کرونا وائرس کی وَبا
میں فارغ ہونے والے صحافیوں کو کیسے باروزگار
بنایا گیا؟
ترجمہ : امتیازاحمدوریاہ
بھارت
کی 1.3 ارب آبادی میں سے دو تہائی دیہی
علاقوں میں رہتے ہیں۔ لیکن، ان دیہی برادریوں کی
آوازیں، اور ان کے اہم مسائل، اکثر مرکزی دھارے کے
میڈیا کی نیوز کوریج میں جگہ نہیں
پاتے ہیں اور ان کی بڑے شہروں سے تعلق رکھنے والے میڈیا میں کوئی نمایندگی نہیں ہوتی ہے۔(پاکستان میں بھی
ایسی صورت حال ہے اور مرکزی دھارے کے
میڈیا میں دیہی علاقوں کے مسائل کو اکثر
اجاگر نہیں کیا جاتا ہے اور بالعموم تو ان کی تہذیب وثقافت کو بھی میڈیا مواد میں
بالکل نظرانداز کردیا جاتا ہے)۔
رپورٹنگ
کے اس فرق کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ ہدف قارئین/ ناظرین اور مین اسٹریم میڈیا کے
اسپانسرز/ مشتہرین شہری ہوتے ہیں، جن کی اوسط قوت خرید زیادہ ہے۔ گلوبل میڈیا ایجوکیشن کونسل کے
نائب صدر اُجوال چودھری کہتے ہیں کہ
’’میڈیا کا مواد شہری تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔ مزید برآں، دیہی علاقوں سے مواد کا حصول شہری علاقوں میں مواد کے مقابلے میں مین اسٹریم میڈیا
کے لیے لاجسٹک اور انسانی وسائل کے لحاظ سے زیادہ مہنگا ہے‘‘۔
بھارت میں فری
لانس صحافیوں کا ایک نیٹ ورک 101 رپورٹرز
دیہی علاقوں میں نچلی سطح کے صحافیوں کو مرکزی دھارے کے اداروں سے جوڑنے اور ان کی کہانیوں کو شیئر کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس عمل سے یہ پلیٹ فارم شہری اور دیہی ہندوستان کے درمیان تعلیم
وتعلم کے فرق کو پاٹنے میں بھی مدد کررہا
ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے 101 رپورٹرز کس
طرح کام کرتے ہیں:
نچلی سطح کے 3,600 صحافیوں کا نیٹ ورک
گنگادھر
پاٹل نے 2015 ء میں بھارت کے سائبر مرکز بنگلور میں 101 رپورٹرز کا
آغاز کیا تھا۔اس سے پہلے وہ ملک میں معروف میڈیا اداروں اور اخبارات کے لیے کئی سال تک رپورٹنگ کرچکے تھے۔
101 رپورٹرز کے کام کا
طریق کار یہ ہے کہ مقامی رپورٹرز پہلے اپنی
کہانیوں (اسٹوریوں) کے آئیڈیاز پیش کرتے ہیں۔انھیں پھر پلیٹ فارم کی ٹیم بہتر بناتی ہے، ان کی تحریر کردہ خبروں کی نوک
پلک سنوارتی ہے اور پھر فرسٹ پوسٹ اور سی این این انٹرنیشنل ایسے میڈیا
اداروں کو نشر واشاعت کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔101 رپورٹرز
اتر پردیش کے ایڈیٹرسوربھ شرما نے
بتایا کہ ’’اگر کسی مقامی رپورٹر کی اسٹوری کی پچ
منظور کر لی جاتی ہے، تو ٹیم پھر
صحافیوں کو ان کی رپورٹ کی تیاری میں مدد دیتی ہے۔
ایک مرتبہ پچ کی منظوری ملنے کے
بعد ہم متعلقہ رپورٹر کو مطلع کرتے ہیں کہ ان کی کہانی قبول کر لی گئی ہے اور
پھر ان سے درخواست کی جاتی ہےکہ وہ اس کو
مقررہ ڈیڈلائن تک مکمل کرکے پیش کریں۔ ہر
مہینے کے آخر میں منظور شدہ اسٹوری کے
لکھاری مقامی صحافی کو ہمارے فنڈز سے رقم
ادا کردی جاتی ہے، قطع نظر اس بات کے کہ
وہ اسٹوری یا خبر کسی جگہ شائع ہوئی تھی
یا نہیں‘‘۔
شرما
اور ان کی ٹیم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ کس طرح بین الاقوامی رپورٹر مقامی بھارتی صحافیوں سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ انھیں کم
پیسوں یا معمولی تن خواہ پر معاون کے طور پر اپنے ساتھ
رکھا جا سکے۔ شرما نے مزید بتایا کہ ’’پہلے، جب [ملک کے] باہر سے صحافی
حضرات [رپورٹنگ اسائنمنٹ پر] آتے تھے، تو وہ رپورٹر کو صرف 80 امریکی ڈالر ادا
کرتے تھے اور توقع کرتے تھے کہ وہ ہر وقت دستیاب ہوں گے۔ ’’میں نے اس مسئلے کو حل
کیا اور اس بات پر زوردیا کہ ایک
رپورٹر کو اپنے صحافتی فرائض پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور اسے ٹریول گائیڈ یا سازو
سامان اٹھانے والا کوئی قُلی
نہیں سمجھا جانا چاہیے‘‘۔
اپنی
تشکیل کے چند برس کے بعد ہی ، 101 رپورٹرز نیٹ ورک خود ایک پبلشر بن گیا اور اپنے نیٹ ورک
کو بھارت ، پاکستان ، بھوٹان ، نیپال ، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں قریباً 3،600
رپورٹروں تک بڑھا دیا ہے۔ یہ دیگر میڈیا اداروں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتا ہے ،
جس سے101 رپورٹرز کے شائع شدہ مضامین کی
مزید تشہیر میں مدد ملتی ہے۔
تروپتی
شہر سے تعلق رکھنے والے صحافی وگنیش اے نے کہا کہ’’ 101 نہ صرف ایک نیوز پورٹل ہے،
بلکہ ایک ڈیجیٹل نیوز ایجنسی بھی ہے، اس وجہ سے یہ
ایک اچھا موقع فراہم کرتا ہے کہ خبری
اہمیت کی حامل نچلی سطح کی کہانیاں وسیع پیمانے پر ڈیجیٹل سامعین تک پہنچ سکتی ہیں
۔ یہ ایک ایسی برتری ہے جو 101 کو دوسرے ڈیجیٹل میڈیا پر
حاصل ہے‘‘۔
101 رپورٹرز نے 7,500 سے زیادہ کہانیاں تیار کی ہیں اور 60 سے
زیادہ میڈیا اداروں کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ ان کی کوریج میں دیہی علاقوں میں ماحولیاتی وسائل کے انتظام
سے لے کر گرام پنچایت کہلانے والی مقامی حکومتوں سے متعلق
مسائل اور بہت کچھ شامل ہے۔ یہ پلیٹ فارم صحت,سیاست, زرا
عت اور تعلیم سمیت دیگر موضوعات پر رپورٹنگ کے علاوہ "Graamcast"
کے نام سے پوڈ کاسٹ بھی پیش کرتا ہے۔اس
میں دیہی ہندوستان کی ان کہی کہانیوں پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے ، اور "آف دی ریکارڈ"
میں دیہی نامہ نگار ان اپنے سامعین کے ساتھ بالتفصیل
اپنے تجربات کا اشتراک کرتے ہیں۔
ریاست
مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والے صحافی ثناورشفیع کہتے ہیں کہ ’’101 رپورٹرز ایک ایسا پلیٹ فارم
ہے جس کے ذریعے مقامی صحافی قومی سطح پر اپنی خبروں کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔ جب
کوئی صحافی اسٹوری آئیڈیا پیش کرتا ہے تو 101 ٹیم اس پچ کو ترجیح دیتی ہے اور اگر
کوئی تبدیلی کرنے کی ضرورت ہو تو وہ ایسا کرنے میں بھی مدد کرتی ہے‘‘۔ شفیع کی
رپورٹنگ مدھیہ پردیش کے دیہات پر مرکوز ہے۔
مقامی صحافیوں کی امداد
کرونا
وائرس کی وبا کے دوران میں
صحافیوں کو بھی دوسرے شعبوں کی طرح ہندوستان
میں نوکریوں کے خاتمے اور تنخواہوں میں
کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا تھا ،ایسے میں 101 رپورٹرز نے
راجستھان سے تعلق رکھنے والے امرپال سنگھ ورما جیسے صحافیوں کو اہم مدد مہیا کی۔ ورما
نے کہا:’’ مجھ ایسے لوگوں کو، جو چھوٹے قصبوں میں رہتے ہیں اور دہلی، ممبئی اور
بنگلور جیسے میٹرو شہروں میں جانے کے بڑے خواب نہیں رکھتے، انھیں 101 [رپورٹرز]
جیسے ادارے مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ ایک
انمول تعلق جوڑنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا
کرتے ہیں‘‘۔اس پلیٹ فارم کی مدد سے ورما نے اپنی کمیونٹی کے بارے میں کئی کہانیاں
تیار کیں جو وسیع تر سامعین تک پہنچنے میں کامیاب رہیں۔ فروری میں، انھوں نے رپورٹ
کیا کہ کس طرح راجستھان کے دیہاتیوں نے اپنی پنچایتوں (گاؤں کی کونسلوں) کو
میونسپلٹی (بلدیہ) میں تبدیل کرنے کے خلاف
احتجاج کیا۔ انھوں نے اس بارے میں بھی ایک
کہانی
لکھی کہ کس
طرح دیہی راجستھان میں غیر شادی شدہ خواتین آنگن واڑی (دیہی بچوں کی دیکھ بھال کا
مرکز) کارکن بننے کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔
انھوں
نے کہا:’’مجھے
سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ گاؤں اور دیہات کی خبریں، جو کبھی مقامی میڈیا میں بھی کور
نہیں کی جاتی ہیں، 101 رپورٹروں کے ذریعے شائع کی جا رہی ہیں اور پورے ہندوستان،
یہاں تک کہ بین الاقوامی سطح پر بھی لوگ انھیں پڑھ رہے ہیں‘‘۔
اپنے
کام کے ایک حصے کے طور پر ، 101 رپورٹرز نے ورما جیسے صحافیوں کو زبان کی رکاوٹوں
کو عبور کرنے ، انگریزی میں کہانیوں کا ترجمہ کرکے اور ہندی ، مراٹھی اور کنڑ (کنڑا
یا کاناریس ، جنوبی ریاست کرناٹک کی سرکاری زبان) جیسی علاقائی زبانوں میں کہانیاں
شائع کرنے کے لیے مقامی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
''میں
نے ہمیشہ ہندی میں رپورٹنگ کی ہے۔ میں اس میں لکھنے کے لیے انگریزی اچھی طرح نہیں
جانتا تھا اور اب بھی نہیں جانتا ہوں۔ "جب تک میں نے 101 رپورٹرز میں شمولیت
اختیار نہیں کی، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میری کہانیاں / خبریں کسی انگریزی پلیٹ فارم پر شائع ہوں گی، اتنی بڑی
تعداد میں ناظرین /قارئین کا پڑھنا تو دور کی بات ہے‘‘۔
-------------------------
*نزہت خان ،نئی دہلی میں مقیم صحافیہ ہیں۔
ان کی یہ تحریر پہلے '' COLLABORATIVE JOURNALISM''
کی ویب گاہ پر 7 جون2024ء کو شائع ہوئی تھی۔اس کی افادیت کے پیش نظر اس کا
ترجمہ شائع کیا جا رہاہے۔اس تجربے سے پاکستانی صحافی بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں