meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: 2024

Empowering Through Media Literacy

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

امتیازاحمد وریاہ ‏

‏ ‏ ‏ ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد آمیز واقعات کو   رپورٹ کررہے ہیں یا اس جنگ زدہ ملک کی  لمحہ بہ لمحہ  تبدیل ہوتی  صورت حال پر کوئی تبصرہ اور تجزیہ کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ رامی عبدالرحمٰن  اور ان کی  تنظیم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق (المرصد السوری لحقوق الانسان  )  کے ناموں سے آگاہ نہیں  تو جان لیجیے  شام  کی حالیہ تاریخ  سے  متعلق آپ کی  بیشتر  معلومات کا مآخذ ثانوی ہوگا  ، ابتدائی نہیں اور اس مقصد کے لیے  آپ یا تو مغربی میڈیا کی فراہم کردہ اطلاعات پر انحصار کررہے ہیں یا عرب   میڈیا کی اطلاعات پر،  مگر یہ سب خود    تو رامی عبدالرحمٰن کی فراہم کردہ اطلاعات ہی کو نشروشائع کرتے ہیں ،کبھی ان کا نام  لے کر اور کبھی اس کے بغیر۔

دراصل برطانیہ میں قائم شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کا نام مغربی اور عرب  میڈیا کے لیے شام کی خبروں کے حوالے سے  لازم وملزوم بن چکا ہے۔شام میں روزانہ رونما ہونے والے واقعات اسی تنظِیم اور اس کے سربراہ کے حوالے سے رپورٹ ‏ہوتے ہیں لیکن  رامی عبدالرحمٰن ہی در حقیقت شامی  المرصد  کا دوسرا نام ‏ہے۔وہ برطانیہ کے ایک چھوٹے سے  شہر کوونٹری میں ایک عام سے گھر میں رہتے ہیں لیکن ان کے   اثرونفوذ  کا یہ عالم ہے کہ ‏مغربی اور عرب  میڈیا اور نمایاں خبررساں ادارے شام میں رونما ہونے والے تشدد آمیز واقعات کی کوئی بھی خبر ان کے یا ان کی ‏تنظیم کے نام کے بغیر جاری نہیں کرتے اور انھیں شامی خبروں کا سب سے مصدقہ ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

‏ ‏تریپن سالہ رامی عبدالرحمٰن  اپنے گھر ہی میں’’  المرصد السوری لحقوق الانسان  ‘‘چلاتے ہیں۔شام کے طول وعرض ‏اور ہر شہر وقصبے میں ان سے وابستہ کارکنان کا ایک وسیع  نیٹ ورک  موجود ہے جو انھیں پل پل کی خبروں سے آگاہ کرتے رہتے ‏ہیں۔شام کے کسی علاقے میں بم دھماکا ہو ، اسدی فوج کی باقیات   یا باغی جنگجوؤں کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہوں یا کسی ‏علاقے میں  حالیہ دنوں میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے شہریوں کی ہلاکتیں ہوں،انھیں فوری طورپراس  کی اطلاع مل جاتی ہے اور وہ مغربی ‏خبررساں اداروں اے ایف پی ،رائیٹرز ،اے پی وغیرہ کو یہ خبریں جاری کرتے ہیں اور العربیہ  یا دوسرے عرب ٹیلی وژن   چینلوں  کی براہ راست عربی نشریات میں بھی ٹیلی فون کے ذریعے شریک ہوتے ہیں اور نشریاتی میڈیا کی اصطلاح اپنے  بیپر کے ذریعے ناظرین کو شام کی تازہ صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں۔ المرصد کی ویب گاہ بھی شام  سے متعلق خبروں کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ اس پر شام میں تشدد کے روزانہ  واقعات میں  ہلاکتوں کے اعداد وشمار  کے علاوہ  بے شمار رپورٹس  دستیاب ہیں۔ اس کا پتا یہ ہے:

https://www.syriahr.com/

اس   ویب گاہ کے مطابق    المرصد کسی بھی ریاست، سیاسی جماعت یا تنظیم کے ساتھ وابستگی کو مسترد کرتی ہے اور  ایسی  غیر جانبدار انہ رپورٹنگ کے لیے وقف ہے جو شام کی حقیقی  صورت حال کی عکاسی کرے  ۔یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم  ہے اور   متعدد ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اپنی رپورٹس تیار کرتی ہے ، جیسے وڈیو ثبوت اور شہادتوں کے ساتھ ساتھ طبی ، فوجی اور فیلڈ رپورٹس۔  وہ اپنی رپورٹیں اپنی ویب سائٹ، آفیشل فیس بک پیج اور ٹویٹر پر شائع کرتی ہے  اور ان کا  بڑے بین الاقوامی خبر رساں ادارے، انسانی حقوق کی دیگر تنظیمیں اور اقوام متحدہ  اپنی خبروں یا رپورٹس میں   اکثرحوالہ دیتے ہیں۔

‏ ‏اوکلاہوما یونیورسٹی کے ڈائریکٹر برائے مشرق  اوسط مطالعات جوشو لینڈس  نے کوئی ایک عشرہ قبل  ان کے بارے میں  کہا تھا کہ '' وہ (رامی عبدالرحمٰن ) ہر ‏کہیں موجود ہوتے ہیں۔وہ اعدادوشمار کے لیے اپنے لڑکوں سے رابطے میں ہوتے ہیں اور میرا نہیں خیال کہ کوئی دوسرا ‏شخص بھی ان کے پائے کا ہوسکتا ہے''۔‎ ‎

رامی عبدالرحمٰن  کا کہنے کو تو اتنا وسیع کام ہے لیکن ان کی گزربسر کا انحصار کپڑے کی ایک دکان پر ہے۔ان کا کہنا ‏ہے کہ المرصد   اپنی معلومات کے لیے  بعض بے نامی کارکنان پر انحصار کرتی ہے۔ان کے علاوہ مانیٹروں کا ایک ‏وسیع نیٹ ورک ہے جو شام بھر میں ہونے والی جھڑپوں اور ان میں ہلاکتوں کی تفصیل کو اکٹھا کرتے اور پھر ان کی ‏تصدیق کرتے ہیں ان کے مخالفین  نے ماضی میں ان پر یہ الزام عاید کیا تھا  کہ وہ شامی حزب اختلاف کی فورسز سے ملے ہوئے ہیں اور خلیجی عرب ریاستیں انھیں رقوم ‏مہیا کررہی ہیں۔وہ ہلاکتوں کے اعدادوشمار اس  انداز میں  بیان کرتے ہیں جس سے باغی گروپوں یا حزب اختلاف  کو فائدہ پہنچے ہیں۔ ماضی میں بعض  افراد انھیں سابق صدر بشارالاسد  کے نظام  کا حامی قراردیتے  تھے۔وہ ان پر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے الزامات ‏ بھی عاید کرتے تھے کیونکہ اس طرح شامی صدر بشارالاسد کو فائدہ پہنچ سکتا  تھا۔طرفین کے  ان الزامات پر رامی کا کہنا  تھا کہ ''جب آپ پر ہر طرف سے حملے ہورہے ہوں تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ‏ہے کہ آپ ایک اچھا کام کررہے ہیں''۔‏ لیکن ان کے ایک معروف نقاد کا کہنا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک شخص رہ تو کوونٹری میں رہا ہے ‏لیکن وہ شام میں ہر روز بلکہ ہر گھنٹے اور ہر لمحے کی ہلاکتوں کی تفصیل دے رہاہے۔کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی ‏اسٹینلاس  میں مشرق  أوسط  سیاسیات کے پروفیسر اسعد ابوخلیل کا اس پر  تبصرہ یہ   تھا کہ ''کچھ ایسا ضرورہورہا ہے جو بہت ہی ‏مشکوک ہے''۔

‏ ‏مصروف آدمی

شام میں جنگ  کی وقائع  نگاری سے متعلق  رامی کا کہنا تھا کہ یہ کوئی صبح 9  سے شام 5 بجے تک کی ملازمت نہیں  بلکہ وہ ساراسارادن شامی کارکنان ‏،بین الاقوامی صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنان سے ٹیلی فون پر رابطے میں رہتے ہیں اور بعض ‏اوقات تو جب شام میں کوئی اہم واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو وہ ایک دن میں پانچ سو تک فون کالز کرتے اور سنتے ہیں۔شام میں جاری بحران  کے ابتدائی برسوں میں  پل پل  کی  خبروں کو منظرعام پر لانے  پر رامی عبدالرحمٰن  کے بارے میں شکوک ‏وشبہات سامنے آئے تھے۔کیا وہ واقعی ایک خودساختہ جلاوطن شامی ہیں؟ان کی تنظیم کے پیچھے کس کا ہاتھ کارفرما ‏ہے؟کیا وہ بالکل درست معلومات فراہم کرتے ہیں کہ دنیا اس پر انحصار کرسکے؟یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ‏سامنے آتے  تھے۔

‏ ‏المرصد السوری لحقوق الانسان   کا قیام

رامی عبدالرحمٰن  شام کے ساحلی شہر بانیاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان   کا اصل نام اسامہ سلیمان ہے۔وہ عرفی نام کے استعمال کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بھی عرب ‏روایت کا حصہ ہے جس میں عرفی نام استعمال کرنا ایک عام بات ہے۔انھوں نے یہ تو اعتراف کیا  تھا کہ وہ یورپ کی انسانی ‏حقوق کی ایک تنظیم سے رقوم وصول کرتے ہیں لیکن اس کا نام بتانے سے گریز کیا  تھااور صرف یہ  بتایا کہ وہ 2012ء ‏کے بعد سے اپنے کام کے لیے ایک لاکھ یورو سے بھی کم رقم سالانہ وصول کررہے ہیں۔''ہم حالت جنگ میں ہیں اور اس ‏صورت حال میں مکمل طور پر شفاف ہونا بہت ہی مشکل ہے''۔ان کا کہنا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ہراساں کیے ‏جانے کے بعد ان کی انسانی حقوق کے کام میں دلچسپی بڑھی۔وہ ؁ 2000ء میں شام سے برطانیہ اٹھ آئے تھے  اور لندن سے ‏‏160 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع کوونٹری میں قیام پذیر ہوئے۔ان کی کپڑے کی دکان ہے اور اس سے ان کی  اور ان ‏کے بیوی بچے کی اچھی گزر بسر ہورہی ہے۔‏ ‏انھوں نے مئی 2006ء میں شامی  رصد گاہ برائے انسانی حقوق قائم کی تھی۔انھوں نے اپنے کام کا یہ اصول وضع کیا کہ ‏‏''لکھو ،تصدیق کرو اور شائع کردو''۔ان کا کہنا  تھا کہ شام  میں تنازع  کے  فریق غلط معلومات اور جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ‏اور ہمارا کام ''جھوٹ کے سمندر'' سے درست بات کی تلاش ہے۔شام میں ان کے مخبروں کی تعداد 2013ء   میں  قریباً 230  تھی اور اب یہ بڑھ کرسیکڑوں میں ہوچکی ہے۔ان میں شامی صحافیوں سے لے کر سرکاری  اسپتالوں کے ملازمین ‏تک شامل ہیں جو انھیں فوجیوں ، جنگجوؤں اور عام شہریوں  کی ہلاکتوں کی تعداد اور بعض خفیہ کہانیوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے ‏کہ انھیں بہت کم مواقع پر غلط معلومات کی تشہیرکا ذریعہ بننا پڑا ہے اور صرف دو مواقع پر انھوں نے ہلاکتوں کی تعداد ‏زیادہ بیان کردی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات ایک کاربم دھماکے کو موٹر سائیکل دھماکا کہہ دیا جاتا ہے لیکن اس طرح کی غلطیوں کی ‏ہم ہمیشہ بعد میں تصحیح کردیتے ہیں۔''ہم انسان ہیں۔ہم سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں لیکن ہمارا یہ ارادہ ہوتا ہے کہ ہم ان ‏غلطیوں کو دُہرائیں نہیں''۔

‏ ‏شام  کی خبر کا بنیادی  ذریعہ

 بڑے عالمی خبررساں ادارے رامی عبدالرحمٰن  کا شام کی خبر میں حوالہ دیتے ہیں۔یہ امر بھی ان کے درست اور مصدقہ  ہونے کی ‏سب سے بڑی دلیل ہے۔ایسوسی ایٹڈ پریس سمیت تین بڑے خبررساں اداروں کی شام سے متعلق جاری کردہ خبروں کے ‏جائزے سے یہ  پتا چلتا  ہے کہ ان کا شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا کی بہ نسبت زیادہ مرتبہ حوالہ دیا گیا ‏تھا۔ مفرور صدر بشارالاسد کی  سابق  حکومت نے غیر ملکی صحافیوں پر قدغنیں لگا رکھی  تھیں ۔اس صورت حال میں رامی ‏عبدالرحمٰن  ہی شام میں ہلاکتوں سے متعلق سب سے بڑا ذریعہ  بن گئے تھے۔حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے بھی متعدد مواقع  پر  ان کی بیان کردہ ہلاکتوں ‏کی تعداد پر انحصار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہماری تنظیم شام  میں روزانہ ہونے والی پیش رفت کی نگرانی، دستاویزات اور اشاعت کرتی  ہے تاکہ ملک کے   زمینی حقائق  کی معروضی تفہیم فراہم کی جا سکے۔المرصد  کا مشن شام میں انصاف، مساوات اور آزادی کی حمایت  کے لیے سچائی کا تحفظ کرنا ہے۔  انھیں   پختہ یقین ہے کہ انسانی حقوق کا تحفظ شام میں امن، انصاف، مساوات، آزادی اور جمہوریت کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔

شام میں انقلابی تحریک کے سربراہ ابو محمد الجولانی پُراسرار شخصیت ہیں کیا؟

 امتیازاحمدوریاہ

کیا شام میں  صدر بشارالاسد کی خون آشام  حکومت کا تختہ الٹنے  والی  مسلح  تحریک  کے سربراہ  ابو محمد الجولانی  ایک پراسرار شخصیت ہیں؟اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ نہیں ۔شاید برطانیہ کے  سرکاری نشریاتی ادارے  بی بی سی کو  ان کی ’’پراسراریت ‘‘کا اب  پتا چلا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے ان سے متعلق  ’’طشت از بام‘‘ حقائق  پر مبنی مواد کو پُراسرار بنا کر پیش کردیا ہے۔ وہ بھی برطانوی خبررساں ادارے رائیٹرز کی تقلید میں۔

أبو محمد الجولانی  کا اصل نام احمدحسین  الشرع  ہے۔وہ سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض میں پیدا ہوئے تھے  جہاں ان کے والدین بشارالاسد کے والد حافظ الأسد کی   سفاک حکومت کی چیرہ دستیوں سے بچنے کے لیے نقل مکانی کرگئے تھے ۔ان کے والد سعودی عرب کی وزارت تیل میں ملازم رہے تھے۔ابومحمد کا آبائی تعلق    اسرائیل کے زیر قبضہ شامی علاقے الجولان سے  ہے اور اسی نسبت سے وہ  الجولانی کہلاتے ہیں۔ان کا خاندان   1967ء کی چھے روز جنگ میں اسرائیل کے الجولان کی چوٹیوں پر  قبضے کے بعد ہجرت پر مجبور ہوگیا تھا  اور وہ دوسرے کئی خاندانوں کے ساتھ   دارالحکومت دمشق اور ملک کے دوسرے علاقوں میں جابسے تھے۔ بی بی سی    نےاپنی  رپورٹ  میں لکھا ہے کہ وہ عراق کے علاقے الجولان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس کے کوئی ٹھوس   شواہد پیش نہیں کیے  جبکہ  وہ  شامی ہیں، مقامی جڑیں رکھتے ہیں تو وہ پراسرار کیسے ہوگئے؟ دراصل  بی بی سی ایسے بڑے میڈیا ادارے بھی  پاکستان ساختہ  یوٹیوبروں کی طرح اپنا سودا بیچنے کے لیے ایسا مواد  لکھواتے  اور شائع کرتے ہیں۔ بعض  اطلاعات کے مطابق  وہ عراق میں 2003ء  کے بعد أبو مصعب الزرقاوی  کے زیرقیادت   القاعدہ (  تب تک صرف دولت اسلامیہ عراق)  کی صفوں  میں شامل ہوکر امریکی فوج کے خلاف لڑائی میں  حصہ لے چکے ہیں۔وہاں وہ گرفتار ہوئے اور پانچ سال تک امریکی جیل میں قید رہے تھے۔

وہ شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف 2011ء کے أوائل میں عوامی مزاحمتی تحریک شروع ہونے کے بعد لوٹے تھے اور انھیں داعش کی پیش رو تنظیم  دولت اسلامیہ عراق کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے شام  میں بھیجا تھا  تاکہ وہاں وہ    القاعدہ کی تنظیم سازی کرسکیں۔ انھوں نے 2012ء  میں   جبھۃ  النصرۃ ( النصرہ محاذ) کے نام سے تنظیم قائم کی  تھی  ۔ اس  کو ایک سال بعد   القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری نے  اپنی سرپرستی میں لے  لیا تھا اور اس پر اپنا چغہ ڈال دیا تھا۔چناں چہ  امریکا نے انھیں 2013ء میں  القاعدہ سے تعلق  کے الزام  میں  دہشت گرد قرار دے دیا تھا اور ان کی تنظیم پر بھی پابندیاں عاید کردی تھیں۔شام اور بعض دوسرے ملکوں نے بھی الجولانی اور ان کی تنظیم  جبھۃ النصرہ کو دہشت گرد قراردیا تھا۔ النصرہ محاذ  پر پابندی کے   بعد 2017ء  میں انھوں نے   ہیئت تحریرالشام کے نام سے نئی تنظیم قائم کی تھی اور اس میں بعض چھوٹے گروپ بھی شامل ہوگئے تھے۔دلچسپ  بات یہ ہے کہ  ترکیہ نے  الجولانی  کے زیر قیادت  ہیئت تحریرالشام کو دہشت گرد قراردے رکھا  ہے جبکہ وہ اسی تنظیم کے اتحادی دیگر مسلح دھڑوں کی حمایت بھی کررہا ہے۔ترکیہ کے حمایت یافتہ گروپ شامی قومی فوج (ایس این اے) اور سابق فوجیوں پر مشتمل جیش الحر  ہیئت تحریرالشام کے اتحادی ہیں اور اسی کی حمایت کی بدولت انھوں نے حالیہ دنوں میں شامی دارالحکومت کی جانب تیز رفتار پیش قدمی کی ہے۔

بشارالاسد ، ایران اور روس  کے اتحاد ثلاثہ نے  دمشق   کے نواحی شہروں اور صوبوں   حماۃ اور الدرعا  میں مسلح بغاوت کو فرو  کرنے کے لیے مزاحمتی گروپوں کے ساتھ 2016ء سے 2018ء تک  جنگ بندی کے معاہدے کیے تھے۔ ان کے تحت وہاں سے مزاحمت  کار  شامیوں  اور ان کے حامیوں کے خاندانوں کو  شمال مغربی صوبہ ادلب میں  جبری منتقل کردیا گیا تھا  اور ایک طرح سے  انھیں ایک  بڑے بند علاقے  میں   'مسدود' کردیا  گیا تھا۔   ادلب اور اس  سے  متصل صوبہ حلب کے علاقوں   پر ہیئت تحریرالشام   اور اس کے اتحادی گروپوں کا کنٹرول  برقرار رہا ہے  اور انھوں نے أبو محمد الجولانی  کے زیرقیادت  وہاں اپنا  نظم ونسق قائم کررکھا تھا اور وہاں گذشتہ  دس  ، بارہ سال سے اپنی خودمختار حکومت چلا رہے تھے۔اس  وسیع علاقے پر  حکومت کے اس تجربے کی وجہ سے ان  کی تنظیم  کو  ملک کا نظم ونسق  سنبھالنے میں کوئی  مشکل  درپیش نہیں ہوگی  کیونکہ    انھوں نے  ادلب اور اس سے متصل  حلب میں اپنے زیرقبضہ علاقوں میں  اپنے جنگجوؤں کو منظم کیا اور بشار الأسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اپنی  تیاریاں جاری رکھی   تھیں۔حالیہ دنوں میں  انھوں نے    گذشتہ ایک سال کے دوران میں اسرائیل کی غزہ پر مسلط  کردہ تباہ کن جنگ ،صہیونی فوج کے لبنان پر حملوں اور ایران کے خلاف  کارروائیوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور شام کے معاشی و تجارتی مرکز حلب پر یورش  کے ایک ہفتے کے بعد ہی   آٹھ دسمبر کو دارالحکومت دمشق کو فتح کر لیا ہے اور بشارالاسد  اپنے خاندان سمیت فرار ہوکر روس چلے گئے ہیں۔اس پس منظر میں یہ سب کچھ کوئی اتنا بڑا  انہونا واقعہ بھی نہیں  ، جیسا کہ بعض میڈیا ذرائع  باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔

پُراسرار شخصیت؟ ماضی سے تین خبروں کا انتخاب

اب یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے ماضی کے دریچوں سے ’مشتے نمونہ از خروارے‘ ابومحمد الجولانی سے متعلق تین خبریں  معمولی قطع وبرید کے ساتھ  پیش کی جاتی ہیں، جن کے مطالعے سے وہ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ کیا ہیئت تحریرالشام کے سربراہ  کوئی پُراسرار شخصیت ہیں؟

پہلی خبر9مئی 2013کی ہے:
النصرۃ محاذ نے اپنے سربراہ ابو محمد الجولانی کے زخمی ہونے کی تردید کردی

 شامی حکومت پر جنگجو گروپ سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلانے کا الزام

 ’’شام میں صدر بشارالاسد کی فوج کے خلاف برسرپیکار  ایک بڑے جہادی گروپ النصرۃ محاذ نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ دارالحکومت دمشق کے نواح میں لڑائی کے دوران  میں اس کے سربراہ ابو محمد الجولانی زخمی ہوگئے ہیں۔النصرۃ کے ایک کمانڈر آلِ غریب المہاجر القحطانی نے ایک ٹویٹ میں لکھا : ''پیارے بھائیو! یہ نوٹ فرمائیں،یہ جو بعض چینل شیخ الجولانی کے دمشق میں زخمی ہونے سے متعلق اطلاع دے رہے ہیں،یہ درست نہیں ہے۔الحمد للہ''۔

 انھوں نے شامی حکومت پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ ملک کے وسطی علاقے میں ان کی تنظیم کے ایک اور جنگجو کی موت سے متعلق  بھی جھوٹی خبر پھیلا رہی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ ''اگر قیادت زخمی ہوجائے یا قیادت کی موت واقع ہوجائے تو جہاد پھر بھی تاقیام قیامت جاری رہے گا لیکن ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ شیخ جولانی کے زخمی ہونے کی خبر غلط ہے''۔برطانیہ میں قائم شامی  رصدگاہ برائے انسانی حقوق نے جنوبی صوبہ دمشق میں شیخ جولانی کے زخمی ہونے کی اطلاع دی تھی۔آبزرویٹری شام میں موجود اپنے کارکنان ،وکلاء اور ڈاکٹروں کے نیٹ ورک کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد  پر ہلاکتوں یا زخمیوں کی تعداد کے بارے میں بیان جاری کرتی ہے اور اس نے اپنے بیان میں صرف یہ کہا تھا کہ شیخ جولانی کے پاؤں میں زخم آیا ہے۔ واضح رہے کہ ابومحمدجولانی نے گذشتہ ماہ  ( اپریل 2013ء میں) القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری سے اظہار وفاداری کا اعلان کیا تھا اور ان کے اس اعلان سے قبل ہی امریکا نے النصرۃ محاذ کو عراق میں القاعدہ کی شاخ سے تعلق کے الزام میں دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ النصرۃ محاذ شام میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا خواہاں ہے۔اس جنگجو گروپ نے شام میں متعدد خودکش بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کی ہے جس کی وجہ سے اس کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا جاتا لیکن اس کے جنگجو جدید ہتھیاروں سے لیس شامی فوج کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں اور انھوں نے شام کے شمالی علاقوں میں خاص طور پر اسدی فوج کے مقابلے میں جیش الحر کی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔النصرۃ محاذ کے جنگجوؤں کی جرآت مندی اور ان کی کامیابیوں پر دادوتحسین کے ڈونگرے بھی برسائے جارہے ہیں‘‘۔

دوسری خبر23 جنوری 2014 کی ہے:
’’ڈاکٹر الظواہری کا اسلامی جنگجوؤں سے باہمی لڑائی بند کرنے کا مطالبہ

 شام میں باہم برسرپیکار گروپوں سے اسدی فورسز کے خلاف متحد ہونے پر زور

القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری نے شام میں جہادی جنگجوؤں اور مقامی اسلامی باغیوں کے درمیان جاری باہمی لڑائی فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ڈاکٹر ایمن الظواہری نے ویڈیو شیئرنگ کی ویب سائٹ یو ٹیوب پر اپ لوڈ کی گئی ایک آڈیو ریکارڈنگ میں تمام جہادی گروپوں اور شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کے خواہاں ہر آزاد فرد پر زوردیا ہے کہ وہ جہادی اور اسلامی جنگجوؤں کے درمیان فوری طور پر لڑائی ختم کرائیں۔

شام میں صدر بشارالاسد کی وفادار سکیورٹی فورسز کے خلاف برسرپیکار باغی گروپوں پر مشتمل اسلامی محاذ اور القاعدہ سے وابستہ دولت اسلامی عراق وشام (داعش) کے جنگجوؤں کے درمیان گذشتہ قریباً  ایک ماہ سے شمالی صوبوں حلب اور ادلب میں خونریز لڑائی جاری ہےاور اسلامی محاذ نے القاعدہ کے جہادیوں کو ان دونوں صوبوں کے بہت سے علاقوں سے نکال باہر کیا ہے۔شامی  جنگجو القاعدہ کے اس گروپ پر صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف جاری مزاحمتی جنگ کو ہائی جیک کرنے اور اس کا آلہ کار ہونے کے الزامات عاید کررہے ہیں۔ان کے درمیان داعش کے زیرانتظام چیک پوائنٹس اور اڈوں پر باغی جنگجوؤں کے حملوں کے بعد لڑائی شروع ہوئی تھی اور وہ دونوں ایک دوسرے پر انسانی حقوق پامال کرنے کے الزامات عاید کررہے ہیں۔داعش کے سربراہ ابو بکرالبغدادی نے اگلے روز شام میں باغی جنگجو گروپوں کے ساتھ جاری لڑائی کے خاتمے کے لیے ان سے رجوع کیا ہے۔انھوں نے  انٹرنیٹ پر جاری کردہ ایک آڈیو بیان میں کہا کہ ''آج دولت اسلامی لڑائی کے خاتمے کے لیے آپ سے رجوع کررہی ہے تاکہ نصیریہ کے ساتھ لڑائی پر توجہ مرکوز کی جا سکے''۔ واضح رہے کہ جہادی بالعموم شامی حکومت کے لیے نصیریہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ابوبکر بغدادی نے شام کے باغی گروپوں پر راہ راست سے بھٹک جانے کا الزام عاید کیا اور کہا کہ جو کوئی بھی ہم سے لڑرہا ہے،اس کو اپنے موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے۔انھوں نے اپنے مخالف باغی جنگجوؤں کو مخاطب کرکے کہا کہ ''آپ نے ہمیں اس وقت پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے جب ہمارے فوجی اگلے محاذوں پر تھے''۔

 لیکن ان سے پہلے داعش کے ایک کمانڈر نے شامی جنگجوؤں کو خبردار کیا تھا کہ اگر انھوں نے ان کے گروپ کے خلاف مسلح کارروائی جاری رکھی تو وہ خودکش بم حملے کریں گے۔داعش کے خلاف لڑائی کی قیادت کرنے والے باغی گروپ احرارالشام سے تعلق رکھنے والے ایک جنگجو کا کہنا ہے کہ ''القاعدہ والے صرف جنگجوؤں ہی کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو خوف زدہ کرنے کے لیے خودکش حملے کررہے ہیں''۔

  داعش کے ترجمان ابومحمدالعدنانی نے گذشتہ ہفتے ایک ویڈیو بیان میں اپنے جنگجوؤں سے کہا تھا کہ وہ دوسرے باغی گروپوں کو ''تہس نہس'' کردیں۔انھیں (باغیوں کو) مکمل طور پر ختم کردیں اور سازش کو اس کی پیدائش پر ہی قتل کردیں''۔داعش نے یہ دھمکی القاعدہ سے وابستہ ایک اور گروپ النصرۃ محاذ کے سربراہ ابو محمد الجولانی کے بیان کے بعد دی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ان کا محاذ بھی شام کے دوسرے باغی گروپوں کی داعش کے خلاف لڑائی میں شامل ہورہا ہے۔انھوں نے داعش کی غلطیوں کو اس لڑائی کا سبب قراردیا اور کہا کہ اس نے الرقہ میں النصرۃ کے کمانڈر کو گرفتار کر لیا ہے۔ جولانی نے اپنے پیغام میں تمام باغی گروپوں سے کہا تھا کہ وہ صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے مسلح جدوجہد میں متحد ہوجائیں،تمام باغی گروپوں کے درمیان باہمی لڑائی کا خاتمہ ہونا چاہیے اور باغیوں کو صدر بشارالاسد کی فورسز کے خلاف لڑائی پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

 واضح رہے کہ شام میں القاعدہ کے دھڑوں میں تقسیم نومبر 2013ء میں عالمی تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے ایک فیصلے کے بعد رونما ہوئی تھی۔انھوں نے شام میں النصرۃ محاذ کو القاعدہ کا پرچم استعمال کرنے کی اجازت دی تھی اور داعش کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ اس سے پہلے جون میں انھوں نے اس ضمن میں ایک تحریری فرمان جاری کیا تھا لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ڈاکٹر ظواہری نے کہا کہ صرف النصرۃ محاذ شام میں ان کے جہادی گروپ کی شاخ ہے اورجنرل کمان کو رپورٹ کرنے کا پابند ہے۔اس لیے وہاں داعش  کی تنظیم کو ختم کردیا جائے۔وہ جہادی بینر استعمال نہ کرے اور صرف ریاست اسلامی عراق کو برقرار رکھا جائے‘‘۔

یہ 6 جولائی 2017ء کی خبر ہے:

’’ابومحمد الجولانی نے 2014ء  میں  الجزیرہ ٹیلی ویژن کو  پہلا  انٹرویو دیا تھا اور اس میں اپنے چہرے پر ڈھاٹا ماررکھا تھا۔النصرہ محاذ نےعالمی پابندیوں سے بچنےکے لیےالقاعدہ سے جولائی 2016ء  میں اپنا  ناتا توڑ لیا تھا اور اپنا نام تبدیل کرکے ہئیت  تحریرالشام  رکھ لیا تھا۔ اس وقت  الجزیرہ نیوز چینل  نے ان کا ایک ویڈیو پیغام بھی نشر  کیا تھا اور وہ اس  کے ایک پروگرام میں  بھی نمودار ہوئے تھے۔الجزیرہ کے اینکر احمد منصور نے اس پروگرا م میں ابو محمدجولانی کو مخاطب کرکے کہا: ’’آپ کی حکمتِ عملی خاص طور پر جہاد کے معاملے میں، الاخوان المسلمون سےکچھ زیادہ مختلف نہیں ہے تو پھر آپ لوگ الاخوان المسلمون کے ارکان کیوں نہیں بن جاتے؟آ پ القاعدہ سے ناتاجوڑ کردنیا کو اپنے پیچھے لگانے کے بجائے خود کو الاخوان کے کارکنان کیوں نہیں قرار دے دیتے‘‘۔

 الجزیرہ کی الجولانی کو الاخوان المسلمون کا کارکن تسلیم کرانے کی یہ ایک کوشش تھی کیونکہ تب  الاخوان مصر ، سعودی عرب اور بعض عرب ممالک کی پابندیوں کے باوجود  مغرب کے لیے قابل قبول تھی۔جب جولانی الجزیرہ کےاینکر کے جھانسے میں نہیں آئے توپھرموخر الذکر نے یہ کوشش کی کہ وہ کم سے کم یہ کہہ دیں کہ الاخوان المسلمون اور القاعدہ کا نظریہ ایک ہی جیسا ہے۔چناں چہ پھر الجولانی  نے یہ تسلیم کر ہی لیا کہ یہ دونوں جماعتیں ایک ہی نظریے  کی پیداوار ہیں اور اسی پر عمل پیرا ہیں‘‘۔

جڑواں شہر

احسان غنی

بنی نوع انسان نے ابتدائے آفرینش  سے  ہی  اپنی بقاء کی   تگ ودو  شروع کردی تھی اور یہ  رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے گی۔ مختلف ادوار میں اس کی صورتیں بدلتی رہی  ہیں  مگر  ہر نیا عہد پہلےسے بہتر ہوتا چلا گیا۔ اس ارتقائی سفر میں بہت سارے اتار چڑھاؤ آئے لیکن اشرف المخلوقات ہونے کے ناتے سے انسان نے نئے سے نئے جہان پیدا  کیے۔ غاروں اور جنگلوں میں رہنے والے باشندوں نے جب شعور اور آگاہی کی منازل طے کرنا شروع کیں تو تہذیب و تمدن نے جنم لیا اور یوں دنیا میں رہنے سہنے اور میل جول کے طور و اطوار بنے ،کرہ ارض کی تقسیم شروع ہوئی یہ تقسیم بڑی دلچسپ ہے۔ تین حصے پانی یعنی سمندر اور دریا باقی خشک ماندہ جگہ کو بنی نوع انسان نے خود ایسا تقسیم کیا کہ اب ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لیے ویز ا درکار ہوتا ہے۔ دنیا کے ممالک نے اپنی اپنی حدوں کے تعین کے لیے دیواریں کھڑی کر لیں اور باڑیں لگا لیں۔

 (Jessica Wapner) جیسیکاویپنر کی کتاب وال ڈیزیز (Wall Disease) یعنی دیوار کی پیدا شدہ بیماریوں کے مطابق جب بھی کوئی ملک سرحدوں پر رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے، دیوار تعمیر کرتا ہے یا باڑیں لگا کر آمدورفت کو روکتا ہے تو اس سے کمزور خطوں اور ملکوں میں ذہنی اور معاشی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ دیواریں کھڑی کرنے والے ممالک انسانیت کی بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ براعظم سمندر، دریا، جزائر، خطے، ملک، شہر، گائوں، قصبے، محلوں اور گلیوں تک دنیا تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی۔ رہن سہن، رسم و رواج اور تہذیب و تمدن سب کچھ بظاہر الگ اور جدا ہے۔ رنگ و نسل مختلف سہی لیکن ہیں سب انسان پھر انسان ہی انسان کا دشمن ٹھہرا۔  ایک دوسرے کے ملک پر قبضہ کرنے، دوسری قوم کو اپنا مطیع بنانے کے لیے جنگ و جدل شروع ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم اور پھر دوسری جنگ عظیم بھر پور تیاریوں سے لڑی گئیں۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے کا مقولہ سچا ثابت کرنے کے لیے دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے جاپان پر ایٹم بم برسا دیے جس سے لاکھوں کی تعداد میں انسان دیکھتے ہی دیکھتے لقمہ اجل بن گئے تھے۔جنگوں کی ہولناکیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ کبھی ویت نام، ایران، عراق، کویت، أفغانستان، غزہ  اور اب دہشت گردی کے نام پر جنگ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے  رکھاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانیت ختم ہونے کو ہے۔

       دنیا پر حکمرانی کرنے کے نشے میں مبتلا ہر بڑا اور طاقتور ملک دوسرے ملک پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے جنگ کرنے پر تلا ہوا ہے۔جنگ کرتا رہا اور تباہی کی داستانیں رقم کرتا رہا۔ ہزاروں لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلادیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس دنیا میں انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے اور دریاؤں کے پانی انسانی خون سے سرخ کر دیے گئے۔ دہشت و خوف کی نہ چھٹنے والی فضاؤں میں امید کی کرن نمودار ہونے کے لیے دنیا میں امن و آشتی  اور سکون برپا کرنے کے لیے جہدو جہد کا آغاز ہوا۔ جنگ و جدل کرنے والوں کو یہ باور کرایا گیا کہ انسانیت کی بقاء میں ہی سب کا بھلا ہے۔ لہٰذا طاقت کے گھمنڈ میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے۔ اس وبا ء سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو بچانا بہت ضروری ہے تاکہ یہ دنیا سب کے لیے ایک پرسکون جائے پناہ بن سکے۔ جہاں پر ہر کوئی آزادی سے جی سکے اور ہر طرف ترقی اور خوشحالی ہو۔ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کو خوش و خرم رکھنا سب کی مشترکہ اولین ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تیزی آئی تو پہلے لیگ آف نیشنز (مجلس اقوام) اور پھر جنگ عظیم دوم کے بعد اقوام متحدہ معروض وجود میں آگئی جس کا بنیادی مقصد دنیا میں جنگ اور لڑائی جھگڑوں کو ختم کرکے باہمی اعتماد و تعاون کو فروغ دینے اور مستحکم بنیادوں پر ملکوں کے درمیان دوستی، امن، آ شتی  اور دوستی قائم کرنا تھا۔ ملکوں کے باہمی تنازعات کو مذاکرات سے حل کرنے کے لیے کوششوں کاآغاز کیا گیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو ایک عالمی گاؤں ( گلوبل ویلج)میں تبدیل کر دیا ہے۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں بظاہر دوریاں ختم ہو  چکی ہیں۔لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا میں تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف نوعیت کے منصوبے بھی شروع کیے گئے جن میں صحت، تعلیم کے منصوبے سر فہرست تھے، عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے، خواتین، بچوں اور نوجوانوں کے حقوق سے آگاہی کے لیے مختلف پروگرام اور منصوبے ترتیب دیےگئے۔ مختلف خطوں، علاقوں اور ملکوں کی ثقافت کو روشناس کرنے کے لیے بھی مختلف سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا۔ ان سب منصوبوں کا بنیادی مقصد دنیا میں امن و سکون، بھائی چارے اور اتحادو یگانگت پیدا کرنا ہے۔

 اس نظریے کو فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے دنیا بھر میں جڑواں شہروں کا تصور دیا جس کے تحت اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے وہ شہر جو ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہوں ان شہروں کو جڑواں شہر یا Twin Cityکہا جائے گا۔جڑواں شہر قرار دیے جانے کے بعد دونوں شہروں کی میونسپل یا ڈسٹرکٹ حکومت ایسے اقدامات کریں جن سے  ان  شہروں کے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں۔ جڑواں شہروں میں ایسی تقاریب منعقد کی جائیں جن میں عوام کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے کیونکہ  اس فلسفے  کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ دونوں شہروں کے عوام ایک دوسرے کے قریب ہوں۔ ان میں پیار محبت اور دوستی بڑھے۔ اس کے ساتھ ثقافتی، تجارتی اور سیاحتی وفود کے تبادلے سے دونوں شہروں کی باہمی ترقی میں مدد مل سکے گی۔ اسی طرح جڑواں شہروں میں پائی جانے والی مشہور سوغاتوں، خاص اشیاء جیسے کہ پودے، درخت، موسیقی اور دیگر اشیاء کے تبادلے سے بھی دونوں کے عوام میں مزید قربت بڑھنے کا سبب بنے گی۔ ایک دوسرے کے قومی یا مقامی تیوہار اور میلے منانے کے پروگرام ترتیب دیے جائیں تاکہ جڑواں شہروں کی ثقافت سےعوام کو آگاہی ہو سکے۔

       دراصل جڑواں  شہر ایک قانونی، سماجی معاہدہ جو کوئی  سے بھی دو ملکوں کے ایک جیسے شہروں کے مابین ہوتا ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے شہروں کے درمیان ثقافتی، معاشی اور تجارتی   تعلقات کو مستحکم کیا جاتا ہے۔نیز ان شہروں میں انتظامی، تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے مشترکہ قدریں پائی جاتی ہوں۔ جڑواں شہر کا جدید تصور دوسری جنگ عظیم کے بعد پروان چڑھاجس کے تحت اقوام عالم کے مختلف ملکوں کے درمیان تعلقات کو مستحکم اور مضبوط کرنا تھا۔جڑواں شہر کا آغاز سب سے پہلے 1950ء میں ہوا جب جرمنی کے شہر Ludwigsburg اور فرانس کے شہر Montbeliard کے مابین دونوں شہروں میں Twin City کا معاہدہ ہوالیکن بعد میں امریکا میں Twin City کے تصور کو زیادہ پذیرائی ملی۔ اس معاہدے کی رو سے ثقافتی اور معاشی تعلقات کو فروغ دینا تھا۔ رفتہ رفتہ دنیا بھر میںTwin City جڑواں شہر کے معاہدے ہونا شروع ہو گئے۔ ماہرین عمرانیات کے مطابق انسان کی فطرت ہے کہ وہ سب سے الگ اور جدا رہےلیکن پھر اپنی جبلت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ سب کے ساتھ مل کر بھی رہنا چاہتا ہے۔ بالکل اسی طرح Twin City جڑواں شہر کے تصور کو تقویت ملی۔ جڑواں شہر کے معاہدے کے تحت امن اور مصالحت کے ذریعے تجارت اور خصوصا" سیاحت کو فروغ دینا ہے۔ تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر سے بہتر دوستانہ تعلقات استوار ہو سکیں۔ مختلف ممالک کی میونسپل یا ڈسڑکٹ حکومتوں کے درمیان جڑواں شہر کا معاہدہ طے پایا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں شہروں کے عوام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے امن و سکون کو پروان چڑھایا جائے۔ یعنی عوام کا عوام سے رابطہ اور یہ روابطہ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب  لانے میں مدد گار ثابت ہو ں گے ۔وہ باہمی میل و جول اور ثقافتی وفود کے تبادلوں سے ایک دوسرے کی ثقافت سے روشناس ہو سکیں گے۔ اس کے ساتھ جڑواں شہروں کے مابین تجارت اور سیاحت کے پروان چڑھنے میں مدد مل سکے گی اور یوں جڑواں شہر خوشحالی اور ترقی کے سفر کی جانب گامزن ہوں گے۔ جڑواں شہروں کے  درمیان  معاہدے  پر دست خطوں  کے لیے  باقاعدہ رنگا رنگ تقریب منعقد ہوتی ہے۔ تقریب کے حاضرین کو جڑواں شہر قرار دیے جانے کا پس منظر بتایا جاتا ہے کہ وہ کون کون سے مشترکہ عوامل ہیں جن کی بناء پر یہ جڑواں شہر کہلائے گئے ہیں۔ اب یہ دونوں شہروں کے عوام کی مشترکہ ذمہ داری ہو گی کہ وہ معاہدے کو برقرار رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ خصوصاًثقافت اور سیاحت کے فروغ کے لیے زیارہ سے زیادہ وفود کا تبادلہ ہو۔ دونوں ملکوں کے درمیان ویزے کے حصول میں حائل مشکلات کو حل کرتے ہوئے اس  کا حصول آسان بنایا جائے۔ دونوں ملکوں کے قومی دن پورے جوش و جذبے سے منائے جائیں۔ ان تقریبات میں عوام کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے مختلف پروگرام نشرکیے جائیں ان پروگراموں   میں جڑواں شہروں کی سیاحتی، انتظامی، معاشی، تجارتی، تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جائے تاکہ عوام میں شعور اور آگاہی پیدا ہو اور وہ جڑواں شہر کے درجے پر فائز ہونے کے فائدے اٹھا سکیں۔

       جڑواں شہر قرار دیے جانے والے شہروں میں عموماًایک یادگار (Monument)بھی تعمیر کی جاتی ہےجس پر ایک تحریر کندہ کی جاتی ہے اور اس میں   اس شہر کو دوسرے ملک کے شہر سے جڑواں قرار دیے جانے کا احوال بتایا جاتا ہے۔ اس یادگار کے اردگرد دونوں ملکوں کے قومی پرچم مستقل طور پر لہرا دیے جاتے ہیں۔ اس طرح دونوں ملکوں کے عوام کے لیے یادگار جاذب نظر اور پر کشش بن جاتی ہے۔ ایک لحاظ سے یہ یادگار تفریحی مقام بن جاتی ہے جس سے عوام میں ایک خوشگوار احساس پیدا ہوتا ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام میں محبت، یگانگت اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور وہ دوستی کے ایک لازوال رشتے میں بندھ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں جس سے جڑواں شہروں میں بسنے والی عوام خوشحال ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جڑواں شہر کے تصور کو ہمارے ہاں اب تک صحیح طور پر پذیرائی نہیں مل سکی اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کبھی کسی ملک کی میونسپل یا ڈسٹرکٹ حکومت کے ساتھ جڑواں شہر ہونے کا معاہدہ کیا جاتا ہے اس تاریخی موقع پر عوام کو تقریب معاہدہ میں شامل نہیں کیا جاتا صرف حکومتی اور انتظامیہ کے نمائندےموجود ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری عوام کو جڑواں شہر کے بارے میں آگاہی ہی نہیں ۔یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ عوام کی بھلائی اور فلاح و بہبود کرنے کی دعویدار حکومت عوام کو شعور دینے کے اقدامات نہیں کرتی۔ جڑواں شہر کے تصور کی طرح اور بھی تصورات ہیں جن کے بارے میں اگر عوام کو آگاہی اور شعور مل جائے تو بحیثیت مجموعی ہماری قوم دیگر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑی ہو سکتی ہے۔

       بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو دنیا کے مزید شہروں کو Twin City  جڑواں شہر بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی بستے ہیں اور پاکستان کے جس بھی شہر سے تعلق رکھتے ہوں انھیں چاہیے کہ وہ اپنے شہر کی خصوصیات وہاں تلاش کریں۔ وہاں کی میونسپل حکومت کو اپنے شہر کے جغرافیہ، ثقافت، سیاست اور انتظامیہ سے متعلق آگاہی دیں تاکہ وہ جڑواں شہر کے لیے قائل ہو سکیں۔ بیرون ملک پاکستانی سفارخانے اس سلسلہ میں بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سیاحت کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں میں جڑواں شہر Twin City کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ اس کے ذریعے دنیا بھر کے سیاح پاکستان کے قدرتی حسن کی طرف متوجہ ہوں گے۔ جتنے زیادہ سیاح پاکستان آئیں گے اتنا ہی زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے گا اور اس کے ساتھ پاکستان کا (Soft Image) اجاگر ہوگا۔

       حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے لاہور کو  "شہر ِادب" قرار دیا ہے۔ لاہور یہ اعزاز پانے والا  پاکستان کا پہلا شہر ہے  اور یہ ایک بڑا عالمی  اعزاز ہے۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ  "ہر شہر میں ایک سے زیادہ شہر آباد ہوتے ہیں  "لاہور کی ادبی سرگرمیوں کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جانا اس امر کی غما زی کرتا ہے کہ لاہور کا علمی، ادبی اور ثقافتی ورثہ کس قدر کشش کا حامل ہے۔

       پاکستان میں بھی جڑواں شہر ہیں جس میں لاہور اور کراچی دنیا کے ملکوں کے مختلف شہروں کے ساتھ مماثلت رکھنے میں سر فہرست ہیں۔ وطن عزیز کے  اس وقت 15 شہر جڑواں شہر Twin City کے درجے پر فائز ہیں۔جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کو بھی جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔

1۔   لاہور  2۔   کراچی        3۔   اسلام آباد            4۔   پشاور  5۔   ملتان

6۔   فیصل آباد      7۔   سرگودھا            8۔   حیدر آباد             9۔   رحیم یار خان

10۔ ساہیوال      11۔ سیالکوٹ             12۔ میرپور        13۔ سکردو 14۔ گلگت

15۔ گوادر

لاہور کے جڑواں شہر:  Amol )ایمول( ایران، (Bogota) بوگوٹہ(Colombia) کولمبیا، (Bukhara)  بخارا (Uzbekistan)  ازبکستان،  (USA) امریکہ  (Chicago)  شکاگو،  (Spain) سپین  (Cordoba) کارڈوبا،  (Tajikistan) تاجکستان  (Dushanbe) دوشنبے،  (Morocco) مراکش  (Fez) فیض،  (UK) برطانیہ  (Glasgow/Scotland) گلاسکو/اسکاٹ لینڈ،  (UK) انگلینڈ  (Hounslow) ہن سلو،  (Iran) ایران  (Isfahan) اصفہان،  (Turkey) ترکی  (Istambul) استبول،  (Uzbekistan) ازبکستان  (Samarkand) سمر قند،  (North Koria) شمالی کوریا  (Sariwon) ساری وان،  (China) چین  (Xian) ذی اون

کراچی کے جڑواں شہر:        (USA) امریکا  (Houston) ہوسٹن،  (Iran) ایران  (Mashad) مشہد،  (Mauritius) موریشئس  (Port Louis) پورٹ لوئیس

اسلام آباد کے جڑواں شہر:     (UAE) متحدہ عرب امارات  (Abu Dhabi) ابو ظہبی،  (Amman) عمان  (Jardan) اردن،  (Turkey) ترکی  (Ankara) انقرہ،  (China) چین  (Beijing) بیجنگ،  (Gawadar) گوادر،  (China) چین  (Puyang) پے ینگ

ملتان کے جڑواں شہر:         (Turkey) ترکی  (Konya) قونیہ،  (Iran) ایران  (Rasht) راشت

ساہیوال کے جڑواں شہر:      (England)برطانیہ  (Rochdale) روشڈیل

سکردو کے جڑواں شہر:        (Italy) اٹلی  (Cortina d' Ampezzo) کورٹینا ڈی ایمپیزو۔

 اس سال 31 اکتوبر کو عالمی یوم شہر پائیدار تعمیر اورشہروں کی بحالی کے عنوان کے تحت منایا گیا تھا لیکن شہروں کی بحالی اورپائیدار ترقی کے لیے صرف دن ہی نہیں منایا جانا چاہیے بلکہ  انتظامیہ اورشہریوں کومل کر کردار اداکرنا  چاہیے۔خصوصاً شہروں کوموسمیاتی تبدیلی سے بچانے کے لیے نوجوان آگے بڑھیں،عالمی سطح پر شہروں کومزید بااختیار بنانا چاہیے  تاکہ موسمیاتی تبدیلی، بڑھتی آبادی ،ماحولیاتی آلودگی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کوششوں کو تقویت مل سکے۔


مطیع اللہ جان کے خلاف مضحکہ خیز ایف آئی آر اور پولیس کا سفر ِمعکوس

 


امتیاز  احمد وریاہ

  پاکستان پولیس  سروس میں  مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات   انجام دینے والے جناب ذوالفقار چیمہ  سے  ایک  استفسار کی جسارت کرنا چاہتا ہوں: کیا ہی اچھا ہوتا ، وہ  اپنے دور میں پولیس کا ایف آئی آر لکھنے کا انداز  ہی تبدیل کراجاتے۔وہ اس ایک صفحے کی تحریر میں کوئی جامع اصلاحات کرجاتے۔وہ خود ماشاء اللہ   رواں،مسجع اور مقفیٰ نثر لکھتے ہیں،پولیس کو ایف آئی آر کا کوئی   ایسا"سانچا" (خاکا)بنا کردے جاتے جو کسی وقوعہ ، کسی  حقیقی واقعہ  کے جملہ عناصر کا غماز ہوتا اورپولیس اہلکاروں کو  ہر مرتبہ من گھڑت کہانی تو نہ   لکھنا  پڑے جس کی بنا پر بعد میں انھیں عدالتوں میں مُنھ کی کھانا پڑتی ہے اور وہ 100میں سے 20 ، 30 ملزمان ہی کو عدالتوں میں مجرم ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ،ورنہ بیشتر ملزمان تو دوچار عدالتی پیشیوں کے بعد   باعزت بری ہوجاتے ہیں۔چناں چہ  پولیس  خطرناک قسم کے ملزموں ، اجرتی قاتلوں  اور  پیشہ ور ڈکیتوں  کو عدالتی جھمیلوں میں پڑے بغیر ہی ’’کامیاب مقابلوں‘‘ میں  پار کردیتی ہے مگر ایسے پولیس  مقابلوں کی کہانی  کے الفاظ  اور تفصیل بھی یکساں ہوتی ہے صرف دن ، وقت اور مقام مختلف ہوتے ہیں۔بعض اوقات عجلت میں صرف مقام ہی تبدیل ہوتا ہے اور باقی پہلے والا بیان ہی برقرار رہتا ہے۔

امر واقعہ  یہ ہے کہ 1947ء کے بعد سے   آج  تک ہم ابتدائی اطلاعی  رپورٹ ( ایف آئی آر) لکھنے کا انداز تو تبدیل نہیں کرسکے،پولیس میں وسیع تر إصلاحات کیا ہونا تھیں۔ حتی کہ پولیس والے ''بجے دن ''کو ہنوز کمپیوٹر کمپوزنگ میں بھی ’’بجیدن‘‘ لکھتے ہیں۔پہلے تو شاید ہاتھ سے لکھنے کی وجہ سے کاغذ کا مسئلہ ہو۔پھر ایف آئی آر میں ہمیشہ  من گھڑت کہانی یوں بیان کی جاتی ہے کہ پولیس ہمہ وقت  ناکے پر چوکس موجود تھی اور فلاں  ولد فلاں اتنے بجے   آیا ۔اس کو روکا گیا تو اس نے یہ اور وہ کردیا۔ اس کی تازہ مثال اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ  میں مطیع اللہ جان  پر جھوٹے مقدمہ  کا اندراج ہے۔

پولیس کو کسی غیر مرئی ہاتھ کی ہدایت پر  مطیع اللہ جان پر کوئی مقدمہ بنانا ہی  مقصود ہے تو ایف آئی آر تو کام کی لکھیں،اس میں کوئی جان تو ہو، دفعات تو وہ لگائیں جن کا کوئی جواز عدالت میں پیش کر سکیں  اور واضح لکھیں اس کی فلاں فلاں سرگرمی سے ارباب اقتدار کے لیے فلاں اور فلاں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔آئس کے نشے ، اسلحہ چھینے اور کارسرکار میں مداخلت   ایسے الزامات پر مبنی پرچے اور اس کے  بھونڈے انداز کو آزادی اظہار پر حملہ ہی تصور کیا جائے گا ۔ اس پر ہمارے دیرینہ  دوست فاروقی شاہزاد نے گرہ لگائی:

’’ مجھے پہلے ہی مطیع اللہ جان پر شک تھا کہ وہ ایک "بدمعاش" اور " نشئی" شخص ہے کیونکہ جو کچھ وہ کررہا تھا ، وہ عام حالات میں ممکن ہی نہیں تھا ۔آج کل اس کی مصروفیات ٹھیک نہیں تھیں خیر گزری کہ اس نے صرف بندوق تانی،اگر کہیں وہ قلم اور کیمرا تان دیتا تو اچھے اچھوں کی پتلون گیلی ہوجاتی۔مجھے کہیں سے چلو بھر پانی لادو‘‘۔اب مطیع کے خلاف درج ایف آئی آر کی مذمت کا ایک سلسلہ ہے کہ وہ دراز تر ہوا جارہا ہے۔بلاگ میں  اس کا  عکس  ملاحظہ کیجیے مگر اس پر ہنسنا منع ہے بلکہ تھوڑا سا رو لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

یہ کوئی سربستہ راز نہیں  کہ پولیس کو ہنوز انگریز استعمار کی تقلید میں  آزادی کے بعد بھی ہماری  حکومتیں اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کررہی ہیں اور محکمہ پولیس کے کام کے انداز اور ایف آئی آر کی زبان تک میں کسی کامے ، شوشے ، سکتے کی بھی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔وہی قربان خانی مائنڈ سیٹ ہے جو گذشتہ 77،76 سال سے چلا آرہا ہے۔یہ مائنڈ سیٹ ہے کیا؟اس کے لیے آپ منیر کمیشن رپورٹ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

گوگل یا بنگ پر پی ڈی ایف کتاب کیسے تلاش کریں؟

 امتیازاحمدوریاہ

اگلے روز راقم نے کتاب چہرہ (فیس بُک) پر گوگل یا دوسرے سرچ انجن کی مدد سے پی ڈی ایف میں کتب یا مضامین میں تلاش کرنے کے لیے ایک نسخہ شیئر کیا تھا۔دنیا جہاں  کی کتب  کی تلاش کے لیے یہ ایک بڑا کارآمد نسخہ ہے۔اگر آپ کتب بینی کے شوقین ہیں لیکن معاشی مشکلات کے پیش نظر اپنی پسندیدہ کتابوں کو خرید  کرنے سے قاصر ہیں تو  یہ  نسخہ بس پھر آپ ہی کے لیے  ہے۔اس کی مدد سے آپ کوئی  بھی کتاب تلاش کرسکتے ہیں۔اگر وہ انٹر نیٹ پر موجود ہوئی ،خواہ اس کو  کسی نے کانواں لِٹ  یا تلونڈی  بھنڈراں سے اپ لوڈ کیا ہوتو آپ کو فراہم ہوجائے گی۔

اس کا طریق   کار یہ ہے  کہ آپ اپنی مطلوبہ کتاب کا نام کاموں میں لکھیں؛ انورٹڈ کامے۔اس کے بعد کولن اور سپیس دیں،پھر فائل ٹائپ ڈاٹ پی ڈی ایف لکھیں۔ اردو اور انگریزی میں دودو مثالیں ملاحظہ کیجیے:

“Mass Communication Living in a Media World”: filetype.pdf

“Introduction to Mass Communication”: filtype.pdf

: file type.pdf‏’’پھر مارشل لا آگیا ‘‘‏

: file type.pdf‏’’ابلاغ عام ‘‘‏

 یوں کتاب جس بھی ویب سائٹ پر ہوگی یا جہاں بھی ہوگی ، اس کی تفصیل سامنے آجائے گی اور اس کو ڈاؤن لوڈ کرلیجیے۔

مثال کے طور اسی کتاب [پھر مارشل آگیا] کو جب اس نسخے کی مدد سے تلاش کیا گیا تو گوگل کے پہلے صفحے پر یہ نتائج سامنے آئے:

بنگ کے پہلے صفحے پر یہ نتائج ظاہر ہوئے۔اس  سے اسی موضوع پر انٹر نیٹ پر دستیاب دوسری کتب کے بارے میں بھی معلومات مل جاتی ہیں۔

اس سے یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ یہ کتاب کس شہر میں اور کس کتب خانے میں موجود ہے۔اگر کسی کتاب  کی نیٹ پر پی ڈی ایف فائل دستیاب نہیں تو اس کے بارے میں یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ وہ پرنٹ شکل میں کس کتب فروش ادارے کے پاس دستیاب ہے اور وہاں سے کتنی رقم میں خرید کی جاسکتی ہے یا کیسے منگوائی جاسکتی ہے۔

دوم، اگر آپ کسی موضوع پر  پی پی ٹی (پاورپوائنٹ) فائل کی تلاش میں ہیں  تو  مذکورہ بالا  لنک میں پی ڈی ایف کی جگہ  انگریزی میں  پی پی ٹی لکھ دیں تو   وہ فائل دستیاب ہوجائے گی۔نیز یہ بھی پتا چل جاتا ہے کس ویب سائٹ پر  فائل مفت میں دستیاب  ہے اور کہاں پیسے بھرنا پڑیں گے۔ہم پاکستانی کیونکہ ہمیشہ مفت کی تلاش میں ہوتے ہیں ،اس لیے یہ  کارآمد نسخے ہمارے ہی لیے ہیں۔انھیں  آزمائیے اور اپنی پسندیدہ کتب سے بھرپور استفادہ  کیجیے۔

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں