امتیازاحمد وریاہ
البرٹ آئن سٹائن اور چارلی چیپلن کے درمیان
ایک مکالمہ تاریخ میں ایک مشہور واقعے کے طور پر محفوظ ہوگیا ہے۔ یہ ان دونوں مشہور شخصیات کے درمیان باہمی احترام اور تعریف
وتوصیف کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ دونوں میں ایک
ملاقات 30 جنوری 1931 ء کو لاس اینجلس تھیٹر ( کیلی فورنیا) میں چیپلن
کی فلم "سٹی لائٹس" کے ابتدائی شو ( پریمیئر ) کے موقع پر ہوئی تھی۔اس موقع پر ان کے درمیان درج ذیل
مختصر مگر مشہور مکالمہ ہوا تھا اور اس کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے:
آئن سٹائن: "میں آپ کے فن کے بارے میں
جس چیز کی سب سے زیادہ تعریف کرتا ہوں، وہ اس کی آفاقیت ہے۔ تم ایک لفظ بھی نہیں بولتے
ہو لیکن پھر بھی دنیا تمھیں سمجھتی ہے"۔
چیپلن: "یہ سچ ہے. لیکن آپ کی عظمت ( بعض متنوں میں
شہرت )اس سے کہیں زیادہ ہے۔ دنیا آپ کی عظمت کی تعریف کرتی ہے، جبکہ
کوئی بھی آپ کو نہیں سمجھتا ہے۔ "
یہ مختصر مکالمہ دونوں شخصیات کی ذہانت اور
حس مزاح کو اجاگر کرتا ہے – اس سے چیپلن
کی خاموش فلموں کے ذریعے بات چیت کرنے کی صلاحیت اور آئن سٹائن کے سائنس پر گہرے اثر
کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جبکہ ان کے
نظریات اکثر عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتے تھے۔
اور اب اس اجمال کی تفصیل۔ چارلی چیپلن کی البرٹ آئن سٹائن سے پہلی ملاقات 1930-31 میں موخرالذکر کے امریکا کے دوسرے دورے کے موقع پر ہوئی تھی، جب انھیں کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف
ٹیکنالوجی میں لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ آئن سٹائن اس وقت اپنی شہرت کے
عروج پر تھے۔ اخبارات ان کی ہر حرکت پر نظر رکھتے تھے اور ماہرین تعلیم ان کے
نظریات کی وضاحت کے لیے ان کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے۔ مگر اس کے باوجود یہ ان کے ساتھی ماہرین تعلیم نہیں تھے جن سے آئن سٹائن
کیلی فورنیا میں ملنا چاہتے تھے بلکہ یہ تو ان کی ایک اور پسندیدہ شخصیت تھی اور وہ تھے چارلی چیپلن ، جن سے وہ ملاقات کے
متمنی تھے اور اس کا اظہار انھوں نے اپنے قریبی دوستوں سے کیا تھا۔
جب آئن سٹائن دسمبر 1930ء میں امریکی سرزمین پر پہنچے تو انھوں نے کیلی فورنیا جانے سے پہلے نیو یارک میں چند
دن گزارے تھےجہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا تھا اور انھیں شہر کی چابیاں
بھی پیش کی گئی تھیں۔آئن سٹائن کی بہ طور سائنس دان شہرت
اس وقت تک چاردانگ عالم پھیل چکی تھی لیکن انھیں فلموں کے بڑے شوقین کے طور پربھی جانا جاتا تھا ۔ یونیورسل اسٹوڈیوز کے سربراہ ،
کارل لیمل Carl Laemmle ) )نے انھیں " آل کوائٹ"(سب خاموش) دیکھنے
کے لیے ہالی ووڈ میں مدعو کیا تھا (اپنی ڈائریوں میں آئن سٹائن نے اسے "ایک
اچھا فن پارہ " قرار دیا تھا)۔ آئن سٹائن نے اس موقع پر اسٹوڈیو کے سربراہ سے
چارلی چیپلن سے تعارف کرانے کے لیے بھی کہا، جسے لیمل نے کچھ ہی دیر بعد فون پر بلا بھیجا تھا۔
عظیم سائنس دان اور کامیڈی اسٹار کے درمیان
پہلی ملاقات لاس اینجلس کے یونیورسل
اسٹوڈیوز میں ہوئی ، جہاں دونوں نے ایک
ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔ بعد میں چیپلن نے آئن سٹائن کے بارے میں اپنے ابتدائی
تاثرات کے بارے میں اپنی سوانح حیات میں لکھا: "وہ روایتی الپائن جرمن اور بہترین معنوں میں، خوش مزاج اور دوستانہ نظر آتے
تھے۔ اور اگرچہ ان کا انداز پرسکون اور نرم تھا ، لیکن میں نے محسوس کیا کہ اس میں
ایک انتہائی جذباتی مزاج پوشیدہ تھا ، اور شاید اسی ذریعے سے ان کی غیر معمولی فکری
توانائی آئی تھی"۔
سوانح حیات کے مطابق اس دورے میں آئن
سٹائن اور ان کی بیوی ایلسا کو چیپلن کے گھر مدعو کیا گیا۔
میزبان نے ان کے اعزاز میں عشائیے
کا اہتمام کیا، جس میں ایلسا نے انھیں اس وقت کی کہانی سنائی جب آئن سٹائن نے 1915
کے آس پاس دنیا کو بدلنے والا نظریہ پیش کیا تھا۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ ''ایک صبح جب انھوں نے آئن سٹائن سے پوچھا کہ انھوں نے اپنے ناشتے کو مشکل سے کیوں چھوا ہے تو انھوں
نے جواب دیا ، "ڈارلنگ ، میرے پاس
ایک حیرت انگیز خیال ہے''۔ پھر عظیم سائنس دان بیٹھ کر پیانو بجانے لگا اور اچانک نوٹ لینے کے لیے رُک گیا۔ ایلسا اس لمحے
اس سنسنی کو مزید برداشت نہیں کر سکتی تھی اور اس نے اپنے شوہر سے
سب کچھ ظاہر کرنے کے لیے کہا ، لیکن انھوں نے کہا کہ اس نظریے کو تھوڑا اور سمجھنے کی ضرورت ہے اور جلد
ہی وہ اپنے کمرے میں واپس چلے گئے۔آئن سٹائن دو ہفتے تک اپنے کمرے میں رہے اور اپنا کھانا بھی ادھر ہی کھاتے رہے تھے،۔ ایلسا کے بہ قول '' آخر کار وہ پیلاہٹ
کا شکار ہوگیا اور تھکا ہوا نکل آیا
لیکن اس کے ہاتھ میں عمومی اضافیت کا نظریہ کاغذ کی دو شیٹوں پر لکھا ہوا تھا''۔ انھوں نے ایلسا کے سامنے سادہ سے انداز میں "بس یہی کچھ ہے" کے ساتھ اپنا
نظریہ پیش کیا۔
اس کامیاب پہلی ملاقات کے بعد چیپلن اور
آئن سٹائن رابطے میں رہے۔ منفرد کامیڈی اداکار نے آئن سٹائن کو اپنی فلم
سٹی لائٹس (1931) کے پریمیئر میں اپنے
خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کیا۔ اس شو میں دونوں ایک ساتھ پہنچے، دونوں نے سیاہ ٹائی پہن رکھی تھی،
پریس تصاویر کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا تھا اور ہجوم بے قابو ہوا جارہا تھا۔ مشہور افسانے کے مطابق، جب ہجوم نے اس جوڑی
کی حوصلہ افزائی کی اور آئن سٹائن حیران و پریشان نظر آئے تو چیپلن نے وضاحت کی: "وہ دراصل دونوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ
کوئی آپ کو نہیں سمجھتا، اور مجھے کیونکہ ہر کوئی مجھے سمجھتا ہے"۔
چیپلن کے 1933-34 کے سفرنامے 'اے کامیڈین سیز دی
ورلڈ' (کامیڈین نے دنیا دیکھی) کے ایک اور ورژن میں کہا گیا ہے کہ یہ سطر دراصل
آئن سٹائن کے ایک بیٹے کی طرف سے آئی تھی، جس نے پریمیئر کے قریباً ایک ماہ کے بعد جرمنی میں آئن سٹائن سے چیپلن کی ملاقات کے دوران میں یہ بات کہی تھی: "آپ (چیپلن) مقبول ہیں [کیونکہ] آپ کو عوام سمجھتے ہیں۔
دوسری طرف، عوام میں پروفیسر کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھ میں نہیں آتے
ہیں"۔
1932-33 کے موسم سرما میں جب آئن سٹائن
دوبارہ کیلی فورنیا آئے تو چیپلن نے ان کے اعزاز میں عشائیہ دینے کا فیصلہ کیا۔
کامیڈین نے انھیں اس وقت میڈیا کی عظیم شخصیات میں سے ایک ولیم
رینڈولف ہرسٹ سے متعارف کرانے کا ارادہ کیا ، جس میں طنز ومزاح سے بھرپور شاندار
گفتگو اور مزاحیہ رد عمل کی بہت زیادہ
امیدیں وابستہ تھیں۔ بدقسمتی سے آئن سٹائن
غیر تعلیمی سامعین کو اپنے پیچیدہ نظریے کی وضاحت کرنے کے موڈ میں نہیں تھے، اور
ہرسٹ نے بظاہر زبان بندی کی تھی ۔ ایک لفظ
بول کے نہیں دیے۔ البتہ اپنی ذات میں مگن میٹھے سے دل بہلاتے رہے۔ کھانے کی میز پر ایک عجیب خاموشی چھا گئی، جو آخر کار اس وقت
ٹوٹ گئی جب ہرسٹ کی اہلیہ ، کامیڈی
اداکارہ ماریون ڈیوس نے آئن سٹائن کے مشہور زمانہ
بکھرے ، الجھے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرنا شروع کردیں اور طنز انداز میں یوں گویا ہوئیں : "آپ
اپنے بال کاٹ کیوں نہیں لیتے؟"
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ دوستی اس تباہ
کن عشائیہ سے بچ گئی تھی اور اس کے بعد کے برسوں میں بھی جاری رہی تھی۔ آئن سٹائن نے 1933 ء میں اپنی
جرمن شہریت ترک کر دی تھی اور وہ
پرنسٹن، نیو جرسی منتقل ہو گئے تھے، جہاں ان کا سماجی دائرہ کافی وسیع ہو
گیا تھا لیکن ان کی ابتدائی ملاقاتوں کے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ چیپلن
اور آئن سٹائن دونوں ایک
دوسرے کے بارے میں گہری تفہیم رکھتے تھے اور ان کے درمیان مختلف النوع ذہانت کی قدرِ مشترک بھی
تھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں