچنے کے لیے روزانہ چند گھنٹے  اے سی چلا ۔کہتے تو اس کو انورٹر ہیں لیکن اس سے بجلی کی کوئی خاص  بچت نہیں ہوتی۔چناں چہ برقی   میٹر نے جست  لگائی  اور یونٹ تیزرفتاری سے بڑھ کر 596 ہوگئے ۔ان کو ضرب دیا گیا ہے: 36.66  روپے سے ،یعنی اگر آپ 500  یونٹ سے زیادہ بجلی   استعمال کریں گے تو ایک یونٹ 36.66 روپے کا ہوگا۔اگر یہی بجلی 200 سے کم یونٹ استعمال کریں تو نرخ ہوں گے 10 روپے فی یونٹ۔200 سے یونٹ بڑھ جائیں تو نرخ ہوں گے:27.14 روپے فی یونٹ ۔

اب اربابِ  فکر ودانش ہمیں  200 واٹ کے وڈے بلب  کی روشنی ڈال کر  بتائیں، یہ چوری اور سینہ زوری کس قانون ، آئین اور دینی ضابطے کے تحت جائز ہے؟شریعت میں اس کی کہاں گنجائش  ہے؟یوٹیوب پر مذہب کا فری لانسنگ کاروبار کرنے والے  نیم ملاّ ذرا اس موضوع پر بھی  گل افشانی گفتار کا  مظاہرہ  کریں  ۔انھیں یہ خبر ہو اس طریقے سے عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے اور برقی رو کے بل ادا کرنے والوں کو دو دو ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔انھیں کبھی  ازکارِرفتہ  موضوعات  سے فرصت ملے تو ذرا عوام کے حقیقی معاشی مسائل پر  بھی لب کشائی کریں کہ جائز معاش کا بندوبست اور عوام کے جان ومال کا تحفظ  بھی دین کا حصہ ہے۔

اب آگے چلیں۔ اس بل میں ایف سی سرچارج کے نام پر1925 روپے اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے نام پر 2588 روپے شامل ہیں۔ یہ کیا بلا ہیں؟ یہ عقدہ کوئی سمجھائے کہ ہم سمجھائیں کیا؟بل میں جنرل سیلز ٹیکس کے نام پر4745 روپے اور انکم ٹیکس کے نام پر 2333 روپے شامل ہیں۔یہ کل 7078 روپے ہوئے۔ یعنی ایک ماہ میں سات ہزار روپے ٹیکس کی مد میں سرکاری کے خزانے میں جائیں گے۔اس طرح بل جمع کروانے والے ، جی ہاں! صرف بل جمع کروانے والے محب وطن پاکستانیوں سے ہر ماہ محاصل کی مد میں کروڑوں،اربوں روپے وصول کیے جاتے ہیں۔جو لوگ بل جمع نہیں کرواتے ،مفت بجلی لیتے ہیں،سرکار سے، یا کنڈا لگاکر ،ہم انھیں چور اُچکا اور غیر محب وطن سمجھتے ہیں۔اگر مفت بھر اربابِ اقتدار کو عوام کا خیال ہوتا تو وہ بجلی کے بل بھرتے اور عوام کے دکھ درد میں شریک ہوکر مفت بجلی لینے سے انکار کردیتے۔خدا لگتی بات کیجیے اور  یہ معما سلجھائیے   ،ایک اعلیٰ افسر،خواہ وہ منصف ہے یا افسر شاہ،لاکھوں میں تن  خواہ لے رہا ہے اور سرکار کے کھاتے میں  مفت بجلی  سے بھی مستفید ہورہا ہے۔

اب ذرا ان نام نہاد  ماہرینِ معیشت اور تبصرہ نگاروں کا  ذکر ِ خیر ہوجائے ، جو سرِشام ٹی وی چینلوں پر ڈفلی بجانے بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ارے بے شرموں اس 600 یونٹ کے بل میں بندہ 10 ہزار سے زیادہ ٹیکس کی مدد میں دے رہا ہے،تو یہ جبری کٹوتی کیا ہے؟اور ٹیکس  دینا کسے کہا جاتا ہے؟اس مہنگی بجلی نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔ایک عام آدمی کا تمام گھریلو خرچہ  بل  کے بل سے کم ہوتا ہے۔تھرمل بجلی پیدا کرنے والی نجی پاورکمپنیوں سے معاہد تمام سابقہ اور موجودہ ارباب اقتدار،ان سے مذاکرات  میں شریک رہنے اور معاہدوں کو حتمی شکل دینے  والے افسر شاہی کے نمایندے   اس تمام صورت حال کے ذمے دار ہیں بلکہ قصور وار ہیں۔اس قومی جرم میں  شریک  ان سب کو تو   بلا امتیاز  حَبْسِ دَوام بَعُبُور دَرْیائے شور کی سزا دی جانا   چاہیے۔یعنی کالاپانی میں جلاوطن کیا جائے لیکن ان بے حمیت لوگوں کو تو اقتدار سے ہٹنے یا ریٹائرمنٹ کے  فوری بعد آسٹریلیا ،نیوزی لینڈمیں جزیرے الاٹ ہوجاتے ہیں ۔ یہ نہیں  تو  نیویارک اور لندن میں  بیش قیمت فلیٹ مل جاتے ہیں۔ان ہی خدمات کے عوض ۔کیا؟ جی ہاں معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے عوام کے خلاف  ریاستی وسائل کے استعمال پر  سب انعام واکرام ملتے ہیں۔

ہماری  انگریز کی باقیات اشرافیہ کی بے شرمی ، بے حمیتی اور بے حسی ملاحظہ کیجیے کہ عوام پر تو ٹیکسوں کا بوجھ لاد رہے ہیں لیکن اپنی مراعات اور تن خواہوں میں مسلسل اضافے کیے جا رہے ہیں۔ارباب اقتدار وسیاست کے لیے پیٹرول مفت ، بجلی مفت ، فضائی ٹکٹ مفت، رہائش مفت، گاڑیاں مفت جبکہ عوام کالانعام کی قسمت میں ہوشربا مہنگائی اور بجلی کے  مہنگے بل۔ عوام کب تک اشرافیہ کی عیاشیوں اور ہمہ نوع اسراف کا بوجھ ڈھوتے رہیں گے؟یاد رہے جو صحافی، اخبار نویس اور بزعم خویش ’’دان شور‘‘  ان سب ناانصافیوں کے باوجود اربابِ اقتدار وسیاست کی مدح سرائی  میں زمین  آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، وہ بھی چوری اور ڈکیتی کی  ان سرکاری وارداتوں میں برابر کے شریک ہیں۔

البرٹ آئن سٹائن اور چارلی چیپلن کے درمیان دوستی کی کہانی

 


امتیازاحمد وریاہ

البرٹ آئن سٹائن اور چارلی چیپلن کے درمیان   ایک مکالمہ  تاریخ میں ایک مشہور  واقعے کے طور پر محفوظ ہوگیا ہے۔ یہ  ان دونوں  مشہور شخصیات کے درمیان باہمی احترام اور تعریف وتوصیف کی عکاسی  بھی کرتا ہے۔ دونوں  میں  ایک ملاقات 30 جنوری    1931 ء  کو لاس اینجلس تھیٹر ( کیلی فورنیا) میں چیپلن کی فلم "سٹی لائٹس" کے ابتدائی شو ( پریمیئر ) کے موقع پر ہوئی تھی۔اس  موقع پر  ان کے درمیان  درج ذیل  مختصر مگر مشہور مکالمہ ہوا تھا اور اس کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے:

آئن سٹائن: "میں آپ کے فن کے بارے میں جس چیز کی سب سے زیادہ تعریف کرتا ہوں، وہ اس کی آفاقیت ہے۔ تم ایک لفظ بھی نہیں بولتے ہو  لیکن  پھر بھی دنیا تمھیں سمجھتی ہے"۔

چیپلن: "یہ سچ ہے. لیکن آپ کی  عظمت  (  بعض متنوں میں  شہرت  )اس سے  کہیں  زیادہ ہے۔ دنیا آپ کی عظمت کی تعریف کرتی ہے، جبکہ کوئی بھی آپ کو نہیں سمجھتا ہے۔ "

یہ مختصر مکالمہ دونوں شخصیات کی ذہانت اور حس مزاح  کو اجاگر کرتا ہے – اس سے چیپلن کی خاموش فلموں کے ذریعے بات چیت کرنے کی صلاحیت اور آئن سٹائن کے سائنس پر گہرے اثر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے  جبکہ ان کے نظریات  اکثر عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر  ہوتے تھے۔

اور اب اس اجمال کی تفصیل۔ چارلی چیپلن کی  البرٹ آئن سٹائن سے پہلی ملاقات  1930-31 میں  موخرالذکر کے امریکا کے دوسرے دورے کے  موقع پر  ہوئی تھی، جب انھیں کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ آئن سٹائن اس وقت اپنی شہرت کے عروج پر تھے۔ اخبارات ان کی ہر حرکت پر نظر رکھتے تھے اور ماہرین تعلیم ان کے نظریات کی وضاحت کے لیے ان کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے۔ مگر اس کے باوجود یہ ان  کے ساتھی ماہرین تعلیم نہیں تھے جن سے آئن سٹائن کیلی فورنیا میں ملنا چاہتے تھے بلکہ یہ تو ان کی ایک اور پسندیدہ شخصیت تھی  اور وہ تھے چارلی چیپلن ، جن سے وہ ملاقات کے متمنی تھے اور اس کا اظہار انھوں نے اپنے قریبی دوستوں سے کیا تھا۔

جب آئن سٹائن دسمبر  1930ء میں امریکی سرزمین پر پہنچے تو انھوں  نے کیلی فورنیا جانے سے پہلے نیو یارک میں چند دن گزارے  تھےجہاں ان کا پرتپاک  استقبال کیا گیا تھا اور انھیں شہر کی چابیاں بھی  پیش کی  گئی تھیں۔آئن سٹائن  کی بہ طور  سائنس دان شہرت  اس وقت تک چاردانگ عالم پھیل چکی تھی لیکن انھیں  فلموں کے بڑے شوقین کے طور پربھی  جانا جاتا تھا ۔ یونیورسل اسٹوڈیوز کے سربراہ ، کارل لیمل Carl Laemmle ) )نے انھیں  " آل کوائٹ"(سب خاموش)   دیکھنے کے لیے ہالی ووڈ میں مدعو کیا تھا (اپنی ڈائریوں میں آئن سٹائن نے اسے "ایک اچھا فن پارہ " قرار دیا تھا)۔ آئن سٹائن نے اس موقع پر اسٹوڈیو کے سربراہ سے چارلی چیپلن سے تعارف کرانے کے لیے بھی کہا، جسے لیمل نے کچھ ہی دیر بعد فون  پر بلا بھیجا تھا۔

عظیم سائنس دان اور کامیڈی اسٹار کے درمیان پہلی ملاقات لاس اینجلس کے  یونیورسل اسٹوڈیوز میں ہوئی ، جہاں دونوں نے  ایک ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔ بعد میں چیپلن نے آئن سٹائن کے بارے میں اپنے ابتدائی تاثرات کے بارے میں اپنی سوانح حیات میں لکھا: "وہ  روایتی  الپائن جرمن  اور  بہترین معنوں میں، خوش مزاج اور دوستانہ نظر آتے تھے۔ اور اگرچہ ان کا انداز پرسکون اور نرم تھا ، لیکن میں نے محسوس کیا کہ اس میں ایک انتہائی جذباتی مزاج پوشیدہ تھا ، اور  شاید اسی ذریعے سے ان کی غیر معمولی فکری توانائی آئی تھی"۔

 سوانح حیات کے مطابق اس دورے  میں  آئن سٹائن  اور ان کی  بیوی ایلسا کو چیپلن کے گھر مدعو کیا گیا۔ میزبان  نے  ان کے اعزاز میں   عشائیے کا اہتمام کیا، جس میں ایلسا نے انھیں اس وقت کی کہانی سنائی جب آئن سٹائن نے 1915 کے آس پاس دنیا کو بدلنے والا نظریہ پیش کیا تھا۔ انھوں  نے انکشاف کیا کہ ''ایک صبح جب انھوں  نے آئن سٹائن سے پوچھا کہ انھوں  نے اپنے ناشتے کو مشکل سے کیوں چھوا ہے تو انھوں  نے جواب دیا ، "ڈارلنگ ، میرے پاس ایک حیرت انگیز خیال ہے''۔ پھر عظیم سائنس دان بیٹھ کر پیانو بجانے لگا اور اچانک  نوٹ لینے کے لیے رُک گیا۔ ایلسا  اس  لمحے  اس   سنسنی  کو مزید  برداشت نہیں کر سکتی تھی اور اس نے اپنے شوہر سے سب کچھ ظاہر کرنے کے لیے کہا ، لیکن انھوں نے کہا کہ  اس  نظریے کو تھوڑا اور سمجھنے کی ضرورت ہے اور جلد ہی وہ اپنے کمرے میں واپس چلے گئے۔آئن سٹائن دو ہفتے  تک اپنے کمرے میں رہے اور اپنا  کھانا بھی ادھر ہی کھاتے  رہے تھے،۔ ایلسا کے بہ قول '' آخر کار وہ پیلاہٹ کا شکار ہوگیا  اور تھکا ہوا نکل آیا لیکن  اس  کے ہاتھ  میں   عمومی اضافیت کا نظریہ کاغذ کی دو  شیٹوں   پر لکھا ہوا تھا''۔ انھوں نے ایلسا کے سامنے  سادہ سے انداز میں  "بس یہی  کچھ ہے" کے ساتھ  اپنا  نظریہ پیش کیا۔

اس کامیاب پہلی ملاقات کے بعد چیپلن اور آئن سٹائن رابطے میں رہے۔  منفرد کامیڈی  اداکار نے آئن سٹائن کو اپنی   فلم سٹی لائٹس (1931) کے  پریمیئر میں   اپنے خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کیا۔ اس شو میں دونوں ایک  ساتھ پہنچے، دونوں نے سیاہ ٹائی پہن رکھی تھی، پریس تصاویر کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا تھا اور ہجوم  بے قابو ہوا جارہا  تھا۔ مشہور افسانے کے مطابق، جب ہجوم نے اس جوڑی کی حوصلہ افزائی کی اور  آئن سٹائن حیران  و پریشان نظر آئے تو  چیپلن نے وضاحت کی: "وہ  دراصل  دونوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ کوئی آپ کو نہیں سمجھتا، اور مجھے کیونکہ ہر کوئی مجھے سمجھتا ہے"۔

 چیپلن کے 1933-34 کے سفرنامے 'اے کامیڈین سیز دی ورلڈ' (کامیڈین نے دنیا دیکھی) کے ایک اور ورژن میں کہا گیا ہے کہ یہ سطر دراصل آئن سٹائن کے ایک بیٹے کی طرف سے آئی تھی، جس نے پریمیئر کے قریباً  ایک ماہ کے  بعد جرمنی میں آئن سٹائن سے چیپلن کی  ملاقات کے دوران  میں یہ بات کہی تھی: "آپ (چیپلن)  مقبول ہیں [کیونکہ] آپ کو عوام سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف، عوام میں پروفیسر کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھ میں نہیں آتے ہیں"۔

1932-33 کے موسم سرما میں جب آئن سٹائن دوبارہ کیلی فورنیا آئے تو چیپلن نے ان کے اعزاز میں عشائیہ دینے کا فیصلہ کیا۔ کامیڈین نے انھیں  اس وقت میڈیا کی عظیم  شخصیات میں سے ایک   ولیم رینڈولف ہرسٹ سے متعارف کرانے کا ارادہ کیا ، جس میں طنز ومزاح سے بھرپور شاندار گفتگو اور  مزاحیہ رد عمل کی بہت زیادہ امیدیں  وابستہ تھیں۔ بدقسمتی سے آئن سٹائن غیر تعلیمی سامعین کو اپنے پیچیدہ نظریے کی وضاحت کرنے کے موڈ میں نہیں تھے، اور ہرسٹ نے بظاہر زبان  بندی کی تھی ۔ ایک لفظ بول کے نہیں دیے۔ البتہ اپنی ذات میں مگن   میٹھے سے دل بہلاتے رہے۔ کھانے کی میز  پر ایک عجیب خاموشی چھا گئی، جو آخر کار اس وقت ٹوٹ گئی جب ہرسٹ کی  اہلیہ ، کامیڈی اداکارہ ماریون ڈیوس نے آئن سٹائن کے مشہور زمانہ  بکھرے ، الجھے   بالوں میں اپنی انگلیاں  پھیرنا شروع کردیں  اور طنز انداز میں یوں گویا ہوئیں : "آپ اپنے بال کاٹ  کیوں نہیں  لیتے؟"

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ دوستی اس تباہ کن عشائیہ سے بچ گئی تھی  اور  اس کے بعد کے برسوں  میں   بھی جاری رہی تھی۔ آئن سٹائن نے 1933 ء میں اپنی جرمن شہریت ترک کر دی  تھی  اور  وہ  پرنسٹن، نیو جرسی منتقل ہو  گئے تھے، جہاں ان کا سماجی دائرہ کافی وسیع ہو گیا تھا  لیکن ان کی ابتدائی ملاقاتوں کے  واقعات سے پتا چلتا ہے کہ  چیپلن  اور آئن سٹائن  دونوں   ایک دوسرے کے بارے میں گہری تفہیم رکھتے تھے اور ان کے درمیان مختلف    النوع   ذہانت کی  قدرِ مشترک بھی تھی۔

یہ خارزارِ صحافت میں قدم رکھنا ، لوگ آساں سمجھتے ہیں صحافی ہونا

  اپنی پہلی بائی لائن  اسٹوری کیسے  شائع کرائیں؟

کرسٹیانا بیدی،اطالوی صحافیہ

پیشہ ورانہ بائی لائن  کے معیار پر پورا  اُترنا اکثر جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے ، خاص طور پر جب  آپ کے پاس پورٹ فولیو یا  صحافت کی صنعت  میں  رابطوں کی کمی ہو۔ لیکن یاد رکھیں: ہر چھپنے والے  مصنف نے کہیں نا کہیں  سے تو اپنا سفر  شروع کیا ہوگا - جیسے آپ اب ، کامیابی کی تلاش میں ہیں، وہ بھی اسی طرح  محو ِسفر ہوئے ہوں گے۔

اگرچہ نیوز رومز بعض اوقات ان صحافیوں کی حمایت کرتے ہیں جن کے ساتھ وہ پہلے کام کر چکے ہوتے  ہیں اوروہ  ان پر اعتماد کرتے ہیں ، لیکن ٹائم کی ایک ایڈیٹر اولیویا این کلیری  نے، جو  صحافت  میں ایک دہائی کا تجربہ رکھتی ہیں ،  اس پر یہ تبصرہ کیا کہ نئے آنے والے اپنے ساتھ مختلف طاقتیں لاسکتے ہیں۔  محنت کش طبقے کے ساتھ  جڑی  کلیری اس سکڑتی ہوئی صنعت میں داخل ہونے کے چیلنجوں کو سمجھتی ہیں  جس    پر اب  زیادہ آمدن والے لوگوں کا غلبہ  ہے۔ آج، وہ محنت کش طبقے کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے اور پہلی بار لکھنے والوں پر مزید دروازے کھولنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ "پہلی بار لکھنے والوں میں بہت زیادہ جوش و خروش ہوتا ہے ۔اگر  ان کی اچھی طرح سے  رہ نمائی و تربیت   کی جائے  تو  وہ  ایک شاندار اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں"۔

کلیری نے مزید کہا کہ نئے ٹیلنٹ کو پروان چڑھانا بعض اوقات دقت طلب ضرور ہوتا ہے، لیکن آخر کار  یہ  ہدف حاصل ہو  جاتا ہے۔ سہ ماہی پرنٹ میگزین 'دی فینس' کی مدیرہ روئسن لانیگن بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ہمیشہ فائدہ مند ہوتا ہے کہ کسی کو  پہلے بائی لائن پر کام کرنے  کے لیے دیا جائے اور پھر انھیں ایک مصنف کے

طور پر اور اپنے کیریئر میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھا

جائے''۔ برطانیہ اور آئرلینڈ میں زندگی کے   مختلف موضوعات  پر مرکوز  جریدہ ''  فینس''  ان مصنفین کا عام خیرمقدم کرتا ہے  جن کے پاس کوئی سابقہ تجربہ نہیں ہوتا ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ باضابطہ ٹریک ریکارڈ کے بغیر بھی مواقع موجود ہیں۔

تاہم، ہر کوشش کامیاب نہیں ہوتی ہے۔ پاپ کلچر نیوز پبلی کیشن ''ولچر'' کی فیچر ایڈیٹر میگھ رائٹ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "گذشتہ برسوں میں جن فری لانس مصنفین نے میرے ساتھ کام کیا ،ان سب کو مجھ سے پاس ملے ہیں۔مجھے اچھا لگتا ہے جب کوئی نیا،  متجسس لکھاری مجھے کچھ پیش کرتا ہے، میں  اس کو پاس کرتی ہوں، وہ اسے اچھی طرح لیتے ہیں، پھر وہ واپس آتے ہیں اور پچ کرتے رہتے ہیں''۔

کسی مسودے  کا مسترد کیا جانا سیکھنے کے  عمل کا حصہ ہے۔ اپنے پہلے کام کو محفوظ بنانے کے لیے، آپ کو مہارتوں کی ضرورت ہے لیکن استقامت کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مدیروں  سے رابطہ کرنے کے بارے میں کچھ علم بھی ہونا چاہیے۔ کلیری ، لانیگن ، اور رائٹ نے اشاعت کی طرف قدم  بڑھانے کے بارے میں  جوماہرانہ مشورے فراہم کیے ہیں،ان کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:

ایک وقت میں ایک موضوع پر توجہ مرکوز کریں

مختلف  موضوعات پر مبنی پچوں سے  بھر پور  ای میل بھیجنا کوئی خوش آیند نہیں ہوسکتا  کیونکہ   ای  میل کا ایسا مضمون  ان میں سے کسی کے لیے بھی جذبے کی کمی کی نشان دہی کرسکتا ہے۔رائٹ نے کہا کہ "میں ایک ایسے خیال سے شروع کرنے کی سفارش کروں گی  جس کے بارے میں آپ واقعی بہت پرجوش ہیں اور اس  کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے وقت  صرف کریں گے، اس پر توجہ مرکوز کریں  گے اور اس کی نوک پلک سنوار کر بہتر سے بہتر بنائیں گے"۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ ایڈیٹرز اکثر دباؤ میں  اور ضرورت سے زیادہ کام کرتے ہیں ، لہٰذا  وہ ایک وقت میں ایک تجویز کوعملی  جامہ پہنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اپنی پچ کو پختہ بنائیں

اپنے  آئیڈیا میں  معمولی تبدیلیوں پر غور کریں  اوریہ  ایک بڑا فرق پیدا کرسکتی ہیں۔ لانیگن نے کہا کہ "اپنی  پچ کو ای میل  میں مناسب طریقے سے پیش کریں اور آپ جس  اشاعت کے لیے پیش کر رہے ہیں، اسے  پہلے پڑھ لیں  تاکہ آپ اپنے خیالات کو اس کے مطابق ڈھال سکیں جس کی وہ اصل میں تلاش کر رہے ہیں''۔

انھوں نے مشورہ دیا کہ ذاتی کہانیوں کے بجائے  کسی موقتہ موضوع پر رپورٹ  کی گئی  کہانیوں میں  نئے زاویوں کا انتخاب کریں، کیونکہ ان سے اکثر ایڈیٹر کی توجہ حاصل کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

تفصیل شامل کریں

اپنی ای میل  جامع لیکن مکمل رکھیں۔ اپنے  موضوع کی وضاحت کریں ، ممکنہ انٹرویو دینے والوں کی فہرست بنائیں ، وہ نکات جو آپ تلاش کریں گے ، اور کچھ لائنوں میں الفاظ کی گنتی کا تخمینہ فراہم کریں۔کلیری نے لکھاریوں پر زور دیا کہ وہ ذرائع تک اپنی رسائی کے بارے میں شفاف رہیں اور کہانی پیش کرنے اور چلانے کے لیے ایک حقیقت پسندانہ تاریخ شامل کریں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کسی فلم کی سالگرہ پر مبنی مضمون پیش کر رہے ہیں، تو آپ سالگرہ پر یا اس سے پہلے اشاعت کی تاریخ کا تصور کریں گے۔

اپنا زاویہ اور عنوان معلوم کریں

ایک زاویے اور عنوان کو یقینی بنائیں۔ کلیری نے کہا کہ "مجھے لگتا ہے کہ اگر آپ اپنے منصوبہ بند مضمون کو  واضح سرخی نہیں دے سکتے ہیں، تو آپ کے پاس واضح وژن نہیں ہوسکتا ہے۔رائٹ نے اس بات سے اتفاق کیا: "اگر آپ  کسی موضوع پر  ایک چھوٹا مضمون بھیج رہے ہیں، تو یہ اکثر اس بات کی علامت ہے کہ آپ کا  آئیڈیا ابھی تک مکمل طور پر  پختہ نہیں ہوا ہے۔"

منفرد بننے کی ہمت کریں

رائٹ نے ایک منفرد اور پرکشش آواز پیش کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی جو توجہ حاصل کرتی ہے۔ اس کی انھوں نے وضاحت کی کہ'' اس  سے مراد  کسی چیز کو بہترین انداز میں پیش کیا جانا ہے، خاص طور پر ایسی چیز جس سے میں واقف نہیں ہوں' جو مجھے مزید جاننے کے لیے پرجوش کر دیتی ہے"۔

انھوں نے غیر روایتی پچوں  کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کی  اور کہا کہ  کچھ  عجیب اور منفرد ہونے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ  نہ کریں اور یہاں تک کہ تھوڑا سا  غیر متوازن    ہونے میں بھی حرج نہیں۔ انھوں نے کہا کہ'' میں  کسی کے کوائف نامے کے بجائے ایک  مضبوط شخصیت اور مضبوط تحریر کو  زیادہ  پسند کرتی ہوں "۔

روایتی میڈیا سے باہر اپنا پورٹ فولیو بنائیں

 لکھاریوں کے پاس ان کے  کام کا ایک پورٹ فولیو ہونا چاہیے جو وہ  مدیروں   کو دکھا سکتے ہیں ، لیکن اس کا مطلب صرف دوسرے جرائد و اخبارات  میں شائع ہونے والا کام نہیں ہے۔ "مجھے نہیں لگتا کہ آپ کو پورٹ فولیو کے بغیر پچ کرنا چاہیے! ''رائٹ  کے بہ قول 'پورٹ فولیو' کیسا دکھائی دیتا ہے ،اس سے قطع  نظر وہ بہت سی سمتوں میں جا سکتا ہے۔

تینوں خواتین  ایڈیٹروں نے یہ  تجاویز پیش کی ہیں: ذاتی ذوق اور  تفنن طبع کے لیے لکھے گئے مضامین اور منصوبوں کو ظاہر کرنے کے لیے اپنے  بلاگ یا ویب سائٹ پر خود  شائع  کرنے  پر غور کریں۔ صحافت کے طالب علم یونیورسٹی کے اخبارات اور رسالوں  میں اشاعت کے  مواقع تلاش کرسکتے ہیں ، یہاں تک کہ صرف کچھ فری لانس  مواد کو محفوظ کرنے کے لیے بھی۔ اگر آپ کے پاس اسکول کی ذمہ داری ہے جس پر آپ کو خاص طور پر فخر ہے تو ، اسے شیئر کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔نیوز لیٹر آپ کی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے اور قارئین کا حلقہ بنانے  کا ایک اور بہترین طریقہ ہے ، جو بڑے پلیٹ فارمز پر پچ کرتے وقت قیمتی ہوسکتا ہے۔

کمیونٹی اور ایڈیٹرز کے ساتھ رابطے میں رہیں

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور فری لانس رائٹنگ نیوز لیٹرز پر نظر رکھیں ، جیسے جورنو ریسورسز - دی اپرچونٹیز ، جہاں ایڈیٹرز اکثر پچز کے لیے کالز کا اعلان کرتے ہیں۔

لانیگن نے وضاحت کی کہ "بالعموم  لوگوں کا فعال طور پر  خدمات حاصل کرنے والی اشاعتوں  سے براہ راست  رجوع   شاید   زیادہ مفید اور کارآمد ثابت  ہوتا ہے  بجائے اس کے کہ  لوگوں کو   ایکس وائی زیڈ اشاعت کی طرف   جانے کا اشارہ کیا جائے   اور وہ  پھر وہاں سے  ایڈیٹروں کے ساتھ تعلقات استوار کریں۔

آراء کو قبول کریں

اپنا مضمون پیش کرنے کے بعد ،  مختلف تنقیدی آراء  کو تعمیری طور پر قبول کریں۔ لانیگن کا کہنا تھا کہ 'میں ان  مدیران کی شکر گزار ہوں جنھوں نے مجھے اس وقت موقع دیا جب میرے پاس بہت کم یا کوئی شائع شدہ کام نہیں تھا۔ 'لیکن میرے خیال میں میں نے ان ایڈیٹرز کے ساتھ جو غلطی کی ہے اور جس کی وجہ سے آج پہلی بار لکھنے والوں کے ساتھ کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ میں ان کی تجویز کردہ ترامیم کے بارے میں بہت پریشان اور معذرت خواہ  ہوتی تھی۔یاد رکھیں، یہ ایک ایڈیٹر کا کام ہے کہ آپ کے مضمون/تحریر کو بہتر بنائیں،اس کی نوک پلک سنواریں۔ ان کی رائے آپ کی صلاحیتوں پر تنقید نہیں ہے، بلکہ آپ کو  آگے بڑھنے میں مدد  دینے کے لیے ایک قابل قدر آلہ ہے۔

انکار سے مایوس نہ ہوں

رائٹ کا کہنا ہے کہ "ابتدا میں تحریریں  مسترد ہونے  سے لوگوں کے جذبات مجروح  ہوتے ہیں۔ میں اس عمل سے گزر چکی  ہوں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کمی آئے گی"۔ایڈیٹرز کو یہ سمجھانے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ آپ ایک نئے صحافی ہیں اور  ان کی رائے  چاہتے ہیں تاکہ آپ  اس رائے کی روشنی میں  مستقبل کی پچوں کو اس کے مطابق ڈھال سکیں جس کی وہ تلاش کر رہے ہیں۔ "لیکن ہر ایڈیٹر کے پاس آپ کو یہ رائے دینے کا وقت نہیں ہوسکتا ہے ، البتہ پوچھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور ہمیں یہ  حقیقت فراموش  نہیں کرنی چاہیے کہ  ہم سب ایک بار نئے تھے۔

1992 ء میں شائع شدہ انٹرویوز کے مجموعہ'' اختلاف رائے کی تاریخ ''سے اقتباسات


اسرائیل اور امریکا تنازع فلسطین کا دو ریاستی سمیت کوئی بھی حل نہیں چاہتے: نوم چومسکی

(اختلاف رائے کی تاریخ  (کرونیکلز)1992 ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ عالمی شہرت یافتہ  ماہر لسانیات اور معروف سماجی نقاد پروفیسر نوم چومسکی کے مختلف  انٹرویوز پرمشتمل کتاب ہے ۔اس کو  ڈیوڈ بارسامیان  نے مرتب کیا ہے۔ اس  سے مختلف سیاسی مسائل پر چومسکی کے خیالات کے بارے میں بصیرت فراہم  ہوتی ہے۔یہ کوئی سوانح حیات یا علمی کتاب نہیں ، بلکہ چومسکی کی تنقید اور معاصر مسائل کے تجزیوں کا مجموعہ ہے جو انٹرویوزکی  شکل میں پیش کیا گیا ہے۔اس میں نوم چومسکی  نے امریکا کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر مشرق  اوسط اور لاطینی امریکا کے بارے میں پالیسی پر کھل کر  اظہارِخیال کیا ہے۔اس کتاب  کی اشاعت کے 32 سال کے بعد بھی تنازع فلسطین کے  حل کے لیے کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوئی اور جناب نوم چومسکی کی یہ بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی ہے کہ امریکا اور اسرائیل ہی اس دیرینہ تنازع کے حل کی راہ میں حائل ہیں۔اب اسرائیل کی غزہ  پر مسلط کردہ جنگ نے اس تنازع کو اور بھی پیچیدہ کردیا ہے اور اسرائیلی وزراء  اب کھلے  بندوں غزہ کی پٹی پرمکمل فوجی قبضے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔اس انٹرویو سے اردوقارئین کو تنازع فلسطین کے پس نظر کوسمجھنے میں مدد ملے گی۔امتیازاحمدوریاہ)

سوال: آپ کی ایک کتاب 'دی فیٹ فل ٹرائی اینگل' خاص طور پر مشرق  اوسط پر مرکوز ہے اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا آپ مسئلہ فلسطین کے ممکنہ دو ریاستی حل کے بارے میں اپنے مؤقف کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔

نوم  چومسکی: مجھے نہیں لگتا کہ یہ بہترین حل ہے، لیکن یہ کچھ عرصے سے ایک حقیقت پسندانہ سیاسی تصفیہ رہا ہے۔ ہم یہاں کچھ بنیادی باتوں سے آغاز کرتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ واضح طور پر دو قومی گروہ ہیں جو فلسطین میں حق خودارادیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ کم وبیش  وہ تمام علاقہ ہے جس پر اب اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے، گولان کی چوٹیاں اس فلسطینی علاقے کے علاوہ ہیں، جو شام کا حصہ ہیں لیکن اسرائیل ان پر قابض ہے۔

لہٰذا دو قومی گروہ ہیں جو قومی  حق خود ارادیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایک گروہ مقامی آبادی پر مشتمل ہے، یا اس میں جو باقی رہ گیا ہے – اس میں سے بہت سے لوگوں کو بے دخل کیا جا چکا ہے یا  ان کی آبائی سرزمینوں  سے  نکال باہرکیا گیا ہے یا وہ گھربار چھوڑ کر نقل مکانی پرمجبور کردیے گئے۔ دوسرا گروہ یہودی آباد کار ہیں جو اصل میں یورپ سے آئے تھے ، بعد میں   مشرقِ اوسط  کے دیگر حصوں اور کچھ دیگر مقامات سے آئے تھے۔چناں چہ  یہ  دو گروہ ہوئے، مقامی آبادی اور تارکینِ وطن اور ان کی اولادیں۔ دونوں قومی  حقِ خود ارادیت  کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہاں ہمیں ایک اہم فیصلہ کرنا ہے: کیا ہم نسل پرست ہیں، یا نہیں؟ اگر ہم نسل پرست نہیں ہیں تو پھر مقامی آبادی کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو ان کی جگہ لینے والے آباد کاروں کو حاصل ہیں۔ کچھ لوگ زیادہ کا دعویٰ کر سکتے ہیں، لیکن کم سےکم اتنے ہی حقوق دینے کا کَہ  سکتے ہیں۔ چناں چہ ، اگر ہم نسل پرست نہیں ہیں تو ہم ایک ایسے حل کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے جو ان (مقامی آبادی اور آبادکاروں؟ ) کے حق میں ہو- ہم کہیں گے کہ وہ بنی نوع  انسان ہیں ،انھیں مساوی حقوق حاصل ہیں، اس لیے وہ دونوں قومی حق خود ارادیت کے دعوے کے مستحق ہیں۔ میں اس بات کی اجازت دے رہا ہوں کہ آباد کاروں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مقامی آبادی کو حاصل ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ واضح نہیں لگتا ہے لیکن آئیے اس کی اجازت دیتے ہیں۔ پھر بہت سے امکانات ہیں۔ ایک امکان ایک جمہوری سیکولر معاشرہ ہے۔ عملی طور پر کوئی بھی اس کے حق میں نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہیں، لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو وہ واقعی نہیں ہیں۔ کثیر نسلی معاشروں کے لیے مختلف ماڈل موجود ہیں، جیسے سوئٹزرلینڈ یا کچھ اور مقامات پر ہیں۔ اور شاید طویل عرصے میں یہ بہترین   آئیڈیا ہوسکتے ہیں ، لیکن وہ غیر حقیقی ہیں۔

گذشتہ دس یا بارہ سال میں واحد حقیقت پسندانہ سیاسی تصفیہ، جو دونوں قومی گروہوں کے حق خودارادیت کو پورا کرے گا ،وہ دو ریاستی تصفیہ ہی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ کیا ہونا چاہیے: جون 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے اندر اسرائیل اور دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ایک فلسطینی ریاست، اور گولان کی  چوٹیوں کی شام کو واپسی، یا شاید کوئی اور انتظام۔ یہ شاید غیر فوجی علاقوں اور کسی نہ کسی طرح کی بین الاقوامی ضمانتوں سے وابستہ ہوگا ، لیکن یہ ممکنہ سیاسی تصفیے کا فریم ورک ہے۔ جیسا کہ میں کہتا ہوں، مجھے نہیں لگتا کہ یہ سب سے بہتر  حل ہے، لیکن یہ حقیقت پسندانہ ہے، بلکہ  بہت ہی حقیقت پسندانہ ہے۔ اسے دنیا کے بیشتر ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ اسے یورپ کی حمایت حاصل ہے، سوویت یونین (اب صرف روس) کی حمایت حاصل ہے، قریباً تمام غیر وابستہ ممالک نے اس کی حمایت کی ہے، اسے تمام بڑی عرب ریاستوں کی حمایت حاصل ہے اور ایک طویل عرصے سے تنظیم آزادیِ فلسطین(پی ایل او) کے مرکزی دھارے کی حمایت حاصل ہے اور ایک بار پھر، ایک طویل عرصے سے، اسے امریکی آبادی کی بھی حمایت حاصل ہے،  رائے  عامہ کے جائزوں  کے مطابق  ایک کے مقابلے میں قریباً دو امریکیوں کی  حمایت  حاصل ہے۔ لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ عرب دنیا میں مسترد کرنے والے محاذ، پی ایل او کے اقلیتی عناصر، لیبیا، چند دیگر، اقلیتوں کو مسترد کرنے والے عناصر، لیکن اہم بات یہ ہے کہ مسترد کرنے والے محاذ کے رہنماؤں، یعنی امریکا اور اسرائیل نے اس کی مخالفت کی ہے۔ امریکا اور اسرائیل تو اس کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ امریکا اس پر غور نہیں کرے گا۔ اسرائیل کے دونوں سیاسی گروہ اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ وہ سابقہ فلسطین میں مقامی آبادی کے لیے قومی خود ارادیت کے کسی بھی حق کو مسترد کرتے ہیں۔ان کے بہ قول مقامی آبادی والے چاہیں  تو وہ  اردن یا سابق شام یا کچھ اور حاصل کر سکتے ہیں، لیکن وہ علاقہ نہیں جس پر اب اسرائیل کا فوجی قبضہ ہے۔ درحقیقت وہ اس کے بارے میں واضح ہیں۔ یہاں احتیاط سے پھیلائے جانے والے وہم ہیں کہ لیبر پارٹی اس مسئلے پر سمجھوتا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو کوئی معنی خیز سمجھوتا نہیں ہے۔ لیبر پارٹی کا مؤقف وہی ہے جس کا اظہار ان کے نمائندے، (سابق صدر) خیم ہرزوگ نے کیا تھا، جنھوں نے کہا تھا کہ "ایک ایسی سرزمین میں کوئی بھی ہمارے ساتھ شراکت دار نہیں بن سکتا جو 2000 سال سے ہمارے لوگوں کے لیے مقدس ہے۔ یہی ان کا مؤقف ہے۔ وہ معمولی ایڈجسٹمنٹ کرنے  کو تیار ہیں۔ وہ مغربی کنارے کی آبادی کا خیال نہیں رکھنا چاہتے، کیونکہ وہاں عربوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ اپنے ارد گرد بہت سے عرب نہیں چاہتے ہیں، لہٰذا وہ جو کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ مغربی کنارے سے وہ علاقے، پانی اور وسائل لے لیں لیکن آبادی کو یا تو بے ریاست چھوڑ دیں یا اردن کے کنٹرول میں  دے دیں۔ اسی کو "سمجھوتے کا حل" کہا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی مضحکہ خیز تجویز ہے، جو بہت سے معاملات میں فلسطینی علاقوں  کو ضم کرنے  یا ہتھیانے سے بھی بدتر ہے۔ لیکن اسے یہاں سمجھوتا کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم امریکا میں ایک بار پھر تعلیم یافتہ اشرافیہ ہیں اور قومی بحث اس بارے میں سخت نسل پرستانہ نقطہ نظر اختیار کرتی ہے۔ فلسطینی انسان نہیں ہیں، وہ ان حقوق کے مستحق نہیں ہیں جو ہم انھیں بے گھر کرنے والے آباد کاروں کو خود بخود دیتے ہیں۔ یہ واضح امریکی بحث کی بنیاد ہے: خالص، ملاوٹ سے پاک نسل پرستی۔ ایک بار پھر، یہ ہمیشہ کی طرح آبادی کے بارے میں سچ نہیں ہے، لیکن یہ اس کے سیاسی طور پر فعال اور واضح حصوں اور یقینی طور پر حکومت کے بارے میں ہے۔ جب تک امریکا اور اسرائیل سیاسی تصفیے کو مسترد کرتے ہیں، تب تک ایسا نہیں ہو سکتا۔

یقیناً  گذشتہ کئی سال سے سیاسی تصفیے کے بہت قابل قبول مواقع موجود ہیں۔ یہاں ، صرف ان چند کا ذکر کیا جاتا ہے جو تاریخ سے غائب ہو چکے ہیں کیونکہ وہ بہت  متاثرکن نہیں تھے: فروری 1971 میں مصر کے سابق صدر انور سادات نے جون  1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر اسرائیل کو ایک مکمل امن معاہدے کی پیش کش کی۔ یہ  امریکا کی سرکاری  پالیسی کے مطابق   پیش کش کی گئی تھی لیکن اتفاق سے،امریکا کی عملی پالیسی نہیں۔ اس میں  فلسطینیوں کو کچھ بھی پیش نہیں کیا گیا تھا، انھوں  نے فلسطینی ریاست کی پیش کش بھی نہیں کی تھی،  بہ الفاظ دیگرکچھ بھی نہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا اور امریکا نے اس انکار میں ان کی حمایت کی  تھی۔ جنوری 1976 میں شام، اردن اور مصر، نام نہاد "محاذ آرائی کرنے والی ریاستوں" نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بین الاقوامی ضمانتوں اور علاقائی حقوق کے تحفظ کے ساتھ دو ریاستی تصفیے کی تجویز پیش کی۔ اسے پی ایل او کی حمایت حاصل تھی اور اسے سوویت یونین اور دنیا کے بیشتر ممالک کی  بھی حمایت حاصل تھی۔ اسرائیل کی جانب سے اس کی شدید مخالفت کی گئی۔ اس نے اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا، درحقیقت اس نے اقوام متحدہ کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر لبنان پر بمباری کی، جس میں قریباً 50 افراد ہلاک ہوئے۔اس نے اس پرکوئی عذر تراشا اور نہ معذرت کی نہیں، بلکہ  صرف غصے  کا اظہار کرتے ہوئے کہا : "اگر آپ اس پر زور دیں گے تو ہم ہر اس شخص کو ہلاک کر دیں گے جو ہمارے راستے میں آئے گا" اور امریکا نے اسے ویٹو کر دیا۔ اس کے بعد سے اس طرح کی چیزوں کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا نے ہمیشہ  مسئلہ کے حل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں اور اسرائیل نے ہمیشہ ان سے انکار کیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی سیاسی تصفیہ نہیں  ہے بلکہ مستقل فوجی محاذ آرائی کی حالت ہے۔ یہ فلسطینیوں کے لیے اس کے معنی سے ہٹ کر ہے ، جو واضح اور خوفناک ہے۔ یہ اسرائیل کے لیے بہت بُرا ہے۔ میرے خیال میں یہ ان کی اپنی تباہی کا باعث بن رہا ہے، یقینی طور پر ان کی معاشی تباہی اور اخلاقی انحطاط اور شاید جلد یا بدیر، ان کی مادی تباہی، کیونکہ آپ جلد یا بدیر شکست کے بغیر فوجی محاذ آرائی کی حالت  جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔ یہ صورت حال بار بار دنیا کو جوہری جنگ کے بہت قریب لے جا رہی ہے۔ جب بھی ہمارے درمیان عرب اسرائیل تنازع ہوتا ہے اور ان  سے زیادہ بھی ہوتے ہیں، جب تک ہم فوجی محاذ آرائی جاری رکھتے ہیں، سوویت یونین اور امریکا تصادم  کے قریب تر آجاتے ہیں۔  سوویت یونین (اب سابق) خطے کے  قریب ہے، یہ وسطی امریکا کی طرح نہیں ہے، یہ ان کی سرحد کے قریب ایک  تزویراتی خطہ ہے، وہ اس میں ملوث ہیں۔ یہ ہم سے بہت دور ہے لیکن بنیادی طور پر  یہ تیل  کے نزدیک ہونے کی وجہ سے یہ ہمارے لیے ایک  تزویراتی خطہ ہے۔ لہٰذا ہم ملوث ہیں، بیڑے تصادم  کی زدمیں آتے ہیں، یہ بہت قریب ہے۔ 1967 میں یہ جوہری جنگ کے بہت قریب پہنچ گیا اور  ایسا دوبارہ ہوگا۔ لہٰذا یہ بہت خطرناک ہے، یہ سب سے زیادہ ایسی  ممکنہ جگہ ہے جہاں جوہری جنگ ہوگی، لیکن ہم اس پر عمل پیرا ہیں، کیونکہ ہم سیاسی تصفیہ نہیں چاہتے ہیں۔ امریکا فوجی محاذ آرائی برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

(جاری ہے) 

ڈیٹا سائنس: کوڈنگ سیکھنے کے لیے امریکی جامعات کے پیش کردہ پانچ مفت کورسز

نتاشا سیلواراج

میں نے ڈیٹا سائنس دان بننے کے لیے  کمپیوٹر سائنس کی  تین سالہ ڈگری پر قریباً 30 ہزار  ڈالر خرچ کیے تھے۔ یہ ایک مہنگا اور دقت طلب عمل تھا۔گریجوایشن کے بعد، مجھے احساس ہوا کہ میں اس کے بجائے آن لائن تمام ضروری مہارتیں سیکھ سکتی تھی۔ ہارورڈ، اسٹینفورڈ اور ایم آئی ٹی جیسی امریکا  کی   عالمی شہرت یافتہ   جامعات نے کسی بھی شخص کے   کمپیوٹر پروگرامنگ  سمیت  مختلف  علوم وفنون  سیکھنے کے لیے آن لائن درجنوں  کورسز جاری کیے ہیں۔اور جانتے ہیں  ان کی سب سے اچھی بات کیا ہے؟

یہ    سب بالکل  مفت  ہیں۔

 انٹرنیٹ کا شکریہ، اب آپ اپنے گھر کے آرام  دہ ماحول میں  بیٹھ  کر  آئیوی لیگ  (مراد امریکا کی سرکردہ نمایاں جامعات ) سے مفت میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔یہاں  امریکی جامعات کے آن لائن  پیش کردہ پانچ  کورسز کا  مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔   ہم میں سے کوئی بھی   ڈیٹا سائنس  میں کوڈنگ سیکھنے کے لیے  یہ تمام  آن لائن کورس لے سکتا ہے۔

نوٹ: پائتھن اور آر ڈیٹا سائنس کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی پروگرامنگ  کی  دو زبانیں  ہیں ، اور اس طرح ، اس فہرست میں شامل  زیادہ تر کورسز میں  ان زبانوں میں سے ایک یا دونوں پر توجہ مرکوز  کی گئی ہے۔
1۔ ہارورڈ یونیورسٹی - سی ایس 50 ، کمپیوٹر سائنس کا تعارف

 ہارورڈ کا سی ایس 50 کورس ۔اس صف اوّل کی جامعہ  کی طرف سے پیش کردہ سب سے زیادہ مقبول  پروگرامنگ کورسز میں سے ایک ہے۔یہ بنیادی سطح کا کورس ہے۔ یہ  آپ کو کمپیوٹر سائنس کے بنیادی اصولوں  سے متعارف کراتا ہے  اور کمپیوٹر سائنس کے نظریاتی تصورات اور عملی  اطلاق دونوں کا احاطہ کرتا ہے۔اس میں  آپ کو پروگرامنگ  کی مختلف زبانوں  سے آگاہ کیا جائے گا ، جیسے پائتھن ، سی ، اور ایس کیو ایل (سکوئل)۔

اس کورس کو کمپیوٹر سائنس   کی ایک مِنی ڈگری کے طور پر خیال کریں ۔یہ  یوٹیوب کے 24 گھنٹے  کے مواد  پر مشتمل ہے۔اب اس  کا ایک  دل چسپ  موازنہ پیش کرتی ہوں  ، سی ایس 50  میں وہ تما م مواد شامل ہے جو  مجھے اپنی یونیورسٹی میں سیکھنے کے لیے پورے  تین سمسٹر لگے تھے۔

اب بات ہوجائے کہ  آپ CS50 میں کیا مہارتیں  سیکھیں گے اور وہ یہ ہیں:

·         پروگرامنگ کی بنیادی باتیں

·         ڈیٹا ڈھانچے اور الگورتھم

·         ایچ ٹی ایم ایل اور سی ایس ایس کے ساتھ ویب ڈیزائن

·         سافٹ ویئر انجینئرنگ کے تصورات

·         میموری مینجمنٹ

·         ڈیٹا بیس مینجمنٹ

اگر آپ ڈیٹا سائنس دان بننا چاہتے ہیں تو ، پروگرامنگ اور کمپیوٹر سائنس میں ایک ٹھوس بنیاد کی ضرورت  ہوتی ہے۔ آپ سے اکثر ڈیٹا بیس سے ڈیٹا نکالنے ، پیداوار میں مشین لرننگ ماڈل  کے اطلاق  ، اور ماڈل پائپ لائنیں بنانے کی توقع کی جائے گی۔CS50 جیسے پروگرام آپ کو سیکھنے کے سفر کے اگلے مرحلے میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری تکنیکی بنیاد سے لیس کرتے ہیں۔

کورس لنک: ہارورڈ سی ایس 50
 

2۔ ایم آئی ٹی - کمپیوٹر سائنس اور پروگرامنگ کا تعارف

 ایم آئی ٹی ایکس کا کمپیوٹر سائنس اور پروگرامنگ کا تعارف۔یہ  ایک  ابتدائی نوعیت کا تعارفی کورس ہے  اور یہ  آپ کو کمپیوٹر سائنس اور پروگرامنگ میں بنیادی مہارتوں سے آراستہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔تاہم ،سی ایس 50 کے برعکس   یہ کورس بنیادی طور پر پائتھن میں پڑھایا جاتا ہے اور کمپیوٹیشنل سوچ اور مسئلے کو حل کرنے پر بہت زور دیتا ہے۔مزید برآں ، ایم آئی ٹی کا  کمپیوٹر سائنس  کا تعارفی کورس ڈیٹا سائنس اور پائتھن کے عملی  اطلاق  پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے ، جس  کی وجہ سے یہ ان طلبہ کے لیے ایک  بہتر انتخاب  ہے جو صرف   ڈیٹا سائنس کے لیے پروگرامنگ سیکھنا   چاہتے ہیں۔

ایم آئی ٹی کا انٹروڈکشن  ٹو کمپیوٹر سائنس کورس لینے کے بعد، آپ مندرجہ ذیل تصورات سے واقف ہوں گے:

·         پائتھن پروگرامنگ: سینٹکس (نحو)، ڈیٹا کی اقسام، افعال

·         کمپیوٹیشنل سوچ: مسئلہ حل کرنا، الگورتھم ڈیزائن

·         اعداد و شمار کے ڈھانچے: فہرستیں، ٹپلز، لغات، سیٹ

·         الگورتھم پیچیدگی: بگ او نوٹیشن

·         آبجیکٹ اورینٹڈ پروگرامنگ: کلاسز، آبجیکٹس، وراثت، پولمورفزم

·         سافٹ ویئر انجینئرنگ کے اصول: ڈی  بگنگ، سافٹ ویئر ٹیسٹنگ، استثنائی ہینڈلنگ

·         کمپیوٹر سائنس کے لیے ریاضی: شماریات اور امکان (پروبیبلٹی) ، لکیری ریگریشن، ڈیٹا ماڈلنگ

·         کمپیوٹیشنل ماڈل: سمولیشن کے اصول اور تکنیک

·         ڈیٹا سائنس کی بنیادیں: ڈیٹا ویژولائزیشن اور تجزیہ

آپ ایڈ ایکس پر مفت میں اس کورس کو آڈٹ میں  لےسکتے ہیں۔

کورس لنک: ایم آئی ٹی ایکس - کمپیوٹر سائنس کا تعارف
 

3۔ ایم آئی ٹی - الگورتھم کا تعارف

 ایک  مرتبہ جب آپ سی ایس 50 جیسے  کمپیوٹر سائنس کے بنیادی  کورس مکمل کر لیتے ہیں تو ، آپ ایم آئی ٹی کے الگورتھم سیکھنے کے  لیے یہ تعارفی کورس  لے سکتے ہیں۔یہ پروگرام آپ کو الگورتھم اور ڈیٹا ڈھانچے کے ڈیزائن ، تجزیہ اور  اطلاق سکھائے گا۔ڈیٹا سائنس دان کی حیثیت سے ، آپ کو اکثر ایسے حل نافذ کرنے کی ضرورت ہوگی جو ڈیٹا سیٹ کے سائز میں اضافے کے باوجود کارکردگی کو برقرار رکھتے ہیں۔ آپ کو بڑے ڈیٹا سیٹوں کو بھی  دیکھنا ہوگا جو پروسیسنگ کرنے کے لیے کمپیوٹنگ کے لحاظ سے مہنگا ہوسکتا ہے۔

یہ کورس آپ کو ڈیٹا پروسیسنگ کے کاموں کو بہتر بنانے اور دستیاب کمپیوٹیشنل وسائل کی بنیاد پر مناسب  الگورتھم استعمال کرنے کے بارے میں باخبر فیصلے کرنا سکھائے گا۔

الگورتھم کے تعارف میں آپ کیا سیکھیں گے:

·         الگورتھم کا تجزیہ

·         ڈیٹا کے ڈھانچے

·         ترتیب دینے والے الگورتھم

·         گراف الگورتھم

·         Algorithmic تکنیک

·         ہیشنگ

·         کمپیوٹیشنل پیچیدگی

آپ ایم آئی ٹی اوپن کورس ویئر پر الگورتھم کے تعارف کے لیے تمام لیکچرز  کی تلاش کرسکتے ہیں۔

کورس لنک: ایم آئی ٹی - الگورتھم کا تعارف
 4۔ یونیورسٹی آف مشی گن -  پائتھن؛ سب کے لیے

 پائتھن فار ایوری باڈی     پروگرامنگ  کا تخصص کورس  ہے ۔اس میں  پائتھن سکھانے پر  توجہ مرکوز کی گئی  ہے۔یہ  تخصص پانچ  کورسوں پر مشتمل  ہے۔یہ  پائتھن کی بنیادی باتوں ، ڈیٹا ڈھانچے ، اے پی آئی کے  استعمال ، اور پائتھن کے ساتھ ڈیٹا بیس تک رسائی کا احاطہ کرتا ہے۔

فہرست میں شامل  مذکورہ بالا کورسز کے برعکس ، 'پائتھن ؛سب کے لیے' کافی حد تک عملی ہے۔ اس تخصص  میں نظریاتی تصورات کے بجائے عملی اطلاق پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔یہ ان لوگوں کے لیے مثالی  اہمیت کا حامل کورس ہے جو فوری طور پر حقیقی دنیا کے منصوبوں کے اطلاق میں اپنے جوہر دکھانا چاہتے ہیں۔یہاں کچھ تصورات پیش کیے جاتے  ہیں جن سے آپ اس  پانچ کورسوں پر مشتمل   تخصص  کے اختتام تک واقف ہوں گے:

·         Python Variables(پائتھن  کے متغیّرات)

·         افعال اور لوپس

·         اعداد و شمار (ڈیٹا)کے ڈھانچے

·         اے پی آئی اور ویب ڈیٹا تک رسائی

·         پائتھن کے ساتھ ڈیٹا بیس کا استعمال

·         پائتھن کے ساتھ ڈیٹا  تصویرکاری (ویژولائزیشن)

آپ کورسرا  پر مفت میں اس کورس کو آڈٹ  کے طور پر لے سکتے ہیں۔بہ الفاظ دیگر اس کی کوئی فیس ادا نہیں کرنا پڑے گی ۔البتہ اگر آپ کو اس کا سرٹی فکیٹ درکار ہوتو اس کی 49 ڈالر کی معمولی فیس ادا کرنا ہوگی۔

کورس لنک: سب کے لیے پائتھن
 

5۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی - آر پروگرامنگ

 آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ  مذکورہ بالا  ہر کورس  میں پائتھن پروگرامنگ پر توجہ مرکوز  کی گئی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں پائتھن کی تھوڑی شوقین ہوں۔یہ زبان مجھے  ہمہ جہت   اور صارف دوست لگتی ہے ، اور پائتھن کے  علم کا  ڈیٹا سائنس سے  ماورا  شعبوں کی ایک وسیع رینج میں  اطلاق کیا جاسکتا ہے۔تاہم ، ڈیٹا سائنس کے لیے آر سیکھنے کے کچھ فوائد ہیں۔ آر پروگرامنگ کو خاص طور پر شماریاتی تجزیہ کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا ، اور پیرامیٹر ٹیوننگ اور آپٹیمائزیشن کے لیے آر میں خصوصی پیکجز کی ایک رینج ہے جو پائتھن میں دستیاب نہیں ۔

اگر آپ گہرے شماریاتی تجزیہ ، تعلیمی تحقیق ، اور اعلیٰ درجے کے اعداد و شمار کے تصورات  میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو آر سیکھنے پر غور کرنا چاہیے۔ اگر آپ آر سیکھنا چاہتے ہیں تو ، جان ہاپکنز یونیورسٹی کا پیش کردہ  آر پروگرامنگ اسپیشلائزیشن کورس  ایک بہترین  انتخاب  ہے۔

اس  تخصص میں آپ کیا سیکھیں گے:

·         ڈیٹا کی اقسام اور افعال

·         کنٹرول  فلو( بہاؤ)

·         آر میں ڈیٹا پڑھنا، صاف کرنا اور پروسیسنگ

·         تحقیقاتی اعداد و شمار کا تجزیہ

·         ڈیٹا سمولیشن اور پروفائلنگ

آپ کورسرا پر مفت میں اس کورس کو بھی  آڈٹ  میں لے سکتے ہیں۔

کورس لنک: آر پروگرامنگ اسپیشلائزیشن

 

ڈیٹا سائنس کے لیے کوڈنگ سیکھیں: اگلے مراحل

 ایک بار جب آپ اس مضمون میں بیان کردہ ایک یا ایک سے زیادہ کورسز مکمل کرلیں تو ، آپ   پروگرامنگ   کے نئے علم سے  مالامال   ہوجائیں گے لیکن سفر یہیں پہ ختم نہیں ہوتا۔اگر آپ کا  حتمی مقصد ڈیٹا سائنس میں کیریئر بنانا ہے تو ، یہاں کچھ ممکنہ اگلے  مراحل  ہیں جن پر آپ کو غور کرنا چاہیے:

 کوڈنگ   میں مہارت کی مشق کریں

اس مقصد کے لیےمیں کوڈنگ چیلنج ویب سائٹس کو دیکھنے  کا مشورہ دیتی ہوں۔ جیسےHackerRankاورLeetcode پر  پروگرامنگ  میں مہارت کی جانچ کے لیے   مشق کی جاسکتی ہے۔ پروگرامنگ ایک ایسی مہارت ہے جو  ابھرتے  ہوئے  چیلنجوں نبرد آزما ہونے کے لیے  طور پر تیار کی گئی ہے ، لہٰذا میں ان پلیٹ فارمز پر "آسان" لیبل والے مسائل سے شروع کرنے کی سفارش کرتی  ہوں ، جیسے دو نمبروں کو جمع کرنے یا ضرب دینے سے  عملی مشق کا آغاز کریں۔جیسے جیسے آپ کی پروگرامنگ کی مہارت بہتر ہوتی جاتی ہے ، آپ مشکل کی سطح کو بڑھانا شروع کرسکتے ہیں اور مشکل مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔

جب میں ڈیٹا سائنس کے میدان میں آغاز کر رہی تھی تو ، میں نے قریباً دو   ماہ تک ہر روز ہیکر رینک کے مسائل  حل کیے اور  پھر میں نے دیکھا کہ اس وقت کے اختتام تک میری پروگرامنگ  میں مہارت ڈرامائی طور پر بہتر ہوگئی تھی۔

2۔ ذاتی منصوبے بنائیں

ایک بار جب آپ ہیکر رینک کے چیلنجوں کو حل کرنے میں کچھ مہینے گزار لیتے ہیں تو ، آپ خود کو اول وآخر منصوبوں سے نمٹنے کے لیے تیار پائیں گے۔آپ پائتھن میں ایک سادہ کیلکولیٹر ایپ بنا کر شروع کرسکتے ہیں ، اور ڈیٹا ویژولائزیشن ڈیش بورڈ جیسے زیادہ چیلنج  والے منصوبوں پر پیش رفت کرسکتے ہیں۔

اگر آپ اب بھی نہیں جانتے کہ کہاں سے شروع کرنا ہے تو ، ترغیب کے  لیے پائتھن پروجیکٹ کے خیالات کی اس فہرست کو چیک کریں  ۔

3۔ پورٹ فولیو ویب سائٹ کی تعمیر

کوڈ سیکھنے اور کچھ ذاتی منصوبے بنانے کے بعد ، آپ اپنے کام کو مرکزی پورٹ فولیو ویب سائٹ پر دکھا سکتے ہیں۔جب ممکنہ آجر کسی پروگرامر یا ڈیٹا سائنس دان کی خدمات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ، وہ آپ کے تمام کام (مہارت ، سرٹی فکیشن ، اور منصوبوں) کو ایک ہی جگہ پر دیکھ سکتے ہیں۔

اگر آپ اپنی پورٹ فولیو ویب سائٹ بنانا چاہتے ہیں تو ، میں نے چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ مفت میں ڈیٹا سائنس پورٹ فولیو ویب سائٹ بنانے کے بارے میں ایک مکمل ویڈیو ٹیوٹوریل بنایا ہے۔آپ بصری طور پر پرکشش پورٹ فولیو ویب سائٹ بنانے پر قدم بہ قدم  رہ نمائی کے لیے مذکورہ  خط کشیدہ  لنک پر   کلک  کرکے ٹیوٹوریل  ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

 ----------------------
 
نتاشا سیلواراج ایک خود ساختہ ڈیٹا سائنس دان ہیں ۔انھیں لکھنے کا شوق ہے۔ نتاشا ڈیٹا سائنس سے متعلق ہر چیز پر لکھتی ہیں، تمام اعداد و شمار کے موضوعات کی ایک حقیقی ماہر ہیں۔ آپ لنکڈ ان پر ان  سے رابطہ کرسکتے ہیں یا ان کا یوٹیوب چینل دیکھ سکتے ہیں۔

-----------------

ترجمہ : امتیازاحمدوریاہ

(بہ شکریہ: کے ڈی نگٹس ڈاٹ کام)

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں