meta property="og:image" content="https://khabarbay.blogspot.com/path-to-your-image.jpg/meta>. خبربے: اسرائیل اور امریکا کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیوں؟

Empowering Through Media Literacy

اسرائیل اور امریکا کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیوں؟

 حضرت مولانا  مفتی محمد تقی عثمانی


 

(نوٹ : یہ تحریر حضرت مولانا  مفتی تقی عثمانی صاحب کی  ایک حالیہ تقریر پر مبنی ہے اور  سوشل میڈیا پر زیر گردش   ایک  آڈیو سے ٹرانسکرائب کی گئی ہے۔)

اس وقت (غزہ جنگ کے تناظر میں) اسرائیل اور امریکا کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی  ایک تحریک چل رہی ہے ۔ کچھ غیرت مند مسلمان ایسی تحریک چلا رہے ہیں اور سنا ہے کہ اس کا کچھ اثر بھی ہو رہا ہے۔ اس ضمن  میں ایک بات مجھ سے بار بار پوچھی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں پر (پاکستان میں) جو فرنچائز ہیں، جیسے میکڈونلڈ ہے یا کے ایف سی ہے یا اس قسم کی جو کمپنیاں ہیں جن کے کھانے یا غذائیں وغیرہ بکتی ہیں اور ان کے جو مالک ہیں وہ مسلمان ہیں  اور پاکستانی ہیں۔ البتہ چونکہ فرنچائز کا انھوں نے معاہدہ کر رکھا ہے۔ لہٰذا ان کی آمدن کا  پانچ فی صد یا 10 فی صد ا حصہ  ان کمپنیوں کو جاتا ہے تو اگر ان کا بائیکاٹ کیا جائے گا تو خود ان مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا جو  فرنچائز لیے بیٹھے ہیں۔

 تو میں اس کے جواب میں ایک بات عرض کرتا ہوں وہ یہ کہ یہ مسئلہ فتوے کا نہیں ہے یہ ایمانی غیرت کا مسئلہ ہے ۔ کسی مسلمان، کسی غیرت مند مسلمان کو یہ گوارا نہیں ہونا چاہیے جو اس کی آمدنی کا ایک پیسہ بھی کسی ایسے شخص کو پہنچے جو اسرائیل کو مدد دے رہا ہے۔ یہ انسان کی ایمانی غیرت کا تقاضا ہے۔ یہ کہنا کہ  پانچ فی صد جاتا ہے ، باقی 95 فی صد تو ہم کھاتے ہیں۔ ارے بھئی آپ 90 یا  95  فی صد کھا چکے ہیں۔ بہت ہو گیا، الحمدللہ۔ آپ نے  کافی  اپنا نفع بنا لیا۔ اب اس  وقت  آپ یہ تو کر سکتے ہو کہ اس فرنچائز کو ختم کر کے اپنا کاروبار شروع کر دو۔ اگر اس کو ختم کر کے اپنا کاروبار شروع کرو گے تو ذرا تھوڑا سا پتا تو چلے گا ان کو کہ یہ جو ہم دنیا بھر کے اندر اپنی مصنوعات چلا رہے ہیں، دنیا بھر میں ہمارا سکہ چل رہا ہے، اس کا (اس  کاروبار پر) کچھ اثر تو ہوگا۔ یہ کہنا کہ پانچ فی صد جا رہا ہے ان کو اور  اس پانچ فی صد سے ان کو  کیا فرق پڑے گا ؟

آپ  ذرا یہ سوچو کہ اگر  میری آمدنی کا 50 فی صد نہیں، صرف ایک فی صد کسی ایسے شخص کو پہنچ رہا ہو، جو میرے باپ کے قتل کی سازش کر رہا ہے (تو کیا یہ) گوارا کرو گے کہ  میری آمدنی کا ایک فی صد ایسے شخص کو دیا جا رہا ہے جو  میرے باپ کے قتل کی سازش کر رہا ہے جب  والد کے قتل کی سازش  ہو رہی ہے  تو کیا یہاں اس(   معاملے کو) ایک فی صد اور دو فی صد اور پانچ فی صد سے ناپو گے؟  جو لوگ فتوے کی بات کرتے ہیں  تو یہ فتوے کا مسئلہ ہی نہیں ہے  بلکہ غیرت ایمانی کا مسئلہ ہے اور غیرت ایمانی کے تحت  میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی غیرت مند مسلمان کو اس طرح کا اقدام نہیں کرنا چاہیے۔ لہٰذا یہ  (بائیکاٹ) بھی  اس کوشش کا ایک حصہ ہے اور اس وقت یوں سمجھو کہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ایک لحاظ سے پوری اُمتِ مسلمہ حالت جنگ میں ہے کیونکہ یہ حملہ صرف فلسطینیوں پر نہیں ہو رہا مآل کار اس کا اثر پورے عالم اسلام پر پڑنے والا ہے ۔لہٰذا  جب  ہم  اس حالت جنگ میں ہیں تو جو لوگ عالم اسلام کے خلاف یہ سازش کر رہے ہیں، ان کو کسی طرح بھی نفع نہیں پہنچانا چاہیے ، خواہ وہ ایک پیسے کا ہو۔ یہ ایک مسلمان کی غیرت کو  گوارا نہیں کرنا چاہیے۔ لہٰذا میں اس بات کی حمایت کرتا ہوں کہ ایسی چیزوں کی کا بائیکاٹ کیا جائے جس کا فائدہ ان طاقتوں کو پہنچ رہا ہے۔ تو اپنی سی کوشش کرو اللہ تعالی سے دعا جاری رکھو، کوئی وقت خالی نہ جائے جس میں اللہ تعالیٰ سے نہ مانگا جا رہا ہو اور پھر اللہ کے فیصلے پر راضی رہو ۔پھر جو اللہ کا فیصلہ ہے وہی برحق ہے ۔وہ ہماری خواہش کے مطابق ہو تب بھی برحق ہے، ہماری خواہش کے خلاف  تو  بھی برحق ہے ۔ بس یہ ہے پریشانی کا علاج۔ اللہ تبارک و تعالیٰ   اپنے فضل و کرم سے ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ وما علینا الالبلاغ۔

1 تبصرہ:

فیچرپوسٹ

رامی عبدالرحمٰن: عالمی میڈیا کو شام میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھنے والا فعال کردار

‏ امتیازاحمد وریاہ ‏ ‏ ‏ ‏  ‏ ‏اگر آپ   شام میں گذشتہ تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کی وقائع نگاری کررہے ہیں   ، وہاں  رونما ہونے والے   تشدد...

مقبول تحریریں