meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: مئی 2024

Empowering Through Media Literacy

دینی مدارس میں جدید مضامین کی تدریس کے کامیاب تجربات

 

امتیازاحمد وریاہ



حالیہ برسوں میں دینی مدارس میں  جدید تعلیم کی تدریس  کے تین،چار  کامیاب تجربات  کیے گئے ہیں  مگر ان  کے بارے میں بہت کم لوگ آگاہ ہیں۔اس کی ایک وجہ  تویہ  ہے کہ ان مدارس  کی عصری علوم  کے  میدان میں  امتحانی کامیابیوں کو نمایاں  طور پر اجاگرنہیں کیا گیا ہے اور دوسرا ہمارے یہاں  دینی مدارس  کے ناقدین کی مثبت پہلووں پر کم ہی نظر آتی ہے۔ وہ   ہمہ وقت ان کی کسی معمولی لغزش کی تلاش میں  ہوتے ہیں تاکہ اس کا ڈھنڈورا پیٹا جاسکے اور دین پسندوں کے لتے لیے جاسکیں۔اہلِ  نظر کے نزدیک یہ کوئی اچنبھے والی بات نہیں  کیونکہ راسخ العقیدہ  مسلمانوں کو ہدفِ تنقید بنانے والوں کا گلشن کا کاروبار اسی سے  خوب  چلتا اور بعض کی تو روٹی روزی  بھی اسی میں  لگی ہوئی ہے۔اہلِ  مغرب  کے دریوزہ گر  اور  استعمار کے بے دام اور با-دام غلام اس پر مستزاد ہیں ۔ وہ     ان کی خدمات بجالانے اور ان کے پروپیگنڈے کی تشہیر کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔

خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔جن مدارس نے حالیہ برسوں میں اپنے ہاں جدید تعلیم کی تدریس کا اہتمام کیا ہے۔ان میں   ایک اسلام آباد میں بھارہ کہو سے ذرا آگے سترہ میل کے مقام پر  واقع ادارہ علوم اسلامی ہے۔ اس ادارے میں درس نظامی کے ساتھ بی اے تک تعلیم دی جاتی ہے اور داخلے کا کڑا معیار  مقرر ہے۔ ہر سال مختلف درجات میں  70 فی صد سے زیادہ نمبروں والے طلبہ  کو  داخل کیا جاتا ہے ۔ اس  ادارے کے طلبہ فیڈرل بورڈ  اسلام آباد  کے زیراہتمام  میٹرک اور ایف اے کے امتحانات  میں  ہرسال نمایاں پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں۔اس کی تصدیق کے لیے فیڈرل بورڈ کا گذشتہ بیس سال کا ریکارڈ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔اس ادارے کے طلبہ کا ہرسال بی اے اور درس نظامی کا نتیجہ بھی شاندار ہوتا ہے۔ دوسرا ادارہ جامعہ بیت السلام تلہ گنگ (اور کراچی) ہے۔اس ادارے میں درس نظامی کے ساتھ ساتھ  او اور اے لیول کی تعلیم دی جاتی ہے اور میٹرک ،ایف اے کے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں،طلبہ کو انگریزی اور عربی زبانوں میں تحریروتقریر کا ماہر بنایا جاتا ہے۔اس کے سالانہ  امتحانی نتائج بھی شاندار ہوتے  ہیں۔اس سال وفاق المدارس کے درس نظامی کے مختلف درجوں کے  امتحانات  میں جامعہ  بیت السلام کے طلبہ نے پنجاب بھر میں   دس سے زیادہ پوزیشنیں حاصل کی ہیں۔ تیسرا ادارہ جامعۃ الرشید کراچی ہے۔یہاں بھی درس نظامی کے ساتھ  جدید تعلیم کی تدریس کا اہتمام ہے اور طلبہ کو انگریزی اور عربی زبانوں میں تقریر اور تحریر میں طاق بنایا جاتا ہے۔جامعۃ الرشید کراچی کی کامیابی کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس نے وفاق المدارس  سے اپنی راہیں جد ا کرلی ہیں اور اس کے ہاں اپنے مرتب کردہ نصاب کے مطابق سالانہ امتحانات ہوتے ہیں۔

مذکورہ تینوں اداروں میں طلبہ کی تعلیم  کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر بھی بھرپور توجہ مرکوز کی جاتی ہے ۔انھیں عالم باعمل بنانے پر زوردیا جاتا ہے اور  اسی پہلو  کے مد نظر تعلیمی کے ساتھ ساتھ ہم نصابی اور غیرنصابی سرگرمیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔اب ان  تینوں اداروں کے طلبہ کی شاندار تعلیمی کارکردگی دوسرے تمام دینی مدارس کی کارکردگی اور وہاں  کے تدریسی ماحول  پر ایک  سوالیہ نشان ہے کیونکہ تمام طلبہ میں ذہنی استعداد کم و بیش ایک جیسی ہوتی ہے ۔بس ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور انھیں یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی ذہنی استعدادوصلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔وہ  کسی سے کم نہیں ، وہ سب کچھ کرسکتے ہیں اور وہ  کمپیوٹر سمیت تمام سائنسی ، حیاتیاتی  اور تحقیقی  علوم وفنون پڑھ اور سیکھ سکتے ہیں اور ان میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

راقم الحروف  ذاتی  تجربے کی بنا پر یہ کہ سکتا ہے کہ دینی مدارس میں طلبہ کے وقت کا بہت ضیاع کیا جاتا ہے اور وہ آٹھ سال کے دورانیے میں درس نظامی کے ساتھ مزید بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں مگر انھیں درس نظامی  میں شامل کتب ہی  کا اسیر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر کوئی طالب علم اپنے طور پر مزید کتب پڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔اس کا انداز ہ سوشل میڈیا پر ایک حالیہ مباحثے سے کیا جاسکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں وفاق المدارس کے نصاب میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی   (المعروف علی میاں)  رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب کو شامل کرنے پر عجیب  وغریب ردعمل دیکھنے کو ملا   اور وہ  مناقشہ برپا ہوا ہے کہ اس سے ایک تو ہمارے بزعم خویش دینی طبقات سے تعلق رکھنے والے بعض بزرجمہروں کی علمی قلعی  کھل گئی ہے اور یہ  پتا چلا کہ وہ علم وعرفان اور سوچ وفکر  کی کس سیڑھی پر کھڑے ہیں؟سوشل میڈیا باالخصوص فیس بُک پر طوفان بدتمیزی برپا کرنے والوں کو بلاتخصیص اخلاقیات کی کلاسوں میں داخل کرنا چاہیے۔ایسے کج بحثی خواہ دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں ، جماعتی ہو، بریلوی یا اہل حدیث، سبھی اخلاقیات کے معاملے میں فارغ ڈاٹ کام نظر آئے ہیں۔بعضوں  نے تو خود حضرت مولانا علی میاں کی ذات گرامی پر انتہائی  رکیک ،سوقیانہ اور جاہلانہ تبصرے  کیے ہیں۔ ارے میاں! تم کیا جانو ،ان کا کیا علمی مقام ومرتبہ ہے۔

دراصل یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ مفت بر قسم کے عقل وفہم سے عاری  لوگ کسی  دینی علمی شخصیت کے فکر وفن پر تبصرہ کرنے کے بجائے اس کی ذات گرامی ہی پر رکیک حملے شروع کردیتے ہیں۔آج کل ایسے بدتمیزوں کے سرخیل اور امام مرزا جہلمی صاحب ہیں اور وہ  کم وبیش  روزانہ ہی ازکار ِرفتہ موضوعات پر ڈگڈگی بجانے کے لیے یوٹیوب پر  ایک نئی وڈیو  کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ موصوف  ایسے ایسے موضوعات پر  گل افشانی گفتار کے جوہر دکھاتے  ہیں  کہ جن کا ایک عام آدمی کی زندگی سے کوئی  لینا دینا نہیں اور ان  موضوعات  کا دین کے مبادیات سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ان کے تمام تر مباحث "افضلیت" کے گرد گھومتے ہیں،''تلبیس ابلیس'' کا فن انھیں خوب آتا ہے۔چناں چہ  وہ پاکستانی قوم کواپنے ''ملفوظات ِعالیہ'' سے خوب  محظوظ  اور مستفیض کررہے ہیں۔اب تو خیر سے ٹی وی چینلوں  نے بھی ان کے افکار ِعالیہ کی تشہیر کا بیڑا اٹھا رکھا  ہے اور ہمارا کوئی نہ کوئی مایہ ناز اینکر ان سے ہم کلام ہونے کے لیے پنجاب کے جہلم شہر میں واقع  ان کی ''اکادمی''  میں  آن موجود ہوتا ہے۔

ارے اللہ کے بندو! دین بہت سادہ ہے۔اس کی تعلیمات بھی سیدھی اور واضح ہیں۔عوام الناس   کوفروعی مسائل یا تاریخی  بھول بھلیوں   میں الجھانے کے بجائے  درست معلومات سے آگاہ کرو اور بالخصوص ان کی دینی واخلاقی تربیت پر توجہ مرکوز کرو۔جن لوگوں کو حلال وحرام کی تمیز نہیں۔بنیادی عقائد کا علم نہیں۔ ان کا ناپ تول پورا ہے اور نہ  وہ معاملات میں سیدھے  ہیں تو ایسے لوگوں کو اختلافی مسائل اور فتنہ پروری کا باعث   موضوعات  میں الجھانے کا فائدہ؟ سوال تو یہ ہے کہ کیا  وہ  ایسی ہی لایعنی  بات چیت اور مباحث  کے حق دار ہیں یا انھیں  میڈیا  پر دینی ودنیوی لحاظ سے کچھ مفید معلومات بھی  دستیاب ہونی  چاہییں۔

زندگی میں کامیابیاں سمیٹنے والے افراد کی صبح کی آٹھ مفید عادات کیا ہیں؟


 ایتھن  اسٹرلنگ

اصل میں وہ کیاچیز  ہے جو اعلیٰ کامیاب   افراد کو ناقابل تسخیر توانائی اور توجہ کے ساتھ  روزمرہ کے  امور نمٹانے  میں ایندھن  مہیا کرتی  ہے؟اس  کا مختصر جواب یہ  ہےکہ  وہ اپنی صبح کا آغاز کیسے کرتے ہیں؟

خواہ  وہ فارچیون کی  500 کمپنیوں  کی فہرست میں شامل کسی بڑی فرم  کا انتظام وانصرام  سنبھالنے والے  اعلیٰ انتظامی افسر ( سی ای او) ہوں یا کسی  مقامی کافی شاپ کے مالک (یا دکان دار)، جو اپنے متعدی جوش و خروش کے لیے  معروف ہیں ، ان کے صبح کے معمولات میں اکثر کچھ چیزیں مشترک ہوتی ہیں۔آپ یہ دیکھنے کے لیے متجسس ہوں گے کہ ابتدائی گھنٹے کامیابی کے لیے کس طرح اسٹیج تیار کرتے ہیں؟ تو آئیے صبح کی ان آٹھ عادات کا جائزہ  لیتے ہیں جن کے بارے میں علمِ  نفسیات  یہ ظاہر کرتا ہے ،ان کو اپنا کر ایک عام  اوسط شخص بھی   اعلیٰ کامیابیاں  حاصل کرنے والے خوش قسمت افراد کی صف   میں شامل ہوسکتا  ہے۔

1)   علی الصباح  بیداری

کیا آپ نے کبھی یہ کہاوت سنی ہے کہ " پہلا پرندہ کیڑے کو پکڑ لیتا ہے"؟

ٹھیک ہے، یہ صرف اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والوں کے لیے ایک کہاوت نہیں   بلکہ  یہ ان کا طرزِ زندگی ہے۔ وہ صرف بیدار نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ دنیا کے مکمل طور پر بیدار ہونے سے پہلے ہی اٹھ جاتے  ہیں اور چہکتے ، چمکتے ہیں۔

وہ صبح کی گھڑیوں  کو اہم اوقات سمجھتے ہیں، جب ان کے دماغ ترو تازہ ہوتے ہیں اور ان کی توانائی کی سطح اپنے عروج پر ہوتی ہے۔اور ہاں ، انھیں   جگانے والا بٹن دبانا نہیں پڑتا ہے۔ درحقیقت ، ان میں سے زیادہ تر کو الارم گھڑی کی بھی ضرورت نہیں  ہوتی ہے۔ انھیں جلد اٹھنے کی عادت ہوتی ہے  اور وہ بر وقت  اپنا دن شروع کر دیتے ہیں۔

نفسیات کے مطابق جلد بیدار ہونے  کی یہ عادت انھیں  اپنے مصروف شیڈول کا بغور جائزہ لینے کے  لیے وقت  فراہم کرنے کا موقع دیتی ہے۔لہٰذا ، اگر آپ اعلیٰ کامیاب  افراد کے  کلب میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ، آپ صبح اپنے بستر کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کریں  اور  جلدی اٹھنے  کی عادت اپنائیں۔

2) صحت مند ناشتہ

آپ اس پرانی کہاوت کو جانتے ہیں، "ناشتہ دن کا سب سے اہم کھانا ہے؟" ٹھیک ہے، یہ سچ ہے۔اعلیٰ کامیاب افراد اپنے دن کا آغاز غذائیت سے بھرپور ناشتے سے کرتے ہیں کیونکہ وہ  اس  کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک صحت مند جسم ایک صحت مند دماغ کو ایندھن  مہیا کرتاہے۔میں اپنی مثال  پیش کرتا ہوں ۔  میں یہ سوچ کر ناشتہ چھوڑ دیتا تھا کہ میں اپنا  وقت بچا رہا ہوں۔ لیکن مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ صحیح ایندھن کے بغیر، دوپہر تک میری پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔لہٰذا، میں نے اپنے دن کا آغاز متوازن ناشتے کے ساتھ کرنے کا شعوری فیصلہ کیا اور میں آپ کو بتاتا ہوں ۔ فرق واضح تھا! میں نے  خود کو زیادہ متحرک محسوس کیا۔میں   زیادہ توجہ مرکوز کرنے والا  اور دن کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہوتا تھا۔راز کی بات یہ کہ  اچھے ناشتے کی طاقت کو کبھی بھی کم نہ سمجھیں۔ یہ واقعی آپ کے پورے دن کا معمول  طے کرتا ہے۔

3) جسمانی ورزش

اعلیٰ کامیابیاں حاصل کرنے والے نہ صرف اپنے دماغ کی مشق کرتے ہیں ، بلکہ وہ  جسمانی کسرت کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ جسمانی سرگرمی ان کے صبح کے معمول کا ایک لازمی حصہ ہےاور یہاں کچھ ایسا ہے جو آپ نہیں جانتے ہیں: ورزش نہ صرف جسم کو فٹ رکھتی ہے ، بلکہ یہ دماغ کے افعال کو بھی بڑھاتی ہے۔ یہ دماغ میں خون کے بہاؤ کو بڑھاتی ہے، یادداشت اور علمی صلاحیتوں  میں اضافہ کرتی ہے، اور یہاں تک کہ تخلیقی صلاحیتوں کو بھی فروغ دیتی ہے۔

لہٰذا چاہے وہ بلاک یا گھر   سے گلی کے نُکڑ تک   چہل قدمی  ہو، یوگا کی مشق  ہو، یا جم میں بھرپور ورزش ، اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افراد  اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ اپنے دن کا آغاز کسی نہ کسی قسم کی جسمانی حرکت کے ساتھ کریں۔یہ دماغ اور جسم دونوں کو جگانے کے لیے  کال کی طرح ہے۔

4) اہداف کا تعیّن

اعلیٰ کامیابیاں حاصل کرنے والے    حضرات  اپنے ہر  دن  سے  فائدہ اٹھاتے ہیں۔ان  کا ہر نیا  دن  صبح ہی سے  واضح  اور قابل حصول اہداف مقرر کرنے سے شروع ہوتا ہے۔وہ اس دن کے لیے اپنے مقاصد واہداف    کو احاطۂ تحریر میں لاتے ہیں، اور ان  کے حصول  کے لیے حکمت عملی  وضع کرتے ہیں۔ یہ اتنا ہی آسان ہوسکتا ہے جتنا کہ ایک فہرست لکھنا ، یا ایک تفصیلی منصوبے کی نقشہ بندی۔ان درست اہداف کو ذہن میں رکھنے سے انھیں سمت کا احساس ہوتا ہے ، اور انھیں  دن بھر  اپنی توجہ مرکوز  کرنے  میں مدد ملتی ہے۔ یہ ہر ایک دن میں کامیابی کے لیے ایک نقشہ راہ ( روڈ میپ)   وضع  کرنے کی طرح ہے۔

5) ذہن سازی کی مشق

ذہن سازی صرف ایک  اصطلاح  نہیں ہے، یہ اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والوں کے لیے زندگی کا ایک طریقہ ہے۔ وہ  لمحۂ موجود  میں ہونے کی طاقت کو سمجھتے ہیں اور اس لمحے میں مکمل طور پر مشغول ہوتے  ہیں۔ذاتی طور پر، میں نے  دیکھا ہے کہ اپنے صبح کے معمول میں ذہن سازی کی مشقوں کو شامل کرنے سے میری  توجہ کے لیے حیرت انگیز کام ہوا ہے۔چاہے میں مراقبہ کر رہا ہوں، یوگا کی مشق کر رہا ہوں، یا کافی کے ایک کپ  کا مزہ لے رہا ہوں، میں اس بات کو یقینی بناتا ہوں کہ اس خاص لمحہ موجود میں، میں مکمل طور پر موجود ہوں۔میں  خود  کو ماضی یا مستقبل کے بارے میں کسی بھی خلل یا خیالات  میں الجھائے   بغیر اس لمحے کا مکمل تجربہ کرتا ہوں ۔یہ آسان مشق مجھے اپنے دن کا آغاز مثبت انداز میں  کرنے میں مدد  دیتی  ہے اور دن کے باقی معمولات  کا تعیّن کرتی ہے۔مجھ پر یقین کریں، ایک بار جب آپ ذہن سازی کی مشق کرنا شروع کرتے ہیں، تو آپ حیران ہوں گے کہ آپ اس کے بغیر کیسے رہتے ہیں۔

6) سیکھنا اور ترقی

ایک اور چیز جو اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والوں میں مشترک ہے، وہ  نئی نئی چیزیں  سیکھنے  کا شوق ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ عادت  مسلسل ترقی اور کامیابی کی کلید ہے۔لہٰذا وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ اپنی صبح کا کچھ حصہ کچھ نیا سیکھنے یا مہارت کو  جلا بخشنے  کے لیے وقف کریں۔یہ عمل  کسی کتاب کے ایک  باب  کا مطالعہ  ،  کسی   مفید پوڈ کاسٹ  کی سماعت  ، یا تعلیمی وِڈیو دیکھنا ہوسکتا ہے۔ اپنے صبح کے معمولات میں سیکھنے کو شامل کرکے ، وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ اپنے دن کا آغاز علم اور الہام کی ایک نئی خوراک کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ دماغ کے لیے ایندھن کی طرح ہے جو انھیں  دن بھر چلاتا رہتا ہے۔

7) ڈیجیٹل  آلات سے دوری

ٹیکنالوجی کے اس دور میں ، اپنے دن کا آغاز اپنے فون تک  رسائی  اور  ای میلز یا سوشل میڈیا اپ ڈیٹس   سے کرنا فطری امر  ہو سکتا ہے لیکن اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والے افراد  اکثر اسکرولنگ  کے   بالکل برعکس عمل  کرتے ہیں۔وہ ڈیجیٹل الجھنوں سے آزاد ہوکر اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں  اور ڈیجیٹل آلات سے  دوری  کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔براہ راست ڈیجیٹل دنیا میں  غرق  ہونے کے بجائے ، وہ  بیداری کے بعد ابتدائی گھنٹوں کو زیادہ زمینی  حالت میں گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اپنی ڈیجیٹل مصروفیت  کو موخر کرتے ہیں ، وہ بیرونی دنیا کو اپنے مزاج اور ذہنیت کو ڈکٹیٹ کرنے کی اجازت  نہیں دیتے  بلکہ اس کے بجائے ، خود اپنے دن کی مصروفیات کا تعیّن کرتے  ہیں۔دوسرے لفظوں میں، وہ اپنے دن کا آغاز فعال طور پر کرتے ہیں، کسی  رد عمل سے نہیں۔ یہ طرزِ عمل  انھیں  اس اگلی اہم عادت میں بھی مدد کرتا ہے ۔

8) مثبت نقطہ نظر

ایک مثبت ذہنیت طاقتور ہے، اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والے بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔وہ اپنے دن کا آغاز مثبت نقطہ نظر کے ساتھ کرتے ہیں، شاید کچھ اثبات میں بھی اضافہ کرتے ہیں، تاکہ خود کو یاد دلایا جاسکے کہ وہ دن  میں  ہر طرح کے امور کو نمٹانے کی صلاحیت  رکھتے ہیں۔یہ  عادت   ان چیلنجوں اور مشکلات کو نظر انداز کرنے کے بارے میں نہیں ہے جن کا انھیں  سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے بجائے، یہ اعتماد اور عزم کے ساتھ انھیں  گلے لگانے کے بارے میں ہے۔ایک مثبت نقطہ نظر ایک ڈھال کی طرح ہے جو انھیں  منفی  طرزِ عمل اور ناکامیوں سے بچاتا ہے۔ یہ انھیں  آگے بڑھاتا ہے اور انھیں  مشکلات کا سامنا کرنے میں لچک دار رہنے میں مدد دیتا ہے۔یاد رکھیں، آپ کی ذہنیت ہی سب کچھ ہے۔ اپنے دن کا آغاز مثبت انداز میں کریں اور پھر دیکھیں کہ یہ آپ کی زندگی کو کس طرح تبدیل کرتا ہے۔

خلاصہ کلام

جیسا کہ آپ اب تک سمجھ چکے ہوں گے، اعلیٰ کامیاب  افراد  اپنے معمولات کو   آگے بڑھانے کے لیے قسمت یا حالات پر انحصار نہیں کرتے ہیں۔ وہ شعوری طور پر اپنے اندر  ایسی عادات پیدا کرتے ہیں جو ان کے دن اور بالآخر ان کی زندگیوں کے لیے قوت عطا کرتی ہیں۔صبح کی یہ عادات صرف معمولات نہیں ہیں، یہ ارادے کے بیانات ہیں اور یہ  اس قسم کے دن کی تصدیق کرتے ہیں جس کا وہ انتخاب کرتے ہیں۔

آپ دیکھیں، کامیابی اتفاق سے نہیں ہوتی ہے۔ یہ  ایسے مستقل اقدامات کا نتیجہ ہوتی  ہے جو آپ کے مقاصد اور خواہشات سے مطابقت رکھتے ہیں  اور اس کا آغاز اس وقت  ہوتا ہے جب آپ ہر صبح اپنی آنکھیں کھولتے ہیں۔لہٰذا، جب ہم اس تحقیق کو اعلیٰ کامیابیاں  سمیٹنے  والوں کی صبح کی عادات میں شامل کرتے ہیں، تو آئیے رک کر اپنے صبح کے معمولات پر غور کریں:

کیا  یہ معمولات  ہمیں کامیابی کے لیے تیار کر رہے ہیں؟ یا  ابھی بہتری کی گنجائش موجود ہے؟

یہ یاد رکھیں - ہر صبح  نئی شروعات  ہوتی ہیں ۔ یہ  ایک کامیاب دن کے  معمولات طے کرنے کا ایک نیا موقع ہے۔ اسے شمار کیجیے۔اس سے فائدہ اٹھائیے۔

---------------------

(ایتھن سٹرلنگ انٹرپرینیورشپ کا پس منظر رکھتے ہیں ، انھوں نے متعدد چھوٹے کاروبار شروع اور منظم کیے ہیں۔ وہ انٹرپرینیورشپ کے نشیب و فراز سے گزر چکے ہیں۔زندگی کے تجربات   انھیں  ذاتی لچک، تزویراتی سوچ اور استقامت کی قدر کے بارے میں عملی بصیرت فراہم کرتے ہیں ۔ ایتھن کے مضامین ان لوگوں کےلیے حقیقی دنیا کی تصویر پیش کرتے ہیں جو ذاتی اور پیشہ ورانہ طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں۔انگریزی سے ترجمہ  الف الف واؤ)

غزہ پر اسرائیلی جارحیت؛ اعداد و شمار کے آئینے میں!

امتیاز احمدوریاہ

 


اسرائیل کی مسلح افواج نے 7 اکتوبر 2023ء کو غزہ پر اپنے وحشیانہ حملوں کا آغاز کیا تھا۔حماس کی کارروائی کے  ردعمل میں اس نے فضائی اور زمینی بمباری  کرکے غزہ کی پٹی کے تمام شہروں اور قصبوں کو ملبے کا ڈھیر بنادیا ہے اور محصور فلسطینی علاقے میں شاید ہی کوئی اقامتی عمارت ، عبادت گاہ یا دفاتر صحیح  وسلامت حالت میں باقی بچے ہوں۔اسرائیل کی اس  وحشیانہ جارحیت کے باوجود عالم اسلام غفلت کی نیند سورہا ہے،اسلامی ممالک کی حکومتیں صرف زبانی جمع خرچ کررہی ہیں اور  آٹھ دس روز کے بعد اسرائیلی جارحیت کی مذمت میں   پھس پھسا سا ایک آدھ بیان  جاری کردیتی ہیں۔

دوسری جانب اہل مغرب کے انسانی حقوق کے بلند بانگ دعووں اور آدرشوں کے روزانہ ہی غزہ کی پٹی میں جنازے نکلتے ہیں۔امریکا کی قیادت میں مغربی ممالک اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف ننگی جارحیت کی نہ صرف پشتیبانی کررہے ہیں بلکہ صہیونی مسلح افواج کو نہتے فلسطینیوں کو موت کی نیند سلانے ،اپاہج کرنے  اور بے گھر کرنے کے لیے ہر قسم کا جدید اسلحہ اور خطرناک  تباہ کن بم مہیا کررہے ہیں۔ستم ظریفی ملاحظہ ہو،ہزاروں فلسطینی بچے ، بوڑھے،نوجوان ، عورتیں ، مرد شہید ہوگئے اور ان مردہ ضمیر اہل مغرب کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔دنیا نے ایسا ظلم وستم کم ہی دیکھا ہوگا کہ ایک قوم کی منظم  طریقے سے  بلا روک ٹوک نسل کشی کی جارہی ہے  اور اسرائیل کو کوئی عالمی ادارہ ، کوئی ملک پوچھنے والا ہی نہیں۔اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کی جنگ بندی کی اپیلیں صدابصحرا ثابت ہورہی ہیں اور یوں نظرآتا ہے کہ اس عالمی ادارے کی قیام امن میں کوئی افادیت  ہے اور نہ کوئی کردار۔حد یہ ہے کہ استعماری قوتوں کا ایجنٹ  عالمی میڈیا جو آزادیِ اظہار کے گن گاتے نہیں تھکتا ، وہ بھی نہتے فلسطینیوں پر مظالم کی حقیقی تصویر پیش کررہا ہے اور نہ غزہ میں جنگ کی   شفاف اور منصفانہ انداز میں  کوریج کررہا ہے بلکہ  اپنے طرزعمل سے ،ایک طرح سے وہ اسرائیل کے ظلم وسفاکیت کی پردہ پوشی کررہا ہے۔

یہاں ہم لیلیٰ بی کے شکریے کے ساتھ ان کے مرتب کردہ جنگ  کے  اعداد وشمار پیش کررہے ہیں۔ان سے قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ اب تک  اسرائیلی  فوج کی وحشیانہ بمباری اور ننگی  زمینی جارحیت میں کتنے فلسطینی شہید اور زخمی  ہوچکے ہیں:

🔻42,510 فلسطینی  شہید  - (ہر روز اوسطاً 212   فلسطینیوں کی شہادت)

🔻16 سال سے کم عمر > 15,000 بچے  شہید

🔻70,000 سے زیادہ شہری زخمی۔ ان میں زیادہ تر مکمل طور پر معذور ، اپاہج  ہوچکے ہیں۔ان کے ہاتھ ، پاؤں ،ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں۔سر،گردن ، چہرے  اور چھاتیاں زخموں سے چور ہیں۔اکثر نفسیاتی صدمے سے دوچار ہیں۔

🔻200 سے زیادہ  صحافی  اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران میں  شہید ہوئے ہیں۔

🔻 طبی عملہ کے 365 ارکان مارے گئے۔

🔻224 انسانی امدادی کارکنان اپنی امدادی سرگرمیوں کے دوران میں  اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے یا  فضائی  بمباری کی زد میں آئے  ہیں۔

🔻شہری دفاع کے 42 اہل کار  اپنی  جانوں کا نذرانہ پیش  کرچکے ہیں۔

🔻سفید جھنڈے تھامے  لاتعداد فلسطینیوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔

🔻غذائی امداد کے منتظر 120 شہریوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔

 🔻 جنگ کے نتیجے میں غزہ کی 90 فی صد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔

🔻علاقے کا 70 فی صد انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔

🔻غزہ کی پٹی میں واقع تمام  جامعات ، پرائمری اور ثانوی تعلیم کے اداروں کو  بموں سے اڑا دیا گیا یا بلڈوزروں سے مسمار کر دیا گیا ہے۔

🔻تمام اسپتالوں کو بلاتمیز بمباری کرکے تباہ کردیا گیا ہے۔سیکڑوں مساجد کو شہید کیا جاچکا ہے۔ان میں بہت سی تاریخی مساجد بھی شامل ہیں۔

🔻بیرون ممالک سے آنے والی انسانی امداد کوغزہ کی پٹی میں  داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔اس عمل میں مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی سرزمین پر لابسائے گئے  یہودی آبادکار  سب سے  پیش پیش ہیں۔وہ سڑکوں کو پتھروں یا دوسری رکاوٹوں سے مسدود کررہے ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آنے والی فوٹیج میں  یہودی آبادکاروں کو  امدادی سامان سے لدے ٹرکوں کو  غزہ کی پٹی کی جانب جانے سے روکتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

🔻اسرائیلی فوج نے زخمیوں کو اٹھانے والی ایمبولینسوں کو بھی نہیں بخشا اور ان پر بھی بمباری کی ہے۔

🔻اسرائیل اب انسانی امداد کو روک کر بھوک کو فلسطینیوں کے خلاف  ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

اس مختصر تفصیل سے عیاں ہے کہ مشرق  اوسط میں واقع یہ  واحد چھوٹی سی صہیونی ریاست  فلسطینیوں کے ساتھ دشمنی  میں اس حد تک گزرجائے گی ، شاید کسی نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا؟حالیہ تاریخ میں  ہمیں ایسی کوئی  اور مثال نہیں  ملتی جب  ایک  ملک نے  اپنے ہمسایوں  کے ساتھ اس قدر سفاکانہ اور بہیمانہ سلوک کیا ہو  اور ظلم وجبر کے تمام ریکارڈ ہی توڑ دیے ہوں۔ یادرہے کہ دوسری عالمی جنگ کے وقت نازی جرمنی فرانس ، برطانیہ ، بیلجیئم ، نیدرلینڈز ، پولینڈ ، سوویت یونین جیسے دشمن ممالک سے گھرا ہوا تھا  مگر ان ممالک نے بھی نازیوں  کی یہود کے خلاف کارروائیوں کے ردعمل میں اس طرح کا سلوک نہیں کیا ہو گا جیسا اس وقت اسرائیلی فوج  اپنے  انتہاپسند وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی قیادت میں فلسطینیوں کے خلاف کررہی ہے۔

اگر کوئی اسرائیل کی ان چیرہ دستیوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تواس کو یہود دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور  صہیونی ہرکارے اور میڈیا میں موجود ان کے نمایندے اس  شخص یا تنظیم کی مذمت میں  میدان میں اتر آتے  ہیں۔ گویا قابض ریاست اسرائیل کو یہود دشمنی کے انسداد کے لیے ہرقسم کے مظالم کی کھلی چھوٹ  ہے۔مشہور مصنف  فنکلسٹائن نے سنہ  2000  میں شائع شدہ  اپنی کتاب "ہولوکاسٹ انڈسٹری" میں اس پہلو کی جانب اشارہ کیا ہے اور  اس بات پر زور دیا  ہےکہ اسرائیل اور اس کے حامیوں نے جان بوجھ کر نازیوں کے ہاتھوں  یہود کی نسل کشی کی یاد  کا استحصال  کیا  ہے تاکہ یہودی ریاست اور اس کے انسانی حقوق کے "خوفناک" ریکارڈ پر تنقید کو دبایا جا سکے۔

اسٹاکٹن یونیورسٹی میں ہولوکاسٹ اور نسل کشی کے مطالعے کے ایسوسی ایٹ پروفیسر راز سیگل  کا کہنا  ہے کہ   غزہ پر اسرائیل کا  حملہ ’’ہماری آنکھوں کے سامنے نسل کشی کا ایک نصابی کیس ہے‘‘۔ان کا  ایک ٹوی وی انٹرویو میں  کہنا تھا کہ ’’سب سے اچھی بات یہ ہوگی کہ برطانوی حکومت، امریکی حکومت اور دیگر افراد اپنے ''پاگل کتے''  کو لگام  دیں اور بچوں کا قتلِ عام  بند کریں‘‘۔ 

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں