meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: 1992 ء میں شائع شدہ انٹرویوز کے مجموعہ'' اختلاف رائے کی تاریخ ''سے اقتباسات

Empowering Through Media Literacy

1992 ء میں شائع شدہ انٹرویوز کے مجموعہ'' اختلاف رائے کی تاریخ ''سے اقتباسات


اسرائیل اور امریکا تنازع فلسطین کا دو ریاستی سمیت کوئی بھی حل نہیں چاہتے: نوم چومسکی

(اختلاف رائے کی تاریخ  (کرونیکلز)1992 ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ عالمی شہرت یافتہ  ماہر لسانیات اور معروف سماجی نقاد پروفیسر نوم چومسکی کے مختلف  انٹرویوز پرمشتمل کتاب ہے ۔اس کو  ڈیوڈ بارسامیان  نے مرتب کیا ہے۔ اس  سے مختلف سیاسی مسائل پر چومسکی کے خیالات کے بارے میں بصیرت فراہم  ہوتی ہے۔یہ کوئی سوانح حیات یا علمی کتاب نہیں ، بلکہ چومسکی کی تنقید اور معاصر مسائل کے تجزیوں کا مجموعہ ہے جو انٹرویوزکی  شکل میں پیش کیا گیا ہے۔اس میں نوم چومسکی  نے امریکا کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر مشرق  اوسط اور لاطینی امریکا کے بارے میں پالیسی پر کھل کر  اظہارِخیال کیا ہے۔اس کتاب  کی اشاعت کے 32 سال کے بعد بھی تنازع فلسطین کے  حل کے لیے کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوئی اور جناب نوم چومسکی کی یہ بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی ہے کہ امریکا اور اسرائیل ہی اس دیرینہ تنازع کے حل کی راہ میں حائل ہیں۔اب اسرائیل کی غزہ  پر مسلط کردہ جنگ نے اس تنازع کو اور بھی پیچیدہ کردیا ہے اور اسرائیلی وزراء  اب کھلے  بندوں غزہ کی پٹی پرمکمل فوجی قبضے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔اس انٹرویو سے اردوقارئین کو تنازع فلسطین کے پس نظر کوسمجھنے میں مدد ملے گی۔امتیازاحمدوریاہ)

سوال: آپ کی ایک کتاب 'دی فیٹ فل ٹرائی اینگل' خاص طور پر مشرق  اوسط پر مرکوز ہے اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا آپ مسئلہ فلسطین کے ممکنہ دو ریاستی حل کے بارے میں اپنے مؤقف کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔

نوم  چومسکی: مجھے نہیں لگتا کہ یہ بہترین حل ہے، لیکن یہ کچھ عرصے سے ایک حقیقت پسندانہ سیاسی تصفیہ رہا ہے۔ ہم یہاں کچھ بنیادی باتوں سے آغاز کرتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ واضح طور پر دو قومی گروہ ہیں جو فلسطین میں حق خودارادیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ کم وبیش  وہ تمام علاقہ ہے جس پر اب اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے، گولان کی چوٹیاں اس فلسطینی علاقے کے علاوہ ہیں، جو شام کا حصہ ہیں لیکن اسرائیل ان پر قابض ہے۔

لہٰذا دو قومی گروہ ہیں جو قومی  حق خود ارادیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایک گروہ مقامی آبادی پر مشتمل ہے، یا اس میں جو باقی رہ گیا ہے – اس میں سے بہت سے لوگوں کو بے دخل کیا جا چکا ہے یا  ان کی آبائی سرزمینوں  سے  نکال باہرکیا گیا ہے یا وہ گھربار چھوڑ کر نقل مکانی پرمجبور کردیے گئے۔ دوسرا گروہ یہودی آباد کار ہیں جو اصل میں یورپ سے آئے تھے ، بعد میں   مشرقِ اوسط  کے دیگر حصوں اور کچھ دیگر مقامات سے آئے تھے۔چناں چہ  یہ  دو گروہ ہوئے، مقامی آبادی اور تارکینِ وطن اور ان کی اولادیں۔ دونوں قومی  حقِ خود ارادیت  کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہاں ہمیں ایک اہم فیصلہ کرنا ہے: کیا ہم نسل پرست ہیں، یا نہیں؟ اگر ہم نسل پرست نہیں ہیں تو پھر مقامی آبادی کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو ان کی جگہ لینے والے آباد کاروں کو حاصل ہیں۔ کچھ لوگ زیادہ کا دعویٰ کر سکتے ہیں، لیکن کم سےکم اتنے ہی حقوق دینے کا کَہ  سکتے ہیں۔ چناں چہ ، اگر ہم نسل پرست نہیں ہیں تو ہم ایک ایسے حل کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے جو ان (مقامی آبادی اور آبادکاروں؟ ) کے حق میں ہو- ہم کہیں گے کہ وہ بنی نوع  انسان ہیں ،انھیں مساوی حقوق حاصل ہیں، اس لیے وہ دونوں قومی حق خود ارادیت کے دعوے کے مستحق ہیں۔ میں اس بات کی اجازت دے رہا ہوں کہ آباد کاروں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مقامی آبادی کو حاصل ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ واضح نہیں لگتا ہے لیکن آئیے اس کی اجازت دیتے ہیں۔ پھر بہت سے امکانات ہیں۔ ایک امکان ایک جمہوری سیکولر معاشرہ ہے۔ عملی طور پر کوئی بھی اس کے حق میں نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہیں، لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو وہ واقعی نہیں ہیں۔ کثیر نسلی معاشروں کے لیے مختلف ماڈل موجود ہیں، جیسے سوئٹزرلینڈ یا کچھ اور مقامات پر ہیں۔ اور شاید طویل عرصے میں یہ بہترین   آئیڈیا ہوسکتے ہیں ، لیکن وہ غیر حقیقی ہیں۔

گذشتہ دس یا بارہ سال میں واحد حقیقت پسندانہ سیاسی تصفیہ، جو دونوں قومی گروہوں کے حق خودارادیت کو پورا کرے گا ،وہ دو ریاستی تصفیہ ہی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ کیا ہونا چاہیے: جون 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے اندر اسرائیل اور دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ایک فلسطینی ریاست، اور گولان کی  چوٹیوں کی شام کو واپسی، یا شاید کوئی اور انتظام۔ یہ شاید غیر فوجی علاقوں اور کسی نہ کسی طرح کی بین الاقوامی ضمانتوں سے وابستہ ہوگا ، لیکن یہ ممکنہ سیاسی تصفیے کا فریم ورک ہے۔ جیسا کہ میں کہتا ہوں، مجھے نہیں لگتا کہ یہ سب سے بہتر  حل ہے، لیکن یہ حقیقت پسندانہ ہے، بلکہ  بہت ہی حقیقت پسندانہ ہے۔ اسے دنیا کے بیشتر ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ اسے یورپ کی حمایت حاصل ہے، سوویت یونین (اب صرف روس) کی حمایت حاصل ہے، قریباً تمام غیر وابستہ ممالک نے اس کی حمایت کی ہے، اسے تمام بڑی عرب ریاستوں کی حمایت حاصل ہے اور ایک طویل عرصے سے تنظیم آزادیِ فلسطین(پی ایل او) کے مرکزی دھارے کی حمایت حاصل ہے اور ایک بار پھر، ایک طویل عرصے سے، اسے امریکی آبادی کی بھی حمایت حاصل ہے،  رائے  عامہ کے جائزوں  کے مطابق  ایک کے مقابلے میں قریباً دو امریکیوں کی  حمایت  حاصل ہے۔ لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ عرب دنیا میں مسترد کرنے والے محاذ، پی ایل او کے اقلیتی عناصر، لیبیا، چند دیگر، اقلیتوں کو مسترد کرنے والے عناصر، لیکن اہم بات یہ ہے کہ مسترد کرنے والے محاذ کے رہنماؤں، یعنی امریکا اور اسرائیل نے اس کی مخالفت کی ہے۔ امریکا اور اسرائیل تو اس کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ امریکا اس پر غور نہیں کرے گا۔ اسرائیل کے دونوں سیاسی گروہ اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ وہ سابقہ فلسطین میں مقامی آبادی کے لیے قومی خود ارادیت کے کسی بھی حق کو مسترد کرتے ہیں۔ان کے بہ قول مقامی آبادی والے چاہیں  تو وہ  اردن یا سابق شام یا کچھ اور حاصل کر سکتے ہیں، لیکن وہ علاقہ نہیں جس پر اب اسرائیل کا فوجی قبضہ ہے۔ درحقیقت وہ اس کے بارے میں واضح ہیں۔ یہاں احتیاط سے پھیلائے جانے والے وہم ہیں کہ لیبر پارٹی اس مسئلے پر سمجھوتا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو کوئی معنی خیز سمجھوتا نہیں ہے۔ لیبر پارٹی کا مؤقف وہی ہے جس کا اظہار ان کے نمائندے، (سابق صدر) خیم ہرزوگ نے کیا تھا، جنھوں نے کہا تھا کہ "ایک ایسی سرزمین میں کوئی بھی ہمارے ساتھ شراکت دار نہیں بن سکتا جو 2000 سال سے ہمارے لوگوں کے لیے مقدس ہے۔ یہی ان کا مؤقف ہے۔ وہ معمولی ایڈجسٹمنٹ کرنے  کو تیار ہیں۔ وہ مغربی کنارے کی آبادی کا خیال نہیں رکھنا چاہتے، کیونکہ وہاں عربوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ اپنے ارد گرد بہت سے عرب نہیں چاہتے ہیں، لہٰذا وہ جو کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ مغربی کنارے سے وہ علاقے، پانی اور وسائل لے لیں لیکن آبادی کو یا تو بے ریاست چھوڑ دیں یا اردن کے کنٹرول میں  دے دیں۔ اسی کو "سمجھوتے کا حل" کہا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی مضحکہ خیز تجویز ہے، جو بہت سے معاملات میں فلسطینی علاقوں  کو ضم کرنے  یا ہتھیانے سے بھی بدتر ہے۔ لیکن اسے یہاں سمجھوتا کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم امریکا میں ایک بار پھر تعلیم یافتہ اشرافیہ ہیں اور قومی بحث اس بارے میں سخت نسل پرستانہ نقطہ نظر اختیار کرتی ہے۔ فلسطینی انسان نہیں ہیں، وہ ان حقوق کے مستحق نہیں ہیں جو ہم انھیں بے گھر کرنے والے آباد کاروں کو خود بخود دیتے ہیں۔ یہ واضح امریکی بحث کی بنیاد ہے: خالص، ملاوٹ سے پاک نسل پرستی۔ ایک بار پھر، یہ ہمیشہ کی طرح آبادی کے بارے میں سچ نہیں ہے، لیکن یہ اس کے سیاسی طور پر فعال اور واضح حصوں اور یقینی طور پر حکومت کے بارے میں ہے۔ جب تک امریکا اور اسرائیل سیاسی تصفیے کو مسترد کرتے ہیں، تب تک ایسا نہیں ہو سکتا۔

یقیناً  گذشتہ کئی سال سے سیاسی تصفیے کے بہت قابل قبول مواقع موجود ہیں۔ یہاں ، صرف ان چند کا ذکر کیا جاتا ہے جو تاریخ سے غائب ہو چکے ہیں کیونکہ وہ بہت  متاثرکن نہیں تھے: فروری 1971 میں مصر کے سابق صدر انور سادات نے جون  1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر اسرائیل کو ایک مکمل امن معاہدے کی پیش کش کی۔ یہ  امریکا کی سرکاری  پالیسی کے مطابق   پیش کش کی گئی تھی لیکن اتفاق سے،امریکا کی عملی پالیسی نہیں۔ اس میں  فلسطینیوں کو کچھ بھی پیش نہیں کیا گیا تھا، انھوں  نے فلسطینی ریاست کی پیش کش بھی نہیں کی تھی،  بہ الفاظ دیگرکچھ بھی نہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا اور امریکا نے اس انکار میں ان کی حمایت کی  تھی۔ جنوری 1976 میں شام، اردن اور مصر، نام نہاد "محاذ آرائی کرنے والی ریاستوں" نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بین الاقوامی ضمانتوں اور علاقائی حقوق کے تحفظ کے ساتھ دو ریاستی تصفیے کی تجویز پیش کی۔ اسے پی ایل او کی حمایت حاصل تھی اور اسے سوویت یونین اور دنیا کے بیشتر ممالک کی  بھی حمایت حاصل تھی۔ اسرائیل کی جانب سے اس کی شدید مخالفت کی گئی۔ اس نے اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا، درحقیقت اس نے اقوام متحدہ کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر لبنان پر بمباری کی، جس میں قریباً 50 افراد ہلاک ہوئے۔اس نے اس پرکوئی عذر تراشا اور نہ معذرت کی نہیں، بلکہ  صرف غصے  کا اظہار کرتے ہوئے کہا : "اگر آپ اس پر زور دیں گے تو ہم ہر اس شخص کو ہلاک کر دیں گے جو ہمارے راستے میں آئے گا" اور امریکا نے اسے ویٹو کر دیا۔ اس کے بعد سے اس طرح کی چیزوں کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا نے ہمیشہ  مسئلہ کے حل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں اور اسرائیل نے ہمیشہ ان سے انکار کیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی سیاسی تصفیہ نہیں  ہے بلکہ مستقل فوجی محاذ آرائی کی حالت ہے۔ یہ فلسطینیوں کے لیے اس کے معنی سے ہٹ کر ہے ، جو واضح اور خوفناک ہے۔ یہ اسرائیل کے لیے بہت بُرا ہے۔ میرے خیال میں یہ ان کی اپنی تباہی کا باعث بن رہا ہے، یقینی طور پر ان کی معاشی تباہی اور اخلاقی انحطاط اور شاید جلد یا بدیر، ان کی مادی تباہی، کیونکہ آپ جلد یا بدیر شکست کے بغیر فوجی محاذ آرائی کی حالت  جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔ یہ صورت حال بار بار دنیا کو جوہری جنگ کے بہت قریب لے جا رہی ہے۔ جب بھی ہمارے درمیان عرب اسرائیل تنازع ہوتا ہے اور ان  سے زیادہ بھی ہوتے ہیں، جب تک ہم فوجی محاذ آرائی جاری رکھتے ہیں، سوویت یونین اور امریکا تصادم  کے قریب تر آجاتے ہیں۔  سوویت یونین (اب سابق) خطے کے  قریب ہے، یہ وسطی امریکا کی طرح نہیں ہے، یہ ان کی سرحد کے قریب ایک  تزویراتی خطہ ہے، وہ اس میں ملوث ہیں۔ یہ ہم سے بہت دور ہے لیکن بنیادی طور پر  یہ تیل  کے نزدیک ہونے کی وجہ سے یہ ہمارے لیے ایک  تزویراتی خطہ ہے۔ لہٰذا ہم ملوث ہیں، بیڑے تصادم  کی زدمیں آتے ہیں، یہ بہت قریب ہے۔ 1967 میں یہ جوہری جنگ کے بہت قریب پہنچ گیا اور  ایسا دوبارہ ہوگا۔ لہٰذا یہ بہت خطرناک ہے، یہ سب سے زیادہ ایسی  ممکنہ جگہ ہے جہاں جوہری جنگ ہوگی، لیکن ہم اس پر عمل پیرا ہیں، کیونکہ ہم سیاسی تصفیہ نہیں چاہتے ہیں۔ امریکا فوجی محاذ آرائی برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

(جاری ہے) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں