امتیاز احمد وریاہ
پاکستان پولیس سروس میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دینے والے جناب ذوالفقار چیمہ سے ایک استفسار کی جسارت کرنا چاہتا ہوں: کیا ہی اچھا ہوتا ، وہ اپنے دور میں پولیس کا ایف آئی آر لکھنے کا انداز ہی تبدیل کراجاتے۔وہ اس ایک صفحے کی تحریر میں کوئی جامع اصلاحات کرجاتے۔وہ خود ماشاء اللہ رواں،مسجع اور مقفیٰ نثر لکھتے ہیں،پولیس کو ایف آئی آر کا کوئی ایسا"سانچا" (خاکا)بنا کردے جاتے جو کسی وقوعہ ، کسی حقیقی واقعہ کے جملہ عناصر کا غماز ہوتا اورپولیس اہلکاروں کو ہر مرتبہ من گھڑت کہانی تو نہ لکھنا پڑے جس کی بنا پر بعد میں انھیں عدالتوں میں مُنھ کی کھانا پڑتی ہے اور وہ 100میں سے 20 ، 30 ملزمان ہی کو عدالتوں میں مجرم ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ،ورنہ بیشتر ملزمان تو دوچار عدالتی پیشیوں کے بعد باعزت بری ہوجاتے ہیں۔چناں چہ پولیس خطرناک قسم کے ملزموں ، اجرتی قاتلوں اور پیشہ ور ڈکیتوں کو عدالتی جھمیلوں میں پڑے بغیر ہی ’’کامیاب مقابلوں‘‘ میں پار کردیتی ہے مگر ایسے پولیس مقابلوں کی کہانی کے الفاظ اور تفصیل بھی یکساں ہوتی ہے صرف دن ، وقت اور مقام مختلف ہوتے ہیں۔بعض اوقات عجلت میں صرف مقام ہی تبدیل ہوتا ہے اور باقی پہلے والا بیان ہی برقرار رہتا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ 1947ء کے بعد سے آج تک ہم ابتدائی اطلاعی رپورٹ ( ایف آئی آر) لکھنے کا انداز تو تبدیل
نہیں کرسکے،پولیس میں وسیع تر إصلاحات کیا ہونا تھیں۔ حتی کہ پولیس والے ''بجے دن ''کو
ہنوز کمپیوٹر کمپوزنگ میں بھی ’’بجیدن‘‘ لکھتے ہیں۔پہلے تو شاید ہاتھ سے لکھنے کی
وجہ سے کاغذ کا مسئلہ ہو۔پھر ایف آئی آر میں ہمیشہ من گھڑت کہانی یوں بیان کی جاتی ہے کہ پولیس ہمہ
وقت ناکے پر چوکس موجود تھی اور فلاں ولد فلاں اتنے بجے آیا ۔اس کو روکا گیا تو اس نے یہ اور وہ کردیا۔
اس کی تازہ مثال اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں مطیع اللہ جان پر جھوٹے مقدمہ کا اندراج ہے۔
پولیس کو کسی غیر مرئی ہاتھ کی ہدایت
پر مطیع اللہ جان پر کوئی مقدمہ بنانا ہی مقصود ہے تو ایف آئی آر تو کام کی لکھیں،اس میں
کوئی جان تو ہو، دفعات تو وہ لگائیں جن کا کوئی جواز عدالت میں پیش کر سکیں اور واضح لکھیں اس کی فلاں فلاں سرگرمی سے ارباب
اقتدار کے لیے فلاں اور فلاں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔آئس کے نشے ، اسلحہ چھینے اور
کارسرکار میں مداخلت ایسے الزامات پر
مبنی پرچے اور اس کے بھونڈے انداز کو
آزادی اظہار پر حملہ ہی تصور کیا جائے گا ۔ اس پر ہمارے دیرینہ دوست فاروقی شاہزاد نے گرہ لگائی:
’’ مجھے پہلے ہی مطیع اللہ
جان پر شک تھا کہ وہ ایک "بدمعاش" اور " نشئی" شخص ہے کیونکہ
جو کچھ وہ کررہا تھا ، وہ عام حالات میں ممکن ہی نہیں تھا ۔آج کل اس کی مصروفیات
ٹھیک نہیں تھیں خیر گزری کہ اس نے صرف بندوق تانی،اگر کہیں وہ قلم اور کیمرا تان
دیتا تو اچھے اچھوں کی پتلون گیلی ہوجاتی۔مجھے کہیں سے چلو بھر پانی لادو‘‘۔اب
مطیع کے خلاف درج ایف آئی آر کی مذمت کا ایک سلسلہ ہے کہ وہ دراز تر ہوا جارہا ہے۔بلاگ
میں اس کا عکس ملاحظہ
کیجیے مگر اس پر ہنسنا منع ہے بلکہ تھوڑا سا رو لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
یہ کوئی سربستہ راز نہیں کہ پولیس کو ہنوز انگریز استعمار کی تقلید میں آزادی کے بعد بھی ہماری حکومتیں اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کررہی ہیں اور محکمہ پولیس کے کام کے انداز اور ایف آئی آر کی زبان تک میں کسی کامے ، شوشے ، سکتے کی بھی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔وہی قربان خانی مائنڈ سیٹ ہے جو گذشتہ 77،76 سال سے چلا آرہا ہے۔یہ مائنڈ سیٹ ہے کیا؟اس کے لیے آپ منیر کمیشن رپورٹ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں