امتیازاحمد وریاہ
اگر آپ شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں ، وہاں رونما ہونے والے تشدد آمیز واقعات کو رپورٹ کررہے ہیں یا اس جنگ زدہ ملک کی لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی صورت حال پر کوئی تبصرہ اور تجزیہ کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ رامی عبدالرحمٰن اور ان کی تنظیم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق (المرصد السوری لحقوق الانسان ) کے ناموں سے آگاہ نہیں تو جان لیجیے شام کی حالیہ تاریخ سے متعلق آپ کی بیشتر معلومات کا مآخذ ثانوی ہوگا ، ابتدائی نہیں اور اس مقصد کے لیے آپ یا تو مغربی میڈیا کی فراہم کردہ اطلاعات پر انحصار کررہے ہیں یا عرب میڈیا کی اطلاعات پر، مگر یہ سب خود تو رامی عبدالرحمٰن کی فراہم کردہ اطلاعات ہی کو نشروشائع کرتے ہیں ،کبھی ان کا نام لے کر اور کبھی اس کے بغیر۔
دراصل برطانیہ میں قائم شامی
آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کا نام مغربی اور عرب میڈیا کے لیے شام کی خبروں کے حوالے سے لازم وملزوم بن چکا ہے۔شام میں روزانہ رونما
ہونے والے واقعات اسی تنظِیم اور اس کے سربراہ کے حوالے سے رپورٹ ہوتے ہیں لیکن رامی عبدالرحمٰن ہی در حقیقت شامی المرصد کا
دوسرا نام ہے۔وہ برطانیہ کے ایک چھوٹے سے شہر کوونٹری میں ایک عام سے گھر میں رہتے ہیں
لیکن ان کے اثرونفوذ کا یہ عالم ہے کہ مغربی اور عرب میڈیا اور نمایاں خبررساں ادارے شام میں رونما
ہونے والے تشدد آمیز واقعات کی کوئی بھی خبر ان کے یا ان کی تنظیم کے نام کے بغیر
جاری نہیں کرتے اور انھیں شامی خبروں کا سب سے مصدقہ ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
تریپن سالہ رامی عبدالرحمٰن اپنے گھر ہی میں’’ المرصد السوری لحقوق الانسان ‘‘چلاتے ہیں۔شام کے طول وعرض اور ہر شہر وقصبے
میں ان سے وابستہ کارکنان کا ایک وسیع نیٹ
ورک موجود ہے جو انھیں پل پل کی خبروں سے
آگاہ کرتے رہتے ہیں۔شام کے کسی علاقے میں بم دھماکا ہو ، اسدی فوج کی باقیات یا باغی
جنگجوؤں کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہوں یا کسی علاقے میں حالیہ دنوں میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے
شہریوں کی ہلاکتیں ہوں،انھیں فوری طورپراس کی اطلاع مل جاتی ہے اور وہ مغربی خبررساں
اداروں اے ایف پی ،رائیٹرز ،اے پی وغیرہ کو یہ خبریں جاری کرتے ہیں اور
العربیہ یا دوسرے عرب ٹیلی وژن چینلوں کی براہ راست عربی نشریات میں بھی ٹیلی فون کے
ذریعے شریک ہوتے ہیں اور نشریاتی میڈیا کی اصطلاح اپنے بیپر کے ذریعے ناظرین کو شام کی تازہ صورت حال
سے آگاہ کرتے ہیں۔ المرصد کی ویب گاہ بھی شام سے متعلق خبروں کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ اس
پر شام میں تشدد کے روزانہ واقعات میں ہلاکتوں کے اعداد وشمار کے علاوہ بے شمار رپورٹس دستیاب ہیں۔ اس کا پتا یہ ہے:
اس ویب گاہ
کے مطابق المرصد کسی
بھی ریاست، سیاسی جماعت یا تنظیم کے ساتھ وابستگی کو مسترد کرتی ہے اور ایسی غیر جانبدار انہ رپورٹنگ کے لیے وقف ہے جو شام
کی حقیقی صورت حال کی عکاسی کرے ۔یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے اور متعدد
ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اپنی رپورٹس تیار کرتی ہے ، جیسے وڈیو ثبوت اور
شہادتوں کے ساتھ ساتھ طبی ، فوجی اور فیلڈ رپورٹس۔ وہ اپنی رپورٹیں اپنی ویب سائٹ، آفیشل فیس بک
پیج اور ٹویٹر پر شائع کرتی ہے اور ان کا بڑے بین الاقوامی خبر رساں ادارے، انسانی حقوق
کی دیگر تنظیمیں اور اقوام متحدہ اپنی
خبروں یا رپورٹس میں اکثرحوالہ دیتے ہیں۔
اوکلاہوما یونیورسٹی کے ڈائریکٹر برائے
مشرق اوسط مطالعات جوشو لینڈس نے کوئی ایک عشرہ قبل ان کے بارے میں کہا تھا کہ '' وہ (رامی عبدالرحمٰن ) ہر کہیں
موجود ہوتے ہیں۔وہ اعدادوشمار کے لیے اپنے لڑکوں سے رابطے میں ہوتے ہیں اور میرا
نہیں خیال کہ کوئی دوسرا شخص بھی ان کے پائے کا ہوسکتا ہے''۔
رامی عبدالرحمٰن کا کہنے کو تو اتنا وسیع کام ہے لیکن ان کی
گزربسر کا انحصار کپڑے کی ایک دکان پر ہے۔ان کا کہنا ہے کہ المرصد اپنی
معلومات کے لیے بعض بے نامی کارکنان پر
انحصار کرتی ہے۔ان کے علاوہ مانیٹروں کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے جو شام بھر میں ہونے
والی جھڑپوں اور ان میں ہلاکتوں کی تفصیل کو اکٹھا کرتے اور پھر ان کی تصدیق کرتے
ہیں ان کے مخالفین نے ماضی میں ان پر یہ
الزام عاید کیا تھا کہ وہ شامی حزب اختلاف
کی فورسز سے ملے ہوئے ہیں اور خلیجی عرب ریاستیں انھیں رقوم مہیا کررہی ہیں۔وہ
ہلاکتوں کے اعدادوشمار اس انداز میں بیان کرتے ہیں جس سے باغی گروپوں یا حزب اختلاف
کو فائدہ پہنچے ہیں۔ ماضی میں بعض افراد انھیں سابق صدر بشارالاسد کے نظام کا حامی قراردیتے تھے۔وہ ان پر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کو
بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے الزامات بھی عاید کرتے تھے کیونکہ اس طرح شامی صدر
بشارالاسد کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔طرفین
کے ان الزامات پر رامی کا کہنا تھا کہ ''جب آپ پر ہر طرف سے حملے ہورہے ہوں تو
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ایک اچھا کام کررہے ہیں''۔ لیکن ان کے ایک معروف
نقاد کا کہنا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک شخص رہ تو کوونٹری میں رہا ہے
لیکن وہ شام میں ہر روز بلکہ ہر گھنٹے اور ہر لمحے کی ہلاکتوں کی تفصیل دے
رہاہے۔کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی اسٹینلاس میں مشرق أوسط سیاسیات کے پروفیسر اسعد ابوخلیل کا اس پر تبصرہ یہ تھا کہ
''کچھ ایسا ضرورہورہا ہے جو بہت ہی مشکوک ہے''۔
مصروف آدمی
شام میں جنگ کی وقائع
نگاری سے متعلق رامی کا کہنا تھا
کہ یہ کوئی صبح 9 سے شام 5 بجے تک کی ملازمت
نہیں بلکہ وہ ساراسارادن شامی کارکنان
،بین الاقوامی صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنان سے ٹیلی فون پر
رابطے میں رہتے ہیں اور بعض اوقات تو جب شام میں کوئی اہم واقعہ رونما ہوجاتا ہے
تو وہ ایک دن میں پانچ سو تک فون کالز کرتے اور سنتے ہیں۔شام میں جاری بحران کے ابتدائی برسوں میں پل پل
کی خبروں کو منظرعام پر لانے پر رامی عبدالرحمٰن کے بارے میں شکوک وشبہات سامنے آئے تھے۔کیا وہ
واقعی ایک خودساختہ جلاوطن شامی ہیں؟ان کی تنظیم کے پیچھے کس کا ہاتھ کارفرما
ہے؟کیا وہ بالکل درست معلومات فراہم کرتے ہیں کہ دنیا اس پر انحصار کرسکے؟یہ اور
اس طرح کے بہت سے سوالات سامنے آتے تھے۔
المرصد السوری لحقوق الانسان کا قیام
رامی عبدالرحمٰن شام کے ساحلی شہر بانیاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا اصل
نام اسامہ سلیمان ہے۔وہ عرفی نام کے استعمال کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بھی
عرب روایت کا حصہ ہے جس میں عرفی نام استعمال کرنا ایک عام بات ہے۔انھوں نے یہ تو
اعتراف کیا تھا کہ وہ یورپ کی انسانی
حقوق کی ایک تنظیم سے رقوم وصول کرتے ہیں لیکن اس کا نام بتانے سے گریز کیا تھااور صرف یہ
بتایا کہ وہ 2012ء کے بعد سے اپنے کام کے لیے ایک لاکھ یورو سے بھی کم رقم
سالانہ وصول کررہے ہیں۔''ہم حالت جنگ میں ہیں اور اس صورت حال میں مکمل طور پر
شفاف ہونا بہت ہی مشکل ہے''۔ان کا کہنا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے
ہراساں کیے جانے کے بعد ان کی انسانی حقوق کے کام میں دلچسپی بڑھی۔وہ 2000ء میں
شام سے برطانیہ اٹھ آئے تھے اور لندن سے
160 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع کوونٹری میں قیام پذیر ہوئے۔ان کی کپڑے کی دکان
ہے اور اس سے ان کی اور ان کے بیوی بچے
کی اچھی گزر بسر ہورہی ہے۔ انھوں نے مئی 2006ء میں شامی رصد گاہ برائے انسانی حقوق قائم کی تھی۔انھوں نے
اپنے کام کا یہ اصول وضع کیا کہ ''لکھو ،تصدیق کرو اور شائع کردو''۔ان کا کہنا تھا کہ شام میں تنازع
کے فریق غلط معلومات اور جھوٹ کا
سہارا لیتے ہیں اور ہمارا کام ''جھوٹ کے سمندر'' سے درست بات کی تلاش ہے۔شام میں
ان کے مخبروں کی تعداد 2013ء میں قریباً 230 تھی اور اب یہ بڑھ کرسیکڑوں میں ہوچکی ہے۔ان میں
شامی صحافیوں سے لے کر سرکاری اسپتالوں کے
ملازمین تک شامل ہیں جو انھیں فوجیوں ، جنگجوؤں اور عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد اور بعض خفیہ کہانیوں کے
بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ انھیں بہت کم مواقع پر غلط معلومات کی
تشہیرکا ذریعہ بننا پڑا ہے اور صرف دو مواقع پر انھوں نے ہلاکتوں کی تعداد زیادہ
بیان کردی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات ایک کاربم دھماکے کو موٹر سائیکل
دھماکا کہہ دیا جاتا ہے لیکن اس طرح کی غلطیوں کی ہم ہمیشہ بعد میں تصحیح کردیتے
ہیں۔''ہم انسان ہیں۔ہم سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں لیکن ہمارا یہ ارادہ ہوتا ہے کہ ہم
ان غلطیوں کو دُہرائیں نہیں''۔
شام کی خبر کا بنیادی ذریعہ
بڑے
عالمی خبررساں ادارے رامی عبدالرحمٰن کا
شام کی خبر میں حوالہ دیتے ہیں۔یہ امر بھی ان کے درست اور مصدقہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل
ہے۔ایسوسی ایٹڈ پریس سمیت تین بڑے خبررساں اداروں کی شام سے متعلق جاری کردہ خبروں
کے جائزے سے یہ پتا چلتا ہے کہ ان کا شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا
کی بہ نسبت زیادہ مرتبہ حوالہ دیا گیا تھا۔ مفرور صدر بشارالاسد کی سابق حکومت
نے غیر ملکی صحافیوں پر قدغنیں لگا رکھی تھیں ۔اس صورت حال میں رامی عبدالرحمٰن ہی شام میں ہلاکتوں سے متعلق سب سے بڑا ذریعہ بن گئے تھے۔حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے بھی متعدد
مواقع پر ان کی بیان کردہ ہلاکتوں کی تعداد پر انحصار
کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہماری تنظیم شام میں روزانہ ہونے والی پیش رفت کی نگرانی،
دستاویزات اور اشاعت کرتی ہے تاکہ ملک کے زمینی حقائق کی معروضی تفہیم فراہم کی جا سکے۔المرصد کا مشن شام میں انصاف، مساوات اور آزادی کی
حمایت کے لیے سچائی کا تحفظ کرنا ہے۔ انھیں پختہ یقین ہے کہ انسانی حقوق کا تحفظ شام میں
امن، انصاف، مساوات، آزادی اور جمہوریت کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔